چ چھو چھوڑے مجھے پلیز ۔۔۔۔۔۔ہانیہ کی آنکھوں سے آنسوں مسلسل بہہ رہے تھے جن کا حاتم پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ نے ایک بار بھی نظر اُٹھا کر حاتم کی طرف نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔
اِدھر دیکھو میری طرف ۔۔
مقابل اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔۔۔
تم نے سنا نہیں ادھر دیکھو میری طرف حاتم دھاڑا تھا ۔۔۔
ہانیہ کے رونے میں اور تیزی آئی تھی ۔۔۔۔۔
ہانیہ نے اپنی گھنی لمبی پلکیں اُٹھا کر حاتم کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔
رشتے سے انکار کیوں کیا؟
ہانیہ نے حاتم کی ایک بات نہیں سنی وہ رونے میں مصروف اپنا بازوں چھوڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
حاتم نے ایک جھٹکے سے ہانیہ کو اپنے اور قریب کیا ۔۔۔
تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی حاتم نے بہت چبا کر الفاظ ادا کیے گرفت اور مضبوط کی۔۔۔۔۔
پ پیل پلیز مجھے درد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جو تکلیف مجھے ہوئی تمہارے انکار سے ۔۔۔۔۔۔
مجھے انکار کی وجہ بتاؤ ۔۔۔۔
ہانیہ نے کوئی جواب نہیں دیا اُسکا سر چکرا رہا تھا سب اسکی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔۔۔
مج مجھے جانے دیں ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میری ماما اج پھر تمہارے گھر کال کریں گی اس بار جواب ہاں میں ہونا چاہئے سمجھی؟
ہانیہ نے وہاں سے دوڑ لگائی تھی ۔۔۔
رحمان کینٹین سے نکلا ہی تھا جب اسکی نظر ہانیہ پر پڑی جو بار بار اپنے آنسوں صاف کرتی تیز چل رہی تھی ۔۔۔۔
رحمان کو زیادہ حیرات تب ہوئی جب پیچھے حاتم کو آتے دیکھا ۔۔۔
رحمان ہانیہ کے پیچھے گیا تھا ۔۔۔سُنیے میری بات سُنے لیکن ہانیہ کہا سننے والی تھی وہ اپنے کانپتے وجود کو گھسیٹتے ہوئے رکشہ میں آ بیٹھی تھی ۔۔۔
امّاں کا خیال ذہین میں اتے ہی اپنے ہواس درست کرنے لگی۔۔
مریم کب سے ہانیہ کا ویٹ کر رہی تھی کافی دیر گزرنے کے بند وہ سمجھ گئی تھی ہانیہ گھر چلی گئی ہے مریم بھی اپنا بیگ اُٹھائے گھر روانہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔
آرہی ہوں کنیز کے چھت سے نیچے اتے اتے تیسری بار دروازہ نوک ہوا تھا ۔۔۔۔
دروازہ کھلتے ہی ہانیہ اپنی امّاں کے گلے لگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔
کنیز بہت پریشان ہوئی ۔۔۔
کیا ہوا ہے ۔۔۔کیا ہوا میری بچی؟
ہانیہ کی رو رو کر ہچکیاں بندھ گئی تھی کنیز نے پانی لا کر پلایا کیا ہوا ہانیہ کنیز نے فکر مندی سے بیٹی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اما امّاں میرے سر میں بہت درد ہے صبح سے ۔۔۔۔
تو پُتر اس میں رونے والی کیا بات ہے ؟
ہانیہ پُتر تو کب بڑی ہو گی؟
کنیز کہتے ہی باہر کو چل دی آپ کہا جارہی ہے ۔۔۔۔
تیرے لیے دوائی لینے باجی سیما سے. ( محلے کی ڈاکٹر )..
ہانیہ اُٹھ پھر اپنی ماں کے گلے لگی امّاں اب میں ٹھیک ہوں آپ کہی نہیں جاو میرے پاس رہے ۔۔۔
کنیز کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی میری بچی تم نے پریشان کردیا تھا ۔۔۔۔
مریم گھر اگئی تھی لیکن ہانیہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
کیا کہا پھر اُسنے حسن دوسری بار پوچھ چکا تھا لیکن حاتم ابھی بھی ہانیہ کی انکھوں میں ہی کھویا تھا ۔۔۔
بتا بھی یار ۔۔۔
کہنا کیا اچھے سے سمجھا دیا ہے اب انکار نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔۔
چل یار اج ستارہ ک کی طرف چلتے ے۔۔۔۔
میرا موڈ نہیں حاتم کہتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا گھر جا کر ماما سے کال بھی کروانی ہے ۔۔۔۔
اس لڑکی کو تم نے کیا کہا؟
رحمان نے اتے ہی سوال کیا ۔۔۔۔۔
تمہیں اس سے کیا جو بھی کروں ۔۔۔۔
دیکھو حاتم تم جو مرضی کرو مجھے پرواہ نہیں میں نے کبھی کچھ نہیں کہا کیوں کہ لڑکیاں اپنی مرضی سے تمہارے پاس آتی ہے لیکن زبردستی کسی کی زندگی خراب نہیں کرنے دوں گا ۔۔۔
کیوں تیرا دل آ گیا ہے اُس پر؟
"حاتم " وہ میری بہنوں کی طرح ہے ۔۔۔
بہن تو نہیں ہے نہ ۔۔۔۔
چلو بہن کی طرح ہے تو رخصتی کی تیاری کرو۔۔۔۔
تم دور رہو اس سے ورنہ۔۔۔۔
ورنہ کیا وہ میری ہونے والی بیوی ہے سمجھے تم دور رہنا کہتے ہی حاتم رُکا نہیں چلا گیا ۔۔۔
رحمان کو ایک بار پھر اسکا روتا ہوا چہرا یاد ایا رحمان کو ابھی بھی بات ہضم نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
ہانیہ سو کر اُٹھی تھی جب حاتم کی حرکت یاد آئی اسکے کہے گئے الفاظ زہین میں گم رہے تھے ۔۔۔
میں نہیں کروں گی اس سے شادی کبھی نہیں بدتمیز ہانیہ نے سوچا اور اُٹھ کر باہر ائی امّاں کو آواز دی لیکن امّاں گھر نہیں تھی ۔۔۔
ہانیہ کو مریم کا خیال ایا تو چھت پر چلی گئی دو آوازوں کے بعد مریم آگئی تھی ۔۔۔۔
ہانیہ کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔۔۔سوری مریم نے بات شروع کی اسنے مجھے بہت فورس کیا تھا پلیز معاف کردو مجھے ۔۔۔۔۔ہانیہ کی ایک ہی تو دوست تھی کب تک ناراض رہتی ۔۔۔۔۔۔
رات سونے کے لیے لیٹے ہی تھے جب موبائل بجنے لگا ۔۔۔۔
ہانیہ پُتر دیکھ کس کا فون ہے ۔۔۔۔جی ماما
نمبر دیکھتے ہی ہانیہ نے سپیکر اوپن کر موبائل اپنی اماں کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔
سلام دعا کے بعد روبینہ نے رشتے کی بات دہرائی بہن جی میں نے پہلے بھی جواب دیا تھا اپکو۔۔۔۔۔۔۔
اپ ایک بار پھر اپنی بیٹی سے پوچھ لے ۔۔۔۔
کنیز نے سوالیہ نظروں سے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا ۔۔۔
ہانیہ نے نہ میں سر کو ہلایا ۔۔۔۔
نہیں بہن جی ہم اپ سے معزرت کرتے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم دوبارہ انکار سنتے ہی باہر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاتم ساری رات نہیں سویا تھا صبح ہوتے ہی حسن کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔۔۔
ہانیہ پُتر اُٹھ جا دیر ہو جائے گی امّاں اج نہیں جانا میں نے ۔۔۔۔
کیوں؟
امّاں طبیعت نہیں ٹھیک ۔۔۔۔۔۔۔
اج رخسار بھی نہیں آئی تھی مریم اکیلی بور ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔بھوک محسوس ہوتے وہ کینٹین پہنچی فون کیوں نہیں اُٹھا رہی تھی ابھی وہ اپنے برگر کے ساتھ انصاف کر رہی تھی جب حاتم ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے جھکا تھا ۔۔۔۔۔۔
مجھے اب تمہاری کوئی بات نہیں سُننی نہ میں کوئی کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رکو رکو جلدی کس بات کی ہے یہ سنو پہلے حاتم نے موبائل مریم کی طرف بڑھایا جس میں مریم کی کال ریکارڈ تھی ۔۔۔۔۔
وہ سُنتے ہی مریم کے ہاتھ سے برگر گِرا تھا ۔۔۔۔
میں مانتی ہوں میری غلطی تھی میری دوست بہت معصوم ہے پلیز چھوڑ دو ۔۔۔
بہت جلدی خیال نہیں اگیا تمہیں میری بات سُنو اب تم وہ کرو گی جو میں کہوں گا اگر کوئی کھیل کھیلنے کی کوشش کی یہ ریکارڈنگ تمہارے گھر پہنچ جائے گی ۔۔۔
مریم کا منہ کھلا رہ گیا تھا حاتم وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو کیا پلین ہے حسن موبائل پہ مصروف حاتم سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
پہلے اس بیماری کو چھوڑ پھر بتاتا ہوں تو بتا میں سن رہا ہوں حاتم نے اگے بڑھ کر حسن کے ہاتھ سے موبائل کھینچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم نے اپنا پلین حسن کو بتا دیا تھا یار اگر یہی کرنا ہے تو تھوڑا ویٹ کر لے ۔۔
کیوں؟
میرا کزن دوبئی جا رہا ے اسکا فلیٹ بلکل مناسب ہے اس کام کے لیے تجھے پتہ ہے تھوڑی سی بات بھی باہر نکلی تو میڈیا والے ۔۔۔۔۔
۔
اوکے ۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ یار پرسوں منگنی ہے رخسار کی وہ بہت زور دے رہی تھی ۔۔۔
یار میں نہیں جاو گی ۔۔۔
کیوں؟
سوٹ لینا پڑے گا ۔۔۔۔
تو میرا پہن لینا دونوں چلے گے بس مجھے نہیں پتہ میں اکیلی نہیں جاوں گی ۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔اگلے دن ہانیہ یونی تو گئی تھی لیکن سارا دن ڈر میں نکل گیا گھر آکر ہانیہ نے شکر کا کلمہ پڑھا تھا وہ ریلیکس ہو گئی تھی جیسے کوئی بھیانک خواب گزر گیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیار ہو؟
مریم کے موبائل پر مسیج ایا تھا ۔۔۔۔
ابھی بھی پیچھے ہٹ جاو پلیز یہ ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
تمہیں جیسا کہا گیا ہے ویسا کرو ورنہ ۔۔۔۔
ہانیہ تیار ہو ؟مریم نے چھت سے آواز دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکل آجاؤ جلدی ۔۔۔۔
کیسی لگ رہی ہوں میں؟
گڑیا کی طرح ۔۔۔۔۔مریم نے ہانیہ کو گلے لگایا مریم نہیں جانتی تھی جو غلطی مذاق میں وہ کر بیٹھی تھی اسکا کیا انجام ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔