گو جناب شاہ ولایت نے زمین ہندو دکن کو اپنے قدوم ولایت لزوم سے منور نہیں فرمایا ہے لیکن معجزہ طی الارض لازم و ملزوم ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر جناب امیر علیہ السلام حسب الارشاد آں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم ایک درویش محتاج کی حاجت روائی کے لیے طرفۃ العین میں مع فقیر محتاج کے قدم رنجہ فرمائے تھے۔ جہاں آپ نے ایک آن واحد میں بربر کے بند کو باندھا، اژدر کو مارا،خود کو بیچا اور درویش کی حاجت روائی کر کے واپس ہوئے۔ اس لیے تعجب کا مقام نہیں ہے کہ امیر علیہ السلام نے کسی شخص کی مشکل کشائی یا ترویج دین محمدی کے لیے سواد حیدرآباد دکن کو بھی اپنے نعلین سے ضرور شرف بخشا ہو گا جس کی تاثیر سے کوہ پُرشکوہ پر عظمت و جلال کے آثار نمایاں ہیں۔ اگرچہ حضر ت کی ولادت باکرامت 13؍ رجب 30 عام الفیل کو ثابت ہے، لیکن سلاطین قطب شاہیہ کے عہد سے کوہ شریف کا عرس 17؍ رجب کو انجام پاتا ہے ۔ لاکھوں مرد و زن وضیع و شریف، غنی و فقیر، برنا و پیر، صغیر و کبیر بلدۂ حیدرآباد اور اطراف و اکناف کے اضلاع سے کوہ فلک شکوہ پر جمع ہوتے ہیں اور نذر و نیاز ادا کر کے غربا و مساکین کو کھانا کھلاتے ہیں اور اقسام اقسام کے لذیذ اور میوہ ہائے خشک و تر سے دسترخوان چنا جاتا ہے جو آج تک جاری ہے۔
چنانچہ عرس شریف کے ایام میں ماہ لقا بائی کوہ شریف پر جا کر شاہِ ولایت علیہ السلام کے عرس میں حاضر ہوتی تھی اور ہر گروہ کے فقرا و مشائخین اس عرس میں فراہم ہوتے تھے۔ چار روز تک برابر دو وقتہ اقسام اقسام کے کھانے ماہ لقا بائی کے مطبخ سے کھلائے جاتے تھے اور رخصت کے وقت ہر فقیر کو ایک روپیہ نقد اور بعض کو بقدر مراتب پانچ روپیہ خیرات۔ مشائخین کو پچاس سے سو روپیہ تک نقد بعنوان نذر اللہ بوجہ اللہ عطا کرتی تھی اور خدام و مجاوران درگاہ شریف کو نقد روپیہ اور پارچہ وغیرہ بخشش کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ہر ماہ میں حسب دستور و معمول کوہ شریف پر جا کر مبلغ پانصد روپیہ کے قریب صرف کرتی تھی۔