وہ دیکھو ہانیہ تمہاری ماما آگئی ۔۔۔
یہ سنتے ہی بِنا دیکھے ہانیہ نے مریم کی چھت سے چھلانگ لگا دی ۔۔۔۔
ہاہاہا مریم کا قہقہ گونجا تھا جس کا مطلب وہ اُسے بیوقوف بنا چکی تھی ۔۔۔
اسنے نے غصے سے مریم کی طرف دیکھا ماما نہیں آئی ہانیہ نے منہ بنایا ۔۔۔۔۔
اگر مجھے چوٹ لگ جاتی تو؟
" تو" پھر کیا ہوتا چوٹ لگتی مر نہیں جاتی تم ۔۔۔۔۔
ہانیہ " ہانیہ " پُتر نیچے آ ۔۔۔۔
وہ جو چھت پر کھڑی اپنی اکلوتی دوست سے مِحوِ گفتگو تھی ماما کی آواز اتے نیچے بھاگی تھی ۔۔۔۔۔
جی جی ماما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پُتر کتنی دفعہ کہا ہے اس ٹائم چھت پر نہ جایا کرو دوپہر کے دو بج رہے ہے اور تم اتنی دھوپ میں اکیلی کیا کر رہی تھی؟
اکیلی نہیں ماما مریم تھی ساتھ ۔۔۔۔۔
یہ سنتے ہی کنیز کے کان کھڑے ہو گئے ۔۔۔
مریم تھی ساتھ؟ پھر تو تم ان کی چھت پر چلی گئی ہو گی
نہیں ماما نہیں گئی تھی ہانیہ صاف جھوٹ بول گئی تھی
ہانیہ پُتر تم ایک دن میری باتیں یاد کرو گی میری بچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما پلیز آپ پھر شروع ہو جائے آپ کہی نہیں جا رہی اور نہ میں آپ کو چھوڑ کر جاؤں گی جو میں یاد کروں گی آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی اچھا؟
ہانیہ نے اپنی ماما کے گِرد اپنے بازوں پھیلائے ۔۔۔
اچھا چلو مجھے چھوڑو اور اپنا کام کر لو صبح دوسرے دن ہی تم نے اپنی استادنی کو سبق نہ سنایا تو تمہیں مارے گے وہ ۔۔۔۔۔
میری بھولی امّاں یہاں ایسا نہیں ہوتا یہ یونیورسٹی ہے یہاں مار نہیں پرتی ہاں ڈانٹتے زیادہ ہے آج پہلا دن تھا مزا بہت آیا اج کچھ زیادہ کام بھی نہیں ملا ماما ۔۔۔۔۔
چلو تم پھر بھی پڑھ لو میں نے بھی کسی کا سوٹ سلائی کر کے دینا ہے مجھے بھی کام کرنے دو۔۔۔۔۔۔۔
" ماما " ہانیہ نے کچھ سوچتے ہوئے اپنی ماں کو آواز دی ۔۔۔
بولو بھی ہانیہ کتنی دفعہ کہا ہے مجھے امّاں کہا کر۔۔۔۔۔
امّاں اگر میرا کوئی بھائی ہوتا کتنا مزا اتا میں اُسے بہت تنگ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔
(کنیز کی ایک ہی بیٹی ہے ہانیہ اُن کے شوہر کا انتقال 12 سال پہلے ہوا جب ہانیہ 8 سال کی تھی ۔۔۔
کنیز محلے میں کنیز آپا کے نام سے جانی جاتی وہ لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے اپنا گزارہ کرتی ۔۔۔
ہانیہ بہت خوبصورت رنگ سفید آنکھیں موٹی لمبے بال جب ہنستی تو گالوں پر ڈمپل نمایاں ہوتے جو اُسکی خوبصورتی کو بڑھا دیتے کنیز اکیلی رہنے کی وجہ سے اسکا بہت خیال رکھتی ہمیشہ ڈرتی کسی وجہ سے بھی لوگوں کو باتوں کا موقعہ نہ ملے )
چلو شروع ہو گیا تمھارا بھائی نامہ جاو شاباش کام کرنے دو اور تم بھی جلدی سے پڑھ لو پھر مارکیٹ چلے گے ۔۔۔۔۔
مارکیٹ کا سنتے ہی ہانیہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی. سچ ماما؟
جی جی چلو اب اُٹھو ۔۔۔۔
ہانیہ مارکیٹ کا سنتے ہی پڑھنے بیٹھ گئی ۔۔۔
کنیز کو اپنی بیٹی پر بہت پیار آیا وہ ایسی ہی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتی کبھی زیادہ کی چاہ نہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔
ماما ۔۔۔۔۔۔اب کیا ہوا؟
میں پڑھ لکھ جاؤں گی تو آپ کو سلائی نہیں کرنے دوں گی ۔۔۔۔
اچھا؟ پڑھو گی کب کنیز کی بات سمجھتے ہی ۔۔۔
ماما پڑھ تو رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو یار اج پارٹی ہے رحمان کے گھر ۔۔۔۔۔
نہیں مجھے نہیں جانا میں بور ہو جاتا ہوں اُسے پارٹی کہتے ہے اُسنے سگریٹ کا کش لگاتے جواب دیا ۔۔۔
چلو یار چلتے ہیں ۔۔۔۔
حسن تنگ نہ کرو میرا موڈ نہیں ۔۔
حاتم تم ہمیشہ ایسا کرتے ہو ۔۔۔
اج ہانیہ امی کے ہاتھ کا سلائی ہوا ریڈ کلر کا جوڑا پہن کر بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔
کنیز نے اپنی بیٹی کی نظر اتاری ۔۔۔
میری بچی وہاں انے جانے میں کوئی مسئلہ تو نہیں؟
نہیں امّاں ۔۔۔۔
دھیان سے جایا کر مجھے تیری فکر رہتی ہے ۔۔۔۔
ہانیہ نے پیچھے سے اکر اپنی ماما کو بانہوں میں لیا ۔۔۔
ماما کیوں ہوتی ہے پریشان میرے ساتھ مریم ہوتی ہے ۔۔۔
بیٹا اسی بات کا تو ڈر ہے مریم تیرے ساتھ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
اُف ماما میں لیٹ ہو جاؤں گی بائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ حافظ میری بچی ۔۔۔۔۔
ہیلو ہانیہ ۔۔۔۔ہائے رخسار ہانیہ نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
یار تیری مسکراہٹ مجھے مار دے گی ۔۔۔
بس کچھ بھی ۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ یونی میں فنکشن ہونے والا ہے تم کرو گی کچھ؟
ہانیہ فنکشن کا سنتے ہی بیذار ہوئی تھی ۔۔۔
نہیں میں تو چھٹی کروں گی ۔۔
بلکل نہیں مریم جھٹ سے بولی میں فنکشن پر ضرور اؤں گی اور تم میرے ساتھ اؤ گی سمجھی ۔۔
اچھا یار دیکھے گے ابھی چلو کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے
۔۔
ہانیہ گھر آئی کھانا کھا کر ہاتھ دھو رہی تھی جب یاد انے پر امّاں کو آواز دی ۔۔۔۔
امّاں یونی میں فنکشن ہے ۔۔۔۔
تو نئے کپڑے بنوانے ہے پتر؟
ارے نہیں امّاں میں عید والا سوٹ پہن جاؤں گی میں نے کونسا حصّہ لیا ہے ۔۔۔۔
تو حصہ لے لیتی پُتر میں نیا سوٹ بنا دیتی ۔۔۔
کوئی ضرورت نہیں امّاں ویسے بھی کوئی شوق نہیں مجھے ۔۔۔۔۔
حاتم کیا فنکشن پر آؤ گے؟
نہیں کوئی فائدہ نہیں بور ہونا ہے بس ۔۔۔
اس دن کیوں بور ہونا ے اس دن تو بہت کچھ ہوگا انجوائے کرنے کو حسن نے حاتم کو انکھ ماری تھی اپنی بات سمجھانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔
بکواس مت کرو رحمان بولا تھا ۔۔۔
حاتم کو ایک امیر باپ کی بگڑی اولاد کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا وہ بلکل اپنے باپ جیسا تھا اسکے برعکس اسکی ماں ایک نیک نرم دل عورت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن بھی حاتم جیسا تھا اسلیے ان دونوں کی بہت اچھی بنتی ۔۔۔۔
رحمان دونوں سے مختلف ہمیشہ ان کو سمجھانے کوشش کرتا رحمان کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی وہ بھی زندگی کو خوب انجوائے کرتا لیکن وہ اپنی حدود اچھے سے جانتا تھا ۔۔۔۔۔
جیسے جیسے فنکشن قریب ارہا تھا سب تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے ۔۔۔۔
ہانیہ کو گھر جانے کے لیے مریم کا بہت ویٹ کرنا پڑتا ۔۔
امّاں گھر الگ پریشان رہتی ۔۔
ہانیہ کے پاس موبائل نہیں تھا نہ ہی کبھی اس نے فرمائش کی امّاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں ایک بٹنوں والا موبائل تھا جس پر ہانیہ کے ماموں کبھی کبھی فون کرتے ۔۔۔۔۔
ہانیہ اپنا عید کا سوٹ نکال کر کب سے سوچ رہی تھی ۔۔
کیا ہوا ہانیہ کیا سوچ رہی ہو؟
سوچنا کیا امّاں اسکے ساتھ جو جوتا لیا تھا وہ ٹوٹ گیا تھا اب کل کیا پہنوں گی ۔۔۔۔
امّاں نے تھوڑا سوچا۔۔۔ چل میری بیٹی میں نیا جوتا لے دوں تمہیں ۔۔۔
نہیں امّاں پہلے ہی اپ نے یونی کے لیے جوگر لے کر دیے میں وہی پہن کر جاؤں گی ۔۔۔۔
وہ اچھے نہیں لگے گے پُتر آجا میں لے دیتی ہوں ہانیہ دُکھی ہوئی نہیں امّاں رہنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اُٹھ کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تو کہتا ہوں حسن ستارہ کو فون کر وہاں چلے حاتم نے ڈرائیو کرتے مشورہ دیا ۔۔۔۔
چھوڑ یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وہاں مزا نہیں اتا میری بات چل رہی ہے دوسرے کوٹھے پر وہاں چلے گے ابھی یونی ہی چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ یہ دوپٹہ بیگ میں رکھ لو یار کیا تم نے سر پہ سجایا ہے اتنی پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔
میں اس دوپٹے سے ہی پیاری لگ رہی ہوں مریم ہانیہ نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔
ہائے ہانیہ اج نہ مسکراؤ ورنہ یہاں کوئی لڑکا مر میٹے گا تم پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کوئی اور بات نہیں آتی رخسار؟
ہانیہ مجھے لگتا ہے تمہاری شادی کسی شہزادے سے ہو گی۔۔۔۔۔۔
اچھا؟ چلو تم کبھی کام کی بات نہ کرنا فضول باتیں سن لو تم سے ۔۔۔۔
وہ تینوں باتوں میں مصروف کسی بات پر ہنسی تھی ہانیہ کو کسی کی نظر خود پر محسوس ہوئی ادھر اُدھر دیکھنے پر اسے کوئی نظر نہیں ایا تھا۔۔۔۔۔۔۔
یار کیا لڑکی ہے حاتم کی نظرین ہانیہ سے ہٹ نہیں رہی تھی جب حسن بولا تھا ۔۔۔۔۔
چپ کر یہ میری ہے ۔۔۔۔
کیا ہو گیا ہے وہ لڑکی ہے کوئی شوپیس نہیں جو میری میری کر رہے ہو رحمان کو غصہ آیا تھا ۔۔۔
رحمان تو موڈ نہ خراب کیا کر حاتم نے رحمان کو انکھیں دیکھائی ۔۔۔۔۔۔
چلو فنکشن شروع ہونے والا ہے رحمان نے بات ختم کرنی چاہی ۔۔۔۔۔
وہ کہا گئی حاتم نے اپنی نظریں چاروں طرف گھومائی وہ کہی نہیں تھی ۔۔۔۔۔
سب اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے تھے حاتم کا دماغ ہانیہ پر اٹکا تھا وہ اسے کہی نظر نہیں ارہی تھی ۔۔۔۔۔
حاتم اٹھا تھا چلو حسن ۔۔۔۔۔
کہاں؟
ستارہ کے پاس ۔۔۔۔
کیا ہو گیا ہے یار؟
تم اٹھو گے یا میں جاؤں؟
آرہا ہوں حسن جانتا تھا وہ نہیں اُٹھے گا حاتم پھر بھی چلا جائے گا۔۔۔۔
ستارہ کو فون کر حاتم نے گاڑی میں بیٹھتے ہی حسن کو کہا۔۔۔۔۔
اچھا یار حسن بیذار ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حاتم آیا ہے ایک لڑکی نے آکر ستارہ کو بتایا ۔۔۔
بھیج دو پوچھنے کیوں آئی ہو ۔۔۔۔
اچھا جی ۔۔۔۔۔
اگئ میری یاد؟ حاتم کو دیکھتے ہی ستارہ نے گلہ کیا ۔۔۔
تم تو جیسے یہاں میری آس پر بیٹھی ہو حاتم کی بات سن کر ستارہ کا موڈ اوف ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر آؤ ۔۔۔۔۔
حاتم کے بُلوانے پر ستارہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی ۔۔۔۔۔۔۔۔
حاتم اگے بڑھا ستارہ کا بازو مڑور کر کمر کے پیچھے کیا یہ نخرے مجھے نہ دیکھایا کرو سمجھی ۔۔۔۔۔۔۔
آآآ چھوڑو حاتم چھوڑو درد ہو رہا ہے ۔۔۔
حاتم نے اسکا رُخ اپنی طرف کیا اسکی گردن پر ہونٹ رکھ دیئے تھے ۔۔۔۔
تم بہت برے ہو حاتم ۔۔۔۔
حاتم ستارہ پر جھوکا ہی تھا جب ہانیہ کا ہنستا ہوا چہرہ حاتم کے ذہین میں ایا وہ فوراً پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔
کیا ہوا؟
ستارہ نے حاتم کو اپنی طرف کھینچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔