پارلر والی لڑکی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی عائشہ سی گرین لہنگا پہنے جس پر گولڈن کام کیا گیا تھا ماتھے پر ماتھا پٹی سجائے بہت پیاری لگ رہی تھی .....
اللہ میری بیٹی کو ہر بُری نظر سے محفوظ رکھے آسیہ نے کمرے میں اتے ہی عائشہ کی نظر اُتاری اور پارلر والی کو باہر جانے کا کہا عائشہ پریشان سی آسیہ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پریشان نہیں ہو میری جان مجھے اپ سے ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔
جی ماما کہئیے ۔۔۔۔۔۔
آسیہ نے عائشہ کے ماتھے پر پیار کیا اور کرسی گھسیٹ کر عائشہ کے پاس بیٹھ گئی
اُسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑا عائشہ میری بیٹی پیچھے جو بھی ہوا جیسے بھی اُسے بھول کر ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے
رحمان تم سے بہت پیار کرتا ہے میں نے اُسے ساری ساری رات تمہارے لیے روتے دیکھا اب تم نے اس رشتے کو اتنی محبت دینی ہے کہ کبھی تمہارا ماضی تمہارے سامنے ائے تو تم دونوں ٹوٹنے کی بجائے ہمت سے ساتھ کھڑے رہو عائشہ جو نظریں جھُکائے آسیہ کی بات سُن رہی تھی
اج اسکے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے اس نے بس مثبت میں اپنے سر کو ہلایا آسیہ نے بہت پیار سے عائشہ کا منہ اپنے ہاتھ سے اوپر کیا میری جان کچھ باتوں کو چھپانا بہت بہتر ہوتا ہے
جو باتیں ہمیں پتہ ہیں وہ کسی دوسرے کو بتانا ضروری نہیں میری بات سمجھ ائی؟
جی ماما عائشہ اپنے انسو اپنے حلق میں اتارتے ہوئے بس اتنا ہی بولی رحمان اور آسیہ کا فیصلہ تھا
عائشہ کے ماضی کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا جائے اور اس پر پورا عمل بھی کیا گیا تھا گھر میں موجود مہمان پوری سچائی سے ناواقف تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما؟
جی؟ اپ بہت اچھی ہے عائشہ کہتے ہی آسیہ کے گلے سے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میری بیٹیاں دنیا کی سب سے اچھی بیٹیاں ہیں
آسیہ نہیں چاہتی تھی عائشہ روئے اس لیے جلد ہی عائشہ کو خود سے الگ کیا عائشہ میرے بعد بھی ہانیہ کو اس گھر میں بیٹی کی حیثیت ہی ملنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپ کیسی باتیں کر رہی ہے ماما پلیز اللہ اپکو ہمیشہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے ۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کی فکر نہیں کرے وہ میری اور مانی کی جان ہے ماما ہم ہمیشہ اُسے خوش رکھنے کی کوشش کرے گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آجاؤں؟
ہانیہ نے تھوڑا سا منہ اندر کی طرف لاکر معصوم سا سوال کیا جس پر آسیہ اور عائشہ مسکرائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکل نہیں پہلے پارلر والی کو اندر لاؤ وہ تمہیں تھوڑا میکاپ کردے عائشہ نے فوراً اپنی بات مکمل کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ دروازہ کھولے جھٹ سے اندر ائی ماما دیکھے مجھے کہی سے بھی کوئی کمی ہے؟ ہانیہ نے اپنی سیمپل سے پرنٹ ریڈ کالر کے لہنگے کو گھمایا جسکی کُرتی کے گلے اور دامن پر ہلکہ سا گولڈن کام ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
آسیہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور ہانیہ کو اپنے ساتھ لگا کر بہت پیار کیا میری بیٹی ہے ہی بہت پیاری لیکن بھائی کی شادی ہے تھوڑ ساا تو میکاپ کروا لو نہ ۔۔۔۔۔۔۔
اوکے ماما کل آپی نے کروا دیا تھا اور آج اپ کے کہنے پر کروا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
گڈ گرل چلو وہاں بیٹھو میں لڑکی کو بھیجتی ہوں آسیہ کہتے ہی روم سے نکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپی اپ بہت ہی نہیں بہت ہی زیادہ پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔
اچھا جی اپ بھی کچھ کم نہیں لگ رہی عائشہ نے پیار سے ہانیہ کی گال کھنچھی ۔۔۔۔۔۔۔
آآآآ اتنی زور سے آپی ۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہا چُپ ڈرامے باز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں کے قہقہے کمرے میں گونجے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب میرج ہال میں پہنچ گئے تھے زیادہ مہمانوں کو انوائٹ نہیں کیا گیا تھا پھر بھی شہر کا سب سے اچھا میرج ہال بک کروایا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب مہمان دولہن کا ویٹ کر رہے تھے سب سے زیادہ انتطار تو رحمان کو تھا رحمان گولڈن کالر کی شیروانی پہنے بہت پیارا لگ رہا تھا آجاؤ عاشی کہاں رہ گئی ہو رحمان نے اپنا بائیا ہاتھ اپنے دل پر رکھا جو آج زورو سے دھڑک رہا تھا میں بہت بے چین ہوں اج تمہارے سارے ڈر دور کردوں گا عاشی میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں مجھے بدلے میں محبت نہیں چاہئے میں تمہیں کبھی اس بات کے لیے فورس نہیں کروں گا کہ تم میری محبت کے بدلے مجھے محبت دو تمھارا میرے ساتھ ہونا ہی میری طاقت ہے رحمان اپنی سوچو میں کھویا تھا آسیہ دو بار رحمان کو آواز دے چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
رحمان آسیہ نے رحمان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ماما؟
بیٹا اپنا ہاتھ بڑھاؤ عائشہ کو اسٹیج پر لانے میں اُسکی مدد کرو ۔۔۔۔۔۔۔
جی ماما رحمان نے اپنا ہاتھ بڑھایا جسکو تھام کر عائشہ اسٹیج پر بیٹھ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کا مرحلہ بھی گزر گیا تھا سب خوشی خوشی کھانا کھانے میں مصروف تھے ہانیہ نے ابھی پہلا نوالہ ہی منہ میں ڈالا تھا کسی کی نظر خود پر محسوس ہوئی ہانیہ نے اُس طرف دیکھا ہی تھا کوئی پیچھے ہوا تھا ہانیہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس طرف بڑھی تھی ۔۔۔۔۔۔
کون ہے یہاں ہانیہ بِنا کچھ سوچے برائیڈل روم کی طرف بڑھی دروازہ کھولتے ہی ہانیہ نے دو بار آواز دی کون ہے؟ کوئی ہے کیا؟
وہ کسی کو نہ پا کر واپس پلٹی ہی تھی کسی نے اُسکا بازوں پکڑ کر اُسے روم کے اندر کھینچا تھا اِس سے پہلے ہانیہ کی چیخ نکلتی وہ دروازہ لاک کر ہانیہ کے منہ پر ہاتھ رکھ چُکا تھا وہ دیوار کے ساتھ لگی اپنی پوری انکھیں کھولے اُس وجود کو دیکھ کر سہم گئی تھی منہ پہ ہاتھ کی وجہ سے بول نہیں پا رہی تھی لیکن انکھوں سے آنسوں نکل حاتم کا ہاتھ بھیگو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شششششش شور نہیں کرنا میں چھوڑ رہا ہوں اوکے؟
شور نہیں کرنا سمجھ آئی ؟
ہانیہ ساکت تھی حاتم نے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا لیکن خود ابھی بھی کسی دیوار کی مانند اسکے سامنے کھڑا تھا اُسے ہانیہ کا جسم کانپتا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلیکس میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا ہانیہ اپنی نظریں جھکا گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں رحمان کو میں سمجھا لوں گا تم بتاؤ آنا چاہو گی میرے ساتھ؟
مقابل مکمل خاموشی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا ہے تمہارے ساتھ میں سب ٹھیک بھی کردوں گا تم بس میرے ساتھ چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کے الفاظ کہی دم توڑ چکے تھے اُسنے اپنے وجود کو خود میں سمیٹتے ہوئے بس نہ میں اپنے سر کو ہلایا ۔۔۔۔۔۔
حاتم نے ایک زور دار مکا دیوار پر دے مارا جس سے ہانیہ اور سمٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
میں کہہ رہا ہوں میں سب ٹھیک کردوں گا چلو اگر تمہیں ٹائم چاہیے تو میں تمہیں ٹائم دیتا ہوں لیکن میں نہ سُننے کا عادی نہیں تم جانتی ہو اتنا کہتے ہی حاتم دروازہ کھول ہانیہ کی نظروں سے اوجھل ہوا ۔۔۔۔۔
وہ اپنے بوجھل سے وجود کو گھسیٹتے ہوئے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی تھی کیوں آخر کیوں ہر بار سب برباد کرنے آ جاتے ہو حاتم کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے سب کیا میری ماں کو، واپس لا سکتے ہو تم ۔۔۔۔
تم کبھی نہیں بدل سکتے کبھی نہیں ۔۔۔۔
وہ خود، سے باتیں کرتی اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپائے رونے میں مصروف تھی ۔۔۔۔
ہانیہ ہانیہ کیا ہوا بیٹا آسیہ ہانیہ کو ہی ڈھونڈتی ہوئی برائیڈل روم کی طرف ائی تھی ہانیہ کو روتا دیکھ وہ پریشان ہوئی طبعیت ٹھیک ہے؟ ہانیہ بیٹا میری طرف دیکھو ڈاکٹر کے پاس چلے؟
نہیں ہانیہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہوں ماما کی یاد آرہی تھی آسیہ نے ہانیہ کو گلے لگا کر تسلی دی بیٹا میں ہوں نہ؟
کیا تم مجھے اپنی ماما نہیں سمجھتی؟
آپ میری ماما ہی ہے اگر آپ سب نہیں ہوتے تو پتہ نہیں ہانیہ کے رونے میں اور تیزی آگئی تھی ۔۔۔۔
ہم نہیں ہوتے تو کوئی اور ہوتا بس چُپ ہو جاؤ رحمان دیکھے گا تو پریشان ہوگا بھائی کی شادی پر بہن روتی ہوئی اچھی لگتی ہے ؟
چلو اپنا ہلیہ درست کرو اور جلدی سے آجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔
جی ماما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم گھر آتے ہی غصے سے چیزیں زمین پر پھینکنے لگا ہانیہ کی روتی ہوئی انکھیں کانپتا وجود اُسے پریشان کر رہا تھا۔۔۔۔
جب میں نے کہا سب ٹھیک کردوں گا تو اُسے سمجھ کیوں نہیں آتی اب کیا چاہتی ہے؟ حاتم اُسکے پیروں میں بیٹھ کر معافی مانگے کبھی نہیں کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب گھر آچکے تھے کچھ رسمیں ادا، کر کے دولہن کو روم میں بھیج دیا تھا رحمان کافی دیر سے ہانیہ کی اداسی کو محسوس کر رہا تھا ہانیہ اپنے کمرے میں آئی تو رحمان بھی پیچھے ہی آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ بند ہونے کی آواز سے ہانیہ نے پیچھے پلٹ کر دیکھا، ۔۔۔۔۔
بھائی آپ؟
جی بیٹھو یہاں رحمان بیڈ کی دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے خود بھی بیٹھ چکا تھا، ۔۔۔۔۔۔
بھائی سے جھوٹ نہیں بھولنا بلکل بھی نہیں اوکے؟
جی ۔۔۔۔۔
کچھ ہوا ہے؟
اداس کیوں ہو کسی نے کچھ کہا ہے؟
ہانیہ بہت مشکل سے مسکرائی نہیں بھائی میں نے ماما کو میرج ہال میں بھی بتایا تھا میرے سر میں درد ہے بس اسلیے ۔۔۔۔۔۔۔
میڈیسن لی؟
نہیں ابھی لیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔
اوکے ریلیکس کرو میڈیسن اور چائے بھجواتا ہوں پریشان نہیں ہوا کرو بھائی بھی پریشان ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
جی بھائی سوری ۔۔۔۔۔۔
اب مار کھاؤ گی بھائی کو سوری بولتے ہے؟
ہانیہ بس مسکرا دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان نے میڈ سے میڈیسن اور چائے کا کہا اور خود ماں کے کمرے کا رُخ کیا جہاں آسیہ عشاء کی نمازی سے فارغ ہوکر بیٹھی تھی ۔۔۔۔
کیسی ہے میری ماما؟
اجاؤ میرے جگر ماما ٹھیک ہے ابھی تک گھوم رہے ہو عائشہ ویٹ کررہی ہو گی
ماما تھینکیو ۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان ماں کے گلے لگ گیا تھا ۔۔۔۔کس بات کے لیے؟
آپنے عائشہ کو تسلیم کیا اُسکے ماضی کے ساتھ میں اپکے بغیر کچھ نہیں کر پاتا ماما۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسکے لگانا بند کردو چلو وہ ویٹ کر رہی ہوں گی میری جان ۔۔۔۔۔۔
ماما آپکو پتہ ہے؟ آپ بہت اچھی ہے ……
مجھے تو نہیں پتہ تھا لیکن میرے بچوں نے مجھے بتا دیا ہے۔۔۔۔۔۔
مطلب؟
مطلب کچھ نہیں چلو جاؤ مجھے بھی نیند آرہی ہے ۔۔۔۔۔۔
اوکے ماما رحمان نے ماں کے ماتھے پر پیار کیا اور اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں عائشہ پہلے ہی رحمان کے روایے سے سہمی بیٹھی تھی مجھے نہیں لگتا وہ روم میں آئے گے کتنی بار یہ خیال عائشہ کے ذہین میں اکر گزرا تھا ۔۔۔۔۔
دروازہ نوک ہوا عائشہ نے فوراً دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان بلا کی سختی منہ پر سجائے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم!
وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان اپنی شیروانی کے بٹن کھولتا ہوا صوفے کی طرف بڑھا اپنی شیروانی کو وہاں رکھ عائشہ کے پاس آکر بیٹھ گیا تھا رحمان کو اپنی ہنسی کنڑول کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے رحمان کچھ کہتا عائشہ کا آنسو اسکے ہاتھ پر گِرا دکھ رحمان تنگ کرنے کا ارادہ ملتوی کر چُکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان نے فوراً عائشہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا سوری میری جان میں تو بس تنگ کر رہا تھا پریشان نہیں ہو پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان نے اپنی جیب سے ایک بہت خوبصورت ڈبی نکالی جس میں ایک ڈائمنڈ رِنگ موجود تھی۔۔۔ عائشہ کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن عائشہ کی طرف سے کوئی رسپانس نہ پا کر رحمان نے عائشہ کا گھونگھٹ اُٹھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہو گیا ہے یار کیوں رو رہی ہو؟
بتاؤ ادھر دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔
آآ آ آپ ناراض تھے مجھ سے ۔۔۔۔۔
ہاہایا میں ناراض ہو سکتا ہوں تم سے؟
پھر اتنے دونوں سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کی اُس دن میرا مطلب یہ ۔۔۔۔۔
ششششششش کچھ نہیں کہنا بس چُپ ہو جاؤ تم مجھے اتنے سالوں سے تنگ کرتی ائی ہو تو کیا میں تھوڑا بھی حق نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔
بتاؤ؟
تم نے اُس دن جو بھی کہا مجھے فرق نہیں پڑتا میں اتنا جانتا ہوں میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں عاشی کہ وہ ہم دونوں کے لیے کافی ہے عاشی آئندہ مجھے ان انکھوں میں آنسو نہیں نظر آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ نے اپنی پلکیں اُٹھا کر رحمان کی انکھوں میں دیکھا جہاں پیار کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
مانی؟
جی جان رحمان نے شریر سے لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم گھر کب جائے گے؟
کیا ساری باتیں آج ہی طے کرنی ہے رحمان کی بات کا مفہوم سمجھتے ہی عائشہ اپنی نظریں جُھکا گئی تھی اُسنے بہت پیار سے رِنگ عائشہ کے ہاتھ میں پہنائی کیسی لگی؟
بہت پیاری ہے لیکن اپ نے مجھے بہت ڈرا دیا تھا عائشہ نے رحمان کے سینے پر مکا مارتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا ابھی سے ڈر گئی ۔۔۔۔۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو عائشہ رحمان نے بہت محبت سے عائشہ کو گلے لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔