شبِ اوّل کی وہ محجوب سی
اک اوّلیںساعت
تبسّم زیرِ لب
جب گنگناتی خامشی
اک گیت بن کر جسم میں اتری!
پھر اک مدھم ہنسی،مدہوش سرگوشی
مجسم گیت بن کروہ چہکتا
گیت گاتا اک پرندہ
پھول اور کلیاں
خزاں ناآشنا کھِلتی بہاریں، زندگی!
زندگی
پھر زندگی کی رُوح سے لبریز چہکاریں
جو گاہے کھلکھلاتیں، شور ہنگامہ بپاکرتیں
جو گاہے جھینپ بھی جاتیں
جواں، سرسبز جسموں کی مہک
شادابیاں
وہ روح کی پاتال تک سیرابیاں!
سرشاریاں
شاداب اور سیراب جسم وجان سے چھلکیں
توآنگن میں بہاریں اور چہکاریں
دمک اٹھیں
ستارے، پھول، کلیاں
خوشبوئیں اور روشنی …روشن
شرارت، کھیل، جھگڑا اور
صلح وآشتی، پھر آشتی کے ساتھ ہی جھگڑا
کتابیں، کاپیاں، پنسل، قلم اور ہوم ورک
اتنے شرارت سے بھرے چہروں پہ ایسانُور
یہ معصومیت ،پاکیزگی
گنگناتے، کھنکھناتے، جگمگاتے قہقہے
زندگی ہی زندگی
بارہ برس اور چھ مہینے
آج پورے ہوگئے ہیں اپنی شادی کو!