”تم لوگ انسان ہو کہ جانور۔۔۔۔“جمیل تلملا اٹھا۔
جس جنگلی کو چوٹ لگی تھی وہ مرنے جیسا ہورہا تھا کسی جنگلی میں جرات نہیں تھی کہ وہ آگے بڑھ کر اسے اٹھا سکے۔
شاید ان میں خوف بیٹھ گیا تھا۔
”اب کون آۓ گا ہم سے مقابلے میں۔۔“طارق نے ہاتھ جھاڑتے ہوۓ کہا۔اس کے بازو میں شدید تکلیف تھی۔
سارے جنگلی ایک دم پیچھے ہٹے۔
”تم نے میرے باپ کو مارا میں چھوڑوں گا نہیں تمھیں۔۔۔“
اچانک جنگلیوں کے حجوم کو چیرتا ہوا ایک لڑکا ہاتھ میں نیزہ لیے وحشیوں کی طرح طارق کو نیزہ مارنا چاہا طارق ایک طرف ہوگیا اور وہ لڑکا اپنی دوڑ میں ایک درخت سے جا ٹکرایا۔
”اف۔۔۔“اس کے منہ سے نکلا۔
طارق نے ڈرا دھمکا کر اس سے چار خنجر چھینے سب کو ایک ایک دیا۔
”ارے یار کوٸی تو آۓ ہم بور ہورہے ہیں۔“محب شوخی سے بولا۔
”او چپ کر تمھیں لڑنے جھگڑنے کی پڑی ہے۔؟“سجاد تلملا کر بولا۔
اچانک تواتر سے تیز آنا شروع ہوگۓ چاروں نے جنگلیوں کی طرف دیکھا جو اپنی جگہ ساکت کھڑے تیروں سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
”ارے یہ تیر کون برسا رہا ہے۔۔۔۔؟“جمیل نے ایک درخت کے پیچھے چھپ کر تیر سے بچنا چاہا۔
مگر پھر غور کیا یہ تیز جنگلیوں کو مارے جارہے تھے۔
”بھاگو حملہ ہوگیا حملہ ہوگیا۔۔“جنگلی بھاگ کھڑے ہوۓ۔
تیر بھی رک گۓ۔
سجاد نے دیکھنا چاہا کہ کون تیر کون مار رہا تھا مگر آس پاس گھنے درخت اور شام کے اندھیرے میں کوٸی دکھاٸی نہیں دے رہا تھا۔
”تم لوگ کون ہو جو بھی ہو سامنے آٶ جن بھوت جو بھی ہو۔۔۔“جمیل نے آواز لگاٸی۔
”پاگل ہوگۓ ہو اگر کوٸی جن بھوت واقعی سامنے آگیا تو۔۔۔؟“محب نے غصے سے کہا۔
”طارق کا بازو ٹوٹا ہے اسے جوڑنا ہوگا۔۔۔“سجاد بولا۔
”یہاں ڈاکٹر کدھر سے آۓ گا۔۔۔“طارق بے سدھ زمین پر پڑا تھا۔
”اللہ کوٸی اسباب پیدا کردے گا۔۔“
جمیل نے آسمان کی طرف دیکھا جہاں گھنے بادل آچکے تھے بارش کے آثار بھی تھے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
”ایسے میں اگر بارش ہوجاتی ہے تو پھر۔؟“طارق بولا۔
”تم تو زمین سے اٹھو کوٸی سانپ وغیرہ نہ ہو یہاں۔“وہ چاروں گھنی جھاڑیوں میں گھرے تھے۔
”السلام علیکم بچو یہاں کیا کر رہے ہو۔؟“
اچانک کسی بزرگ کی میٹھی سی آواز ان کے کانوں سے ٹکراٸی محب نے گردن موڑ کر دیکھا تو ایک سفید داڑھی چہرہ پرنور لیے وہ بزرگ مسکرا رہے تھے۔
”وعلیکم السلام آپ کک۔۔۔کون۔۔۔؟“ایک سنسان اور ویران علاقے میں شامل کے وقت یہ بزرگ۔۔۔یقیناً حیرت انگیز بات تھی۔
”بچو میں اللہ کا ایک حقیر بندہ جو دوسروں کے کام آنا چاہتا ہے کوٸی مدد چاہیے تمھیں تو بتانا۔۔۔“
بزرگ نے سجاد اور طارق کو بغور دیکھتے ہوۓ کہا۔
”اوہ یہ دونوں زخمی کیسے ہوۓ جنگلیوں نے کیا ہے یہ سب بچو۔۔۔؟“بزرگ نے طارق کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”آپ۔۔۔آپ کو کک۔۔۔کیسے پتا چلا۔۔۔؟“جمیل نے ہکلاتے ہوۓ پوچھا۔
”بچے میں یہاں کا ہی رہنے والا ہوں ایک ایک چیز کو جانتا ہوں۔“بزرگ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر پھونک رہے تھے۔
”آپ کو ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔؟“طارق نے اچانک آنکھیں کھولیں۔
”اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ایک مسلمان اس کا اگر ایمان کمزور ہو تو اسے ہر چھوٹی بڑی چیز ڈراتی ہے کیوں کہ اسے اللہ پر بھروسہ نہیں ہوتا۔۔۔۔“ان بزرگ کے ہاتھ میں لالٹین تھی جس سے کچھ کچھ روشنی ہورہی تھی۔
بزرگ اٹھ کھڑے ہوۓ تو چاروں بھی کھڑے ہوگۓ۔
”میری ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں رات گزارنا چاہو تو گزار سکتے ہو کوٸی مدد بھی چاہیے تو بندہ ناچیز حاضر ہے۔۔۔“انھوں نے عاجزی سے کہا۔
”آٶ میرے پیچھے۔۔۔۔“بزرگ آگے چلنے لگے اور وہ چاروں پیچھے۔
☆☆☆☆☆
عاٸشہ بیگم لان میں بیٹھی تصبیح پڑھ رہی تھیں ان کی آنکھیں بار بار دروازے کا طواف کر رہی تھیں۔
انھیں کسی کا انتظار تھا۔
”یا اللہ میرے بیٹے کو اپنے حفظ امان میں رکھنا۔۔۔“عاٸشہ بیگم بار بار آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کرتیں۔
”مما آپ کیوں اتنا پریشان ہورہی ہیں دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کر رہا ہوگا اور کیا۔۔۔۔“انمول نے اپنے ناخن تراشتے ہوۓ کہا۔
”وہ اب تک اس ٹاٸم آ جاتا ہے مگر آج نہیں آیا ابھی تک اور بتا کر بھی نہیں گیا ہے پتا نہیں کس حال میں ہوگا۔۔۔“عاٸشہ بیگم نے کہا۔
”اچھا ہے کچھ دن گھر سے باہر رہے گا میں بھی سکون کا سانس لوں گی پتا ہے اس دن میں نے نوڈلز اپنے لیے بناۓ وہ بھوکا بندر کھا گیا اور پرسوں اس نے میری ساری چاکلیٹس کھا لیں تھی۔“
انمول کے اپنے غم تھے۔
”شرم کرو تمھارا اکلوتا بھاٸی ہے۔“عاٸشہ بیگم نے کہا۔
”ہاں تو میں بھی اکلوتی بہن ہوں میرا تو کسی کوخیال ہی نہیں۔“
انمول نے غصے سے چپل پہنی اور اندر چلی گٸ عین اسی وقت ایوب صاحب اپنی ڈیوٹی سے لوٹے انھوں نے انمول کو غصے سے جاتے ہوۓ بھی دیکھ لیا۔
”کیا ہوا انمول اتنی غصے میں کیوں تھی۔۔۔؟“وہ کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولے۔
عاٸشہ بیگم نے سب سنایا۔
”ہممم۔۔۔وہ ابھی چھوٹی ہے نا تبھی ایسا سمجھتی ہے چھوڑیں یہ اور یہ محب کہاں ہے بلاٶ اسے کچھ کام تھا۔۔۔“ایوب صاحب اپنی دھن میں بول رہے تھے یہ دیکھے بنا کہ عاٸشہ بیگم کے چہرے کے تاثرات کیا تھے۔
”وہ گھر نہیں آیا صبح سے نکلا ہے۔۔۔۔“
بڑی مشکل سے انھوں نے کہا۔
”ابھی تک نہیں آیا؟؟؟کال کی ہے اسے۔۔۔؟“انھوں نے حیرت سے پوچھا تو عاٸشہ بیگم نے نفی میں سر ہلادیا۔
”آپ بھی کمال کرتی ہیں۔۔۔اچھا خیر میں کال ملاتا ہوں۔“ایوب صاحب نے کہا۔پھر محب کا نمبر ملانے لگے ایک بار دو بار تین چار پانچ۔۔مگر دوسری طرف سے فون بند جارہا تھا اب تو ایوب صاحب بھی پریشان ہوگۓ ایسے میں انمول بھاگتی ہوٸی باہر آٸی۔
”مما۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ محب۔۔۔۔ بھاٸی۔۔۔”پھر انمول نے جو بات کہی وہ ان کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھی
☆☆☆☆☆
وہ چاروں اس بزرگ کے پیچھے چل رہے تھے ذہن میں کٸ اندیشے لیے۔
طارق سب سے پیچھے تھا کیوں کہ وہ درد کی شدت سے کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔
بالاخر وہ گر پڑا مگر ان تینوں کو خبر نہ ہوٸی اور وہ آگے نکل گۓ۔
طارق نے آواز دینا چاہی مگر کمزوری کی وجہ سے آواز اس کے گلے میں ہی گھٹ گٸ وہ زمین پر پڑا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔
اچانک اسے لگا کسی نے اس کو ٹانگ سے کھینچا ہے اس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنا چاہا مگر اماوس کی راتیں تھیں مکمل اندھیرا تھا اوپر سے گھنے درخت اور جھاڑیاں۔
مسلسل کوٸی اسے کھینچ کر جھاڑیوں کے اندر لے جا رہا تھا۔
طارق نے کسی چیز کو پکڑنا چاہا مگر پکڑ نہ پایا بالآخر وہ مکمل جھاڑیوں کے اندر جا کر پکڑنے والے نے اس کی ٹانگ چھوڑ دی۔
طارق نے جو منظر دیکھا وہ یہ تھا جھاڑیوں کے بیچ گول داٸرے میں کچھ انسان بیٹھے ہوۓ تھے۔ان کے چہرے پہچانے نہیں جارہے تھے۔
بیچوں بیچ آگ جل رہی تھی طارق نے اٹھنے کی کوشش کی مگر کسی نے زور سے ڈنڈا مارا تو وہ بے ہوشی کی دنیا میں کھو گیا۔
☆☆☆☆☆
وہ تینوں بزرگ کے پیچھے چلتے جارہے تھے گھپ اندھیرے میں گھنے جنگل کے بیچوں بیچ صرف ایک لالٹین کی مدد سے چلنا کمال تھا۔
سب سے پہلی نظر بزرگ کی جھونپڑی پر جمیل کی پڑی۔وہ نہ زیادہ بڑی تھی نہ زیادہ چھوٹی درمیانی تھی اس کی کھڑکیوں سے نیلی اور پیلی روشنی آرہی تھی۔
جو اس خوفناک ماحول کو مزید خوفناک بنانے میں مدد کر رہی تھی۔
بالاآخر وہ اس جھونپڑی کے دروازے تک پہنچ گۓ بزرگ نے تالا نہیں لگایا ہوا تھا۔
یہ بات ان تینوں کے لیے حیران کن تھی آخر محب نے پوچھا۔
”آپ نے تالا نہیں لگایا ہوا کوٸی چور وور نہیں آتا یہاں۔۔۔؟“
اس کی بات سن کر بزرگ مسکرایا مگر کہا کچھ نہیں جیسے ہی وہ تینوں اندر داخل ہوۓ حیران رہ گۓ۔
ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں کٸ لالٹینس جل رہی تھیں ایک تھرماس تین گلاس پڑے تھے۔
ایک بڑا سارا گدا بچھا تھا جس پر آرام سے سویا جاسکتا تھا۔
ان تینوں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر ہنس پڑے۔
”بچو بھوک لگ رہی ہوگی یہ پھل کھا کر دودھ پی لو۔۔۔“بزرگ نے سادگی سے کھانا پیش کیا ان تینوں نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا نیند کے جھٹکے میں انھیں طارق کا پتا نہ چل سکا۔
بزرگ نے ان کے زخم صاف کیے۔
پھر تینوں نے خوب سیر ہو کر کھانے کے بعد ایک جاندار ڈکار ماری۔
اور بے سدھ ہو کر دھڑام سے گرے۔
محب کو پھلوں میں عجیب سی دواٸی کی بدبو محسوس ہوٸی تھی۔
اس نے جمیل اور سجاد کو دیکھا وہ مزے سے کھا رہے تھے محب نے پیٹ بھرنے کے بہانے مزید کھانے سے معذرت کرلی تھی اسے کچھ کھٹک رہا تھا چھٹی حس کچھ انوکھا ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔
محب بہت بے چین تھا اسے نیند نہیں آرہی تھی اس نے اٹھ کر جھونپڑی کو ایک نظر دیکھا۔ایک دم اسے جھٹکا لگا۔
”طارق۔۔۔طارق کہاں ہیں۔۔؟“اس نے جمیل کو بہت جھنجھوڑا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا اس کی نیند تھی ہی ایسی کوٸی سر پر کھڑے ہو کر ڈھول بھی بجاتا اس کی آنکھ نہیں کھلتی تھی۔
”سجاد اٹھو یار طارق کہاں ہےہمارے ساتھ تھا نا وہ۔۔۔۔؟“اس نے اب سجاد کو جھنجھوڑا وہ بھی یونہی پڑا رہا۔
محب نے دیکھا وہ بزرگ جھونپڑی میں نہیں تھا۔
وہ آہستگی سے اٹھ کر جھونپڑی سے باہر نکل آیا۔
آسمان پر تارے ٹمٹما رہے تھے۔اماوس کی راتوں کی وجہ سے آسمان مزید پر کشش لگ رہا تھا۔
اندھیرا اتنا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھاٸی نہیں دیتا تھا۔
وہ بزرگ ناجانے کہاں تھا۔مگر محب کو فکر تھی تو طارق کی۔کہ وہ کہاں رہ گیا۔
اندازے سے چلتا ہوا وہ آس پاس دیکھ رہا تھا۔
کہیں سے بھی روشنی کی لکیر تک نظر نہیں آرہی تھی۔
اچانک اس نے اپنا موباٸل جیب سے نکالا۔
وہ پاور آف تھا محب نے جیسے ہی کھولا اس پر ایوب صاحب (محب کے والد)کی پانچ کالز لگی ہوٸی تھیں۔
”اوہ پاپا اور مما پریشان ہوگۓ ہوں گے مگر میں واپس بھی تو نہیں جاسکتا اپنی اس مہم کو میں پورا کرکے لوٹوں گا پاپا آٸی ایم سوری۔“
اس نے آنکھیں آسمان کی طرف کرکے بھینچیں اور ہلکی آواز سے کہا۔
اچانک اسے لگا کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہو جیسے ہی اس نے مڑ کر دیکھا بوکھلا گیا اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔
جاری ہے۔
☆☆☆☆