مبارکہ آنٹی سے اگرچہ کبھی ملاقات نہیں ہو سکی لیکن ان کا تذکرہ حیدر قریشی کی تحریروں اور گفتگو میں اس قدر رہا کہ مبارکہ آنٹی سے اجنبیت جیسے تھی ہی نہیں۔اکثر سوچتی تھی کہ مبارکہ آنٹی کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ان کے شریک حیات ان سے نہ صرف اس قدر محبت کرتے ہیں بلکہ اس محبت کے اظہار میں بھی بالکل بخل سے کام نہیں لیتے۔ایک بار فرحت نواز صاحبہ سے یونہی برسبیل تذکرہ مبارکہ آنٹی کے حوالے سے کوئی بات ہوئی،بات تو یاد نہیں رہی لیکن جس چاہت سے انہوں نے مرحومہ کی تعریف کی میرے دل میں ان کے لیے عزت اور محبت مزید بڑھ گئی۔
ایک بار جب میں مقالے کے سلسلے میں حیدرقریشی سے بہت سے سرائیکی جملوں؍الفاظ کا اردو ترجمہ پوچھنا چاہ رہی تھی اور قدرے لحاظ اور مروت کے اپنی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے حیدر صاحب نے اس وقت بات کرنے سے انکار کر دیا اور وجہ طبیعت کی اکتاہٹ نہیں بلکہ بیٹی اور بیٹی کے بچوں کی اس شام کو متوقع آمد بتائی۔اور پھر کچھ دیر بعد حیدر قریشی کے کئی سالوں سے زیر استعمال ٹیبلٹ گر کر ٹوٹ گیاتو مبارکہ آنٹی نے نہایت ہلکے پھلکے خوشگوار موڈمیں اس نقصان کی وجہ مجھ سے کیے جانے والے بہانے کو قرار دے دیا۔یہ تمام تفصیل مجھے بعد ازاں سر حیدرقریشی نے ہنستے ہوئے اور مبارکہ آنٹی کی موجودگی میں اور انہیں کے کہنے پر بتائی۔اس بات سے مجھے ان کی شخصیت کی صداقت،صاف گوئی اور اخلاص کا اندازہ ہوا۔تب میں نے حیدر قریشی کو از راہ مذاق کہا کہ سر دیکھ لیں پھر میں کتنی پہنچی ہوئی شخصیت ہوں۔
جب رمضان المبارک کے مہینے میں مجھے وٹس ایپ گروپ ’’سوال پوچھنا مشکل کیوں ہے؟‘‘میںیہ خبر پڑھنے کو ملی کہ فجر کی نماز کے وقت مبارکہ آنٹی کا انتقال ہو گیا ہے تو یہ خبر میرے لیے انتہائی افسوس ناک تھی۔تعزیت کے لیے الفاظ کا انتخاب کرنا مشکل لگ رہا تھا۔بہر حال ایک تعزیتی نوٹ تو لکھا مگر افسوس اور غم کی وجہ سے کسی پل قرار نہیں تھا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ حیدرقریشی صاحب پراللہ پاک اپنا خصوصی کرم اور فضل فرمائے۔آمین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔