کوٸی مسلسل طارق کو جھنجھوڑ رہا تھا ساتھ کہہ رہا تھا۔
”ّاٹھو باس سوگیا ہے اٹھو ہم یہاں سے فرار ہوں گے۔“
یہ ایمون تھا طارق گہری نیند ہونے کے باوجود اٹھا پہلے ایمون نے خیمے کے اردگرد کا جاٸزہ لیا پھر ایک لالٹین لی اور طارق کو اشارہ کیا۔طارق دبے پاٶں باہر نکلا۔
اور پھر دونوں چلتے ہوۓ ان جھاڑیوں سے کافی دور نکل آۓ۔
”بھاٸی تم خیریت سے ہو نا۔۔؟“کافی دور جانے کے بعد ایمون نے طارق سے پوچھا۔
”ہاں بس بازو میں تکلیف ہے۔۔۔“طارق بولا۔
”آپ سے ایک بات پوچھوں۔؟“طارق نے ایمون کی طرف دیکھا۔
”جی پوچھو۔۔۔“ایمون نے مسکرا کر کہا۔
”آپ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر مجھے فرار ہونے میں مدد دی پوچھ سکتا ہوں آپ دوست ہیں یا دشمن۔۔۔؟“
طارق پوچھا تو ایمون کی آنکھیں پانی سے بھر گٸیں طارق ہکا بکا رہ گیا اس میں رونے کی کیا بات تھی۔
”ایمون ایمون کیا ہوا تم ٹھیک تو ہونا۔؟“طارق کی سمجھ میں نہ آسکا وہ کیا کہے۔
”کچھ نہیں وہ ایسے ہی بس میرے والدین یاد آگۓ جو جانے کہاں ہوں گے۔۔۔۔“ایمون نے کہا۔
”آپ کے والدین کہاں ہیں انھوں نے آپ کو یہاں اس گھنے جنگل میں ڈاکٶں کے ساتھ کیوں چھوڑا ہوا ہے۔؟“طارق نے سوال کر ڈالے۔
”میری کہانی سننے کی ہمت کر پاٸیں گے آپ بلکہ کوٸی اچھا وقت دیکھ کر بتاٶں کیوں کہ ابھی رات کے بارہ بجے ہیں اور ہم اس جنگل میں تن تنہا چل رہے ہیں نامعلوم منزل کی طرف۔۔۔“
ایمون نے بات بدل ڈالی جانے ایسا کیا تھا وہ ادھ ادھوری باتیں کرتا۔
”میرے باقی دوست ایک بزرگ کی جھونپڑی میں ہوں گے اس طرف چلتے ہیں۔۔۔“اچانک طارق کو کچھ یاد آیا۔
”بزرگ۔۔۔؟“ایمون نے رک کر حیرت سے طارق کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
”ہاں ہم جنگلیوں سے مقابلہ کر رہے تھے کسی نے تیر برسا کر ہمیں بچایا۔۔۔۔“پھر طارق نے جو ہوا سب بتایا۔
”وہ تیر برسانے والے ہم تھے باس دور بینی کی ذریعے دیکھ رہا تھا پھر اچانک انھیں آپ لوگ نظر آۓ پھر باس نے سوچا ان لوگوں کے پاس مال وال ہوگا ہم انھیں جنگلیوں سے بچا کر لوٹیں گے مگر باس کے ایک ساتھی کو تمھارے باقی دوست ہاتھ نہ آسکے ایک تم ہی تھے.
میں ایک طرف کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا ایک بزرگ کے پیچھے چل رہے تھے آپ سب ہے ناں۔۔۔؟“ایمون نے جلدی جلدی کہا۔
”اوہ اچھا۔۔“طارق کے منہ سے نکلا۔
”ہم اتنی رات کو کیسے دیکھیں گے کہ وہ جھونپڑی کس طرف سے۔۔۔۔؟“طارق نے پوچھا۔
”نشانات دیکھ کر۔۔۔“ایمون نے حل بتایا۔
”مگر اس راستے سے اور بھی لوگ گزرے ہوں گے۔۔۔؟“طارق کو ایک اور الجھن تھی۔
”یہاں سے اس جنگل کی طرف کوٸی نہیں آتا صرف آپ لوگ ہی ہیں جو آۓ ہیں۔۔۔ہم اس طرح تمھارے ساتھیوں کے نشان پہچان لیں گے آسانی سے۔۔۔“
ایمون نے یوں چٹکی بجاٸی جیسے یہ کام وہ کرتا رہا ہو۔
”یہاں لوگ کیوں نہیں آتے۔۔۔؟“دل میں سوچتا سوال طارق کی زبان پر آ ہی گیا۔
”یہاں اس جنگل سے دور ایک دریا ہے دریا کے اس پار ایک حویلی ہے جس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں اس قصبے میں پھیلی ہیں کہ وہاں رابوٹ نامی جن بہت سارے جنات اور دیگر چڑیلیں رہتی ہیں۔۔۔۔“ایمون نے بتایا۔
”رابوٹ جن واہ کیا ساٸنسی نام ہے۔۔۔“طارق نے کہا تو ایمون مسکرا دیا۔
”چلو اب نشان تلاش کرتے ہیں۔۔۔تاکہ دیر نہ ہوجاۓ۔۔۔“ایمون نے کہا اور دونوں زمین پر جھک گۓ۔
☆☆☆☆☆
بزرگ اپنی مخصوص مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ بیٹھا تھا سجاد سویا ہوا تھا۔
”ہم وہ آپ کی تلاش میں گۓ تھے۔۔۔“جمیل بولا۔
”جھوٹ۔۔۔“بزرگ نے زور سے کہا تو دونوں اپنی جگہ سے ہل سے گۓ۔
”کک۔۔۔۔کیا مطلب ہے آپ کا ہم جھوٹ بول رہیں؟؟؟۔۔“محب نے بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔
”تم کہہ رہے ہو کہ میری تلاش میں گۓ تھے جبکہ میں کہیں گیا ہی نہیں تھا۔۔“بزرگ مسکرایا۔
”اوہ۔۔۔“دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
”پھر آپ کہاں چلے گۓ تھے۔۔۔؟؟؟“جمیل نے بزرگ کو بغور دیکھتے ہوۓ کہا۔
”لگتا ہے تم دونوں نیند میں ہو میں یہیں پر ہی تھا۔۔۔“اب کی بار وہ غصے سے بولے تھے۔
پھر جمیل اور محب سونے کے لیے لیٹ گۓ۔
مگر ذہن مسلسل بزرگ کے غاٸب ہونے کی طرف جارہا تھا انھیں یقین تھا وہ نیند میں ہرگز نہیں تھے۔
☆☆☆☆☆
صبح کی پہلی کرن نکلتے ساتھ ہی محب جمیل اور سجاد کی آنکھ کھل گٸ۔
آج ان کو حویلی کی طرف نکلنا تھا مگر طارق کا انتظار کرنا تھا انھیں یقین تھا وہ یہیں پر آۓ گا۔
فجر پڑھ کر تینوں جاگ رہے تھے بزرگ اس وقت جنگل سے پھل وغیرہ لینے گیا ہوا تھا۔
اب وہ تینوں آلتی پالتی مارے کھسر پھسر کر رہے تھے۔
”میرا خیال ہے طارق کو ڈھونڈنا چاہیے ہمیں اس کے بغیر ہم کیسے حویلی تک جاٸیں گے۔۔۔“جمیل بولا۔
”کیوں وہ سب جانتا ہے کیا۔۔۔؟“سجاد نے اسے گھورا۔
”معلوم نہیں لیکن ہمیں اسے ڈھونڈنے جانا چاہیے۔۔“جمیل نے پھر کہا۔
”یار ہم۔اس انجان جنگل کے انجان راستوں سے بالکل ناواقف ہیں وہ خود ہی آجاۓ گا دیکھنا ان شاء اللہ۔۔۔“محب نے پرعزم لہجے میں کہا۔
ایسے میں وہ بزرگ آگۓ۔
ایک بڑی سی پلیٹ میں پھل دیے۔
”ہم آپ سے کچھ پوچھ سکتے ہیں۔۔بابا جی۔۔؟“محب نے پوچھا۔
”ہاں پوچھو کیا بات ہے۔۔۔؟“بزرگ نے آڑو کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا۔
”آپ کو حویلی کے بارے میں کچھ معلوم ہے۔۔۔؟“محب کے کہنے پر بزرگ مسکرایا۔
”کیوں نہیں مجھے معلوم ہے سب۔۔۔“
”یہ تو اچھا ہوگیا ہمیں آپ سے معلومات چاہییں۔“محب اتنا ہی بولا تھا۔
”میں اس بارے میں کوٸی معلومات نہیں دے سکتا۔۔۔بچو۔۔“بزرگ بولا۔
”وجہ۔۔؟“سجاد نے حیرت سے پوچھا۔
”کوٸی نہیں اب تم یہاں سے جاسکتے ہو۔۔“بزرگ کا لہجہ اچانک ہی بدل گیا تھا۔
”بابا جی۔۔۔“جمیل نے کہنا چاہا۔
”بس اب ایک لفظ نہیں۔۔۔۔“بزرگ نے کہا تو وہ تینوں دھک سے رہ گۓ اچانک رویہ بدل جانا ان کے لیے حیرت کا باعث تھا۔
پھر تینوں چپ چاپ وہاں سے نکل آۓ۔کافی چلنے کے بعد دو راستے آگۓ ایک باٸیں تو دوسرا داٸیں جارہا تھا اور وہ تینوں سوالیہ نشان بنے سوچ رہے تھے کون سا راستہ حویلی کو جاتا ہوگا۔۔۔ایسے میں اچانک انھیں دوڑتے قدموں اور چلاتی ہوٸی آواز آٸی۔
”محب!!!!!“یہ طارق تھا جو ایمون کے ساتھ بھاگتا ہوا ان تک پہچنا چاہتا تھا۔
”ارےےے واہ یہ تو طارق ہے۔۔“سجاد خوشی سے چلایا۔
”یا اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔“جمیل کے منہ سے نکلا۔
“مگر یہ دوسرا کون ہے۔۔؟“محب نے سوچا اتنے میں وہ دونوں قریب آگۓ۔
”ارےے میرا شیر۔۔۔“محب یہ کہتا ہوا طارق کے گلے لگ گیا پھر باقیوں سے ملا۔
”یہ کون ہے طارق اور تم رات کو کہاں رہ گۓ تھے۔۔؟“جمیل نے سوال کرڈالے۔
”بھاٸی یہ ایمون ہے جس نے مجھے ان ڈاکٶں سے بچایا۔
”کن ڈاکٶں سے۔۔؟“سجاد نے پوچھا۔
پھر طارق نے سارا قصہ بتایا۔
” ایمون نے ہمیں حویلی کے متعلق بتانا ہے نقشے کے ذریعے۔۔۔“طارق بولا۔
”ہمیں کوٸی جگہ ڈھونڈنی چاہیے جہاں تسلی سے بیٹھ کر ہم نقشے کے متعلق بات کریں۔۔۔“جمیل بولا تو تینوں نے سر ہلادیے۔
☆☆☆☆☆
ساری رات بے چینی سے گزری عاٸشہ بیگم اور ایوب صاحب سو نہیں پاۓ۔
ریمل اور اس کی والدہ بھی ان کے گھر بیٹھی تھیں۔
”میں نے زندگی میں کٸ مشکلات دیکھیں مگر ایسے حالات کبھی نہیں آۓ۔“عاٸشہ بیگم روتے ہوۓ بولیں۔
”مما آپ نے جاسوسی ناول نہیں پڑھے کیا اس میں بھی تو اتنا لیٹ آتے ہیں جاسوس لوگ۔۔۔۔“انمول بولی۔
”ہاں تو وہ ناول ہوتے ہیں حقیقت تھوڑی نہ ہوتی۔۔“مما کی بجاۓ ریمل نے جواب دیا۔
”پھر ہم بھی یہی سمجھیں کہ ہم ناول کے کردار ہیں۔۔۔“انمول نے خوش ہو کر کہا تو ریمل کی ان حالات میں بھی ہنسی نکل گٸ۔
جس پر اسے انمول سے گھوریاں کھانیں پڑیں۔
☆☆☆☆☆
پرندے اس جنگل میں پہلی بار انسانوں کو دیکھ کر آنکھیں پھاڑ رہے تھے۔
اور اپنی زبان میں کچھ کہہ رہے تھے۔
جمیل جو ان چاروں سے الگ بیٹھا جنگل کی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
درختوں کی اتنی لمباٸی تھی کہ آنکھیں نہیں پہنچ پاتیں۔
اور ان پر بیٹھے عجیب پرندے ایسے پرندے جو انھوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
یہ جنگلی پرندے تھے شاید۔
جمیل چلتا ہوا کافی آگے نکل گیا اس کے کانوں میں کسی شور کی آواز سناٸی دی۔
اس نے رک کر سننا چاہا موت کی سی جنگل میں خاموشی تھی حالانکہ یہاں جانور پرندے بھی تھے پھر یہ خاموشی کیسی تھی۔
یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
جمیل مزید آگے چلا تو شور مزید قریب سے سناٸی دینے لگا۔
اچانک اس کی نظر چند قدم دور ایک پتھریلی زمین پر پڑی جو اچانک ہی نظر آٸی تھی۔
اس پتھریلی زمین سے نکلتا پانی کہاں سے آرہا تھا اور کہاں جارہا تھا کچھ سمجھ نہیں آیا تھا جمیل کو۔
اس پانی کو چھونے کو کے لیے جمیل بے چین تھا وہ جلد از جلد پہنچنا چاہتا تھا۔
ایک سی مہک تھی اس پانی میں جمیل پہنچ کر دنگ رہ گیا۔
پانی اتنا صاف ستھرا تھا کہ اس میں انسانی شکل آسانی سے نظر آجاتی تھی۔
جمیل جو پانی کو دیکھنے میں مصروف تھا اچانک اسے جھٹکا لگا پانی میں ایک چہرہ نظر آرہا تھا حالانکہ پانی کے باہر تو کچھ نہیں تھا اس چہرے کی آنکھیں جمیل پر جمی تھیں۔جمیل کو ہپناٹاٸز کر رہا تھا اور وہ پانی کو چھونے ہی لگا تھا کہ اچانک پیچھے سے محب اور باقی ساتھیوں کی آواز سناٸی دی وہ اسے ڈھونڈ رہے تھے۔
”بھاٸی وہ دیکھیں۔۔“ایمون نے جمیل کی جانب اشارہ کیا تو سارے وہاں پہنچ گۓ۔
”کہاں چلے گۓ تھے یار تم۔۔؟؟؟“محب نے آگے بڑھ کر پوچھا جمیل بت بنا کھڑا رہا وہ سب کو باری باری نظریں گھما کر دیکھے جارہا تھا وہ بالکل نہیں ہل رہا تھا۔
ایمون جو یہ سب دیکھ رہا تھا اس کے منہ سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔
”بھ۔۔۔بھاٸی۔۔۔۔“ایمون کے منہ سے نکلا۔
================