میری امی مبارکہ حیدر مورخہ ۲۷ مئی ۲۰۱۹ء کوجرمنی میں وفات پاگئیں۔انا لِلہ و انا الیہ راجعون۔
امی کی وفات کے بعد ابو(حیدرقریشی) نے ان کا خاکہ لکھا اور ہم پانچوں بہن بھائیوں کو پڑھنے کے لیے دیا۔ساتھ ہی کہا کہ اس میں کسی اہم کمی بیشی کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔امی کا خاکہ تو ابو نے بہت اچھا لکھا ہوا تھالیکن مجھے ایک دو باتیں یاد آئیں تو میں نے ابو کو بتایا کہ ان باتوں کو بھی خاکے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ابو نے کچھ دیر غور کرنے کے بعدکہا کہ یہ باتیں اور ایسے ہی چند اور واقعات کوملا کر آپ خود ایک مختصر سا مضمون بنا لیں۔تجویز اچھی تھی،چنانچہ امی کی چند یادیں یہاں پیش کر رہی ہوں۔
امی کی وفات سے پہلے گھر میں میرے بھائی طارق کی شادی کی تیاری چل رہی تھی۔ امی اس شادی کے سلسلے میں کافی خوش تھیں۔انہوں نے طارق کی دلہن طوبیٰ کے لیے چند جوڑے بنا کر رکھے تھے لیکن دکھائے کسی کو نہیں تھے۔امی کی وفات کے بعد جب امی کے سامان کو
دیکھنا شروع کیا توایک اٹیچی کیس گیارہ بارہ سوٹوں سے بھرا ہوا ملا۔اس میں بھاری کام والے سوٹ بھی تھے،ہلکے کام والے سوٹ بھی تھے،اور دو تین سوٹ عام پہننے والے بھی تھے۔ جیولری، جوتے، پرس وغیرہ یہ سارا سامان موجود تھا،گویاطارق کی بری کا پورا سامان تھا۔جب یہ اٹیچی کیس طارق اور طوبیٰ کے حوالے کیا گیا تو طارق زاروقطار رونے لگا کہ ماں نے میرے حصے کا سارا کام خود ہی مکمل کرکے رکھا ہوا ہے۔
جرمن حکومت کے قوانین کے مطابق طارق کی سرکاری طور پر شادی کی تاریخ پہلے سے طے تھی۔سرکاری دفتر میں جانے کے لیے ابو نے ایک سوٹ نکالا کہ یہ پہن لیتا ہوں۔لیکن جب ہینگر کو نکالاتو وہاں سوٹ کے ساتھ نئی شرٹ،ٹائی،بنیان،انڈروئیر تک سیٹ کرکے رکھے ہوئے تھے۔ہینگر کے نیچے جوتوں کا ایک ڈبہ نکلا جس میں ابو کے لیے نئے شوز اور جرابیں موجود تھیں۔ابو اپنے لباس کے معاملے میں زیادہ تردد نہیں کرتے لیکن امی نے اپنی طرف سے ان کے لیے سارے انتظام مکمل کر رکھے تھے۔
امی کو ایک زمانے میں فلمیں دیکھنے کا بہت شوق رہا۔ہم سب مل کر انڈین فلمیں دیکھتے تھے۔پھر انہوں نے انڈین ڈرامے دیکھنے شروع کیے۔۔۔لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ فلموں اور طویل انڈین ڈراموں سے بیزار ہو گئیںاور انہیںدیکھنا بالکل چھوڑ دیا اور ان کی بجائے پاکستانی ڈرامے دیکھنے لگیں ۔پاکستانی ڈراموں سے ان کی دلچسپی آخر دم تک برقرار رہی۔اس کے نتیجہ میں ہم لوگ بھی پاکستانی ڈراموں میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔پاکستانی ڈراموں کے ساتھ وہ مختلف کوکنگ شو بھی شوق سے دیکھتیں۔یوٹیوب کے آنے کے بعد تو کھانے پکانے کے نئے نئے تجربے کرنے لگیں۔امی کھانا پکانے میں ہمیشہ ماہر رہی ہیں لیکن کوکنگ شوز اور یوٹیوب کی ویڈیوز کے ذریعے انہوں نے بہت عمدہ عمدہ پکوان تیار کرنا شروع کر دئیے۔ان کی سنگین بیماریوں کی وجہ سے ہم دونوں بہنیں انہیں روکتیں کہ آپ کچن کا کام مت کریں ہم خود کر رہی ہیں مگر وہ کسی کی نہیں مانتی تھیں اور ہمیشہ مزے مزے کے کھانے تیار کرتی رہتی تھیں۔
میرے بچپن میں ایک بار گھر میں چوہا آگیا۔میں ڈر گئی اور طارق سے کہا کہ اسے مارو یا بھگاؤ۔طارق کہنے لگا میں بھی اس سے ڈرتا ہوں۔آخر امی کو جا کر بتایا۔امی ایک ڈنڈا لے کر آئیں اور پوچھنے لگیں’’کہاں ہے چوہا؟‘‘ ۔۔تب تک چوہا بھاگ گیا تھا۔پھر امی نے چوہے دانی کا انتظام کیا اور بالآخر وہ چوہا پکڑا گیا اور مارا گیا۔چوہا تو پھر چوہا ہے،خواتین کے لیے خوف کی علامت،مگر میں تو چڑیوں سے بھی ڈرتی ہوں۔امی نے گھر میں چڑیاں پال رکھی تھیں۔کبھی کبھار کوئی چڑیا پنجرے سے باہر نکل آتی تو میں ڈر کے مارے کوئی چادر لپیٹ لیتی لیکن امی بڑے آرام سے چڑیا کو پکڑ لیتیں اور پھر سے پنجرے میں ڈال دیتیں۔
امی کو اچھے کپڑے پہننے،اچھا میک اپ کرنے،میچنگ جیولری اور چوڑیاں پہننے،میچنگ جوتے اور پرس کا بھی شوق رہا۔ یہ سب مختلف تقریبات میںہمیشہ اہتمام کے ساتھ پہنتیں۔ان کی وفات پر آنے والی اور ملنے جلنے والی بہت ساری خواتین نے ان کی اس خوبی کا ذکر کیا۔دراصل امی آن لائن میک اپ کا سامان خریدا کرتی تھیں۔یہ عام مارکیٹوں میں دستیاب میٹریل سے کافی بہتر مٹیریل ہوتا تھا۔ان کی وفات کے بعد یہ میک اپ کا سامان اتنا زیادہ ملا ہے کہ ان کی بہو،بیٹیوں اور نواسی و پوتیوں کے لیے سال بھرکسی اور خریداری کی ضرورت نہیں رہے گی۔میک اپ کا اتنا سامان ہونے کے باوجود امی میں ایک عجیب بات دیکھی کہ ان کے سنگھار میز پر پاکستانی تبت پاؤڈر بھی ہمیشہ موجود رہتا تھا۔اب بھی موجود ہے۔پتہ نہیں وہ اسے استعمال بھی کرتی تھیں یا نہیں۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہ اس بہانے سے اپنے بچپن اور لڑکپن کو یاد رکھتی تھیں،جب وہ یہی پاؤڈر استعمال کیا کرتی تھیں۔
امی کی میت کو غسل دیتے وقت میں نے ان کی ناک کا کوکا اتارتے ہوئے باجی رضوانہ سے کہہ دیا تھا کہ یہ کوکا میں اب اپنے کان میں پہنوں گی۔چنانچہ وہ کوکا اب میرے کان اور میری جان کا حصہ ہے۔چار سال پہلے یہ کوکا میں نے ہی امی کی ناک میں ڈالا تھا۔
میری نانی جان ۳۲ سال کی عمر میں فوت ہو گئی تھیں جبکہ دادی جان کی وفات ۵۴ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ان کے بر عکس امی نے ان دونوں بزرگوں سے زیادہ عمر پائی۔نہایت سنگین نوعیت کی بیماریوں سے دلیری اوربہادری کے ساتھ نمٹتے ہوئے امی ۶۳ سال اور پانچ ماہ کی عمر میں فوت ہو ئیں۔مجھے امید ہے کہ اپنی وفات کے بعد میری ساڑھے تریسٹھ سال کی امی، میری ۳۲ سالہ نانی اماں اور ۵۴ سالہ دادی اماں ،یعنی اپنی امی اور ساس کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت لاہور۔مورخہ ۱۲؍جولائی ۲۰۱۹ء
اور
https://www.punjnud.com/Aarticles_detail.aspx?ArticleID=6863&ArticleTitle=Ammi%20Ki%20Chand%20Yadain