محب کو روزانہ ڈاٸری لکھنے کی عادت تھی۔
ایوب صاحب محب کے کمرے میں بیٹھے اس کی آج کی لکھی ڈاٸری پڑھ رہے تھے سب کچھ معمول کے مطابق لکھا تھا۔
لیکن ایک جگہ کچھ مختلف لکھا تھا۔
عاٸشہ بیگم اپنے ہاتھ مروڑتے ہوۓ بے چینی سے انتظار کر رہی تھی تاکہ ایوب صاحب اسے پڑھ کر سنا سکیں کیوں کہ عاٸشہ بیگم کی نظر کافی حد تک کمزور تھی۔
وہ پڑھ نہیں پاتی تھیں۔
ایوب صاحب ڈاٸری بند کر کے اٹھے۔
”اس میں کیا لکھا ہے بتاٸیں نا کچھ۔۔۔“عاٸشہ بیگم بے تابی سے بولیں مگر ایوب صاحب کسی گہری سوچ میں تھے۔
” کچھ تو بولیں مجھے بتاٸیں اس نے کیا لکھا ہے۔۔۔؟“عاٸشہ بیگم نے پھر کہا۔
”محب۔۔۔۔۔کسی۔۔۔۔۔مہم۔۔۔۔۔پر۔۔۔۔گیا ہے۔۔۔۔“ایوب صاحب نے اٹک اٹک کر کہا۔
”کیا مطلب کس مہم پر یہ کس مہم کی بات کر رہے ہیں پاپا۔۔۔۔؟“انمول نےحیرت سے کہا۔
”اس نے یہ تو نہیں لکھا وہ کہاں گیا ہے کس کے ساتھ گیا ہے۔۔۔۔“ایوب صاحب نے کہا۔
”ہاہاہاہاہا اس جیسا سست انسان مہم پر گیا ہے افف ہاٸیں۔۔۔۔“انمول کا قہقہ نکلا۔
”بدتمیز لڑکی ہنسی کیوں جارہی ہے دعا کر وہ خیریت سے ہو پتا نہیں کس مہم پر گیا ہے۔۔۔“عاٸشہ بیگم نے انمول کو ڈانٹا۔
اسی وقت انمول کی موباٸل پر میسج کی رنگ ٹون بجی۔
اس کی پڑوسن ریمل کا واٸس تھا وہ کہہ رہی تھی۔
”انمول بات سنو۔۔۔“اس کی آواز سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
”ہاں بولو اتنی پریشان کیوں ہو۔۔۔؟“انمول نے اسے واٸس بھیجا۔
تھوڑی دیر بعد ریمل کا واٸس آگیا۔
انمول سننے ہی لگی تھی ایوب صاحب جو تھوڑی دیر پہلے باہر گۓ تھے واپس اندر آ کر انھوں نے کہا۔
”یہ لان میں گھاس توڑ کر گڑھا کیسے کھودا۔۔۔؟“
”یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں کون سا گڑھا۔۔۔۔؟“عاٸشہ بیگم باہر دوڑیں۔
انمول نے سر جھٹک کر واٸس سنا۔
”انو وہ سجاد محب کے ساتھ تمھارے ہاں آیا ہے کیا۔۔۔؟“ریمل کا واٸس تھا ساتھ میں اس کی امی کی آواز آرہی تھی کہ ریمی ادھر آٶ لان میں گڑھا کھدا ہے۔
”نہیں ریمی یار محب بھی غاٸب ہے البتہ اس کی ڈاٸری پر لکھا ملا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کسی مہم پر جارہا ہے۔“واٸس کرکے انمول باہر بھاگی۔
انھوں نے گڑھے کے اردگرد کسی قدیمی صندوق کے ذرات دیکھے۔
”یہ یہاں کیسے آۓ اور یہ گڑھا کس نے کھودا۔؟“عاٸشہ بیگم نے ادھر ادھر دیکھا اچانک ان کی نظر نۓ پودوں اور گملوں پر پڑی یہ تو کل ہی محب لایا تھا۔
پودے سوکھ چکے تھے۔
”ارے یہ پودے اور گملے تو محب لایا تھا کہہ رہا تھا وہ نۓ پودے لگاٶں گا۔۔“عاٸشہ بیگم کو اچانک کچھ یاد آیا۔
ایسے میں انمول وہاں آ گٸ۔
”یہ گڑھا محب نے پودے لگانے کے لیے کھودا ہوگا پھر اسے کوٸی ڈبہ یا صندوق ملا ہوگا پھر اس میں سے کچھ ایسا ملا ہوگا جس وجہ سے انھیں اس مہم کو جانا پڑا ہوگا۔۔۔“
انمول نے جلدی جلدی کہا ایوب صاحب اور عاٸشہ بیگم حیرت سے اسے تکنے لگے۔
”تم ایسے کہہ سکتی ہو۔۔۔کیا تمھیں یقین ہے اپنی بات پر۔۔۔؟“ایوب صاحب نے پوچھا۔
”ریمل کی امی کی آواز آرہی تھی کہ ہمارے لان میں گھڑا کھدا ہےاس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے گھر اور ان کے گھر ایک جیسا معاملہ ہوا ہے محب اکیلا نہیں ہے ۔۔۔“انمول نے بتایا۔
”اب کیا کرنا ہوگا کیسے معلوم ہوگا محب کہاں ہے۔؟“عاٸشہ بیگم نے تسبیح پڑھنا شروع کی۔
☆☆☆☆
طارق نے دھیرے دھیرے آنکھ کھولی اس کے ہاتھ پاٶں بندھے تھے منہ میں کپڑا پھنسا تھا۔
وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔مگر اٹھ کر گرگیا۔
”لگتا ہے ہوش میں آرہا ہے۔۔۔“باہر سے آواز آٸی۔
طارق نے یہ سن کر بے ہوشی کی اداکاری کی تاکہ ان کی باتیں سن سکے۔
کوٸی کہہ رہا تھا۔
”تمھیں کیا لگتا ہے یہ اپنا سارا مال ہمیں دے گا۔؟“
”ظاہر ہے ہم نے انھیں جنگیلوں سے بچایا ہے تیر مار کر انھیں بچایا ہے یہ احسان کیا ہے ہم نے ان پر اس کے تین ساتھی اسے اکیلا چھوڑ گۓ مگر ہم انھیں پکڑ لیں گے ان کے سارے مال پر قبضہ جما لیں گے آخر ڈاکو ہیں ہم کوٸی معمولی بات تو نہیں۔۔۔“دوسرے نے جلدی جلدی کہا۔
طارق کی سمجھ میں آچکا تھا یہ کوٸی ڈاکو ہیں مال حاصل کرنے کے لیے ان کو جنگلیوں سے بچایا تھا۔یقیناً تیر مارنے والے بھی یہی تھے۔
”ٹاٸم کتنا ہوا ہے۔؟“اس نے اپنے ہاتھ کو رسیوں سے ڈھیلا کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہا۔پہلے اس نے اپنے منہ سے کپڑا نکالا پھر اپنا ہاتھ جیب میں ڈال کر ننھی سی کار نکالی۔
یہ دِکھنے میں کوٸی کھلونے والی کار لگتی تھی مگر یہ اصل میں ایک مکمل موباٸل تھا۔اس میں فلیش بھی لگا تھا۔
یہ اس کے تایا ابو اٹلی سے لاۓ تھے۔
اس نے کھلونا کار کو کھولا اور ٹاٸم دیکھا۔
”گیارہ بج کر بچیس منٹ۔“وہ بڑبڑایا۔
مجھے یہاں سے کسی بھی صورت نکلنا ہوگا۔۔“وہ ڈاکٶں کے سونے کا انتظار کرنے لگا۔
وہ رسیوں سے اپنے ہاتھ آزاد کرنے میں کامیاب رہا تھا اس نے اب پیروں سے رسیوں کھولنے لگا۔
اس جدوجہد میں اس کے ناک سے خون نکلنے لگا۔پہلی بار ایسا ہوا تھا۔
مگر اس نے پرواہ نہیں کی اور ڈاکوٶں کے سونے کا انتظار کرنے لگا۔
”چل ایمون بتی بجھا اور ساتھ میں اس لڑکے کو بھی ایک نظر دیکھ لے مال وال ہو تو نکلوا دینا آج تو بہت تھکا ہوا ہوں۔۔“ڈاکوٶں کا باس بولا تھا۔
”جو آپ کا حکم۔۔“
ایمون خیمے میں داخل ہوا۔
طارق غنودگی کی اداکاری میں تھا۔
”سنو۔۔۔“ایمون نے طارق کو جھنجھوڑا۔
”باس کے سوتے ہی میں تمھاری یہاں سے بھاگنے میں مدد کروں گا بس تیار رہنا۔۔۔“ایمون نے سرگوشی سے کہا۔طارق نے حیرت سے ایمون کو دیکھا۔وہ پندرہ سولہ سال کا تھا۔
”تم کیسے مدد کرسکتے ہو تمھارے باس کو پتا چل گیا پھر۔۔۔؟“طارق نے بھی سرگوشی کی۔
”میں تمھارے ساتھ ہی یہاں سے فرار ہوں گا تمھیں ساری باتیں بتاتا ہوں بس کچھ گھڑی انتظار کرو۔۔۔“
”اور جو کچھ ہو مجھے دو تاکہ باس کو دوں۔۔۔“ایمون بولا۔
”میرے پاس کچھ نہیں ہے چاہو تو تلاشی لے لو۔“طارق مسکرایا۔
”مجھے معلوم ہے اور تلاشی کی ضرورت نہیں ہے جانتا ہوں تمھارے پاس کچھ نہیں ہوگا ایک کام کرتا ہوں۔۔۔“
یہ کہہ کر ایمون نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا۔جب نکالا تو کچھ سونے کے سکے لالٹین کی روشنی میں چمک رہے تھے۔
”یہ میرے سکے میں تمھاری طرف سے باس کو دیتا ہوں تم ایزی رہو اور باس کے سونے کا انتظار کرو۔۔“ایمون یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔
اور طارق اس غیبی مدد پر حیران تھا۔
☆☆☆☆
محب پیچھے مڑا تو اس کی ٹانگوں میں جان آٸی۔
”یار ڈرا ہی دیا تم نے۔۔۔“وہ جمیل تھا۔
”تم اتنی رات کو باہر کیوں آگۓ خیریت۔۔۔؟“جمیل بولا۔
”کچھ نہیں یار بس ایسے ہی۔۔۔“محب نے ٹالنا چاہا مگر جمیل کہاں پیچھے ہٹنے والا تھا۔
”بتا نا یار ورنہ نہیں بتاۓ گا پھر تو پتا ہے نا کیا ہوگا۔؟“جمیل نے پلکیں جھپکاٸیں۔
”وہ بزرگ غاٸب ہیں۔۔نجانے اتنی رات کو وہ کہاں گۓ ہیں۔؟“محب نے بتایا تو جمیل بھی پریشان ہوا۔
”یار ہم نے کل سے حویلی کے لیے نکلنا ہے اس لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ سو جا نیند پوری ہوگی تو فریش رہو گے چل واپس چل جھونپڑی میں۔“جمیل بے نیازی سے بولتا جارہا تھا۔
”تم شاید بھول رہے ہو کہ طارق ہمارے ساتھ نہیں پہنچا۔“یہ کہتے ہوۓ محب پریشان ہوگیا۔
”اوہ میں بھول ہی گیا تھا وہ کہاں ہوگا اس وقت۔؟“جمیل نے پوچھا وہ دونوں اب واپس جھونپڑی کی طرف جارہے تھے۔
”وہ کہاں ہوگا کس حال میں ہوگا۔۔؟“محب کو فکر تھی اس کی۔
”اتنے بھی پریشان مت ہو کوٸی بچہ نہیں ہے اپنا خیال رکھنا جانتا ہے۔۔“جمیل نے فوراً کہا۔
”اب اسے کیسے ڈھونڈیں گے۔۔۔؟“محب بولا۔
” ان شاء اللہ وہ خود ہی آجاۓ گا۔۔۔“جمیل نے جواب دیا۔وہ اب جھونپڑی میں داخل ہورہے تھے۔
لاٹھی کی ٹک ٹک سن کر انھوں نے سامنے دیکھا۔
” آ۔۔۔۔آ۔۔۔۔آ۔۔پ۔؟؟؟“محب کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”کہاں گۓ تھے تم دونوں۔۔۔۔؟“دہشت ناک آواز ان کے کانوں سے ٹکراٸی۔
☆☆☆☆
”میں جمیل اور طارق کے گھر سے پوچھتا ہوں وہ دونوں گھر پر ہیں یا محب کے ساتھ ہیں۔“ایوب صاحب بولے۔
”ہاں ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔۔“عاٸشہ بیگم بولیں۔
”ہیلو آفتاب صاحب کیا جمیل گھر پر ہے۔۔۔؟“انھوں نے اپنی گھبراہٹ چھپانا چاہی۔
”نہیں یہاں بھی عجیب صورتحال ہے میں تو آپ سے پوچھنے والا تھا کہ جمیل وہاں تو نہیں آیا۔“آفتاب صاحب کی آواز سے پریشانی ٹپک رہی تھی۔
”اوہ اللہ ہم پر اپنا رحم فرماۓ میں اب فون رکھ رہا ہوں۔“یہ کہہ کر ایوب صاحب نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی عاٸشہ بیگم نے بے تاب ہو کر پوچھا۔
”کک۔۔۔کیا ہوا۔۔۔؟“
”جمیل بھی گھر پر نہیں میں منیر صاحب (طارق کے والد) کے گھر فون کرتا ہوں۔“ایوب صاحب بولے ان سے بھی پوچھا وہیں سے بھی یہی جواب ملا۔
”کہاں جاسکتے ہیں یہ چاروں۔۔؟؟“ایوب صاحب تھک ہار کر وہیں بیٹھ گۓ عاٸشہ بیگم اندر ہی اندر گھلتی جارہی تھیں انمول بھی اب پریشان ہوگٸ تھی۔
☆☆☆☆