ہوا سفاّک لہروں کی طرح
یخ بستہ تِیروں سے مسلسل حملہ آور ہے
میں اپنے بند کمرے میں مسہری پر
رضائی لے کے بیٹھا ہوں
مِری بیوی مِرے پہلو میں بیٹھی ہے
شعیب، عثمان، ٹیپو، مانو، رضوانہ‘
ہمارے سامنے
پہلو بہ پہلو دائرے کی شکل میں بیٹھے
ہماری مُورتیں ہم کو دکھاتے ہیں
ہمارا گمشدہ بچپن ہمارے سامنے
ان پانچ رنگوں میں چہکتا ہے
ہوا سفاک لہروں کی طرح
یخ بستہ تیروں سے مسلسل حملہ آور ہے
کبھی تیروں کی اک بوچھار سی
جب بند دروازے پہ پڑتی ہے تو بچے
ایک لحظے کے لئے خوف اور حیرت سے
ہمارے منہ کو تکتے ہیں
اور اپنے آپ ہی پھر کھلکھلا کر ہنس بھی پڑتے ہیں
اگر اس وقت پھاگن کی ہوا سفاّک نہ ہوتی
تو میں اس بند کمرے میں
حَسیں بچپن کے ایسے جگمگاتے
اور سہانے دن کہاں پاتا
جہاں گردی کے چکر میں
ہمیشہ کی طرح کھویا ہوا ہوتا
یہ پھاگن کی ہوا سفاک بھی ہے مہرباں بھی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔