رضوانہ سے میری دوستی تقریباََ سولہ سال پرانی ہے۔رضوانہ کوثرکی امی جب بھی ان کی طرف ملنے آتی تھیں تو میری کوشش ہوتی تھی کہ میں بھی آنٹی مبارکہ سے ملنے چلی جاؤں۔آنٹی سے میرا تعلق بہت عجیب تھا۔بہت عجیب سی محبت تھی مجھے ان سے۔ایسی محبت جسے شاید کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔کچھ کہا نہیں جا سکتا۔وہ جب بھی رضوانہ کی طرف آتیں میرا جی چاہتا تھا کہ میں ضرور ان سے ملوں۔اور میں ان سے ملتی۔ان سے مل کر ہمیشہ ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا تھا۔کبھی کبھار ایسا ہونا کہ آنٹی مبارکہ نے اچانک آنا اور جلدی چلے جانا،یا کبھی رضوانہ کا مجھے اطلاع نہ دینا۔۔۔تو پھرمیں بعد میں رضوانہ سے ناراض ہوتی تھی کہ مجھے اطلاع کیوں نہیں دی تھی ۔آنٹی مبارکہ بھی مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔مجھے ان سے پیار تھا،پیار ہے اور پیار رہے گا۔میں ان سے ہر قسم کی بات بہت آسانی کے ساتھ کر لیتی تھی۔اپنے ذاتی مسائل کے سلسلہ میں بھی صلاح لیا کرتی تھی۔وہ مجھے سمجھاتی بھی تھیں۔میں تھوڑی بہت شرارتی بھی ہوں سو آنٹی سے بھی ہلکی پھلکی شرارت
کر لیتی تھی۔البتہ کبھی کسی بچے کو یا کسی اور کو کوئی گالی دیتی تو آنٹی مبارکہ مجھے سمجھاتی تھیں کہ گالیاں نہیں دیا کریں۔آنٹی مبارکہ کے ساتھ سنجیدہ مسائل پر گفتگو سے لے کر گپ شپ کرنے تک ہمیشہ ایک عجیب سا مزہ آتا تھا۔
ایک بارآنٹی بتانے لگیں کہ میں آپ کا اور آپ کے بچوں کا نام لے کر باقاعدگی کے ساتھ دعا کرتی ہوں۔ میرے لیے آنٹی کی وفات کے موقعہ پر ان کے بارے میں بات کرنا بہت مشکل ہورہا ہے۔ انکل حیدر سے بھی میرا بہت اچھا رشتہ ہے،بہت ہی زیادہ۔اچھی فیملی،بہت پیارا کپل
تھاآنٹی انکل کا۔مجھے جب بھی کوئی عجیب و غریب خواب آتا تھا تو کبھی رضوانہ کو سنا کر کہنا کہ انکل سے اس کی تعبیر معلوم کریں۔اور کبھی میں خود بھی فون پر خواب سنا کر ان سے تعبیر پوچھ لیتی تھی۔ انکل نے جب بھی میرے خواب کی تعبیر بتائی اکثر وہ صحیح ہوتی تھی۔
مجھے ابھی تک آنٹی مبارکہ کی وفات کا یقین نہیں آرہا۔وفات سے چند دن پہلے مجھے آنٹی کا فون آیا کہ ٹیپو کی شادی کی تاریخ مقررکی ہے اور آپ نے لازماََ شریک ہونا ہے۔ان دنوں میری بیٹی کچھ بیمار تھی ،چنانچہ میں نے آنٹی سے کہا کہ بیٹی بیمار ہے،ویسے کوشش کروں گی کہ شریک ہو سکوں۔اس پر کہنے لگیں کہ کوشش نہیں آپ نے لازماََ آنا ہے ،ان شاء اللہ ساری پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔بیٹی بھی صحت یاب ہو جائے گی۔آنٹی کا بات کرنے کا انداز بہت ہی خوبصورت اور پیارا تھا۔میں آنٹی کی اچانک وفات سے اتنی دکھی ہوں کہ میری امی نے بھی جب اس موضوع پر مجھ سے بات کرنا چاہی تو میں نے شدتِ غم کے باعث انہیں بات کرنے سے روک دیا۔اب پھر چند دن پہلے امی نے فون پر تعزیت کی تو وہ آنٹی مبارکہ کی تعریف کرنے لگیں۔میں نے کہا مجھے تو ان کا سلام کرنے کا انداز اتنا پیارا لگتا تھا کہ ابھی تک وہی سلام کانوں میں گونج رہا ہے۔پھر سلام کے بعد پوچھنا کہ اتنا عرصہ گزر گیا ہے،آپ کہاں ہیں؟
میں نے جب بھی اپنے مسائل کے بارے میں آنٹی سے مشورہ کیا ،انہوں نے ہمیشہ اچھا مشورہ دیا،نصیحت بھی کی اور دل جوئی بھی کی۔ایسے سارے رویوں کی وجہ سے آنٹی مبارکہ سے میرا پیار بڑھتا چلا گیا۔
بار بار پیار کے اظہار سے شاید یہ گمان کیا جائے کہ میں ایسے ہی جذباتی ہو رہی ہوں،اس لیے آنٹی مبارکہ کے ساتھ تعلق کی نوعیت ظاہر کرنے کے لیے صرف ایک مثال بتا دیتی ہوں۔رضوانہ کے ذریعے آنٹی مبارکہ سے رابطہ ہوا تو مجھے زندگی میں پہلی بارانوکھی عیدی ملی۔آنٹی نے میرے لیے سوٹ،میرے میاں کے لیے شرٹ، ہمارے دونوں بچوں کے لیے نقدی ،اور ان تحائف کے ساتھ سویّاں،چینی اور ڈرائی فروٹ۔۔۔۔یہ سب بھیجا تھا۔میں یہ ساری عیدی دیکھ کر کچھ جذباتی ہوئی ۔ آنٹی مبارکہ کو فون کرکے ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر پوچھا کہ چلیں دوسرے تحائف تو ٹھیک ہیں لیکن یہ سویّاں،چینی اور ڈرائی فروٹ کس لیے؟
اس پر آنٹی نے اپنی ہنستی مسکراتی ہوئی آواز میںکہا:مائیکے سے عید پر یہ سب کچھ ضرور بھیجا جاتا ہے ۔
آنٹی کے اس جواب کے بعد میں مزید کتنی جذباتی ہوئی یہ میں ہی جانتی ہوں۔دراصل ہمارے سارے خاندان میں عیدی دینے کی ایسی کوئی روایت نہیں رہی،اس لیے ہماری امی نے کبھی بھی کسی بیٹی کو اس نوعیت کی عیدی نہیں دی۔اب جو آنٹی مبارکہ نے پہلی بار یہ سب کچھ بھیج کر خود کو میرا مائیکا قرار دے دیا تو میں آنٹی کی محبت کی اس ڈور میں بندھ گئی جو ان کی وفات کے بعد بھی نہیں ٹوٹی۔
یہ پہلی عیدی کا قصہ تھا،پھر یہ روایت چلتی رہی اور اب اپنی وفات سے پہلے آنٹی مبارکہ نے میرے لیے اپنی روایتی عیدی رضوانہ کے حوالے کر دی تھی۔یہ عیدی آنٹی مبارکہ کی وفات کے بعدرضوانہ نے مجھے پہنچائی ہے۔اس عیدی نے دل پر کیا اثر کیا،اسے کیسے بیان کروں۔
اس پہلی اور آخری عیدی کی مثال سے آنٹی مبارکی کی شخصیت کے ہر پہلو کے بارے میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔وہ سراپا پیار اور محبت تھیں اور سچ مچ میں اپنے نام کی طرح نہایت بابرکت وجود تھیں۔وہ لوگ جو آنٹی کے قریب رہے،ان سے ملنے جلنے والے رہے،وہ سب خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے آنٹی مبارکہ کو قریب سے دیکھا،ان کی محبت سے حصہ پایا، میں ایسے خوش نصیبوں میں خود کو ممتاز محسوس کرتی ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب پسماندگان کو ہمت اور صبر دے اور آنٹی مبارکہ کو اپنی بارگاہ میں خاص مقام دے۔وہ اگلے جہان میں بھی خوش ہوں،آمین۔
میرے دل میں آنٹی مبارکہ کا جو رتبہ اور مقام ہے وہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔وہ مجھے بہت پیاری تھیں،پیاری ہیں اور ہمیشہ پیاری رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔