عاشی؟ عاشی ۔۔۔۔۔۔
اُسکو اس حالت میں دیکھ رحمان دکھی ہوا ۔۔۔۔۔۔
عاشی وہ اُس کے قریب زمین پر بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔
کمرے کی خاموشی میں اُسکی ہچکیوں کی آواز گونج رہی تھی وہ اُسکے سر اَٹھانے کا ویٹ کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشی! پلیز میری طرف دیکھو ۔.۔۔
وہ نیچے جھکا سر نہ میں ہلا رہی تھی رحمان اس حالت میں چھوڑ جانا نہیں چاہتا تھا ایک بار میری بات سُن لو بس ایک بار وہ التجا کر رہا تھا لیکن عائشہ اس وقت درد ، تکلیف، اذیت کے کس مقام پر کھڑی تھی یہ بس وہی جانتی تھی ۔۔۔۔
میں ایسے نہیں جاؤں گا عاشی تم جانتی ہو میری طرف دیکھو مجھ سے بات کرو ایک بار میں چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشی پلیز ۔۔۔۔۔۔۔
وہ اُسے اور تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی سو سو کرتی عاشی نے سر اوپر اٹھایا......
انکھیں رو رو کر سوج گئی تھی انکھیں اور چہرہ لال پڑھ گیا تھا رحمان نے بہت پیار سے اُسکے چہرے سے بال پیچھے کیے..............
بول دو جو بھی بولنا چاہتی ہو اُس دن میں نے ماضی بتانے سے اسلیے منا کیا میں تمہیں اذیت سے بچانا چاہتا تھا لیکن مجھے لگتا ہے یہ اذیت بولنے سے کم ہو گی بولو عاشی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اذیت " مجھے لگتا ہے یہ لفظ کھوکھلا ہے میرے احساس جذبات کے لیے تکلیف دے سفر جو میں طے کر ائی اور جو طے کرنا ہے ہچکیاں لیتے مشکل سے اس نے اپنی بات مکمل کی ۔۔۔
رکو عاشی ۔۔۔۔۔۔رحمان نے عاشی کی طرف پانی بڑھایا جیسے وہ ایک پل ضائع کیے بغیر پی گئی ریلیکس ہو جاؤ عاشی بلکل چُپ اب رونا نہیں پلیز رحمان نے اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
ماجد نے مجھے بہت مارا تھا اُس دن اتنا کہ میں بہوش زمین پر گِر گئی تھی
جب میری آنکھ کھلی میں اُس کوٹھے ایک کمرے میں تھی میرے پاس بیٹھی روشن بائی مجھے کن انکھیوں سے دیکھ رہی تھی میں بہت ڈد گئی تھی میں نہیں جانتی تھی میں کس جگہ پر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب سمجھ ایا جب مجھے تیار کر ایک کمرے میں بھیجا گیا میں نے وہاں پہچنے تک بہت سوال کیے جن کا کوئی جواب نہیں ملا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کمرے میں جا کر جب مجھے پتہ چلا میں نے شور ڈالنا شروع کردیا وہ آدمی ڈر گیا تھا وہ تو ڈد سے چلا گیا لیکن بعد میں روشن بائی نے مجھے بہت مارا
دو دن تک مجھے کمرے میں بند رکھا پھر بھی میں نے آن کی بات نہیں مانی وہ ہر طریقے سے مجھے دس دن تک مناتے رہے .......
آخر کار انھوں نے اخری حل اپنایا مجھے انجکشن لگا کر کام کروانے لگے میں نے دو تین بار بھاگنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو جاتی بعد میں وہ کبھی میرے پاؤں جلا دیتے تو کبھی مجھے باندھ دیتے تھے رحمان کے آنسوؤں نے عاشی کا ہاتھ بھیگو دیا تھا لیکن رحمان چاہتا تھا آج وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو بار خود کشی کرنی چاہی اُس میں بھی ناکام پھر میں نے اسکو اپنی تقدیر مان لیا میں سمجھ گئی تھی یہ ایک بیٹی کی سزا ہے جس نے اپنے ماں باپ کی عزت کا پاس نہیں رکھا اُسکو تار تار کردیا یہ ایک بہن کی سزا ہے جس نے اپنے بھائی کا یقین نہیں کیا..............
پھر میری زندگی میں حاتم آیا وہ نہ ڈر مرد تھا ایک مضبوط مرد مجھے لگا یہ مجھے یہاں سے نکال سکتا ہے مانی میں نے ہر طرح کی کوشش کی وہ مجھے وہاں سے نکالے پیار جتلایا یہاں تک کہاں چاہے شادی مت کرنا رکھیل بنا کر رکھ لینا بس یہاں سے لے جاؤ لیکن..........
میں غلطی پر تھی میں نے غلط انسان کو چُنا وہ تو اپنی عزت کو خود وہاں چھوڑ ایا میری کیا مدد کرتا انسان ہر چھوٹی بری مصیبت میں اپنے اللہ سے رجوع کرتا ہے میں نے ایسا کیوں نہیں کیا تھا میں نے کیوں اس کوٹھے کو اپنا مقدر مان لیا کیوں مانی کیوں؟؟؟
کیوں کہ تم نے اُمید چھوڑ دی تمہیں یقین ہونا چاہئے تھا تم اُس خدا سے مانگو گی تو وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا ...........
وہ اسکے ہاتھ کو اپنے ماتھے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا ....
لیکن میں نے کبھی امید نہیں چھوڑی تھی مجھے یقین تھا تم ایک دن ضرور ملو گی عاشی میں نے رو رو کر تمہیں اللہ سے مانگا اور یہ بھی یقین رکھا وہ مجھے خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا اور دیکھو تم میرے سامنے بیٹھی ہو اب تم نے سب بھولنا ہے مجھے پتہ ہے یہ بہت مشکل ہے پھر بھی کوشش کرنی ہے ایک نئی زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مانی۔۔۔۔ عائشہ کی آواز پر رحمان نے اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔
میں ماما سے ملنا چاہتی ہوں گھر جانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ رحمان کے جواب کا انتظار کر رہی تھی جب اذان کی آواز کانوں میں پڑھی سُنو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طرف بُولا رہے ہے جاؤ نماز پڑھو جو بھی مانگنا ہے مانگ لو اللہ سب بہتر کرٰے گا اپنے آنسو صاف کرو عاشی آنئدہ رونا نہیں بس جیسے بھی حالات ہو میں ہميشہ تمہارے ساتھ ہوں ماما سے ملنا چاہتی ہو ؟ پریشان نہیں ہو میں کچھ سوچتا ہوں رحمان بھی وہاں سے اُٹھ نماز کے لئے چلا گیا عائشہ بھی اُٹھی نماز کی تیاری کرنے لگی ……
آسیہ کی آنکھ کھلی تو ہانیہ کو اپنے پاس سوتا پایا "ہانیہ " بیٹا اُٹھو نماز کا ٹائم ہو گیا ہے ہانیہ؟
جی ماما اُٹھ گئی ہوں آسیہ وضو کے لیے چلی گئی ۔۔۔جاگتے ہی اسکے ذہین میں عائشہ کا خیال ایا وہ جلدی سے اُٹھ اپنے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔۔۔
عائشہ جائے نماز پر بیٹھی رو رو کر دعا مانگ رہی تھی دروازہ کھلا پا کر ہانیہ نے سکون کا سانس لیا اور نماز کی تیاری کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم بیٹا تم صرف اپنے باپ کے بیٹے نہیں میرے بھی بیٹے تھے روبینہ کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے......
"ماما"........
وہ اُٹھ بیٹھا تھا ماما وہ جھٹ سے اُٹھ روبینہ کے کمرے میں ایا ماما ماما کہاں ہے آپ ماما کیوں چھوڑ گئی ہے مجھے پلیز معاف کردے اپنے بیٹے کو ماما وہ دیوانہ وار چِلا رہا تھا لیکن اج اُسے سُننے والا کوئی نہیں تھا وہ اپنی ماں کی تصویر کو گلے لگائے نیچے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناراض ہو؟
جی بلکل مجھے آپ نے رات کو کمرے سے نکال دیا تھا میں آپ سے بہت ناراض ہوں ہانیہ نے منہ بنایا ۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ نے ہانیہ کو اپنی بانہوں میں لیا میری گڑیا مجھ سے ناراض ہو ہی نہیں سکتی میں جانتی ہوں اس لیے ایکٹ کرنا بند کرو ۔۔۔۔
آپ مسکے لگا رہی ہو مجھے میں بھی جانتی ہوں ۔۔۔۔۔
سچی؟ عائشہ مسکرائی ۔۔۔۔۔۔۔
"ماما" میں آجاؤں؟ رحمان نے دروازہ نوک کرتے ماں سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آجاو میرے بچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما مجھے عاشی سے شادی کرنی ہے رحمان نے کمرے میں آتے ہی بغیر کسی تمہید کے اپنی بات شروع کی آسیہ نے ایک نظر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا ۔۔
ماما بولے آپ کو اعتراض ہے کوئی اسکی پچھلی زندگی کو لے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسیہ کچھ سوچ رہی تھی رحمان اپنی ماں کے بولنے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما" جی آسیہ نے رحمان کے بالوں میں اپنا ہاتھ پھیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بولے بھی میں پوچھ رہا ہوں آپ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم بتا رہے ہو بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوری ماما اوکے آپ بتائے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان مجھے کوئی اعتراض نہیں بیٹا بلکہ مجھے تو ڈر ہے کہی میرا بیٹا کمزور نہ پڑ جائے.........
یہ سب سوچنے میں آسان ہے لیکن بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جس ماحول سے وہ آئی ہے تم دونوں کو زندگی میں کبھی بھی اسکا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ماں کی بات سُنتے ہی رحمان کو رات والا قصہ یاد آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما میں ہر حال میں اُسکا ساتھ دینا چاہتا ہوں وہ اپنے گھر جانا چاہتی ہے میں چاہتا ہوں اُس سے پہلے ہم ایک مضبوط رشتے میں بندھ جائے ماما میں اب اُس سے دوری نہیں برداشت کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ سے پوچھا؟
نہیں ماما وہ آپ پوچھے مجھے نہیں لگتا اُسے کوئی اعتراض ہو گا ۔۔۔۔۔۔
ٹھیک میں بات کروں گی اُس سے ۔۔۔۔
کروں گی؟ نہیں ماما ابھی بات کرے گی آپ ۔۔۔۔۔۔
اتنی جلد بازی ٹھیک نہیں رحمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ جائے ماما ابھی اُٹھے پلیز رحمان نے ماں کا ہاتھ کھینچ اُٹھنے میں مدد کی ۔۔۔۔۔
اچھا بچے جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ چائے پیو گی؟
ابھی؟
ہاں میرے سر میں درد ہورہی ہے میں بنا کر لاتی ہوں ۔۔۔۔
ارے نہیں آپی آپ بیٹھو میں بنا کر لاتی ہو ہانیہ جلدی سے اُٹھ کر جوتا پہننے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کمرے سے نکلنے ہی والی تھی جب آسیہ کو آتا دیکھا ماما چائے پیئے گی؟
جی ضرور وہ بھی اپنی بیٹی کے ہاتھ کی آسیہ عاشی سے اکیلے میں بات کرنا چاہتی تھی اس لیے ہانیہ کو وہاں سے بھیجنا چاہا ۔۔۔۔
جی ماما میں ابھی بنا کر لائی ہانیہ مسکراتی ہوئی کیچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی ہے میری بیٹی؟
میں ٹھیک اپکی طبعیت اب کیسی ہے؟
اللہ کا شکر اب ٹھیک ہے عائشہ بیٹا مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے آپ سے ۔۔۔۔
جی ماما کہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمان اپکو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہے بیٹا وہ آپ سے بہت محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رکیے ماما عائشہ کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی ۔۔۔
مجھے کوئی شک نہیں رحمان کی محبت پر جو وہ مجھ سے کرتے ہے ..........
ماما میں شادی نہیں کر سکتی اُن سے اور پلیز ماما مجھے فورس نہیں کرئیے گا ورنہ مجھے یہاں سے جانا ہوگا عائشہ کی آواز بھاری ہو گئی اسنے بات شروع ہونے سے پہلے ختم کردی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔