۔۔۔۔۱۹۹۱ء کے وسط میں مبارکہ اور ہمارے تین بچوں رضوانہ، ٹیپو، مانوکا جرمنی پہنچ جانا ہم سب کے لئے بیک وقت خوشی اور پریشانی کا موجب تھا۔ خوشی اس لیے کہ یورپ کے دروازے ہمارے خاندان کے لئے کھُل رہے تھے، پریشانی اس لئے کہ میں اور دونوں بڑے بیٹے شعیب اور عثمان، ہم تینوں پاکستان میں تھے۔ ظاہری حالات کے لحاظ سے ہمارے جرمنی پہنچنے کا ابھی کوئی امکان دکھائی نہیں دیتاتھا۔ یوں گویا ہمارے خاندان کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا خطرہ موجود تھا۔ لیکن پھر خدانے کرم کیا۔ ایک طوفانی لہرآئی۔۔۔۔۔ ہم تینوں باپ، بیٹے اس طوفانی لہر میں بالکل بے دست و پا تھے۔ اور پھر یوں ہواکہ طوفان کی زد میں آئے ہوئے باپ بیٹوں کا سہارا ان کا خدا بن گیا۔ دنیاوالوں کے دیکھتے ہی دیکھتے ہم بے آسرا لوگ یونائیٹڈ نیشنز کے ادارہ برائے مہاجرین کے اس شعبہ کے تحت جرمنی پہنچ گئے جو بچھڑے ہوئے خاندانوں کو ملاتاہے۔ جو لوگ تین تین لاکھ روپے ایجنٹوں کودے کر چوری چھُپے جرمنی پہنچے تھے اور یہاں سیٹ ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے انہوں نے دیکھاکہ یہ تین افراد اس شان سے جرمنی پہنچے ہیں کہ ان کے لئے ٹکٹ UNHCRنے فراہم کیا، ویزہ خود جرمن حکام نے دیااور فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر یونائیٹڈ نیشنز کی ایک نمائندہ نے آکر انہیں ریسیو کیا۔
جو کوں راکھے سائیا ںمار سکے نہ کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔جرمنی پہنچنے کے بعد نہ صرف مجھے خدا کے فضل و کرم سے قانونی تحفظات مل گئے بلکہ میرے کیس کی بنیا دپر مبارکہ اور بچوں کا کیس بھی منظور کرلیاگیاجو تین برسوں سے لٹکاہوا تھا۔ ان تحفظات کے علاوہ بھی خدا کے فضل اور احسانات کی ایک پھوار تھی (اور اب بھی ہے) جس نے ہماری زندگی کے صحراکو سیراب کردیاتھا۔ ان سارے احسانات کی شکر گزاری کے لئے میرے اور مبارکہ کے درمیان طے ہواتھاکہ ہم دونوں مکہ شریف اور مدینہ شریف جائیں گے۔ عمرے کی سعادت حاصل کریں گے، مقامات مقدّسہ کی زیارت کریں گے۔ دسمبر ۱۹۹۵ء میں جانے کا ارادہ تھالیکن اس سے دوماہ پہلے میرے چھوٹے بھائی اعجاز نے ایک بھاری رقم بطور قرض مانگ لی۔ میں شش و پنج میں تھا، مبارکہ نے کہا ہماری عمرہ کرنے کی نیت پکی تھی۔ خدا نیتوں کا حال جانتاہے۔ آپ اپنے چھوٹے بھائی کی ضرورت پوری کردیں۔ خدا کو ہماری نیکی پسند آگئی تو اس سال نہ ہوسکنے والے عمرہ کو بھی قبول فرمالے گا اور اگلے برس سچ مچ عمرہ کے لئے جانے کے وسائل بھی عطاکردے گا اور جانے کی توفیق بھی بخش دے گا۔ چنانچہ میںنے مبارکہ کے کہنے پر عمل کیا اور ا سکی نیت کے مطابق دسمبر ۱۹۹۶ء میں ہمیں عمرہ پر جانے کی سعادت نصیب ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفارت خانے میں ویزہ کے حصول کے لئے جب کاغذات جمع کرائے تو ایک دو اَڑ چنیں بیچ میں آگئیں۔ جرمنی میں ہر انسان کی نجی زندگی کا احترام کیاجاتاہے۔ پاسپورٹ پر نہ تو کسی کی ولدیت لکھی جاتی ہے اور نہ مذہب کا کوئی خانہ ہوتاہے۔ میاں بیوی کے پاسپورٹوں پرایک دوسرے کانام اسی صورت میں لکھاجاتاہے جب دونوں کے کیس منظور شدہ ہوں۔میرا پاسپورٹ جب بناتھا تب مبارکہ کاکیس منظور نہیں ہواتھا اس لئے میرے پاسپورٹ پر اس کا نام درج نہیں ہوسکا۔ جب مبارکہ کا کیس منظور ہوگیاتب اس کے پاسپورٹ میں اتفاقاً میرا نام درج ہونے سے رہ گیا۔ ہمارے لئے یہ کوئی اہم مسئلہ بھی نہیں تھا۔۔۔۔ لیکن اب سفارت خانۂ سعودی عرب والوں کا مسئلہ یہ تھاکہ ہم دونوں کومیاں بیوی کیسے ماناجائے۔ہمارا نکاح فارم تو ۱۹۷۳ء میں خانپور میں آنے والے قیامت خیز سیلاب میں بہہ گیاتھا اور نکاح نامہ کاثبوت تو میں یو۔این۔او والوں کو بھی فراہم نہیں کرسکاتھا۔ پاسپورٹ پر بے شک اندراج نہیں تھا لیکن جرمن حکام نے ہمیں میاں بیوی مان لیاتھا۔ سعودی سفارت خانہ والوں سے میں نے کہا کہ ہمارے پانچ بچے ہیں اور اب وہی ہمارا نکاح نامہ ہیں۔ کہنے لگے چلیں ان بچوں کے کاغذات دکھادیں۔میں نے کہا اگر مجھے اس الجھن کاعلم ہوتا تو پانچوں بچوں سمیت کاغذات لے کرآتا۔ میرا خیال ہے میرے لب و لہجے سے انہیں اندازہ ہوگیاہوگاکہ ہم میاں بیوی ہیں وگرنہ اتنا بڑا مسئلہ اتنی آسانی سے حل نہ ہوتا۔ سفارت خانہ کے متعلقہ افسر نے کہا دوپہر دوبجے کے بعد آکر ویزہ لے جائیں۔ سوہم اطمینان سے بون شہر میں گھومنے پھرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔پہلے رائن دریا کے اِدھر والے کنارے پر گئے۔ وہاں سے حدِ نگاہ تک آنے والے سارے مناظر کو زاویے بدل بدل کر دیکھا، وہیں’’ ناشتہ کم لنچ‘‘ کیا۔ اس کے بعد مارکیٹوں کے چکر لگانے لگے۔ تھوڑی بہت خریداری کرلی۔ ڈیڑھ بجے تک ہم لوگ واپس سعودی سفارت خانے پہنچے۔ پونے دو بجے متعلقہ آفس سے رجوع کیا۔ مقررہ وقت دوبجے سے پہلے ہی ہمیں ویزہ مل گیا۔ خدا کا شکر اداکیا اور خوشی خوشی گھر لوٹ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاز اُڑنے لگاتو د ل کی عجیب سی حالت ہوگئی۔ ہوائی سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ سفر کے رُخ کی وجہ سے۔ پھر جب (غالباً)پائلٹ نے اُڑان بھرنے کے ساتھ ہی دعاء السفر پڑھنی شروع کی تو اسپیکر سے نشر ہوتی ہوئی اس دعا کے الفاظ نے ایسا اثرکیاکہ مجھے لگامیری روح جسم سے الگ ہوکر مگر میرے ساتھ ساتھ پرواز کررہی ہے۔مجھ جیسا گناہ گار ربِ کعبہ کے گھر حاضری دینے جارہاتھا۔ کہاں میں کہاں وہ مقام اللہ اللہ! بے اختیارہونٹوں سے تسبیح و تحمید ہونے لگی۔۔۔۔۔۔ یہ کیفیت اس وقت ٹوٹی جب مبارکہ نے بتایاکہ اس کی طبیعت خراب ہورہی ہے۔ اصل میں حرمین شریفین جانے کی خوشی میں مبارکہ نے صبح کا ناشتہ نہیں کیاتھا۔ ایئرپورٹ تک پہنچنے کے چکر میں دوپہرکاکھانا بھی رہ گیاتھااور اب اسے بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔ ائیرہوسٹس کو بلاکر اس صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس نے کہااگر گھبراہٹ زیادہ ہے تو فوری طورپر کوئی جوس لادیتی ہوں ورنہ آدھے گھنٹہ تک کھانا لے آتی ہوں۔ سو پہلے جوس آگیا۔ پھر کھانا۔۔۔ اور مبارکہ کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔
سوئے حجاز۔’’ارادے سے روانگی تک‘‘،سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طواف اور سعی سے فارغ ہونے کے بعد میں نے مبارکہ کو بتایاکہ حطیم میں ہم پہلے بھی نوافل اداکرچکے ہیں لیکن آج ہم ایک سنّت پر عمل کرنے کا ثواب بھی حاصل کریں گے پھر میں نے اسے بتایاکہ ایک بار حضرت عائشہؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھناچاہتی ہیں تب حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں حطیم میں لاتے ہوئے ارشاد فرمایایہاں نماز پڑھ لیں کیونکہ حطیم بھی کعبہ کا حصہ ہے۔ یہ بات کہہ کر حضورؐ نے پھر ارشاد فرمایا: نیا نیا ایمان لانے کے باعث اگر مجھے اپنی قوم کے ابتلاکاڈرنہ ہوتاتو میں کعبہ کی عمارت کو گراکے پھر سے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیرکراتا۔ یہ بتاکر میں نے سنتِ رسولؐ کی پیروی میں مبارکہ کا ہاتھ پکڑا اور اسی طرح اسے لے کر حطیم میں داخل ہوا۔ یہاں ہم نے نوافل اداکئے۔ خدا کے احسانات کی شکرگذاری کی، دلی دعائیں کیں حطیم والی طرف خانہ کعبہ کی جو دیوار ہے اس سے بہت سارے لوگ چمٹے ہوئے تھے۔ یکایک مجھ پر منکشف ہواکہ۔۔۔۔۔ یہ سامنے والی دیوار توصرف ظاہری پردہ ہے وگرنہ میں جو حطیم میں بیٹھاہواہوں
در حقیقت خانہ کعبہ کے اندر ہی بیٹھا ہواہوں۔ عجیب لذّت آفریں اسرار تھا کہ میں بیک وقت کعبہ کے اندر بھی تھا اور باہر بھی۔ یہ داخلیت اور خارجیت کی بحث تو بس ایسے ہی ہے۔ اس انوکھے تجربے نے مجھے احساس دلایاکہ ہمارا باہر بھی ہمارے اندرکا ایک حصہ ہے۔ لیکن پھر اسی بھید کاایک اور مرحلہ بھی مجھ پر منکشف ہوا۔
ظاہر،باطن عین ایانی، ہُوہُوپیاسنیوے ہوُ
سلطان باہوکے اس عارفانہ تجربے جیسی ہی کوئی بات تھی لیکن میرے لئے ناقابلِ بیان ہے۔
۔۔۔۔۔۔حطیم سے باہر آئے تو اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے مبارکہ نے کہا حضرت عائشہؓ کی حطیم میں نماز پڑھنے والی روایت سے مجھے یاد آیاہے کہ جب حجاج بن یوسف نے کعبہ کی ابراہیمی بنیادوں والی عمارت کو گراکر اسے پھر موجودہ بنیادوں پر تعمیر کرادیاتب کسی نے حجاج کو اس روایت سے آگاہ کیا۔ تب حجاج بن یوسف نے افسوس کیا اور کہاکہ مجھے پہلے سے اس کا علم ہوتا تو عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر کرائی ہوئی ابراہیمی بنیادوں کو ہرگز نہیں چھیڑتا، ویسے ہی رہنے دیتا۔ مبارکہ کی اس بات کے جواب میں تب میں نے کہاکہ حجاج بن یوسف کے سامنے مسئلہ ابراہیمی بنیادوں کا تھاہی نہیں۔ ان کے سامنے تو مسئلہ یہ تھاکہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے لئے کوئی یادگار کریڈٹ رہنے نہیں دیناچاہتے تھے۔ان کا مسئلہ ان کے اپنے اقتدارکے استحکام کا تھا۔ اگر حجاج بن یوسف کو حضورؐ کی روایت کااتنا ہی پاس تھاتوایک بار عمارت گرانے کے بعد دوسری باربھی گراکر ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیرکرالینے میں کیا پریشانی تھی؟۔۔۔۔۔ یہ میرے ذہن تاثر تھالیکن میرا دل مجھے کہہ رہاتھاکہ حجاج کی نیت کا معاملہ خداپر چھوڑو۔ یہ دیکھو کہ اگر حجاج نے ایسانہ کیاہوتاتو تم نے کعبہ کے باہر بیٹھ کر کعبہ کے اندر بیٹھنے کا روحانی تجربہ کیسے کیاہوتا!
سوئے حجاز۔’’تیسرا عمرہ‘‘ ،سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔جنت المعلّیٰ کے کھلے میدان میں(اسے قبرستان کی جگہ اب میدان ہی کہناچاہیے) میں نے کھڑے ہوکرسارے بزرگوں کے لئے دعاکی اور باہر نکل آیا۔ یہاں خواتین کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔صرف طوافِ کعبہ اور سعی کے دوران عورتیں اور مردیک جاہوتے ہیں۔ تب روحانیت کے ساتھ انسانیت بھی معراج پر ہوتی ہے۔ کوئی فرقِ من و تو نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی نماز کی اذان ہوتی ہے پُلسئے خواتین کو الگ سائڈ پر ہانکنا شروع کردیتے ہیں۔ میں قبرستان سے باہر آیا تو مبارکہ مغموم سی کھڑی تھی۔ میں نے اسے دلاسہ دیااور بتایاکہ میں اندرکاحال دیکھ کرزیادہ مغموم ہوا ہوں۔
سوئے حجاز۔’’مکہ کے تاریخی مقدس مقامات‘‘ ،سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔کعبہ کاالوداعی دیدارکیااور پھر اپنے ہوٹل میں چلے گئے۔ وہاں جاکرمبارکہ نے امانت خانے سے سامان نکلوایااور میں ٹیکسی والے کو لے آیا۔۔۔۔ اب ہم جدّہ کی طرف جارہے تھے۔ رات پونے دس بجے تک ہم جدہ ائیرپورٹ پر پہنچ گئے۔ ۱۰بجے تک سامان بُک کرادیا۔ ہماری فلائیٹ رات ایک بجے کی تھی۔سوگذرے ہوئے بابرکت دنوں کو اور ان دنوں کے مناظراور واقعات کویادکرنے لگے۔۔۔۔ ایسے واقعات جوہوکر گذر بھی چکے تھے لیکن جدہ ائیرپورٹ پر ہی خواب جیسے لگنے لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔جہاز اڑنے لگاتو مبارکہ کی طبیعت پھر بگڑنے لگی۔ پچھلی بارتو بھوک لگنے کا مسئلہ تھالیکن اس بار تو بھوک بالکل ہی نہیں تھی۔ مبارکہ نے ’’السعودیہ‘‘ والوںکا کھانابھی نہیں کھایا۔ صرف جوس پر گذارا کیا۔ جہاز میں بہت سارے گورے سوار تھے۔ یہ سب کے سب روم میں اترنے والے تھے۔ ۲۵؍دسمبر کو کرسمس منانے کے لئے ابھی سے ویٹی کن سٹی کے لئے جانا شروع ہوگئے تھے۔ ہمارا جہاز روم کے ایئرپورٹ پرایک گھنٹے کے لئے رُکااور پھر ہم فرینکفرٹ پہنچ گئے۔ایئرپورٹ کے مراحل سے گذرکربخیر وخوبی باہر آئے۔ ٹیکسی لی اور پندرہ منٹ کے بعد ہم اپنے گھر، اپنے بچوں کے پاس پہنچ گئے۔ فاالحمدللہ علیٰ ذلک۔
سوئے حجاز۔’’مکہ مکرمہ میں آخری دن اور جرمنی واپسی‘‘ ،سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حج کا سفر۔۔۔سال ۲۰۰۳ء
۔ ۲؍فروری اتوار کے روز ساڑھے نو بجے کی حج فلائیٹ سے روانہ ہوئے۔۳؍فروری کو علی الصبح سعودی عرب کے وقت کے مطابق ۵ بجے جدہ پہنچے۔جدہ ائر پورٹ پر بد انتظامی کی انتہا تھی۔ بے شک حج کے ایام میں رش بہت زیادہ ہوجانے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور کہیں نہ کہیں کوئی انتظامی کوتاہی رہ جاتی ہے۔لیکن یہاں تو دیدہ دانستہ بد انتظامی کے مناظر تھے۔ میں اس سفر کی روداد کے آخر میں سعودی انتظامیہ کے لئے ایک دومشورے لکھوں گا۔اگر ان پر غور کرکے عملدرآمد کی کوئی صورت نکل آئے تو اچھی بات ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔جدہ ائرپورٹ سے باہر نکلنے تک افراتفری،بد نظمی کے کئی مرحلوں سے گزرے۔باہر آئے تو ہمارا سامان ایک بڑے ٹرالے پر لاد کر کسی انجان سمت لے جایا جانے لگا۔پھر ایک ٹرمینل پر لے جا کرسارا سامان ڈھیر کر دیا گیا۔در اصل حج کے سلسلہ میں سعودی حکومت نے گروپ کی صورت میں آنے والوں کو ترجیح دے رکھی ہے جو حکومت کے لئے خاصا منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے۔ انفرادی اور ذاتی طور پر آنے والوں کی حوصلہ شکنی کا بطور خاص انتظام کر رکھا ہے تاکہ لوگ صرف حج گروپس کی صورت میں آئیں اور سعودی حکومت کے خزانے میں اضافہ کا موجب بنیں۔آگے چل کر پوری طرح اس بات کی تصدیق ہوتی گئی کہ ایک دینی فریضہ کی ادائیگی کو ’’خادمین الحرمین الشریفین‘‘کی قائم کردہ وزارت حج کی جانب سے باقاعدہ کمرشیلائز کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔وہاں سے واپس اس ٹرمینل تک آئے جہاں ہمارا سب کا سامان ڈھیر تھا،تودیکھا کہ مبارکہ اکیلی کھڑی رو رہی ہے ۔سارا سامان غائب ہے۔پتہ چلا کہ وہ ٹرمینل کے ساتھ منسلک باتھ روم تک گئی ہے اور تین منٹ کے اندر سارا سامان غائب ہو گیا ہے۔وہاں گروپ حج والے بھی موجود تھے۔وہ جانے لگے تو ان کے سامان کے ساتھ ہمارا سامان بھی چلا گیا۔یہ گروپ والوں میں سے کسی کی بد نیتی تھی یا سعودی انتظامیہ کی بد انتظامی تھی،خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
۔۔۔۔۔دو بھرے ہوئے اٹیچی کیس اور ایک بڑا بیگ، لے جانے والے سب کچھ ہی لے گئے۔ اب فہد عمرہ سروس والوں کی سروس کا کیا کرتے ،سامان کی فکر دامنگیر ہوئی۔تشویش والی سب سے اہم بات یہ تھی کہ بلڈ پریشر اور شوگر چیک کرنے والے ہمارے سارے آلات بھی اس سامان میں تھے اور ہماری بیماریوں کی دوائیں بھی اس سامان میں تھیں۔میرا مسئلہ شوگر کی ایک گولی تک تھا لیکن مبارکہ کو بیک وقت سات آٹھ گولیاں دن میں دو تین بار لینا ہوتی ہیں۔اور ہر گولی بہت ضروری ہوتی ہے۔سارا سامان غائب ہونے کے باوجود یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ مبارکہ کا پرس اس کے کندھوں پر تھا۔پرس میں ہماری ساری سفری دستاویزات اور ایک معقول رقم موجود تھی۔اسی لئے مجھے سامان کی اتنی فکر نہیں تھی البتہ دواؤں کے سلسلے میں پریشانی ضرور تھی کہ کیا بنے گا۔
سوئے حجاز۔سفرِ حج سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔صبح پانچ بجے جدہ ائر پورٹ پر پہنچنے کے بعد سے لے کر اگلے پندرہ گھنٹے تک ہم مسلسل ائر پورٹ پر خوار ہوتے رہے ۔اس خواری کی وجہ یہی تھی کہ ہم حج گروپ کے ساتھ نہیں تھے اور ذاتی طور پر آنے والوں کو جان بوجھ کر خوار کیا جا رہا تھا۔ ہر طرف سے پریشانیوں کا سامنا کرنے کے بعد آخربغیر سامان کے مکہ میں اپنے مقررہ ہوٹل تک پہنچے ۔پندرہ گھنٹے سے زائد کی پریشانی، تھکن اور کوفت کے باوجودہوٹل میں اپنا کمرہ سنبھالنے کے بعد سیدھا خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے حرم شریف روانہ ہو گئے۔حرم شریف پر نظر پڑتے ہی ایسے لگا جیسے ساری تکالیف کی قیمت وصول ہو گئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۴؍فروری(۳ ذی الحجہ ) کو ہم نے فجر کی نماز کے بعد پہلے ناشتہ کیا۔پھر ہوٹل میں جا کر آرام کیا۔ظہر کی نماز حرم شریف میں ادا کی۔پھر کچھ خریداری کرنے نکلے۔وہاں پاکستانی طرز کے لباس نہیں مل رہے تھے۔مجبوراََ عربی ملبوسات پر گزارا کرنا پڑا۔واپس آکر جب ہم دونوں نے عربی لباس پہن کر انہیں چیک کرنا چاہاتو عربی لباس میں ملبوس ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔میں تو ہنستا ہی رہا لیکن ہنستے ہنستے مبارکہ کی آنکھوں میں نمی سی آ گئی۔اسے سامان کی گمشدگی کا بہت دکھ تھا۔میں نے اسے تسلی دی کہ پرانے زمانے میں لوگ بہت تکالیف اور دکھ اٹھا کر مکہ پہنچ پاتے تھے۔سو طرح کی بیماریوں سے گزرتے ہوئے ،دوران سفر ہی ان کے قافلے کئی مصائب میں مبتلا ہوتے۔خود عرب بدو ان کے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ہم ہوائی جہاز سے بڑے آرام سے آئے ہیں۔صرف سامان غائب ہو اہے تو یہی سمجھ لیں کسی عرب بدو نے لوٹ لیا ہے۔اگر وہ سارا سامان موجود ہوتا لیکن صرف آپ کا پرس گم ہو جاتا تو ہم کتنی بری حالت میں ہوتے؟ اس پرس میں اتنی رقم ہے کہ ہم ویسے ہی تین بیگ اور ویسے ہی سامان سے دوگنا سامان آسانی سے خرید سکتے ہیں۔
۔۔۔۔ ۴؍فروری کوخانہ کعبہ کی زیارت کی تو منظر بہت بدلا بدلا سا لگا۔غلافِ کعبہ کو اس کے اصل مقام سے شاید اندازاََ ڈیڑھ دو میٹر اونچا کر دیا گیا تھا اور اس کے نیچے سفید لٹھا قسم کا کپڑا سلائی کر دیا گیا تھا۔یہ صورت دیکھ کر دل کو دھچکا سا لگا ۔ کعبہ شریف غلاف میں اس ردو بدل کے باعث پھیکا پھیکا سا لگ رہا تھا۔حطیم کی روشنی بھی بجھی بجھی سی تھی۔پتہ نہیں یہ عالمی صورتحال پر خانہ کعبہ کی اداسی کا منظر تھا یا ویسے ہی میرے اپنے اندر کی اداسی تھی۔ویسے یہ بات مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ بہت زیادہ عقیدت مند حجاج ،حج کے رش سے فائدہ اٹھا کر غلافِ کعبہ کے ٹکڑے قینچی سے کاٹ کر گھروں میں تبرک کے طور پر لے جاتے رہے ہیں(چوری کیا ہوا تبرک؟)۔غالباََ اسی وجہ سے حکومت نے حفاظتی تدبیر کے طور پرغلافِ کعبہ کو اونچا کردیا تھا۔یہ مناسب تدبیر تھی لیکن اس تبدیلی سے یوں لگتا تھا جیسے دل اور کعبہ دونوں ہی اداس ہیں۔
۔۔۔۔۔مغرب کی نماز کے بعد ہم حرم شریف سے نکل کر اپنے ہوٹل کی طرف جانے لگے تو مسلسل بڑھتے ہوئے رش میں پھنس گئے۔حجاج کی آمد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا،سڑکوں پر کپڑا بچھا کر سامان بیچنے والے موجود،سڑک پر بے ترتیب ٹریفک کا ہجوم اور تنگ سڑکیں۔۔۔نماز کے بعد حرم شریف سے نکلنے والے حجاج کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ ہم دونوں اس میں پھنس کر رہ گئے۔میں مبارکہ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک تیز ریلا آیا جس میں ہم دونوں تنکے کی طرح بہہ نکلے۔مبارکہ کی حالت اتنی غیر ہو گئی کہ شارع خالد بن ولید پر واقع ایک دوکان’’تسجیلات الاسلامیہ الخلفاء‘‘کے تھڑے پر کھڑے ایک صاحب نے پہلے مبارکہ کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے اور پھر اسے کھینچ کر دوکان کے اندر کر لیا۔میری بھی جان میں جان آئی۔دوکان کے تھڑے پر چڑھے تو دیکھا وہاں پہلے سے ایسی چند اور خواتین بھی پناہ گزین تھیں اور بری طرح ہانپ رہی تھیں۔در اصل اس ایریا کا ہمارا سابقہ تجربہ عمرہ کے عام دنوں کا تھا ،ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ حج کے دنوں میں رش کی وجہ سے ایسی خوفناک صورتحال بھی پیش آ سکتی تھی۔اس تجربہ کے بعد ہم نے یہ احتیاط شروع کر دی کہ نماز کے بعد لگ بھگ ایک گھنٹہ تک حرم شریف کے اندر ہی بیٹھے رہتے تاکہ رش کا زور ٹوٹ جائے۔
سوئے حجاز۔سفرِ حج سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔رات بارہ بجے کے بعد ۹ فروری(۸ ذی الحجہ) کی تاریخ شروع ہو چکی تھی۔جب منیٰ کے لئے ہماری روانگی ہوئی ۔منیٰ خیموں کا عالی شان شہر بنا ہوا تھالیکن جاتے ہی پہلی خرابی یہ ہوئی کہ بس ڈرائیور نے ہمیں ہمارے کیمپ 39-B کی بجائے نمبر39 پر اتار دیا۔ وہاں پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔مبارکہ کی طبیعت بگڑنے لگی ۔وہ تھک ہار کر سڑک کے کنارے پر ہی بیٹھ گئی۔آخر ایک ویگن آئی اور ہمیں اصل ٹھکانے پر لے گئی ۔ بس میں بیٹھے ہوئے دور سے خیموں کو دیکھ کر مجھے لگا تھا کہ ان کے اندر مجھے گھٹن ہو سکتی ہے۔لیکن نہ صرف خیمے بے حد کشادہ تھے بلکہ ان کے اندربڑے بڑے ائر کنڈیشنڈ لگے ہوئے تھے۔گھٹن کی بجائے سردی لگنے لگی۔ خواتین کے خیمے الگ تھے اور مردوں کے الگ۔تاہم رابطہ کرنے میں زیادہ دقت نہیں تھی۔مبارکہ کو اتنی زیادہ ٹھنڈ لگ رہی تھی کہ اس کے کہنے پر میں نے خود اس کے خیمے میں جا کر اس کا ائر کنڈیشنڈ بند کیا۔پھر بھی صبح تک مبارکہ کی حالت کافی خراب ہو گئی۔چنانچہ ڈاکٹرکو بلانا پڑا۔ایک ایمبو لینس آئی۔وہیں پر مبارکہ کی دیکھ بھال کی گئی اور پھر وہ لوگ دوا دے کر رخصت ہوئے۔ ۹؍فروری کا سارا دن منیٰ میں اپنے اپنے خیموں میں نمازیں،نوافل کی ادائیگی کرتے،تلاوت قرآن پاک کرتے اور دعائیںکرتے ہوئے گزارا۔
۔۔۔۔اگلے روز ۱۰ ؍فروری(۹؍ذی الحجہ)کو صبح سویرے ہی عرفات کے لئے روانگی ہوئی۔وقوف عرفات حج کا رکنِ اعظم ہے۔یہاں حج کا خطبہ ہوتا ہے اورمسجد نمرہ میں خطبہ عید ہوتا ہے اور اس سے ملحق بڑے میدان میں نماز باجماعت کے ساتھ اپنے اپنے گروپوں میں نماز با جماعت کا انتظام ہوتا ہے۔ہم نے اپنے ہی گروپ میں نماز با جماعت پڑھی۔(یہاں گروپ سے مرادصرف یہ ہے کہ ہم جس حصے میں مقیم تھے وہاں کے سارے لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی)شام ہونے کے بعد یہاں سے مزدلفہ کے لئے روانگی ہوئی۔یہ ایک کھلا میدان ہے۔ یہاں بے سروسامانی کی حالت میں کسی چھت کے بغیر اور مرد ،عورت کی کسی تفریق کے بغیر جہاں جگہ ملے وہاں رہ کر پوری رات عبادت میں گزارنی ہوتی ہے۔لاکھوں لوگوں کا ہجوم یکجا ہوا تو گردو غبار بھی بہت زیادہ بڑھ گیا۔روایت ہے کہ مزدلفہ میں جو کوئی ساری رات جاگ کر دعا مانگتا رہے ،اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔حقیقتاََ دن بھر میدانِ عرفات میں عبادت کے بعد مزدلفہ پہنچنے تک ہی انسان اتنا تھک جاتا ہے کہ اس کا رات بھر جاگنا ہی مشکل ہوجاتا ہے اور پھر انہماک کے ساتھ دعا مانگنے کی کیفیت پیدا ہونا تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔شاید اسی لئے اسی موقعہ پر قبولیت دعا کاچانس زیادہ کردیا گیاکہ مانگنے والوں کو اتنا ہوش ہی کہاں ہو گا۔مزدلفہ میں سب کچھ غیر منظم تھا۔کوئی سونا چاہے تو جیسے چاہے جہاں چاہے دستیاب صورتحال کے مطابق سو سکتا تھا۔محرم اور غیر محرم کی کوئی تفریق نہ تھی۔بس کوئی اپنے طور پر احتیاط کرلے تو کر لے۔یہاں کے گردو غبار کی وجہ سے مبارکہ کی حالت ایک دفعہ پھر بگڑ گئی۔لیکن اب صبر کے ساتھ تکلیف برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔خود مجھے بھی کھانسی کی تکلیف ہو گئی تھی اور کھانس کھانس کر برا حال ہو گیا تھا۔یہیں سے میں نے منیٰ میں شیطان کو مارنے کے لئے اپنے اور مبارکہ کے حصے کی کنکریاںجمع کر لیں۔
۔۔۔۔۱۱؍فروری کو ہم لوگ گرتے پڑتے منیٰ میںاپنے خیموں تک پہنچے۔مبارکہ کی علالت کے باعث اسے اس کے خیمے میں چھوڑا اور خود شیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے چلا گیا۔
سوئے حجاز۔سفرِ حج سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔پہلے عمرہ میں،منیٰ جانے سے پہلے ،طواف کرتے ہوئے ہم گراؤنڈ فلور سے خانہ کعبہ کے گرد تین چکر لگا پائے تھے کہ ہجوم کی وجہ سے مجھے لگا مبارکہ اس میں کچلی جا سکتی ہے۔چنانچہ باقی کے چار چکر ہم نے دوسری منزل سے جا کر پورے کئے تھے۔اس بار پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ طواف اور سعی کے سارے مراحل اوپر والی کسی منزل پر طے کریں گے۔
چنانچہ تیسری منزل سے ہم نے خانہ کعبہ کا طواف شروع کیا۔مبارکہ کے لئے وہیل چیئر کا انتظام کر لیا تھا۔یہ ایک چکر زمین سے خانہ کعبہ کے گرد تین چکروں کے برابر لگا لیکن رش کی موجودہ حالت میں یہی بہتر لگا۔طوافِ کعبہ کے بعد سعی کے چکر شروع ہوئے۔میں سعی کے دوسرے پھیرے میں تھا جب مبارکہ مجھے ملی اور بتایا کہ اس کا چھٹا چکر ہے۔ہم نے سعی کے بعد سعی کے اختتام والے دروازے پر ملنے کا طے کیا۔جب میں نے سعی کا عمل مکمل کیا اورسعی کے اختتام والے دروازے سے باہر گیا تو مبارکہ غائب۔۔۔
۔۔۔۔۔۔صبح سویرے منیٰ جانے سے لے کرموجودہ وقت تک میں مسلسل چلنے کے عالم میں تھا۔چلنا بھی ایسا جس میںزیادہ تر پریشانی اوربے یقینی ساتھ ساتھ تھی۔ ساڑھے تین گھنٹوں میں طواف اور سعی کے مکمل ہونے والے عمل کے بعداب ایک نئی پریشانی نے گھیر لیا۔مبارکہ کو کہاں تلاش کیا جائے؟پہلے تو باہر والے دروازے کے آس پاس ڈھونڈتا رہا۔پھر طواف والے ایک کھلے حصے میں چلا گیا کہ وہاں عقب میں بچھی کھلی صفوں میں شاید کہیں مل جائے۔کبھی ادھر اور کبھی اُدھر۔۔۔۔لیجئے میری ذاتی سعی اب شروع ہوئی۔۔۔بی بی حاجرہ اپنے لختِ جگر کے لئے بے چینی سے دوڑ رہی تھیں تو میں اپنے لختانِ جگرکی والدہ محترمہ کے لئے پریشان ہوا پھر رہا تھا۔کبھی سعی کے اختتام والے دروازے کی طرف توکبھی آغاز والی طرف۔۔کبھی بالکل باہر جا کر تو کبھی سعی یا طواف والے ہجوم میں جا کر۔کبھی کسی طرف اور کبھی کسی طرف کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیاکروں۔ تیسری منزل پر موجود سرکاری اہلکاروں کو اپنی پریشانی بتائی ،وہ ویسے بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے اوپر سے ان کا حسبِ معمول نازیبا رویہ۔
۔۔۔۔۔ننگے پاؤں ہی حرم شریف سے باہر نکل آیا۔رستے میں ایک ہندستانی نوجوان مل گیا ۔ اس نے میری پریشانی جان کر پولیس اسٹیشن تک میری رہنمائی کی۔وہاں ترجمان کا فریضہ بھی ادا کیا۔لیکن جس پولیس نے جدہ سے لے کر منیٰ تک کسی مرحلے کی کسی پریشانی میں دھیلے کا تعاون نہیں کیا وہ اس صورتحال میں کیا مدد کرتے ۔میں نے ان سے کہا کہ آپ حرم شریف کی تیسری منزل کے اہلکاروں کو موبائل پر یہ واقعہ بتا کر اتنا کہہ دیں کہ کوئی خاتون اس پریشانی میں ملیں تو آپ کو اطلاع کر دیں۔لیکن پولیس اسٹیشن نے اس رنگ کاکوئی تعاون کرنے سے بھی انکار کیا۔
۔۔۔۔۔پولیس اسٹیشن سے مایوس ہو کر ہندوستانی دوست کا شکریہ ادا کیا اورحرم شریف کی طرف لوٹ آیا۔میری سعی گیارہ بج کر پچاس منٹ پر مکمل ہوئی تھی اور اب رات کے دو بج رہے تھے۔ میں گراؤنڈ فلور پر خانہ کعبہ کے سامنے اس طرف کھڑا ہو گیا جہاںسے حطیم شریف،مقامِ ابراہیم اور حجر اسود اور ملتزم شریف والے حصے میرے سامنے تھے۔ننگے پاؤں چل چل کر ویسے ہی مت ماری گئی تھی۔اس وقت دعا کے لئے الفاظ بھی نہیں سوجھ نہیں رہے تھے۔حج پر آنے سے پہلے مجھے بلہے شاہ کی ایک کافی ریاض قادری کی آواز میں دیکھنے اور سننے کا موقعہ ملا تھا۔مجھے اس کی پیش کش اور گانے کا انداز سب بہت اچھا لگا تھا۔نئی موسیقی کے اوچھے پن کی بجائے اس میں وہی پاکیزگی ملتی تھی جو بلہے شاہ کی کافی کا خاصہ ہے۔ پتہ نہیں کیسے اس کافی کا ایک بند میرے ذہن میں گونجنے لگا۔ منیٰ کے لئے صبح ساڑھے آٹھ بجے روانگی کے سفر سے لے کر اب تک میں مسلسل چل رہا تھا۔کبھی سفر کے باعث،کبھی رستہ بھول کر،کبھی طواف اور سعی کے لئے اور اب مبارکہ کو ڈھونڈنے کے لئے۔۔۔صبح ساڑھے آٹھ بجے سے اب رات کے دو بجے کا وقت تھا اور میرے پاؤں کا چکر ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔پاؤں میں سچ مچ چھالے سے پڑ گئے تھے۔شاعری میں چھالوں کاذکر بڑی آسانی سے کر لیا تھا اب سچ مچ واسطہ پڑا تو پتہ چلا کہ پاؤں کے چھالے کیا ہوتے ہیں۔زخمی پیر ،بے پناہ تکان اور ان سب سے بڑھ کر پریشانی اور بے بسی ۔ اسی حالت میں خانہ کعبہ میرے سامنے تھا۔پتہ نہیں کیسے بلہے شاہ کی کافی کا بند ذہن میں گونجنے لگا اور شاید میں اسے ہلکے ہلکے اپنے ہونٹوں سے بھی ادا کرنے لگا۔
ایس عشق دی جھنگی وچ ۔مور بولیندا
ایس عشق دی دی جھنگی وچ مور بلیندا
ساہنوں قبلہ تے کعبہ سونہنا یار ڈسیندا
سانہنوں گھائل کر کے فر خبر نہ لئی آ۔سانہنوں گھائل کرکے فیر خبر نہ لئی آ
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیاتھیا۔۔۔۔۔۔تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا تھیا
۔۔۔۔۔میں کتنی دیر تک وہاں تھیا تھیا کی کیفیت میں رہا کچھ نہیں کہہ سکتا۔بس جب اس کیفیت سے باہر آیا تو ایک بار پھر حرم شریف کی تیسری منزل پر چلا گیا۔وہاں نماز گاہ والی جگہ سے ایک سرکاری اہلکار سے ’’ زوجِ گم گشتہ ‘‘کے بارے میںاستفسار کیا تو اس نے بتایا کہ سعی کے اختتامی حصے کے قریب ایک جگہ چند گم شدہ خواتین ہاتھ بلند کرکے کھڑی ہیں ان میں دیکھ لیں۔سعی کرنے والوں کے ہجوم سے گزرتا ہوا وہاں تک گیا تو دور سے چند خواتین ایک اونچی جگہ پر اپنے دائیں ہاتھ بلند کئے کھڑی تھیں۔ایک چہرے کو دیکھ کر کبھی گمان ہوتا تھا کہ یہ مبارکہ ہے اور کبھی لگتا تھا آنسوؤں سے دھلے ہوئے چہرے والی کوئی فلسطینی عورت ہے۔یہ خدشہ بھی تھا کہ اگر یہ مبارکہ نہ ہوئی اور میں نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تو یہیں کوئی تماشہ نہ بن جائے۔بہر حال خدا خدا کرکے مبارکہ کی نظر بھی مجھ پر پڑی اور پھر دونوں کی جان میں جان میں آئی۔
۔۔۔۔حرم شریف سے نکلے تو بالکل نڈھال ہونے کے باوجود محض اس وجہ سے کچھ تازہ دَم ہو گئے کہ دونوں بچھڑے ہوئے مل گئے تھے۔وہاں سے نکل کر سامنے والی سڑک پر گئے تاکہ اب سیدھا منیٰ کی طرف نکل جائیں۔ اڑھائی بجے سے لے کر چار بجے تک کسی بس یا ویگن کے لئے بھاگ دوڑ کرتے رہے۔اس بھاگ دوڑ کی وجہ سے کبھی سڑک پر اور کبھی سڑک کے کنارے پر رہے۔ گاڑیوں کے دھوئیں نے مزید ستیاناس کر دیا۔جب رات کے (بلکہ صبح کے) چار بج گئے اور کوئی گاڑی نہیں ملی تو مجبوراََ ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ گیارہ فروری سے بارہ فروری ہو چکی تھی اور میں مسلسل چل رہا تھا۔ وہاں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد مبارکہ کی حالت مزید خراب ہونے لگی۔ پہلے ہوٹل کے ڈاکٹر کو بلایا۔اس نے حالت دیکھتے ہوئے ایمبولینس منگا لی۔اب ہم لوگ ایمبولینس میں بیٹھ کر عبدالعزیز ہسپتال جا رہے تھے۔وہاں ضروری دیکھ بھال کے بعد دوائیں وغیرہ دے کر ہمیں چھٹی دے دی گئی۔وہاں سے نکل کر حرم شریف چلے گئے۔ ظہر کی نماز ادا کی۔پھر ہوٹل واپس آئے۔یہاں مبارکہ کو چھوڑا۔کیونکہ اب اس کا منیٰ جانا زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔دوا کھا کر اس پر غشی سی طاری ہو رہی تھی۔میں نے اسے بتا دیا کہ آج تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہیں۔آپ کے حصے کی کنکریاں آج بھی میں خود ہی مار کر آؤں گا۔ویسے سچی بات ہے کل کے تجربے کے باعث مجھ پر خوف سا طاری تھا کہ کل صرف ایک شیطان کو مارنے میں کتنا حشر ہو گیا تھا،آج تینوں شیطانوں کو پتھر مارنے ہیں۔پتہ نہیں وہاں سے زندہ واپسی ہوتی ہے یا نہیں۔
۔۔۔۔۔جمرات پہنچ کر شیطان کو کنکر مارنے کا سلسلہ شروع ہوا تو بے شک رش کافی تھا لیکن روانگی کے وقت مجھ پر جتنا خوف طاری تھا وہ سارا دور ہو گیا۔میں نے تھوڑی محنت اور ہمت سے کام لے کر نہ صرف تینوں مقامات پر اپنے حصے کی کنکریاں ماریں بلکہ مبارکہ کے حصے کی کنکریاں بھی مار لیں۔اس بار یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہجوم کے باعث جو ہلاکتیں ہوتی ہیں اس میں ہجوم کی زیادتی سے زیادہ بد انتظامی کا دخل ہے۔جہاںسے لوگ پتھر مارنے کے لئے جا رہے ہیں وہیں سے واپس آ رہے ہیں۔کوئی لائن یا ترتیب نہیں ہے۔بس جب ایک طرف کا چھوٹا سا ہجوم اور مخالف سمت کا چھوٹا سا ہجوم برابر کی زور آزمائی شروع کردیتا ہے توپھر کچلے جانے سے یا دَم گھٹنے سے اموات ہو جاتی ہیں۔میں انتہائی معذرت کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ اگر جرمنی کی کسی کمپنی کو اس کا انتظام سونپ دیا جائے تو یہ لوگ ایسی سیٹنگ کر دیں گے کہ لاکھوں کی تعداد کے باوجود حجاج کرام اطمینان سے اس مرحلہ سے گزر سکتے ہیں۔جتنی اموات بھی ہوتی ہیں محض بد انتظامی کی وجہ سے۔ وہ بد انتظامی جو سارے اسلامی ملکوں کی شناخت بن چکی ہے۔
۔۔۔۔۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تین شیطانوں سے اتنی آسانی سے گلو خلاصی ہو جائے گی۔وہاں سے نکلا تو اطمینان سے سڑک کے کنارے لگی ہوئی عارضی دکانوں کو دیکھتا چلا۔اپنی پسند کی چند چیزیں بھی خرید لیں۔واپسی کے لئے ایک ویگن میں جگہ مل گئی اور میں شیطانوں کو کنکر مار کر منیٰ کی بجائے اطمینان سے واپس مکہ پہنچ گیا۔اصولاََ ہمیں یہ دن منیٰ کے خیموں میں گزارنے چاہئیں تھے۔لیکن مبارکہ کی حالت کے پیشِ نظر ہوٹل میں قیام کرنا پڑ رہا تھا۔منیٰ میں ہم دوراتیں ہی گزار سکے تھے جبکہ ایک رات مزدلفہ میں گزری تھی۔
۔۔۔۔۔شیطان کو دوسرے دن پتھر مارنے کے تجربے کے بعد مجھے کافی تسلی ہو گئی تھی اور ۱۳؍فروری(۱۲ ذی الحجہ) کومیں ہوٹل سے نکلنے سے پہلے جوتوں کے تسمے باندھتے ہوئے ڈائیلاگ مارتے ہوئے کہہ رہا تھا او شیطانو! تیار ہو جاؤ میں آرہا ہوں۔۔۔۔لیکن جب جمرات پہنچا تو رمی جمرات(شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا عمل) ۱۰ذی الحجہ سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوئی۔لگتا ہے شیطان میرے للکارنے کا برا مان گئے تھے۔اس بار رش اتنا زیادہ تھا کہ ایک مرحلہ پر تو مجھے سچ مچ اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا اور لگا کہ میں گیا ۔۔۔اگرچہ شیطان کو مارنے میں بری طرح نڈھال ہو گیا لیکن پھر بھی جیسے تیسے یہ کام مکمل ہو گیا۔جمرات سے واپسی میں بھی مشکل ہو گئی۔آج شیطان کو کنکریاں مارنے کا آخری دن تھا اور روایات کے مطابق منیٰ میں مقیم حجاج کی اکثریت آج ہی غروبِ آفتاب سے پہلے حدودِ منیٰ سے نکل جانا چاہتی تھی۔اسی لئے وہاں سے واپسی کے لئے کوئی گاڑی نہیں مل رہی تھی۔پیدل چلنے والوں کے کئی کارواں رواں دواں تھے۔ مبارکہ ساتھ نہیں تھی تو مجھے لگا کہ میں اکیلا پیدل چل کر حرم شریف تک پہنچ ہی جاؤں گا۔سڑک کے کنارے کنارے بہت سے لوگ پیدل جا رہے تھے۔میں بھی اسی طرف چلنے لگا۔آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ایک سکوٹر والا میرے قریب آکر رُک گیا۔یہ کوئی بنگالی نوجوان تھا۔اس سے ہوٹل تک پہنچانے یا حرم شریف تک پہنچانے کی بات ہوئی۔۳۰ ریال میں معاملہ طے پایا۔یوں میں نسبتاً کم تکلیف کے ساتھ ہوٹل پہنچ گیا۔مبارکہ کو تسلی دی ۔کچھ دیر آرام کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔پھر ہم عشاء کی نماز کے لئے حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے۔مبارکہ نے ہمت کر لی تھی کہ جیسے تیسے حرم شریف چلنا ہے۔نماز عشاء کے بعدساڑھے نَو بجے تک ہم صحنِ کعبہ میںبیٹھے رہے۔ اتنے بے پناہ رش کے باوجود صحنِ کعبہ میں بیٹھ کر اتنی دیر تک دیدارِ کعبہ کی سعادت مل جانا بہت بڑی بات تھی۔پھر طواف کرنے والوں کا دائرہ وسیع ہونے لگا توہمیں صحنِ کعبہ سے پیچھے ہٹنا پڑا کہ طواف کرنے والوں کا حق فائق تھا۔
۔۔۔۔۱۴؍فروری (۱۳؍ذی الحجہ) جمعتہ المبارک کا دن اور مکہ شریف میں ہمارا آخری دن کہ اگلے روز ۱۵؍فروری کو ہمیں مدینہ شریف روانہ ہوجانا ہے۔اس لحاظ سے مکہ میں یہ ہماراآخری دن تھا۔منیٰ سے واپس آنے والوں کے باعث کل رات سے ہی مکہ میں رش بہت بڑھ چکا تھا ۔ہمیں آج طوافِ وداع بھی کرنا ہے۔فجر کی نماز کے بعد ہم نے حرم شریف میں ہی سورۃ یاسین اور سورۃ صافات پڑھ کر اپنی دلی مرادیں مانگیں۔پھر وہیں بیٹھے رہے۔دن کے دس بجنے والے تھے جب میں نے باہر آکر ایک وہیل چئیر والے سے بات کی۔بات طے ہو گئی تو مبارکہ کو بھی باہر لے آیا۔اس بار ہم نے کسی گمشدگی کی صورت میں اپنا میٹنگ پوائنٹ طے کر لیا تھا۔مبارکہ نے وہیل چیئر پر بیٹھ کر تیسری منزل سے طواف شروع کیا اور میں نے صحنِ کعبہ ہی میں طواف کی سعادت حاصل کی۔10.20 بجے سے لے کر11.35 بجے تک یہ طواف مکمل ہو گیا۔ مبارکہ بھی جلد ہی میٹنگ پوائنٹ پر پہنچ گئی۔اس کے بعد ہم نے جمعہ نماز کی تیاری شروع کی۔جمعہ نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے ایک قریبی ہوٹل سے کھانا پیک کرایا۔ حرم شریف کے باہر والے وسیع فرش پر بیٹھ کر ہم نے وہ کھانا کھایا۔خدا کاشکر ادا کیا۔کھانا کھانے کے بعد مبارکہ کی طبیعت خراب ہونے لگی تو اسے ہوٹل لے آیا۔وہاں اسے دوا دینے کے ساتھ آرام کرنے کو کہا اور پھر خود حرم شریف آگیا۔یہاں سے عشاء کی نماز کے بعد ہوٹل سے کھانا پیک کرایا۔مبارکہ کو کھانا پہنچایا۔پھر شارع خالد بن ولید کی سڑک کے کنارے لگی ہوئی فرشی مارکیٹ کو دیکھتا ہوا حرم شریف پہنچ گیا۔اس بار صحنِ کعبہ تک پہنچ کر میں نے مقامِ ابراہیم اور درِ کعبہ کے کے سامنے ایک جگہ حاصل کر لی۔طوافِ کعبہ کرنے والوں کے وسیع دائرے سے ذرا ہٹ کر مجھے ایسی جگہ مل گئی جہاں سے دیدار ممکن تھا۔بیٹھ کر بھی کافی دیر تک دیدار کیا۔پھر کھڑے ہو کر الوداعی نظر ڈالنا چاہی تو جیسے پاؤں فرش سے جم گئے اور آنکھیں کعبہ شریف پر ہی گڑی رہ گئیں۔یہ الوداعی نظر خاصی طویل ہو گئی۔شاید بیٹھ کر کئے گئے دیدار سے بھی زیادہ طویل۔۔۔اس سفر کے دوران اٹھائی گئی ساری تکالیف اور پریشانیاں ایک ایک کرکے سامنے آرہی تھیں اور اس دیدار کی لذت میں بے معنی ہوتی جا رہی تھیں جو اس الوداعی نظر سے نصیب ہو رہی تھی۔پھر میں ویسی ہی اداسی کی کیفیت کے ساتھ باہر آیا جیسی بہت ہی پیاروں سے بچھڑتے لمحوں والی اداسی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۱۵؍فروری(۱۴؍ذی الحجہ) کو ہم صبح سویرے ساڑھے پانچ بجے ہوٹل کا کمرہ چھوڑ کر اپنے متعلقہ آفس میں پہنچ گئے۔وہیں فجر کی نماز ادا کی۔وہیں سے ہمیں بس اسٹیشن تک لے جایا گیا۔مکہ سے مدینہ تک کا یہ سفر انتہائی تکلیف دہ تھا۔ہم صبح ساڑھے پانچ بجے کے نکلے ہوئے رات ساڑھے گیارہ بجے مدینہ میں اپنے ہوٹل تک پہنچے۔یہ بس کا ایک عام سا سفر تھا۔اس میں کہیں ٹریفک جام ہونے کا مسئلہ نہیں تھا۔اس کے باوجود پورا اہتمام کیا گیا تھا کہ حجاج کرام کو زیادہ سے زیادہ ثواب ملتا رہے(روایت ہے کہ سفرِ حج کے دوران جتنی تکالیف اور پریشانیاں ہوں اتنا ہی سارے سفر کا ثواب ملتا ہے)۔
سوئے حجاز۔سفرِ حج سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔حج کرنے کے بعد حج اور عمرہ کے فرق کا اندازہ ہوا۔حج فرض ہے۔عمرہ کی حیثیت نوافل جیسی ہے۔ روحانی دنیا کے اہلِ نظر بخوبی جانتے ہیں کہ فرض نماز تو صرف فرض پورا کرنے والی بات ہوتی ہے،حکم بجا لانا ہوتا ہے۔محض فرض نمازیں پڑھنے سے قربِ خداوندی نہیں ملتا۔ قربِ خداوندی کے لئے فرض سے آگے بڑھ کر نوافل کی منازل طے کرنا ہوتی ہیں۔یوں بھی فرض نمازکی باجماعت ادائیگی میں وہ روحانی لطف پیدا نہیں ہو پاتا جو اکیلے میں نوافل کی ادائیگی میں ملتا ہے ۔بس جیسے نمازوں میں فرض اور نوافل کا فرق ہے ویسے ہی حج اور عمرہ میں فرق ہے۔حج فرض ہے اور صاحبِ توفیق پر لازم ہے۔اس میں مشقت اور ریاضت کا پہلو نمایاں ہے۔عمرہ فرض نہیں ہے لیکن نوافل کی طرح اس کی لذت الگ ہے۔ابھی تک کے تجربوں سے تو یہی کچھ سمجھ میں آیا ہے۔زندگی رہی،مزید توفیق ملی
اور اگلے تجربوں میں اس تاثر سے ہٹ کر کوئی نیا تاثر بنا تو ’’سوئے حجاز‘‘ کے کسی اگلے ایڈیشن میں اسے بیان کردوں گا۔ ورنہ ابھی تک کا جو بھی تاثر بنا ہے وہ بیان کر دیا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھ گنہگار کو (میری اہلیہ سمیت)نہ صرف عمرہ کی لذت عطا کی بلکہ حج کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق بھی بخش دی۔اسے قبول کرے نہ کرے اس کی مرضی ہے۔ہمیں توفیق ملی تو ہم نے گرتے پڑتے جیسے تیسے ممکن ہوا فرض کو ادا کرلیا۔
سوئے حجاز۔سفرِ حج سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔