۔۔۔۔ماموں ناصر کے ساتھ میری محبت دراصل ’’بچپن کی محبت‘‘ ہے میں نے ابتدائی عمر میں ہی دیکھاکہ ماموں ناصر کو اپنی بہنوں میں میری امی جی سے خاص محبت تھی۔ اتنی خاص کہ دوسری بہنوں کے لئے بھی بعض اوقات غصے کا موجب بن جاتی۔ بے جی(نانی جان) بھی کبھی کبھی جھلاجاتیں۔ امی جی کے تعلق سے یہ محبت اباجی تک بھی پہنچی ماموں ناصر اباجی کا بے حد احترام کرتے۔ رحیم یارخان میں تنگی کے دنوں میں جب بھی ماموں ناصر سے قرض مانگا انہوں نے فوراً فراہم کیا، چاہے خود بھی کہیں سے قرض ہی کیوں نہ لیاہو لیکن اباجی کے کام میں تاخیر نہیں ہونے دی۔ ۔ ایک موقعہ پر بہت سارے عزیز و اقارب جمع تھے۔ اباجی اپنے جوتوں کی مرمت اور پالش کرانے کے لئے کسی بچے کو ڈھونڈ رہے تھے۔ جب تک کوئی بچہ ملتا ماموں ناصر بتائے بنا خود اباجی کے جوتے لے کر چلے گئے اور مرمت کراکے، پالش کراکے لے آئے۔۔ امی جی اور اباجی کے ساتھ ماموں ناصر کے ایسے محبتی رویّے کی متعدد مثالیں ہیں۔ اسی وجہ سے بچپن میں ہی مجھے ماموں ناصر سے محبت ہوگئی۔مبارکہ کے ساتھ میری شادی ہونے میں میری پسند کے علاوہ امی جی اور ماموں ناصر کی گہری محبت کا جذبہ بھی کارفرماتھا۔
خاکہ’’رانجھے کے ماموں‘‘ سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔مرحومہ ممانی مجیدہ سے ماموں ناصر کے چاربچے ہیں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا۔۔ مُبارکہ، وحیدہ، غزالہ٭ ،مُبشّراحمد خالد۔۔ ممانی آصفہ سے دوبیٹیاں ہیں۔۔ عائشہ، بُشریٰ۔۔ ممانی مجیدہ کی ساری اولاد شادی شدہ ہے بڑی بیٹی مبارکہ میری بیوی ہے۔ اس سے چھوٹی وحیدہ کے شوہر بشیر احمدشاہد عمر میں مجھ سے چھ ماہ بڑے ہیں اور سب سے چھوٹی غزالہ کے شوہر محمود عمر میں مجھ سے دوسال بڑے ہیں۔ یوں میں رشتہ کے لحاظ سے اس طرح ماموں ناصر کاسب سے بڑا داماد ہوں کہ ان کی بڑی بیٹی کاشوہر ہوں اور اس لحاظ سے اب تک کا سب سے چھوٹا داماد ہو ںکہ دونوں چھوٹے داماد عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔
۔۔؎ایں سعادت بزور بازونیست
خاکہ’’رانجھے کے ماموں ‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ پہلی محبت سے یاد آیاکہ میری پہلی محبت بھی میری امی جی ہیں اور آخری محبت بھی امی جی ہیں۔ اس اوّل اور آخر کے بیچ میں بہت سی محبتیں آئیں مگر درحقیقت وہ سب میری پہلی اور آخری محبت کا عکس تھیں۔ امی جی کاچہرہ کتابی اور گول چہرے کے بین بین تھا۔چنانچہ بیچ میں آنے والی میری ساری محبتیں بھی کتابی چہرے والی تھیں۔ اپنی بیوی سے میری گہری دوستی کی وجہ شاید یہی ہے کہ امی جی کی بھتیجی ہونے کے ساتھ امی جی سے کافی مشابہت بھی رکھتی ہے۔ ماہرین نفسیات اس کی جو چاہیں توجیہہ کرلیں، مجھے اعتراف ِجرم سے عارنہیں۔
خاکہ’’مائے نی میں کنوں آکھاں ‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی پہنچنے کے بعد بچپن میں امّی جی سے سنی ہوئی کئی کہانیاں یاد آئیں۔مبارکہ جس کی سادگی کا میں پاکستان میں مذاق اڑایا کرتا تھا‘جرمنی میں اب اس کے سامنے میں ایک پاکستانی ’’پینڈو‘‘تھا۔مبارکہ بچوں سمیت مجھ سے اڑھائی سال پہلے جرمنی میںآچکی تھی اس لئے یہ ملک اس کے لئے اجنبی نہیں رہا تھا جبکہ میں ’’کثرتِ نظّارہ‘‘سے ایسے رُک رُک جاتا تھا جیسے شہر کے چوراہے پر ’’گواچی گاں‘‘کھڑی ہوتی ہے۔پہلی بار ایک مارکیٹ میں داخل ہونا تھا۔میں دروازے کے قریب پہنچا تو آٹو میٹک دروازہ اپنے آپ کھل گیااورمیرا منہ حیرت سے کھل گیا۔امی جی سے سنی ہوئی ’’ علی بابا اور چالیس چور‘‘والی کہانی یاد آگئی ۔اُس کہانی میں ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے سے دروازہ کھلتا تھا۔یہاں تو مجھے ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔زمین دوز ریلوے اسٹیشنوں میں‘مارکیٹوں میں‘اُوپر نیچے آنے جانے کے لئے خودکا رسیڑھیاںلگی ہوئی ہیں۔میں نے پہلی بار جھجھک کے ساتھ بجلی کی سیڑھی پر قدم رکھا‘ہلکا سا چکر آیا۔میں نے لحظہ بھر کے لئے آنکھیں موندلیں‘جیسے ہی آنکھیں کھولیں‘اُوپر کی منزل پر پہنچ چکا تھا۔کسی اناڑی کی طرح سیڑھی کی حد سے باہر آیاتو امی جی کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں یاد آنے لگیں۔ کہیں کوئی نیک دل دیو ہے‘کہیں سبز پری اورکہیں کوئی درویش ہے جو مہم جُو شہزادے کو کسی لمبی مسافت کی کوفت سے بچانے کے لئے‘اس کی مدد کرتے ہوئے اُسے آنکھیں مُوندنے کے لئے کہتے ہیں‘پھر جب شہزادہ آنکھیں کھولتا ہے تو منزلِ مقصود پر پہنچا ہوتا ہے۔میں اُوپری منزل پر پہنچا تو میرے ساتھ نہ کوئی نیک دل دیوتھا‘نہ کوئی درویش اور نہ ہی کوئی سبز پری۔۔۔۔صرف مبارکہ میرے ساتھ تھی ۔اس نے اگر سبز سوٹ پہنا بھی ہوا تھا تو وہ اس کے برقعہ کے کوٹ کے نیچے چھپا ہوا تھا۔اس کے باوجود میں نے مبارکہ کو من ہی من میں سبز پری سمجھا اور خود کو شہزادہ گلفام سمجھ کر خوش ہو لیا۔
یہاں کے گھروں میںکھڑکیوں کا شیشہ ایسا ہے کہ آپ اندر بیٹھے ہوئے باہر کی ہر چیز کو دیکھ سکتے ہیںجبکہ باہر کھڑا ہوا کوئی آدمی آپ کو بالکل نہیں دیکھ سکتا۔جب مجھے پہلے پہل اس کا علم ہوا دھیان فوراََ سلیمانی ٹوپی والی کہانی کی طرف چلا گیا۔مجھے ایسے لگنے لگا جیسے میں امی جی کی سُنائی ہوئی ڈھیر ساری کہانیوں کا جیتا جاگتا کردار بن گیا ہوں۔ساری کہانیاں جیسے اپنے آپ کو میرے وجود میں دُہرانے لگی ہیں۔کاش!امی جی زندہ ہوتیں اور میں انہیں اُن کی سنائی ہوئی کہانیوں کا حقیقی رُوپ دکھا سکتا۔اب تو وہ خود ہی کہانی بن گئی ہیں۔
اپنے ہاں تو غالبؔاُس چارگرہ کپڑے کا افسوس کرتے رہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا لکھا ہوتا ہے۔اِدھر مغرب میں اُس تین گرہ کپڑے کی قسمت پر رشک آتا ہے جو گرمیوں میں حسینانِ مغرب نے زیب تن کر رکھا ہوتا ہے۔ایک طرف ایسا توبہ شکن منظر ہوتا ہے‘ دوسری طرف برقعہ میں لپٹی لپٹائی مبارکہ بیگم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اسے کئی بار سمجھایا ہے‘پردہ کا مطلب خود کو دوسروں کی نظروں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔پاکستان میں تو چلو ٹھیک ہے لیکن یہاں جرمنی میں اس قسم کا برقعہ تو پردے کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے ہر کسی کو متجسّس کردیتا ہے کہ یہ کیا شے جا رہی ہے؟میں نے دو تین دفعہ اسے تجربہ کرایا کہ عام آنے جانے والی گوریوں کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا لیکن مبارکہ کے بھاری بھر کم پردے کی وجہ سے ہر گزرنے والا ہمیں تعجب سے دیکھتا ہے اور ضرور دیکھتا ہے۔یوں مبارکہ کی بے پردگی ہو نہ ہومیری اچھی خاصی بے پردگی ہو جاتی ہے۔لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔
’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:بزمِ جاں سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہاتھ پر قسمت کی لکیر‘دماغ کی لکیر سے ٹکرا کر رُک گئی ہے۔میں جب کسی بات پر اَڑ گیا تو بڑے سے بڑے فائدے کو بھی نظر انداز کردیا اور یوں کئی بار اپنا نقصان کیا۔دوسری طرف میری بیوی مبارکہ کے ہاتھ پر قسمت کی لکیر بہت واضح‘صاف اور روشن ہے۔سو میری خوش قسمتی در اصل میری بیوی کی مرہونِ منّت ہے۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:دعائیں اورقسمت،سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں جرمنی میں ایک بار مجھے صوفیانہ خیالات نے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔زندگی کی ہر سرگرمی بے معنی لگ رہی تھی۔جی چاہتا تھاکہ کسی ویرانے میں جا کر اﷲ اﷲ کرتے ہوئے زندگی بسر کروں۔پھر زندگی ہی بے معنی لگنے لگی۔میں نے دنیا کی بے ثباتی پر گفتگو شروع کر دی۔ گفتگو گہری اور طویل ہونے لگی تو مبارکہ نے کہا’’ٹھہریں!میں آپ کی شوگر چیک کرتی ہوں‘‘۔۔ جب شوگر چیک کی گئی تو اس کا لیول معمول سے خاصا زیادہ تھا۔شوگر کنٹرول کرنے والی دوا لینے سے حالت بہترہوئی تو زندگی بامعنی اور خوشی سے بھری ہوئی لگنے لگی۔تب میں نے شریر انداز سے مبارکہ سے کہا’’پہلے زمانے میں شوگر کی بیماری کی تشخیص کرنے‘اسے ماپنے اور کنٹرول کرنے کا کچھ پتہ نہ تھا۔شاید اسی وجہ سے بعض شہزادے اپنے محل چھوڑ کر جنگلوںمیں چلے گئے۔بُرا ہو اِن جدید سہولیات کا جن کے باعث میں گوتم بُدھ بنتے بنتے رہ گیا‘‘
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:شوخیاں،بچپنا سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بیوی کا خیال ہے کہ میں انتہا پسند ہوں۔یا تو اتنا میٹھا بن جاؤں گا کہ دوسرا مجھے محبت ہی میں کھا جائے۔اور یا اتنا کڑوا ہو جاؤں گا کہ کسی کے حلق سے ہی نہیں اتروں گا۔مجھے اپنی اس کمزوری کا ادراک ہے۔میں خود کو بدلنے کی کوشش کرتا ہوںلیکن جو عیب قدرتی طور پر ودیعت کیا گیا ہو وہ ختم نہیں ہو سکتا ۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:علّتیں،علالتیں سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی میں نیشنلٹی لینے کے لئے پہلے اتنی شرائط تھیں کہ بندے کو جرمنی میں رہتے ہوئے سات آٹھ سال ہو گئے ہوں،اپنے ذرائع آمدن ہوں یعنی حکومت سے اسے کوئی امداد نہ ملتی ہو اور جرمن زبان مناسب حد تک آتی ہو۔امریکہ کے ٹریڈ ٹاورز پر حملوں یعنی نائن الیون کے بعد سے پورے یورپ میں بھی رویوں میں قدرے سختی آگئی ہے۔میرے سارے بچوں کو جرمن نیشنلٹی مل چکی تھی۔میرا اور میری اہلیہ کا معاملہ یوں ہے کہ ہمیں جرمن زبان بالکل نہیں آتی۔میری ملازمت کی آمدنی اتنی کم ہے کہ حکومت کو اپنے فلاحی قوانین کے مطابق مجھے ہر مہینے میری ضرورت کی بقیہ رقم دینا ہوتی ہے۔گویا ہمیں زبان بھی نہیں آتی تھی اور ہماری آمدنی بھی اپنے لئے پوری نہ تھی۔ اس لئے ہم دونوں شرائط پر پورے نہیں اترتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ہم نے نیشنلٹی کے حصول والے اپنے فارم پُر کروا کر پانچ سال تک اپنے پاس ہی رکھ چھوڑے تھے ۔ چونکہ اپنی لیگل پوزیشن کا اندازہ تھااس لئے اپلائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔آخر پانچ سال کے بعد میں نے کچھ ہمت کی اور مبارکہ سے کہا کہ اپلائی تو کر دیتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ درخواست مسترد ہو جائے گی۔خیر ہے،ایک تجربہ تو ہو جائے گا۔سو، جی کڑا کرکے ہم نے درخواست جمع کرادی۔ روٹین کے مطابق ہمیں جرمن زبان کے ٹیسٹ کے لئے بلاوا آگیا۔جس دن ٹیسٹ تھا اس دن میں نے علی الصبح انٹرنیٹ پر یاہو کے قسمت کے حال والے حصہ کو دیکھا تو وہاں کچھ اس مفہوم میں واضح احوال لکھا ہوا تھا کہ آپ آج جس خاص کام کے لئے جا رہے ہیں،اس میں کامیابی نہیں ہو گی لیکن ہمت نہ ہاریں اور کوشش جاری رکھیں۔یہ پڑھ کر میں دل میں ہی ہمت ہار بیٹھا۔مبارکہ بیدار ہوئی تو اس نے ایک انوکھا سا خواب سنایا ۔اس کی کوئی جاننے والی باجی کوثر ہیں،انہوں نے ہم دونوں کو اپنے گھر پر دعوت دی ہوئی ہے اور ہم باجی کوثر کی دعوت کھا رہے ہیں۔اس خواب سے کچھ امید بندھتی نظر آئی تومیں نے گومگو کی حالت میں مبارکہ کو اپنا آزمودہ ایک ٹوٹکا بھی بتا دیا۔جب زبان کا ٹیسٹ لینے والی کے کمرے میں جانے لگیں تو اپنی انگلی سے اپنی پیشانی پر یاعزیز! لکھ لیں۔افسر کا رعب دل پر نہیں رہے گا اور افسر کے دل میں آپ کے لئے نرمی پیدا ہو جائے گی ۔
پہلے مجھے ٹیسٹ کے لئے بلایا گیا،ایک اخباری تراشہ کی ریڈنگ کرائی گئی پھر اُس پر گفتگو کی گئی۔مجھے آج تک علم نہیں ہے کہ میں نے کیا پڑھا تھا اور کیا ڈسکس کی تھی۔لیکن مجھے بتایا گیا کہ میں امتحان میں پاس ہو گیا ہوں۔میرے بعد مبارکہ گئی اور وہ بھی اسی طرح پاس قرار دے دی گئی۔میری جرمن زبان اتنی خراب ہے آج بھی کسی ٹیسٹ میں بٹھایا جائے توفیل ہو جاؤں گا لیکن اللہ کا کرم تھا کہ ہم دونوں کو زبان کے ٹیسٹ میں بھی پاس قرار دے دیا گیااور آمدن پوری نہ ہونے کی خامی کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔وہ دن اور آج کا دن میں نے اخبارات ورسائل میں اور انٹرنیٹ پرقسمت کے احوال بتانے والے حصے دیکھنا ترک کر دئیے ہیں۔البتہ جس خاتون نے ہمارا جرمن زبان کا ٹیسٹ لے کر ہمیں پاس قرار دے دیا تھا اس کے لئے کبھی کبھار دعا ضرور کرلیتا ہوں اللہ اسے خوش رکھے!ہمیں نیشنلٹی ملنے کے معاََ بعد سے اب یہاں اس کے حصول کا طریق کارپہلے سے بھی بہت زیادہ مشکل کر دیا گیا ہے۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:روح اور جسم سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھار تھوڑا سا وقت ملتا ہے اور گانے سننے کا موڈ ہوتا ہے تو کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے کوئی سی ڈی لگا لیتا ہوں۔ایک بار صبح سویرے کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے میں نے لتا منگیشکر کا ایک گانا لگایا’’یہ شام کی تنہائیاں،ایسے میں تیرا غم‘‘۔۔۔مبارکہ کمرے کے آگے سے گزری تو کہنے لگی یہ کیا صبح صبح’’شام کی تنہائیاں۔۔۔‘‘لگا کر بیٹھے ہیں۔میرے پسندیدہ گانوں پر مبارکہ کے تبصرے بعض اوقات اپنا الگ لطف پیدا کردیتے ہیں۔پنجابی کا ایک پرانا گانا سنتے ہوئے مبارکہ نے میری کیفیت پر بڑا مزے کا تبصرہ کیا تھا۔میں وہ احوال ڈاکٹر نذر خلیق کے نام اپنے ایک خط میں لکھ چکا ہوں،جسے انہوں نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں شامل کر دیا تھا۔ خط کا وہ حصہ بنیادی طور پر یادوں سے تعلق رکھتا ہے اور اب یہاں گانوں کا ذکر ہو رہا ہے تو اپنے ۱۶؍نومبر ۲۰۰۲ء کے تحریر کردہ اس خط کا متعلقہ حصہ یہاں درج کئے دیتا ہوں:
’’ایک دن میں پنجابی کی ایک ویب سائٹ ’’اپنا آرگ ڈاٹ کام‘‘ سے طفیل ہوشیارپوری صاحب کا مشہور گانا ’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سنتے ہوئے دوستوں کی ای میلز کے جواب دے رہا تھا۔ گانے سے اپنی بعض یادوں کے باعث میں کچھ جذباتی سا بھی ہو رہا تھا۔اسی دوران کمرے میں مبارکہ آگئی اور ہنسنے لگ گئی۔۔۔۔۔میں نے حیران ہوکے پوچھا کیا ہوا ہے؟
کہنے لگی انٹرنیٹ پر ای میلز کے جواب لکھ رہے ہیں اور ساتھ ’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سن کر جذباتی ہو رہے ہیں۔
مبارکہ کی بات سن کر میں اپنی جذباتی کیفیت ہی میں مسکرا دیا۔
لیکن بعد میں غور کیا تو مجھے کبوتروں کے ذریعے پیغام بھیجنے والے دَور سے ای میل کے ذریعے پیغام بھیجنے والے دَور تک کے سارے زمانے اپنے اندر برسرِ پیکار نظر آتے ہیں۔نیا دور اپنی طرف بلاتا ہے اور اس میں بڑی کشش ہے،اس کا مضبوط جواز بھی ہے۔پہاڑ کی چوٹی تک جانا آسان ہے لیکن دوسری طرف پرانے دور کی یادیں مسلسل بلاتی ہیں۔روتی ہوئی،ہنستی ہوئی، ہر طرح کی آوازیں بلاتی ہیں۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گزرے زمانے کی آوازوں پر مڑ کر دیکھنے والے شہزادے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔اس کے باوجود میں نہ صرف مڑ کر دیکھتا ہوں بلکہ ہر قدم پر مڑ کر دیکھتا ہوں اور خود کو مکمل پتھر ہونے سے بچانے کی کوشش بھی کرتا جاتا ہوں۔
’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘جذباتی ہو کر سننا،پہاڑ پر جاتے ہوئے مڑ کر دیکھنے جیسا ہے اور ساتھ ساتھ ای میلز کے جواب لکھتے جانا خود کو مکمل پتھر ہونے سے بچانے کی کوشش ہے۔ ‘‘
مجھے بہت سارے پرانے گانے پسند ہیں،ان سب کی اچھی موسیقی میری روح پر اثر کرتی ہے اور دل میں سوز و گداز بھی پیدا کرتی ہے۔ان گانوں کے ساتھ میں حال میں رہتے ہوئے اپنے گزرے ہوئے زمانوں کا سفر کر لیتا ہوں۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:روح اور جسم سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کہ عمر کے اس حصے میںہوں جب بندہ اِس دنیا سے آگے کی دنیا میں جانے کے لیے بوریا بستر باندھنے میں لگا ہوتا ہے،میں نے بھی کچھ عرصہ سے اپنا بوریا بستر باندھنا شروع کر رکھا ہے۔اگلی دنیا میں جانے کی تیاری کے ساتھ اِس دنیا سے لذت کشید کرنے کا عمل بھی میں نے کم نہیں ہونے دیا۔میری اہلیہ مبارکہ ان معاملات میں ایک حد تک میرے ساتھ ہے اور ایک حد تک مزاحمت کر رہی ہے۔اس دنیا کے معاملات میں تو نہ صرف اس نے مزاحمت نہیں کی بلکہ بڑی حد تک پردہ پوشی بھی کی ہے۔البتہ اگلی دنیا کے معاملہ میں اس نے شدید مزاحمت کر رکھی ہے۔اس حوالے سے جو تازہ ترین صورتحال ہے اسے بعد میں بیان کروں گا پہلے گزرے دنوں کا کچھ ذکر ضروری ہے۔
۱۹۹۶ء میں مبارکہ کوRheumatism کی بیماری کی ابتدا ہوئی تھی۔پہلے تو بیماری کی نوعیت سمجھ میں نہیں آئی۔پتہ نہیں یہ’’ روئے ماٹ ازم‘‘ کونسی اللہ ماری ولایتی بیماری لا حق ہو گئی ہے۔ہم نے تو سوشلزم،کمیونزم،کیپٹل ازم کے نام ہی سن رکھے تھے اور مبارکہ کو ان میں سے کسی سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔بہر حال بیماری کی نوعیت کا جب کچھ کچھ اندازہ ہوا تو اس کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے میںنے ۱۹۹۶ء ہی میں ایک غزل میں کہا تھا:
دیکھو مجھے اس حال میں مت چھوڑ کے جانا
دل پر ابھی میں نے کوئی پتھر نہیں رکھا
پھر مبارکہ نہ صرف اس بیماری کی عادی ہو گئی بلکہ Rheuma نے بھی اس کے ساتھ دوستانہ برتاؤ شروع کر دیا۔ بارہ تیرہ برس علاج معالجہ کے ساتھ آرام سے گزر گئے۔مبارکہ کی علالت اور اپنے شروع میں بیان کردہ خواب کامزید ذکر ذرا آگے چل کر ۔۔۔۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:لبیک الھم لبیک سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۶جنوری ۲۰۰۹ء کو میں نے صبح چار بجے کے لگ بھگ ایک خواب دیکھا۔اس میں مجھے تاریخِ وفات ۳؍دسمبر بتائی گئی۔خواب میں سَن نہیں بتایا گیا لیکن بیداری پر مجھے اس کی جو تفہیم ہوئی اس کے مطابق سال ۲۰۰۹ء ہی میں وفات ہو گی۔اس تفہیم کے ساتھ ایک بار پھر غنودگی کی کیفیت ہوئی اور اس میں یہ قرآنی الفاظ میرے ہونٹوں پر جاری ہوئے: انی متوفیک۔یعنی بے شک میں تجھے وفات دوں گا۔
میں نے اسی روز صبح پانچ بجے سبز رنگ کی جلد والی اپنی نوٹ بک کے بائیں جانب اندر کے پہلے صفحہ پر وہ خواب،اوراس کی تعبیر و تفہیم درج کر دی،اپنے دستخط بھی کر دئیے۔اسی روز اپنے چھوٹے بیٹے طارق کو وہ نوٹ بک دکھا کر بتا دیا کہ دسمبر۲۰۰۹ء میں اگر کچھ رونما ہو جائے تو اس تحریر کو خود بھی پڑھ لینا اور بہن بھائیوں کو بھی پڑھا دینا ۔ ساتھ ہی اسے کچھ اور ہدایات بھی دیں۔ لیکن ہوا یہ کہ طارق نے دو چار دن تک تو صبر سے کام لیا لیکن پھر گھبرا کر اپنی ماں کو اس بارے میں بتا دیا۔مبارکہ کو خواب کی کچھ حقیقت کا اندازہ ہواتو وہ خود بیمار پڑ گئی۔یہاں تک کہ ۶ فروری کو ایمبولینس بلانا پڑ گئی۔ہفتہ بھر صورتحال اتنی زیادہ نازک رہی کہ ڈاکٹرز نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنی طرف سے بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔بچ جانے کے چانسز ہیں تو سہی لیکن بہت کم۔ کیونکہ قوتِ مدافعت کمزور ہوتے ہی Rheuma نے تقریباََ تمام مرکزی اعضا پر حملہ کر دیا ہے۔ان آرگنز کو بچانے کے لیے جن دواؤں کو دیا جا سکتا ہے وہ موجودہ صورت میں جتنی مفید رہیں گی، سائڈ ایفیکٹ میںاس سے زیادہ نقصان دہ ہوں گی۔عجیب مشکل اور پیچیدہ صورتحال تھی ۔بہر حال دعا اور دوا دونوں کے نتیجہ میں مبارکہ نے ایک مہینہ کے لگ بھگ عرصہ میں بیماری کو کچھ کوَر کر لیا۔شیمو تھراپی جو کینسر کے مریضوں کے لیے ہوتی ہے،اس کا پانچ فیصد چھ مہینوں میں آزمانے کا طے ہو گیا۔ پانچ مہینوں میں مبارکہ اس حد تک صحت یاب ہو گئی کہ مجھے باقاعدہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگی۔کامیاب شوہر بخوبی جانتے ہیں کہ بیوی جب شوہر کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ پوری طرح سے صحت یاب ہو چکی ہے۔وگرنہ ناکام و نامراد شوہر تو بیوی سے سرِ عام جوتے یا دھکے کھا کر بھی کچھ نہیں سمجھ اور سیکھ پاتا،البتہ اس کے انجام سے لوگ سبق ضرور سیکھ لیتے ہیں۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:لبیک الھم لبیک سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی الحال بات ہو رہی تھی مبارکہ کی اپنی سنگین بیماری کے وارسے بچ کرگھر واپس آجانے کی۔
مبارکہ کا بہتر حالت میں گھر واپس آنا خدا کا بہت ہی خاص فضل تھا۔گردوں کی کارکردگی متاثر ہو نے کے باعث اس کے پورے جسم سے پانی رِستا تھا۔خوشی سے بھیگنا اور غم میں آنسوؤںسے بھیگ جانا تو ہماری دنیا میں ہوتا ہے لیکن بیماری سے اس طرح بھیگنا ہمارے ہاں پہلا تجربہ تھا۔جسم بھی کسی حد تک پھول گیا تھا،تاہم تھراپی کرانے کے نتیجہ میں حالت تدریجاََبہتر ہوتی جا رہی تھی۔اس دوران مبارکہ کو نہانے کے لیے تو مدد کی ضرورت نہ ہوتی لیکن نہانے کے بعد کھڑا کرنے اور ٹب میں سے باہر نکالنے میں مجھے بہت زیادہ ہیلپ کرنا پڑتی۔
اپنے افسانہ’’گھٹن کا احساس‘‘ میں ایک بار اپنی بیوی کے ساتھ ہوئی بات کو میں نے یوں لکھا ہوا ہے۔
’’ نہاتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنی پوری کمرپرنہیں پھِرسکتاتھا۔ ماں کا کمرپر صابن مَلنا یادآتاتواس کا جی چاہتا کاش ماں زندہ ہوتی اور اب بھی میری کمرپر صابن مَل دیتی۔ ایسے ہی خیالوں کے دوران ایک بار اُس نے اپنی بیوی کو عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ اس کی بیوی نہ صرف اس کی ماں کی بھتیجی تھی بلکہ بڑی حد تک اس کی ماں کی ہم شکل بھی تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے اس خواہش کا اظہارکردیاکہ وہ نہاتے وقت اس کی کمرپر صابن مَل دیا کرے ۔ اس کی بیوی تھوڑا ساشرمائی پھر کہنے لگی:’’مجھ سے یہ فلموں والے باتھ روم کے سین نہیں ہوسکتے‘‘
وہ بیوی کے جملے پر مسکرایااور سوچایہ پگلی کہاں جاپہنچی۔ یوں بھی باتھ روم میں اتنی جگہ ہی کہا ںہے کہ وہ بھی میرے ساتھ سماسکتی۔‘‘
اور اب صورت حال یہاں تک آپہنچی تھی کہ ہم انڈین فلموںکے باتھ روم سے بڑھ کر انگریزی فلموں کے باتھ روم والے سین جیسی صورتحال سے گزر رہے تھے۔مبارکہ کا وزن بہت بڑھ گیا تھا اس لیے اس سین کا مزہ تو کیا لیا جاتا،میرا سانس ہی پھولنے لگتا۔ یہ سانس پھولنے کا سلسلہ بڑھا تو ڈاکٹر سے ملاقات کی۔ڈاکٹر نے ای سی جی تک کے اپنے سارے ٹیسٹ کرنے کے بعد مجھے ہسپتال ریفر کر دیا۔ہسپتال والوں نے ٹیسٹ کے کئی مراحل سے گزارنے کے بعد بتایا کہ دل کا کوئی وال (شریان)بند ہے۔انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی دونوں کام ایک ساتھ کر دئیے جائیں گے۔اس کے لیے یکم اکتوبر کی تاریخ دے دی گئی۔ انہیں دنوں میں ایک نئی غزل ہوئی،جس کے یہ اشعار جیسے ۳؍دسمبر کے لیے ذہنی تیاری کی غمازی کر رہے تھے۔
دردِ دل کی ہمیں اب کے وہ دوائی دی ہے
اپنے دربار تلک سیدھی رسائی دی ہے
اک جھماکا سا ہوا روح کے اندر ایسے
نوری برسوں کی سی رفتار دکھائی دی ہے
کیسے زنجیر کا دل ٹوٹا یہ اُس نے نہ سُنا
وقت نے قیدی کو بس فوری رہائی دی ہے
اک نئی لمبی مسافت کا زمیں زاد کو حکم
اور اس بار مسافت بھی خلائی دی ہے
جب بھی جانا ہے پلٹ کر نہیں دیکھیں گے کہیں
اپنے اندر سے یہ آواز سنائی دی ہے
اکیس ستمبر کو عید الفطر تھی،عید بہت اچھی گزری۔سارے بچے گھر پر جمع ہوئے۔پانچ بیٹے بیٹیاں،پانچ بہوئیں اور داماد، دس پوتے،پوتیاں اور نواسے۔۔گھر پر اتنی رونق تھی کہ ہم دونوں تھک گئے۔بائیس ستمبر کو میں ڈٹسن باخ میں خانپور کے زمانے کے ایک دوست وزیر احمد صاحب کو ملنے چلا گیا۔ شام کوگھر آیا تومبارکہ کی طبیعت خراب تھی، بخار ہو گیا تھا۔رات گئے تک بخار میں شدت آگئی اور صبح تک حالت اتنی بگڑ گئی کہ اس کی لیڈی ڈاکٹر فراؤ ہے نگ‘ (Frau Hennig) کو گھر پر بلانا پڑا۔ڈاکٹر نے مبارکہ کی حالت دیکھتے ہی ایمبولینس منگا لی۔جاتے وقت مبارکہ پر غشی سی طاری تھی۔اسے قریبی شہر ہوف ہائم کے ہسپتال میں لے جایا گیا۔۲۴ تاریخ تک حالت اتنی بگڑ گئی کہ اسے صوبائی صدر مقام ویز بادن کے اس ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں پہلے سے اس کا ’’روئے ما‘‘ کاعلاج چل رہا تھا۔ انتہائی نگہداشت والے کمرہ میں جب ہم دیکھنے کے لیے پہنچے تو دل دھک سے رہ گیا۔ وہاں کے ڈاکٹر ز نے کہا کہ ہم بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن اس طرح کے کیسز میں بچنے کا صرف ایک فی صد چانس ہوتا ہے۔ جو بچہ اندر آتا اور رونے لگتا میں اسے باہر بھیج دیتا۔رفتہ رفتہ بچوں نے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا شروع کیا۔
میں تو مستقل طور پر مبارکہ کے سر ہانے کھڑا ہوا تھا،بچوں کو دو سے زیادہ تعداد میں آنے کی اجازت نہ تھی۔
جب بھی کوئی بچہ آتا۔میں پوچھتا یہ کون ہے؟ آواز نہیں آتی تھی لیکن مبارکہ کے ہونٹ اس طرح ہلتے جس سے بچے کا نام ادا ہوتا ہواپورا سمجھ میں آتا۔حالت تو غیر ہی تھی لیکن تیسرے دن دو دلچسپ باتیں ہوئیں جس سے مجھے کچھ تسلی ہونے لگی۔میں نئے کپڑے پہن کر ہسپتال پہنچا۔ مبارکہ نے آنکھ کھولی تو مجھے دیکھ کر کہنے لگی۔’’کتھے چلے او‘‘ (آپ کہاں جا رہے ہیں؟) ۔جب بیوی بے ہوشی اور بے خبری کی حالت میں بھی نگرانی کی اس حد تک آجائے تو اسے کون بے ہوش یا بے خبر کہے گا۔
جب سارے بچے باری باری آکر ماں سے مل چکے تو مبارکہ نے دوسری طرف پڑی ہوئی کرسی کی طرف آنکھ سے اشارہ کرکے کہا آپ اب وہاں بیٹھ جائیں۔مجھے ان دونوں باتوں سے کافی تسلی ہو گئی۔لیکن کمال یہ ہے کہ جب مبارکہ بالکل صحت یاب ہو گئی تو اسے ان باتوں میں سے کچھ بھی یاد نہ تھا۔صرف اتنا یاد تھا کہ بچوں کی پرچھائیاں سی دکھائی دیتی تھیں اور بس۔
مجھے اندازہ ہے کہ اصلاََ مبارکہ کو اندر سے یہ خوف ہے کہ میں دنیا سے کوچ کرنے والا ہوں۔فروری والی بیماری کے دوران میں نے اسے بڑے رسان سے کہا تھا کہ مبارکہ بیگم!آپ زیادہ فکر مت کریں،میں پہلے چلا گیا تو جاتے ہی آپ کو بلوا لوں گا۔آپ پہلے چلی گئیں تو میں بھی زیادہ دیریہاں نہیں رہوں گا،آپ کے پیچھے پیچھے ہی چلا آؤں گا۔لیکن شاید ہم دونوں کے درمیان اہلِ لکھنئو کے ’’پہلے آپ۔۔۔۔پہلے آپ‘‘ کے برعکس’’پہلے میں ۔ ۔ ۔ پہلے میں‘‘ کا مقابلہ چلاہوا ہے۔اس چکر میں شاید موت کا فرشتہ بھی کنفیوز ہو رہا ہے کہ ان دونوں میاں بیوی نے مجھے کس چکر میں ڈال دیا ہے۔پہلے کسے لے جاؤں؟
۲۹؍ستمبر ۲۰۰۹ء کومبارکہ ابھی انتہائی نگہداشت والے روم میں تھی،گردن میں، ہاتھ پر، سینے پر،بازو پر مختلف کنکشنز لگے ہوئے تھے۔ایک بازو اورہاتھ کے الٹی طرف ڈرپیں لگانے کے لیے،ایک بازو پر بوقتِ ضرورت ٹیسٹ کرنے کی غرض سے خون لینے کے لیے،گردن اور سینے پرکہیں ڈائلسز کے لیے،کہیں کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے لیے اور کہیں پتہ نہیں مزید کن کن مقاصد کے لیے کنکشن کی تاریں ہی تاریں لگی ہوئی تھیں۔ مبارکہ کیا تھی،اچھی بھلی روبوٹ دکھائی دے رہی تھی۔جیسے روبوٹ کو بالکل انسان جیسا دکھائی دینے کا تجربہ کر لیا گیا ہو۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:لبیک الھم لبیک سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب شیراز کی پیدائش ہوئی مبارکہ ہسپتال میں تھی۔ہسپتال سے چھٹی ملتے ہی سب سے پہلے اس ہسپتال میں گئی جہاں شیراز کی پیدائش ہوئی تھی،وہاں پوتے کو دیکھا،چوما،دعا کی اور پھر گھرواپس آئی۔اپنے دو نواسوں اور ایک پوتے کے ختم قرآن کا ذکر یادوں کے ایک باب میں کر چکا ہوں۔اس عرصہ میںمزید پیش رفت یہ ہوئی کہ گزشتہ برس عثمان کے بیٹے اور میرے دوسرے پوتے جہاں زیب نے فروری میں ساڑھے پانچ برس کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا ۔ اس برس جولائی میں جہانزیب کی بہن علیشا نے پونے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا۔ماہ نور بھی بیس پارے پڑھ چکی ہے اور اگلے دو تین ماہ تک اس کے ختم شریف کی بھی امید ہے ۔سو اپنی ذاتی زندگی کی اس سال کی اچھی خبروں میں ان خبروں کو بھی شمار کرتا ہوں۔
ایک بار پھرشکر الحمدللہ!
یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ویسے تو سارے بچے بہت فرمانبردار اور خیال رکھنے والے ہیں۔ہمارے عمرہ اور حج کی توفیق میں ان کا بھرپور ساتھ شامل رہا ہے۔جب مجھے کسی ذاتی کام کے لیے رقم کی ضرورت پیش آئی اور میں نے تینوں بیٹوں کے ذمہ کچھ رقم لگائی ،سب نے وہ رقم فراہم کر دی۔عام حالات کے مطابق میرے کہے بغیر بھی طارق نے دو تین اہم مواقع پر از خود میری ضرورت کا احساس کرتے ہوئے مجھے خاصی معقول رقم فراہم کی ہے۔تاہم مجھے پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ بڑا بیٹا شعیب ایک عرصہ سے ہر سال ایک معقول رقم خاموشی کے ساتھ ماں کو دے رہا ہے۔مجھے کئی برس کے بعد اب علم ہواتو میں نے دونوں ماں بیٹے کونصیحت کی کہ مجھے اس کا علم ہونا چاہیے تھا تاکہ میں تحدیث نعمت کے طور کہیں اس کا ذکر کردیتا۔خدا کا شکر ہے کہ اب مجھے اس کا ذکر کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:لبیک الھم لبیک سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور کا حال پوچھا۔گھنٹہ بھر باہر گھومنے کے بعد ہسپتال میں واپس آگیا۔اگلے دن دوپہر کے بعد مجھے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔اسی دن شام کو مبارکہ سے ملنے گیا۔ وہ انتہائی نگہداشت والے روم سے اب درمیانی نگہداشت والے روم میں منتقل ہو گئی تھی۔ہوش میں آگئی تھی لیکن کوئی جنبش از خود نہیں کر سکتی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ میں خود اپنے دل کے معاملے سے نمٹ کر آرہا ہوں۔ ابھی اسے اپنے بارے میں یا ماہ نور کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ جیسے جیسے مبارکہ روبصحت ہو رہی تھی ویسے ویسے ماہ نور کی حالت بھی بہتر ہو رہی تھی۔اس کا چہرہ تو خدا نے اپنے فضل سے محفوظ کر دیا تھا۔سینے کے بیشتر داغ بھی کم ہورہے تھے اور ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بچی بہت چھوٹی ہے اس لیے ایک سے دو سال تک یہ داغ بھی دور ہو جائیں گے۔
مبارکہ کو جب مختلف کنکشنز سے آزاد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو جہاں جہاں سے سوئی وغیرہ کو ہٹاتے، وہاں گہرے سرخ داغ نمایاں ہو جاتے۔تن ہمہ داغ داغ شد والا منظر تھا۔پنبہ کجا کجا نہم کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ایک دن کے بعد یہ گہرے سرخ داغ جیسے نیلے سے رنگ میں ڈھلنے لگے اور مجھے پنجابی کا ’’تن من نیل و نیل‘‘ یاد دلانے لگے۔(ویسے کمال ہے کہ ایک مہینہ کے اندر ہی وہ گہرے داغ ایسے ختم ہو گئے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں) ۔
۲۳؍اکتوبرکو مبارکہ کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی لیکن اس خبر کے ساتھ کہ ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز ہو ا کرے گا۔ سرکاری طور پرہی سارا انتظام کیا گیا ہے۔مقررہ وقت پر ٹیکسی آتی ہے اور گھر سے ہسپتال لے جاتی ہے،چار سے پانچ گھنٹے کے درمیان ڈائلسز کا عمل مکمل ہوتا ہے تو ٹیکسی گھر چھوڑ جاتی ہے۔مبارکہ کی بیماری،اپنی پوتی ماہ نور کے حادثہ اور اپنے دل کے علاج تک تین چار ہسپتالوں سے واسطہ رہا۔کہیں بھی امیر یا غریب،جرمن یا غیر جرمن کا فرق دکھائی نہیں دیا،کہیں بھی ہسپتال کے عملہ میں دیکھ بھال کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔وہ جو مسیحا نہ مقام تھا ہر جگہ دکھائی دیا۔ انسانی خدمت کا ایسا اعلیٰ معیار کہ سوچنے بیٹھیں تو آنکھیں شکر گزاری سے بھیگ جائیں۔ہمارے معاشرے کے لوگ اپنی ذہنیت کے مطابق اان کے بارے کیا کچھ باور کرتے ہیں لیکن میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اپنی خدمتِ انسانی کے اعلیٰ ترین معیار کے باعث ان لوگوں نے سچ مچ اپنی جنت کمالی ہے۔
اپنی اس علالت کے نتیجہ میں مبارکہ کا وزن پچاس کلو کے لگ بھگ رہ گیا۔بیشتر کپڑوں کی نئی فٹنگ کرانی پڑی، چھوٹی بیٹی کا شادی سے پہلے کا ایک کوٹ پورا آگیا۔اب بہو بیٹیوں میں حسرت کے ساتھ مبارکہ کو دیکھا جاتا ہے کہ ہائے امی! آپ اتنی سمارٹ ہو گئی ہیں۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:لبیک الھم لبیک سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بارآپریشن وارڈ سے جنرل وارڈتک پہنچاتھا تو طارق،نازیہ اور شایان فوراََ ہسپتال پہنچ گئے تھے۔اب دوسری بار جنرل وارڈ میں پہنچا تو مبارکہ ،طارق،نازیہ اور شایان کے ساتھ پہنچ گئی تھی۔دوسرے دن جب چھٹی نہیں ملی تو مبارکہ،شعیب اور عثمان ایک ساتھ ملنے آگئے۔اب عمر کے اس حصے میں اور بیماریوں کی اس یلغار میںمبارکہ اور میں ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ بعض عزیز اور دوست احباب ہم دونوں کی خیریت دریافت کرنے لگے تو میں نے کہا ہم دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی دیکھ ریکھ کرتے رہتے ہیں ۔مثلاََ میں مبارکہ سے کہتا ہوں آپ آرام سے بیٹھیں ،میں چائے تیار کرکے لاتا ہوں۔مبارکہ جواباََ کہتی ہے نہیں آپ آرام سے بیٹھیں میں چائے تیار کرکے لاتی ہوں۔ہم دونوں کا جذبہ دیکھ کر چائے کہتی ہے آپ دونوں آرام سے بیٹھیں میں خودہی تیار ہو کر آجاتی ہوں۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:لبیک الھم لبیک سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین تاویلیں ایسی ہیں کہ میں انہیں یہاں درج کرنا چاہوں گا۔میرے ماموں صادق باجوہ کا کہنا ہے کہ خواب میں موت سے مراد لمبی عمر ہے۔میرے خیال میں خواب میں کسی زندہ انسان کی موت کی خبر ملنایا اسے مردہ دیکھنا تو اس کی لمبی عمر کی علامت ہو سکتی ہے لیکن اس طرح معین تاریخ وفات کی خبر سے مراد لمبی عمر شاید نہیں بنتی۔باقی واللہ اعلم۔
کینیڈا سے عبداللہ جاوید صاحب کی تاویل مجھے مزے کی لگی۔ان کے بقول :جیسے کسی بچے کو کسی شرارت یا کام سے روکنے کے لیے کسی تاریک کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھول کر دکھایا جائے اور پھر دروازہ بند کرکے بچے کو ڈرایا جائے کہ اگر تم شرارت سے باز نہ آئے تو تمہیں اس کمرے میں بند کردیا جائے گا۔بالکل اسی طرح ۳ دسمبر کی تاریخ بتا کر اللہ میاں نے موت کے تاریک دروازے کا ڈراوا دیا تھا۔لیکن یہ ضدی بچہ شرارت کو چھوڑ کر دروازے کے اندر میں دلچسپی لینے لگا۔دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا کہ شرارت ورارت کا معاملہ چھوڑیں یہ دروازہ کھولیں مجھے اس کمرے میں جانا ہے۔دیکھوں تو سہی اندر کیا ہے۔جب دروازہ نہیں کھلا تو ۲۶ نومبر آنے تک اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکانا شروع کر دیا،اور پھر ۲۶ نومبر سے ۳ دسمبر تک اس بچے نے دروازہ کھٹکھٹانا اور شور مچانا جاری رکھا۔
ایک طرف تعبیر و تاویل کا یہ سلسلہ تھا دوسری طرف بعض دوستوں کا کہنا تھا کہ خواب غلط ثابت ہو چکا ہے۔اس پر میری اہلیہ مبارکہ نے بڑی انوکھی نشان دہی کی۔مبارکہ کی تاویل بیان کرنے سے پہلے دو وضاحتیں کر دوں۔پہلی وضاحت:اپنے قریشی ہونے کی نسبت سے،اپنی تمام تر کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود میں خود کو ہمیشہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی آل میں شمار کرتا ہوں۔مجھے گہرا احساس ہے کہ روحانی سطح پر مجھ خاک کی اُس عالمِ پاک سے کوئی نسبت نہیں ہے۔پر کچھ ہے تو سہی۔دوسری وضاحت:خواب کی تعبیر و تاویل میںجوایک مماثلت کا بیان آگے آنے والا ہے،وہ صرف خواب کی تفہیم کے سلسلہ میں ایک مثال کے طور پر ہے،وگرنہ میں ابراہیمی سمندر کے سامنے ایک قطرہ اور صحرا کے سامنے ایک ذرہ جتنی وقعت کا بھی حامل نہیں ہوں۔یہ وضاحت اس لیے نہیں کر رہا کہ کوئی مذہبی انتہا پسند میری بات سے کوئی اشتعال انگیزی نہ کر گزرے۔بلکہ اس لیے کر رہا ہوں کہ اس اظہار کے نتیجہ میں کہیں میرے اپنے اندر کوئی فتور نہ آجائے ۔بس میری یہ تحریر مجھے میری اوقات کا احساس دلاتی رہے۔
ان وضاحتوں کے بعد مبارکہ کی بیان کردہ تعبیر و تاویل پیش کرتا ہوں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔ انہوں نے بیٹے کو اپنا خواب بتایا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فوراََخواب کو پورا کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔اب صورتحال یہ بنی کہ باپ بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے اور بیٹا قربان ہونے کو تیار ہے۔جب خدا نے دیکھا کہ باپ بیٹا دونوں اس کی رضا پر راضی اور اس کے حکم کی تعمیل پر کمر بستہ ہیں تو قربانی کے حکم کے باوجود ذبح کرنے سے روک دیا گیا اور خواب کی تعبیر مینڈھا بھیج کر پوری کر دی گئی۔یوں خواب دوسرے رنگ میں پورا ہو گیا۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:زندگی در زندگی سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارکہ کاہفتہ میں تین بار ڈائلسزکا سلسلہ جاری ہے اور اب ایک طرح سے معمولاتِ زندگی میں شامل ہے۔۱۶،۱۷؍اپریل کی درمیانی رات اسے بے چینی ہونے لگی۔شوگر اور بلڈ پریشر چیک کیے تو سب نارمل تھے البتہ نبض کی رفتار مدھم تھی۔۴۰ سے ۴۳ کے درمیان۔دواڑھائی گھنٹے اپنے ٹوٹکے کرنے میں گزار دئیے۔صبح ساڑھے پانچ بجے بڑے بیٹے کے گھر فون کیا۔ تسنیم سے بات ہوئی۔اس نے فوراََقریبی شہر ہوف ہائم کے ہسپتال میں فون کیا۔چھ بجے وہاں کا ڈاکٹر ہمارے گھر پہنچ گیا۔نبض کے بارے میں جان کر اس نے دستی ای سی جی مشین بھی ساتھ رکھ لی تھی۔ مبارکہ کی صورتحال دیکھ کر اس نے گھر پر ہی ای سی جی ٹیسٹ شروع کر دیا۔دل میں گڑ بڑ ہونے کے سگنل مل رہے تھے۔ساڑھے چھ بجے اس نے ایمبولینس بلا لی۔ایمبولینس والوں نے آتے ہی اپنی کاروائی شروع کر دی۔وہ اسٹریچر پر ڈال کر لے جانا چاہتے تھے۔ہم اپنی بلڈنگ کی ساتویں منزل پر رہتے ہیں۔میرے پاس ہاؤس ماسٹر کا فون نمبر نہیں تھا۔ہاؤس ماسٹر سے سارے معاملات چھوٹا بیٹا ٹیپو خودڈیل کر لیا کرتا ہے۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ لفٹ کی چابی منگائیں تاکہ مریضہ کو اسٹریچر پر ہی لے جایا جا سکے۔میں نے ٹیپو کے گھر فون کیا،موبائل پر فون کیا،مگر سارے فون بند تھے۔پانچ منٹ کا پیدل رستہ ہے اس دوران میں نے خود جا کر اس کے گھر پر بیل دی اور پیغام دیا کہ فوراََ ہمارے ہاں پہنچو۔ان لوگوں کے پوری طرح بیدار ہونے ،تیار ہونے اور ہمارے ہاں پہنچنے میں اتنا وقت لگ گیا کہ تب تک ڈاکٹرز مزید انتظار کیے بغیر مبارکہ کو وہیل چئیر پر بٹھا کر ہی لے گئے۔ تینوں بیٹے ہمارے گھر کے اتنے قریب ہیں کہ کسی ایمر جینسی میں بلانے پر پانچ منٹ کے اندر گھر پر پہنچ سکتے ہیں۔ہر چند آج بڑی بہو تسنیم کو جتنا کام سونپا گیا اس نے احسن طریقے سے کر دیا اور اسی کے نتیجہ میں ڈاکٹر اور ایمبولینس بروقت پہنچ چکے تھے۔لیکن آج ایمر جینسی میں یہ تجربہ بھی ہواکہ سب سے قریب مقیم بیٹا اس وقت ہم تک پہنچا جب اس کے آنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ قدرت کی طرف سے آسانی ہو تو دور والے بھی قریب ہیں اور اگرالجھن پیدا ہونی ہے تو سب سے قریب والے بھی دور ہیں۔سبق ملا کہ بچوں کی سعادت مندی پر ان کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے لیکن بھروسہ صرف اور صرف اپنے خدا پر ہی رکھنا چاہیے۔اس کا فضل ہے تو ہر طرف سے ہر طرح خیر ہے۔
ساڑھے سات بجے ایمبولینس والے مبارکہ کو ساتھ لے کر گئے تھے اور ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ مبارکہ کا فون آگیا کہ انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کے دونوں مرحلے طے ہو گئے ہیں۔ گویا اب ہم دونوں میاں بیوی ہارٹ کلب کے ممبر بن گئے ہیں۔ میں نے تومبارکہ کی کسی بیماری میں شراکت نہیں کی لیکن وہ میرے دل کی بیماری میں حصہ دار بن گئی۔اگلے دن اس کے ڈائلسز کی باری تھی۔ ۲۳اپریل کو شام تک ڈائلسز کے بعدمبارکہ کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:زندگی در زندگی سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے پینے کے ذکر سے خیال آیا،جرمنی میں رہتے ہوئے ہم لوگ پاکستانی کھانے ہی کھاتے رہے ہیں۔لیکن اب کھانے کے معمولات میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ناشتہ میں ہم میاں بیوی اپنی اپنی پسند کی بریڈ لیتے ہیں ۔ دوپہر کو پاکستانی کھانا ہوتا ہے۔مبارکہ شام کو بھی پاکستانی کھانا کھاتی ہے لیکن میں نے شام کو بریڈ لینا شروع کر دی ہے۔ویسے پاکستانی کھانوں میں عام گوشت،سبزی اور دال کے ساتھ ساتھ کبھی کبھارچپلی کباب، نہاری اور پائے کی بد پرہیزی بھی کر لیتے ہیں ۔ویسے آجکل ہماری پسندیدہ ڈش گڑ کے چاول ہے،اگرچہ یہ بچپن کی پسندیدہ ڈش کے طور پر بہت کچھ یاد دلاتی ہے لیکن اس میں ہر طرح کے میوہ جات کی شمولیت بہت کچھ بھلا بھی دیتی ہے۔کبھی کبھار یہ ڈش بنتی ہے تو میں جی بھر کے بد پرہیزی کر لیتا ہوں۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:زندگی در زندگی سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴ مئی کو جرمنی میں سرکاری چھٹی تھی ۔ اس دن بارش نہیں ہونا تھی ۔کئی دنوں سے چل رہی ٹھنڈ کے بر عکس موسم خاصا بہتر تھا۔چمکتی ہوئی لیکن نرم دھوپ میں ۲۵ ٹمپریچرنے فضا کو خوشگوار بنا دیا تھا(اس دن پاکستان کے بعض شہروں میں ٹمپریچر۵۲ ہو گیا تھا)۔ہم نے ،پوری کی پوری فیملی نے اپنے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے دریائے مائن کے کنارے پکنک منانے کا طے کر لیا۔اپنی اپنی سہولت کے مطابق پانچوں بچوں نے جو پکانا مناسب سمجھا پکا کر لے آئے اور سب دریا کے کنارے پر جمع ہو گئے۔چھوٹے بچے،پوتے،پوتیاں،نواسے جو ہمارے گھر میں کھیلتے ہیں تو لگتا ہے کہ اودھم مچا رہے ہیں۔اب یہاں کھل کر کھیل رہے تھے،اودھم مچا رہے تھے لیکن سب اچھا لگ رہا تھا ۔ گزشتہ برس کی بیماریوں کی یلغار کے بعد مبارکہ پہلی بار دریا کے کنارے پہنچی تو یہ سب کچھ خواب جیسا لگ رہا تھا ۔ بیماریوں کے حملہ سے پہلے ہم دونوں میاں بیوی کئی بار چہل قدمی کرتے ہوئے دریا کے اس کنارے تک آئے ہیں اور کئی بار یہاں کے بنچوں پر دیر تک بیٹھے قدرتی مناظر کا نظارہ کرتے رہے ہیں۔لیکن گزشتہ برس ۲۰۰۹ء میں ہم جس نوعیت کی سنگین بیماریوں سے گزرے ہیں،اس کے بعد سوچا نہیں تھا کہ مبارکہ اس طرح پھر سے ہنستے کھیلتے ہوئے دریا کے کنارے تک پہنچے گی۔لیکن خدا کے فضل سے ایسا ہو گیا تھا۔ہمارے لیے یہ پکنک بھی خدا کی شکر گزاری کا جواز بن گئی۔دریا کے دوسرے کنارے پر بھی پکنک منائی جا سکتی تھی لیکن بچے اسی طرف رہنے پر مصر تھے کیونکہ یہاں کی گراؤنڈ وسیع تھی۔کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے کے لیے کھلی جگہ تھی۔دوسری طرف صرف بیٹھنے کے لیے دو تین بنچوں کا ہی انتظام تھا۔چھٹی والے دنوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر لے جانے کے لیے ایک کشتی موجود ہوتی ہے۔ کرایا واجبی سا ہوتا ہے۔میں اپنے پوتوں،پوتیوں اور نواسوں کو لے کردریا کے دوسرے کنارے پر لے گیا۔بچوں نے اس مختصر سے دریائی سفر کا لطف لیا لیکن دوسرے کنارے پر پہنچ کر واپسی کا شور مچا دیا۔اصل میں وہ کشتی میں ہی سفر کرتے رہنا چاہتے تھے۔مجھے ہرمن ہیسے کاناول’’ سدھارتھ‘‘ بہت پسند ہے۔ دریا کی آوازیں سننا اوران کا گیان حاصل کرنا بڑی بات تھی لیکن ہرمن ہیسے کے سدھارتھ نے میرے پوتوں ،پوتیوں اور نواسوں کی معصوم اورزندگی سے بھرپورآوازوں کے ساتھ دریا کی آواز کو سنا ہوتا تو اسے ایک اور طرح کا گیان بھی نصیب ہوجاتا۔میں اپنے بچوں کے بچوں میں اپنے ماضی،حال اور مستقبل سمیت اپنی ساری کائنات کا عکس دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:زندگی در زندگی سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی زندگی ایک سفر جیسی ہے۔۱۳ جنوری ۲۰۱۲ء کواپنی زندگی کے سفر میں ساٹھ برس کا ہوچکا ہوں۔سال ۲۰۰۹ء میری زندگی میں ایسی بیماریوں،دکھوں اور تکالیف کا سال بن کر آیا تھاکہ اب ان کا سوچ کر بھی حیرت ہوتی ہے ۔ میں اور میری فیملی کیسے سنگین حالات سے کیسے حوصلے اور کیسے اطمینان کے ساتھ گزرتے چلے گئے،یہ سراسر خدا کا فضل و کرم تھا۔اُسی نے ابتلا اور آزمائش میں ڈالا تھا اور اسی نے اس میں سے کامیاب و سرخرو کرکے زندگی کے سفر کو جاری رکھا ہوا ہے۔میری اہلیہ دو بار موت کی سرحدتک پہنچ گئی تھیں،اور دونوں بار ہماری پوری فیملی اللہ میاں کی منت کرکے انہیںواپس لے آئی۔دوسری بار واپسی تو ہو گئی لیکن ساتھ ہی ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز کی شرط لاگو ہو گئی۔ ہمارے خاندان میں جو عزیز و اقارب ڈائلے سز پر آئے چار سے چھ مہینے کے اندر وفات پا گئے۔ خود مبارکہ کے والد اور میرے ماموں پروفیسر ناصر احمد بھی بمشکل چار مہینے ڈائلے سز پر رہے اور پھر وفات پا گئے۔مبارکہ نے سوا سال سے زیادہ عرصہ ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز کی مشقت اٹھائی۔ اس دوران ہم نے گردوں کے عطیہ کے لیے درخواست دے دی تھی۔گردے مل جائیں تو ٹرانسپلانٹیشن کے بعد ڈائلے سز سے نجات مل جاتی ہے۔عام طور پر مطلوبہ گردوں کے ملنے میں کئی برس گزر جاتے ہیں لیکن خدا کے فضل سے مبارکہ کے لیے سوا سال کے اندر ہی اس کا انتظام ہو گیا۔ لیکن یہ انتظام بس خوشی کی ایک خبر جیسا ہی تھا۔ایک طرف ڈائلے سز والے ڈاکٹر کا کہنا تھا ایسا لگتا ہے کہ ناکارہ گردے کام کرنے لگ گئے ہیں۔ڈاکٹر نے اپنی تسلی کے لیے مختلف قسم کے ٹیسٹ شروع کرائے۔دوسری طرف فروری ۲۰۱۱ء میں فرینکفرٹ کے ڈونر ادارہ کی جانب سے فون آگیا کہ آپ کے مطلوبہ گردے مل گئے ہیں۔میں نے انہیں ڈائلے سز والے کلینک کا نمبر دے دیا اور کہا کہ ان سے بات کر لیں۔وہاں سے ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ آپ اپریل ۲۰۱۱ء تک یہ گردے ریزرو رکھیں،لیکن ہو سکتا ہے ہمیں ان کی ضرورت پیش ہی نہ آئے۔اور یہی ہوا،خدا کی رحمت ِخاص نے معجزے جیسا ہی کچھ کر دیا۔ٹرانسپلانٹیشن تو رہی ایک طرف ڈائلے سز کی بھی ضرورت نہ رہی۔ سارے ٹیسٹ صحت میں بہتری کی نشان دہی کر رہے تھے۔سوا سال سے زیادہ عرصہ ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز پر رہنے کے بعد مبارکہ کو ڈائلے سز سے نجات مل گئی۔ الحمد للہ،ثم الحمد للہ۔ ۱۱ فروری ۲۰۱۲ء کو ڈائلے سز کے بغیر ایک سال مکمل ہوگیا ہے،بغیر ڈائلے سز کے سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے۔صرف دواؤں سے ہی زندگی کا سفر جاری و ساری ہے۔۲۰۱۲ء کا آغاز اس خوشخبری کو مستحکم کرتا ہوا آیا۔
’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘۔باب:زندگی کا یادگار سفر سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاصلہ اور قربت ایک دوسرے کے لئے اسی طرح لازم و ملزوم ہیں جس طرح ایٹم کا ہر اینٹی پارٹیکل اور پارٹیکل۔ رات اور دِن۔ اہر من اور یزداں۔ اور میری بیوی اور میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔( میری بیوی اور میرے معاملے میں آپ لازم و ملزوم کی بجائے’’لازم و ملزم‘‘ سمجھیں۔ الزامات کی نوعیت وہی ہے جو یورپ میں ہر شریف شوہر کو اپنی بیوی سے سننا پڑتے ہیں)۔
انشائیہ’’فاصلے،قربتیں‘‘سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔