(نوٹ:یہ خاکہ سنڈے میگزین روزنامہ نوائے وقت میں دو قسطوں میں شائع ہواہے۔اس پر جن احباب نے دونوں قسطوں پر الگ الگ تاثرات بھیجے،انہیںان کے نام کے ساتھ ایک ہی جگہ پر ہلکا سا وقفہ دے کر شامل کیا گیا ہے۔(ح۔ق)
راحت نوید (امریکہ) آپ دونوں کی زندگی اور بھابی کی وفات کسی افسانوی محبت کی داستان سے کم نہیں۔بھابی بہت خوش قسمت تھیں جنہیں زندگی میں تو آپ کی تحریروں میں جگہ ملتی ہی رہی اور اب وفات کے بعد بھی آج تک آپ ان کی یادوں اور باتوں کو احاطۂ تحریر میں لا رہے ہیںمضمون بہت ہی خوبصورت پیرائے میں لکھا ہے۔آپ کی تحریر محض لفاظی نہیں ۔دل اداس کر دیا آپ نے۔
پروفیسر عبدالرب استاد (گلبرگہ) ماشاء اللہ، تین دَہائیوں کے بعد بھی یہ تسلسل قائم ہے۔اور سچے جذبات کا اظہار۔۔۔کیا کہنے ہیں۔اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔آمین
ڈاکٹر وسیم انجم (اسلام آباد) آپ کا مضمون بہت اچھا ہے۔۔۔۔ ماشاء اللہ، بہت خوب۔۔۔آپ نے اپنی یادوں کو خاکہ میں بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کر دیا ہے۔اس سلسلے میں بھابی بہت خوش قسمت ہیں کہ مر کر بھی امر ہو گئی ہیں۔
ڈاکٹر رضیہ حامد (بھوپال) بہت اچھی تحریر ہے۔بہن مبارکہ پر اللہ کی خصوصی رحمت تھی۔برگزیدہ خاتون تھیں۔اللہ ان کی مغفرت کرے،آمین۔اگلی قسط کا انتظار ہے۔
نعیم الرحمن (کراچی) آج صبح ہی نوائے وقت میں تحریر پڑھی تھی۔دل سے لکھی تحریر نے دل پر اثر کیا۔اللہ آپ کو لمبی زندگی عطا کرے۔آمین۔
محمود قریشی (خان پور) عجب دل فگار مضمون ہے،کیا بات ہے حیدر صاحب! ہمیں بھی ہلا کر رکھ دیا
ہانی السعید (مصر) ماشاء اللہ۔۔۔آپ کی یہ سرگرمیاں دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ریاض اکبر (آسٹریلیا) یاد کی دولت۔۔۔پڑھا ہے۔وعدہ نبھا رہے ہیں آپ۔
صادقہ یوسف (امریکہ) میں نے کل پڑھا بھی ہے اور خولہ کو بھی سنایا ہے۔ایک چیز کی مجھے حیرت ہوئی ہے،آپ نے جو لکھا نا کہ ہم دونوں نے کبھی ایک دوسرے کا جوٹھا نہیں کھایا،میرا ریکارڈ بھی آخر تک یہی ہے۔میں نے بھی کبھی نہ اُن کو اپنا جوٹھا دیا اور نہ ان کا جوٹھا کھایااور نہ ہی بچوں کا۔یہ بالکل ملتی جلتی بات ہے۔
طیبہ حنا (امریکہ) مضمون پڑھا،بہت اچھا لگا۔کئی باتیں پتہ چلتی ہیں۔کبھی اتنا رابطہ نہیں رہا لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب جانتی ہوں۔آپ دونوں کی محبت مثالی ہے۔اچھا لگا۔
امتہ النصیر راجپوت(جرمنی) ناشتہ کرنے سے پہلے خاکہ پڑھا ہے۔پڑھتی رہی اور روتی رہی ہوں
احمد حسین مجاہد (ایبٹ آباد) بہت پہلے جب آپ ایبٹ آباد میں تھے، ایک مشاعرے میں آپ سے سرسری ملاقات ہوئی تھی۔اس مشاعرے میں آپ نے اپنا کلام نہیں سنایا تھا بس خاموشی سے اپنی نشست پر بیٹحے ہوئے سب کو سن رہے تھے یا شاید یہ جتا رہے تھے کہ آپ سن رہے ہیں۔
آج آپ کے خاکے کایہ دوسرا حصہ پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگاجیسے آپ آج بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں،کوئی نظم نہ غزل۔۔بس خاموشی۔۔۔آپ ذرا نہیں بدلے۔انتیس سال بعد بھی آپ کے جذبے کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔یہ شاید بھابی کی مبارک رفاقت کا اثر ہے۔۔۔بہر طور
یہ خاکہ اور اس کا ہر لفظ اس بات کی عکاسی کر رہا ہے کہ آپ نے مبارکہ بھابی کی رفاقت میں جو وقت گزارا ہے آپ ساری زندگی اس کے سحر میں رہیں گے۔۔۔۔۔’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ کا یہ آخری حصہ بھی پڑھ لیا۔تین چڑیاں،قبر کے پھول اور پکارے جانے کی مدھم آوازیں۔۔۔یہ سب کچھ پڑھ کر دل بہت اداس ہو گیاہے۔خاکے کی روانی نے کہیں دم نہیں لینے دیا۔پڑھتا ہی چلا گیا۔دعا ہے کہ اللہ بھابی کے درجات بلند فرمائے۔آمین
ڈاکٹرقمرالنساء (گلبرگہ) اتنا تو بڑا زبردست ہے۔پورا پڑھنے کا ایکسائیٹ منٹ ہے۔پورا پڑھ کر کمنٹ کروں گی۔۔۔۔واقعی دل چھو لینے والی تحریرہے۔پھولوں کا گرنا اور چھتری کا گرنا یہ سب عام سا اتفاق لگتا ہے مگر آپ کی محبت اور جذبات کی شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس طرح اشارتاََ آپ کو روک رہی ہیں۔اپنے پاس بیٹھنے کو کہہ رہی ہیں۔۔۔لاجواب۔۔۔
عظیم انصاری (کولکتہ) بہت خوب۔۔۔ہمیشہ کی طرح آپ کی تحریر کو چھو گئی۔مبارکباد!
سعید خان ملہی (جرمنی) واہ ماشاء اللہ۔۔۔حیرت انگیز واقعات پر مبنی مضمون ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سب مناظر سامنے ہو رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔آمین۔
ثمینہ (جرمنی) ابھی پورا پڑھا،بہت زبردست الفاظ،بہت جامع اور ساتھ ہی بہت افسردہ بھی
زارا حیدر (بدین،سندھ) حیدر صاحب کے خاکے کا دوسرا حصہ پڑھا،مبارکہ حیدر کے نہ رہنے کا افسوس ہوا لیکن اس چیز کی خوشی ہوئی بہت کم مردوں میں یہ حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی شریکِ حیات کے لیے دل سے لکھیں۔حیدر صاحب نے یہ کام بخوبی انجام دے کے مثال قائم کی ہے۔اس کے لیے انہیں دلی مبارک باد!۔۔۔۔۔ماشاء اللہ۔۔۔آپ کتاب ضرور مکمل کریں گے۔ان شاء اللہ۔۔۔۔کتابی صورت کا یہ تاج محل بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔مجھے اس تحریر میں جو سب سے پیارا لگا وہ پھولوں اور چھڑی کا گرنا ہے کیونکہ ان دونوں واقعات میں جو جذبات چھپے ہیں وہ دل سے دل کو راہ والے ہیں۔کمال ہے۔
صادق باجوہ (امریکہ)
Very good article expressed personal feelings and impressive incidents in simple words..........Good memories expressed in simple but affected manner
بشریٰ ملک (جرمنی) بے حد متاثر کن،سادہ اور سچی تحریر
پرویز مظفر (برمنگھم) بہت ہی جذباتی خاکہ ہے۔
عبدالشفیق (خان پور) مضمون پڑھتے ہوئے بہت جذباتی ہوتا رہا ہوں۔ابھی تک ہوں۔
نند کشور وکرم (دہلی) آپ کا مضمون ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ پڑھا۔بہت اچھا لگا۔دل چاہا کہ آپ سے بات کی جائے مگر بدقسمتی سے میرے پاس آپ کا وٹس اپ نمبر نہیں تھا۔از رہِ کرم اپنا وٹس اپ نمبر بھیجیں تاکہ بات چیت ہو سکے۔(رابطہ ہو گیا ہے۔ح۔ق۔)
نازیہ خلیل عباسی (ایبٹ آباد) بہت خوبصورت اور سچے جذبات کا نہایت سادگی اور خلوص کے ساتھ بہترین اظہار۔۔۔بہر اچھا لکھا گیا۔جذبات کی شدت بے مثال ہے۔اللہ پاک سر حیدر کو صحت اور زندگی دے۔انسان کی یادیںایک بہت قیمتی سرمایہ ہوتی ہیںاور سر حیدرقریشی نے ان یادوں اور اپنے احساسات کو نہایت پُر اثر انداز میں قلمبند کیا ہے۔
اعظم اسماعیل (برمنگھم) جناب مضمون پڑھا۔۔۔انتہائی عمدہ پیرائے میں دلی کیفیات کا ذکر ہے جو کہ قاری کو آخری حرف تک پڑھنے کے لیے کشاں کشاں لئے جاتا ہے۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (برمنگھم)
It is an emotional writing that evoked my own grief and deep feelings and I found hard to say anything more on it.
سہیل اقبال (کینڈا) سادہ زبان اور جذبات سے بھرپور تحریر۔حیدر سر! پڑھ کر آنکھوں کے سامنے سارا منظر آگیا۔بہت خوب۔
عائشہ (لندن) Very sad but Nice.
فوزیہ محمود (جرمنی) بہت خوب،دل کو چھونے والی تحریر،اگلی قسط بھی ضرور بھیجیں۔
انیقہ (ربوہ) بہت اچھا مضمون ہے۔آپ کی امی کی ساری باتیں مجھے بہت بہت اچھی لگیں۔
خاص طور پر جمعہ کی دعا والی۔۔اور گانے والا واقعہ۔۔۔
کرن خالد(مائنٹال،جرمنی) بہت پیاری باتیں ہیں،پڑھ کر بہت اچھا لگا۔اللہ تعالیٰ ہر میاں بیوی میں ایسا ہی پیار،عزت،احترام اور اعتماد والا رشتہ بنائے۔آمین۔
افسرا راہین (بلیاری،کرناٹک)
its really a good contribution to the society by your family members.
good job sir!
ارشد خالد (اسلام آباد) حیدر صاحب کے لکھنے کا منفرد انداز ان کی تحریر میں دلچسپی کا ایک نمایاں
سبب ہے۔
امتہ الرحمن ڈولی(جرمنی) زبردست،بڑی پیاریں یادیں ہیں۔ماشاء اللہ
آنسہ حمید (لندن) بہت پیاری یادیں ہیں۔
کاشف حباب(اوکاڑہ) واہ زبردست سر! بہت خوبصورتی کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔
رشید ندیم (کینڈا) اچھا لکھا ہے،بہت اچھا لکھا ہے۔
فیصل عظیم (کینڈا) بہت شکریہ۔مضمون بہت اثر اور کیفیت سے بھر پور ہے۔
اسحاق ساجد (جرمنی) سارا مضمون ہی خوبصورتی سے لکھا گیا ہے۔آخر تک پوری گرفت میں رکھا،لیکن آخری چند الفاظ تو اس قدر خوبصورت ہیں کہ یہ بس آپ ہی لکھ سکتے تھے۔میری طرف سے اتنا اچھا اور خوبصورت مضمون لکھنے پر تعریف کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔لیکن پھر بھی اتنا تو کہوں گا۔۔دلی مبارکباد۔۔۔
ڈاکٹرجہانگیر احمد(دہلی) ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ خاکہ کا دوسرا حصہ پڑھا۔خاکہ کے نام کے ساتھ ہی
عورت کی تخلیق کا اسلامی فلسفہ ذہن میں تازہ ہو گیاکہ اللہ نے ماں حوّا کو بابا آدم کی پسلی سے پیدا
کیا تھااور اس سے جڑی باقی ساری تفصیلات بھی۔
یہ خاکہ آپ دونوں کی ازدواجی زندگی اور دونوں کا ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام کا ایک مثالی نمونہ ہے۔یہ آپ کا آپ کی اہلیہ سے جدائی کا درد بھی ظاہر کرتا ہے۔۔۔۔اچھا ہوا جو آپ نے سورہ یاسین اور سورہ صافات کی بات بتا دی۔کتنے ہی اپنی دعا میں اب یہ طریقہ استعمال کر سکیں گے۔دعا ہے کہ آپ صحت و تندرستی کے ساتھ ہزاروں سال جئیں اور ہمارے لیے یوں ہی اچھی تخلیقات قلم بند کرتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔