ماہ لقا بائی کے نام سے کون واقف نہیں ہے اور چندا جی کا نام کون ہے جو سنا نہیں۔ اس کو انتقال کیے ابھی سو برس بھی پورے نہیں ہوئے، جس کا مقبرۂ عالیشان اور سرا کوہ شریف کے پائیں میں واقع ہیں، جہاں ہر سال عرس شریف کے موقع پر ہزاروں تماش بین اور زائرین فروکش ہوتے ہیں، جس کو حیدرآباد دکن کا ہر امیر فقیر اور برنا و پیر جانتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہر ایک کو معلوم ہے کہ ماہ لقا بائی لطیفہ گوئی، بذلہ سنجی، شاعری، مروت، اخلاق، فیاضی، دولت و ثروت، حکومت میں اپنے زمانہ میں یکتائے روزگار مانی جاتی تھیں۔ بارہ کم سو برس 88 کے پیشتر ہزاروں اشخاص بلکہ لاکھوں مہ لقا بائی کے جمال جہاں آرا کے مشتاق اور اس کی نظر عنایت کے امیدوار رہتے تھے۔ افسوس ہے کہ اب وہ ماہ لقا بائی موجود ہے اور نہ اس کے چاہنے والوں کا وجود باقی ہے۔ امتداد زمانہ نے بالکل کایا پلٹ دیا ہے۔ ایک ماہ لقا بائی پر ہی کیا منحصر ہے، ہر ایک انسان کے لیے یہی معاملہ درپیش ہے۔
مگر اب بھی ماہ لقا بائی کا کلام اور حالات، اس کے نام کو باقی رکھنے والے اور اس کی یاد کو تازہ کرنے والے زمانہ میں موجود ہیں۔ عام دستور کے موافق ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اب جو کچھ بچا بچایا قبر کا نشان اور مقبرہ و سرا موجود ہیں، ان کا بھی پتہ نہ ملے گا۔ سب زمین کے برابر ہو جائیں گے۔ لیکن یہی کلام اور حالات اب تک باقی رہے اور آئندہ بھی باقی رہیں گے۔
چنانچہ ہم نے بڑی جستجو اور بے حد تلاش سے ماہ لقا بائی کا ہندی دیوان اور خاندانی حالات پیدا و فراہم کر کے طبع کرائے ہیں جو ہدیۂ ناظرین ہیں۔ اگر ہماری خوش قسمتی سے پبلک نے اس کو قدردانی کی نظر سے دیکھا اور لطف اٹھایا تو ہماری محنت و مشقت چیز ہو گئی اور بصورت بالعکس کسی سے شکایت اور گلہ بھی نہیں ہے۔ فقط
٢١؍ ربیع الاول 1324ھ سلطنت آصفیہ کا نمک خوار
حیدرآباد دکن۔ دار الشفا گوہرؔ حیدرآبادی