بسالت خاں بخشی صرف خاص کا اصلی نام بہادر خاں تھا اور بسالت خاں کا موروثی خطاب پیشگاہ سرکار آصف جاہ بہادر سے عطا ہوا تھا۔ آپ (بسالت خاں بہادر) میرزا سلطان نظر المخاطب بسالت خاں و صلابت خاں و معظم خاں کے خلف اکبر و ارشد تھے جن کے خاندانی واقعات تاریخ فتحیہ میں اس طرح مرقوم ہیں کہ:
مرزا سلطان نظر کے حالات
آپ (بسالت خاں بہادر) کے دادا میرزا محمد یار قوم چغتہ برلاس جو شہر بلخ کے معزز و عالی خاندان سے تھے، صاحب قران ثانی شاہجہاں بادشاہ کے عہد میں وارد ہندوستان ہوئے۔ بعد چند روز کے بزمرۂ منصب داران شاہی ملازمت حاصل کی اور ایک شریف خاندان کی بانو سے عقد کیا۔ پروردگار عالم نے ایک فرزند نرینہ عطا فرمایا جس کا نام میرزا سلطان نظر رکھا گیا اور تعلیم و تربیت نہایت عمدگی اور احتیاط سے کی گئی۔ بعد چندے اپنی ذکاوت طبع کے باعث شاہان وقت کی اعلیٰ اور ممتاز خدمات انجام دیں۔ چنانچہ آپ (مرزا سلطان نظر) کو محمد اعظم شاہ کے زمانہ شاہزادگی میں صلابت خاں کا خطاب سرفراز ہوا تھا اور حسب الحکم حضرت خلد منزل رسالۂ محمد اعظم شاہ کے متعلق آپ کو ایسا اقتدار حاصل تھا کہ افراد مناصب پر رسالہ کے آپ ہی کے دستخط ہوتے تھے اور یہ بھی حکم تھا کہ جب کسی منصب دار میں لیاقت و فراست موجود ہو تو منصب دو بستی سے دو ہزاری تک اپنی دستخط سے اجرا کریں۔
تاریخ فتحیہ میں لکھا ہے کہ:
“حضرت خلد منزل نے داروغہ عرض مکرر کو حکم صادر فرمایا کہ محمد اعظم شاہ کے رسالہ کے ملازموں کا منصب دو بستی سے دو ہزاری تک بسالت خاں کی مہر سے جاری کیا جائے کیونکہ ہم نے اس رسالہ کی بخشی گری مثل بخشی اول کے بسالت خاں کے سپرد کی ہے اور خدمت داروغگی داغ و تصحیح و امپنی ہفت چوکی و داروغگی خزانہ اس رسالہ کی بزن خاں کے نام مقرر کی جاتی ہے۔ علاوہ بریں سات لاکھ اشرفی کے توڑے (جو دفتر شاہی میں مہر جلالی لکھی جاتی تھیں) ارابہ پر بار کر کے خان موصوف کو پہنچا دیے جائیں اور تاکید کی جائے کہ یہ رقم ملازمین رسالہ کی تنخواہ میں تقسیم ہو اور سرخ رنگ کے ڈیرے کچہری بخشی گری اور دیوانی داغ و تصحیح و خزانہ کے لیے تیار کر کے اپنے خیمہ کےپاس کھڑے کیے جائیں۔”
چنانچہ ان خدمات و اعزاز کی سرفرازی کے بعد تقریباً دو ہزار تین سو منصب دار جن میں اکثر اعظم شاہی اور بیدار بختی اور والا جاہی اور باقی اشخاص اجنبی تھے جو شاہزادہ کی سفارش سے خاں معز کے رسالہ میں نوکر ہوئے تھے مرحمت ہوئے۔
جب شاہ عالم بہادر نے ہندوستان سے دکن کے جانب محمد کام بخش پر فوج کشی فرمائی تو فوج کا پیش خیمہ خان موصوف کے تفویض کیا گیا اور چغتائی خان( ) پیش خیمہ کے ہمراہ متعین ہوا اور بادشاہ نے چغتائی خاں کو ارشاد فرمایا کہ تم کو اس ولایت سے کما حقہ واقفیت نہیں ہے، اس لیے بصوابدید بسالت خاں کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہر دو سردار باتفاق لشکر کے ترتیب اور انتظام کیا کرتے تھے۔
جب بہادر شاہ فوج شاہی کے ساتھ حیدرآباد رونق افروز ہوئے تو محمد کام بخش نے اپنی ضدی طبیعت اور غیور مزاجی کی وجہ سے فوج شاہی کا مقابلہ کیا جس سے ہدف ناوک اجل کا نشانہ بنا اور چغتائی خاں بھی اُنھیں ایام میں بعارضہ جسمانی انتقال کیا۔
اس کے بعد کچھ ایسے امور پیش آئے کہ رسالہ کی تنخواہ چڑھ گئی۔ غلہ کی گرانی اور گھوڑوں کے کاہ و دانہ کی تکلیف ایسی واقع ہوئی کہ بیان سے باہر۔ چنانچہ بسالت خاں نے اس تکلیف و پریشانی کا حال بادشاہ کی بارگاہ میں عرض کیا۔ ارشاد شاہی ہوا کہ اس کا جواب امیر الامرا ذو الفقار خاں میر بخشی کے ذریعہ صادر ہوگا۔ جب چند روز گزرے تو امیر الامرا نے بسالت خاں سے کہا کہ مہمات ضروریہ کے باعث اس قدر رقم خزانہ میں موجود نہیں ہے کہ رسالہ کی تنخواہ بے باق کی جائے لہٰذا چندے تامل کیا جائے۔ بہادر شاہ نے معظم خاں عمدۃ الملک مدار المہام ریاست کو حکم دیا کہ ان لوگوں کی تنخواہ میں کوئی جاگیر تجویز کر کے پیش کرے۔ ادھر رسالہ کے لوگ فاقہ کشی سے جان بلب اور گرانی غلہ سے سخت مجبور ہوئے اور بسالت خاں نے بادشاہ کی خدمت میں مکرر معروضہ پیش کیا کہ “یہ فدوی فرق مبارک کا تصدق جو جاگیر پاتا ہے وہ صرف ذاتی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ اس میں اس قدر گنجائش نہیں ہے کہ رسالہ کی تنخواہ بھی دی جائے۔ بہرحال نہ خود بھوکا رہنا ممکن ہے اور نہ ان کو بھوکا دیکھ سکتا ہوں۔ پس امیدوار ہوں کہ یہ رسالہ کسی دوسرے کے تفویض فرمایا جائے۔”
بادشاہ نے امیر الامرا کے ذریعہ بسالت خاں کی فہمائش بہت کی۔ مگر خاں معز نے ایک نہ سنی اور باوجود فہمائش استعفا دے دیا۔ آخر بادشاہ نے اس رسالہ کو مغل( ) ہارسی کے تفویض فرمایا، لیکن چند روز کے بعد بد انتظامی اور عسرت کے باعث اس رسالہ میں بجز نام کے کوئی باقی نہ رہا۔اکثر آدمی رسالہ کی نوکری سے دست بردار ہو کر شاہزادگان بلند مراتب اور امرائے نامدار کے پاس نوکر ہو گئے۔ چنانچہ اس رواروی کے باعث رسالہ کا شیرازہ پریشان ہو گیا۔
اس کے بعد بادشاہ نے بسالت خاں کو میر آتشی دکن کی خدمت سے سرفراز کرنا چاہا۔ مگر خاں معز نے قبول نہ کی اور صرف بارگاہ شاہی کی حاضر باشی پر اکتفا کیا۔
اس کے چند روز بعد زمانہ نے گردش کھائی اور بہادر شاہ لاہور میں ساقی کے ہاتھ سے پیمانہ اجل نوش کیا۔ بمجرد اس واقعہ کے چاروں شاہزادوں میں فتنہ و فساد برپا ہوا اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ بادشاہی کا دم بھرنے لگا اور اپنے اپنے رفیقوں کو خدمات و منصب کی بھی تقسیم شروع کر دی۔ چونکہ بسالت خاں ابتدا سے جہان شاہ (شاہزادہ چھارمی) کی رفاقت میں بسر کرتا تھا، اس لیے جہان شاہ نے اس موقع پر بسالت کو معظم خاں کا خطاب اور اصل و اضافہ منصب شش ہزاری و پنچ ہزار سوار و خدمت بخشی گری سے سرفراز و ممتاز فرمایا۔ لیکن افسوس ہے کہ جہان شاہ اس آپس کی جنگ میں مع اپنے دو بھائیوں کے مقتول ہوا اور شہزادہ معز الدین جہاندار شاہ (جو بہادر شاہ کا بڑا بیٹا تھا) کو فتح نصیب ہوئی اور اورنگ شاہی پر جلوس فرمایا۔ امیر الامرا ذو الفقار خاں کو قلمدان وزارت عطا ہوا۔
چونکہ بسالت خاں کو امیر الامرا سے قدیمی اتحاد و رابطہ تھا اس لیے امیر الامرا نے بسالت خاں کو پیشگاہ جہاندار شاہ میں لے جا کر منصب و خطاب اور جاگیر کی بحالی (جو خلد منزل کے عہد میں تھی) و خلعت فاخرہ و قبضہ شمشیر سے مخلع و ممتاز کرایا۔
اس کے بعد شہزادہ محمد فرخ سیر نے جہاندار شاہ پر فوج کشی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاندار شاہ قید ہو گیا (جو اس قید میں چند روز کے بعد مر گیا) اور ذوالفقار خاں امیر الامرا قتل کیا گیا اور شاہزادہ فرخ سیر نے سادات بارہہ کی اعانت و امداد سے تخت شاہی پر قدم رکھا اور سید عبد اللہ خاں معروف بہ سید حسن علی خاں نے وزارت کی خدمت سے سرفرازی پائی اور ان کے بھائی سید حسین علی خاں کو بخشی گری کی خدمت اور امیر الامرائی مرحمت ہوئی۔ چنانچہ اس موقع پر امیر الامرا کے ذریعہ بسالت خاں نے بلحاظ لیاقت و جوہر شجاعت بارگاہ فرخ سیر سے خلعت و منصب اور خطاب سند بحالیٔ جاگیر حاصل کی اور چند ہی روز کے بعد امیر الامرا کا رفیق خاص ہو گیا۔
جس وقت امیر الامرا حسب فرمان شاہی راجپوتانہ کے راٹھور و کچواہہ کی تنبیہ و تادیب اور طلب ڈولہ کے لیے مامور ہوئے اور پچاس ہزار سوار جرّار اور تخمیناً تیس اسم امرائے نامدار و صاحب قوت ہمراہ کیے گئے تو امیر الامرا نے بادشاہ سے سفارش کر کے بسالت خاں کو اس فوج کی بخشی گری اور وقائع نگاری سے سرفراز کرا کے ہمراہ لیا۔ مگر اس مہم میں بلا کسی جنگ و جدال کے راجا اجیت سنگھ راٹھور نے برغبت و خواہش اپنی لڑکی کو ڈولہ دینا پسند کیا۔
اس کے بعد جب امیر الامرا صوبجات دکن کے بند و بست و انتظام کے لیے بھیجے گئے تو اس موقع پر بھی خدمات بخشی گری اور وقائع نگاری دکن کی بسالت خاں کو دلوائی۔ چنانچہ خاں معز خلعت فاخرہ اور ایک زنجیر فیل مادہ سے سرفراز ہو کر امیر الامرا کے ساتھ دکن روانہ ہوا۔ اکثر موقعوں پر امیر الامرا خاں معز کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
جب امیر الامرا دار الفتح بلدہ اجین میں پہنچے تو فرمان( ) شاہی امیر الامرا کے نام صادر ہوا کہ ان دنوں والیٔ ایران کے پاس سے سید مرتضیٰ خاں ایلچی آیا ہوا ہے۔ پس مابدولت کو لازم ہوا کہ یہاں سے بھی ایلچی روانہ کیا جائے۔ چنانچہ ان اہم خدمات کی انجام دہی کے لیے بسالت خاں تجویز کیا گیا ہے۔ پس فوراً خاں معز کو دربار شاہی میں روانہ کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا فرمان بسالت خاں کے نام اس میں ملفوف تھا کہ تمھارے لیے امیر الامرا کو لکھا گیا ہے، پس فوراً روانہ ہو جاؤ۔ جس وقت کہ یہ فرمان امیر الامرا نے دیکھا تو بسالت خاں سے کہا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ جس وقت کہ میں ملک دکن میں داخل ہو جاؤں گا تو تم کو رخصت کر دوں گا۔
مرزا سلطان نظر المخاطب بسالت خاں کا انتقال
مگر اتفاقات قضا و قدر سے داؤد خاں افغان جو مملکت دکن کا ناظم تھا، امیر الامرا کی اطاعت سے انحراف و سرکشی کی۔ حالانکہ بسالت خاں نے مصالحت میں بہت کچھ کوشش کی مگر سود مند نہ ہوئی۔
آخر جنگ کی نوبت آئی اور داؤد خاں مارا گیا۔ لیکن افسوس ہے کہ اس جنگ میں بسالت خاں بھی مردانہ وار قتل ہوا اور بلدہ دار السرور برہان پور محلہ سنوارہ میں جو خود مرحوم کی خریدی ہوئی حویلی (جو بزمانہ ملازمت شاہ عالم بہادر خریدی تھی) تھی، مدفون ہوا۔ 63 سال کی عمر پائی۔
بسالت خاں کے عادات و خصائل وغیرہ
بسالت خاں نہایت عظیم الجثہ، بلند و بالا، خوبرو و جوان صالح، مروت سے آراستہ اور حسن اخلاق سے پیراستہ تھا۔ پندرہ سال کی عمر سے (جو سن تمیز کا زمانہ کہلاتا ہے) باوجود تکلفات و تکلیف کے نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز تہجد کبھی قضا نہ ہوئی تھی۔
جس زمانہ میں کہ محمد اعظم شاہ احمد نگر سے عازم اکبر آباد ہوئے (جس کی مسافت تین سو کئی جریبی کوس شمار کی گئی ہے) تو بسالت خاں باوصف حدت آفتاب و سخت گرمی ایک لمحہ بھی جلو ریزی سے تخت رواں کے منزل مقصود پر پہنچے تک جدا نہ ہوا۔
اور باوصف کثرت مشاغل و رجوع خلائق و سوال و جواب مقدمات ہر وقت نماز تہجد کو بیدار ہو کر بعد ادائے نماز تہجد طلوع آفتاب تک وظائف و ادعیہ و اوراد میں مشغول رہتا تھا۔ ایک دفعہ عالَم کم منصبی میں مرہٹوں کے تعاقب میں تین شبانہ روز متواتر ہوائے سرد و سرما میں گزارنا پڑا تھا۔ چنانچہ بمقتضائے تاثیر ہوائے بارد خاں موصوف کو سخت درد سر عارض ہوا اور ایک آشنا کی ترغیب سے تخفیف درد سر کے لیے تھوڑی افیون بمجبوری استعمال کرنی پڑی تھی۔ سوائے اس کے مُدت العمر کبھی مسکّرات و منہیات کے جانب رغبت نہ کی اور رقص و سرود، لہو و لعب سے نفرت کلی تھی۔ اور بازی نرد و شطرنج، گنجفہ و چوسر کو اعمال تحریمہ و خطائے عظیمہ تصور کرتا تھا۔ مروت و اخلاق میں بے نظیر تھا۔ جو کچھ نقد و جنس تردد و تدبیر سے پیدا اور فراہم ہوا تھا وہ اکثر خالصتاً للہ خیرات و مبرات میں صرف کیا کرتا۔ دو وقت کا کھانا اس کے رفقائے یکرنگ جن کی تعداد ساٹھ تک ہو گی ساتھ کھاتے تھے۔ کھانا بالکل سادہ ہوتا تھا۔ چنانچہ چاشت کے وقت روٹی، کباب، قلیہ اور شام میں خشکہ، قلیہ، پلاؤ زیب دسترخوان رہتے تھے۔
اور نماز ظہر کے بعد قہوہ نوشی بھی کی جاتی تھی جس میں میوہ ہائے تر و خشک موجود رہتے تھے۔ لباس میں بالکل سادگی تھی۔ فقط قبائے سفید (گراں بہا) پہنتا تھا۔ جو جامہ اور دستار ایک بار استعمال میں آتے وہ بغیر شوب کے مکرر استعمال میں نہ آتے تھے۔ اور یہ بھی عادت تھی کہ ملبوسات فاخرہ اس سال کے دوسرے سال میں فقرا اور محتاجوں، رفقا و آشنایوں میں تقسیم کر دیے جاتے تھے۔ جس سال کہ بسالت خاں امیر الامرا کے ساتھ راجپوتان اجمیر کی تنبیہ کے لیے روانہ ہوا تھا تو اخلاص خاں (جو خاص امرائے شاہی سے تھے) نے متعدد رقعات لکھے تھے۔ ازاں جملہ ایک دو کے ترجمے ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔
رقعہ نمبر ا
خان صاحب مہربان کرم فرما سلامت۔ اس آبادی کے اطراف میں جس کی آبادی میں ہمیشہ زیادتی ہوتی رہے، ہرنوں کی کثرت بہت ہے جس کے لیے ایک چیتے کی ضرورت ہے۔ سنا گیا کہ وہ سرزمین چیتوں کا معدن کھلاتی ہے۔ پس کوئی چیتا گرفتار کر کے فقیر کے لیے بھیج دیجیے کیونکہ شکار کا لقمہ حلال ہے۔ اگر آپ کے دل میں یہ خیال گزرے کہ دعویٰ تو فقیری کا کرتے ہیں اور چیتے کے خواستگار ہیں، لیکن اس کوکوئی نسبت نہیں۔ کیونکہ جب تک منصب کا نام باقی ہے، یہ آرزو ہمیشہ ہوتی رہے گی۔ جس دن یہ برطرف ہو گی تو یہ آرزوئیں بھی اس کے ساتھ پردۂ نسیان میں آئیں گی۔ علاوہ بریں اس سفر میں دل لگی سے زیادہ صحبت رہتی ہے۔ متانت خاں اور خواجہ عطاء اللہ صحبت میں رکھنے کے لیے بہت اچھے ہیں۔ غالباً آپ جانتے ہوں گے ورنہ آپ جان سکتے ہیں۔ اور محمد مقیم علم طبابت میں کمال رکھتا ہے۔ ایسی لیاقت رکھنے والا نواب صاحب کی خدمت میں رہنا چاہیے۔ خدا کرے کہ ہمارے نواب صاحب اس کا خیال رکھیں اور آپ بھی اس میں توجہ فرمائیں۔
رقعہ نمبر 2
صاحب میرے آپ تصور سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔ جب فرض کر لیا جائے تو یاد سے جانا ناممکن۔ نیکوں کی یاد کے لیے کوشش نہ چاہیے۔ کیونکہ نیکی خداوند تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ جو کچھ کہ حسّاد و بغض طینتوں کے نسبت لکھا گیا تھا، معلوم ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ بعض حسد کیش نیکوں کی برائی چاہتے ہیں مگر حقیقت میں وہ خود اپنے بدخواہ ہیں۔ حضرت مولوی معنوی کےکلام سے ایک رباعی یہاں حسب مناسب معلوم ہوئی لہذا تحریر میں آئی۔ ایک دن مولانا روم اپنے فرزند سلطان کو فرماتے تھے کہ اے لڑکے! کیا تو ہمیشہ بہشت میں رہنا چاہتا ہے، جواب دیا ہاں۔ فرمایا یہ رباعی یاد رکھ کہ تیرے لیے مفید ہے۔
رباعی :
پیشی خواہی زہیچ کس پیش مباش
خواہی کہ تر از ہیچ کس بد نرسد
چوں مرہم و موم باش چوں نیش مباش
بد گو و بد آموز د بد اندیش مباش
الغرض اس شرح و بسط سے یہی ہے کہ میرزا سلطان نظر المخاطب بسالت خاں نامداران روزگار و امرائے باوقار سے تھے جو ازروئے نسب چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کے جد اعلیٰ ہوتے ہیں۔ چنانچہ بمضمون (كل شيئ يرجع إلى أصله) ماہ لقا بائی میں بھی حسن اخلاق اور اطوار پسندیدہ اپنے اجداد کے جلوہ افروز تھے۔
الحاصل اب یہاں پر بسالت خاں بہادر کا خاندانی تذکرہ ختم کر کے اصل قصہ کے جانب رجوع کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے آگے ہم یہاں تک لکھ چکے تھے کہ راج کنور بائی کے مراسم اتحاد اور روابطِ وِداد بسالت خاں بہادر بخشی صرف خاص سے روز افزوں ترقی پذیر ہوتے چلے۔ چنانچہ ایک زمانہ کے بعد گل آرزو شگفتہ ہوا اور راج کنور بائی کو حمل قرار پایا۔