وقت گزرتا جا رہا تھا اور بازل کا روایہ مزید بدتر ہورہا تھا عاریہ کے ساتھ۔ وہ عاریہ کیلئے حیوان بنتا جا رہا تھا۔ بازل کے ایک گارڈ کی نظر عاریہ پر پڑ گئی تھی اور بازل نے اس گارڈ کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا لیکن عاریہ کو بدترین سزا دی تھی۔ بازل جب کمرے میں داخل ہوا تو عاریہ اپنا نماز سٹائل میں اوڑھا ہوا ڈوپٹہ اتار رہی تھی۔ وہ مہرون سوٹ کے ساتھ براؤن سوٹ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور بازل کو اسے دیکھ کر اور غصہ آرہا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت لگ رہی ہے تبھی تو وہ عاریہ کو گھور رہا تھا۔ بازل ایک جھٹکے سے عاریہ کو منہ سے دبوچتے ہوئے بولا۔
بہت غرور ہے نا اپنے اس خوبصورت چہرے پر اسی پر وہ علمیر مرتا تھا نا۔ اگر یہ خوبصورت چہرہ ہی نا بچے تو؟ وہ تمسخر سے بول رہا تھا۔اور جو عاریہ کو بازل کی آنکھوں میں نظر آیا تھا وہ دل دہلانے کیلئے کافی تھا۔ بازل عاریہ کی طرف چاقو لے کر بڑھ رہا تھا اور عاریہ پیچھے ہوتی ہوئی دیوار کے ساتھ جا لگی اور بہت مشکل سے بولی۔
کک کیا کیا مطلب کک کیا کرنا چاہتے ہو؟ بازل اسکی کنپٹی پر چاقو رکھتے ہوئے بولا۔
وہی جو تم سمجھ رہی ہو۔ جس کا خوف تمہاری آنکھوں میں ہے۔ تمہاری خوبصورتی، تمہاری محبت تمہارا جسم صرف میرے لیئے ہے تو تم کیوں گئی باہر اس کمرے سے جب تمہیں پتا تھا کے اس وقت گارڈز گھر میں ہوتے ہیں۔ بازل عاریہ کی کنپٹی سے تھوڑی تک چاقو لاتے ہوئے بولا۔
عاریہ خوف سے کانپ رہی تھی اور اسکی آنکھوں سے آنسو رواء تھے۔ کٹ ایسا نہیں تھا کے عاریہ کا چہرہ داغدار کرتا لیکن عاریہ کی حالت خراب ہو رہی تھی اسکو اپنے چہرے پر جلن محسوس ہورہی تھی ۔عاریہ نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا اور ہاتھوں پر لگا ہوا خون دیکھ کر عاریہ لہرا گئی۔ اس سے پہلے کے وہ زمین پر گرتی بازل نے اسے اپنے مضبوط بازؤں میں تھام لیا اور اٹھا کر بیڈ پر لیٹا دیا اور ڈاکٹر کو اپنے کمرے میں بولا یا۔ اور ڈاکٹر نے جو بازل کو بتایا تھا وہ سن کر بازل کی خوشی کا کوئی ٹھیکانا ہی نہیں رہا تھا۔ بازل عاریہ کی طرف بڑھا اور اسکے بے ہوش وجود پر نظریں ڈالتا ہوا بیڈ پر اسکے قریب لیٹ گیا تھا اور اسکے نقش کو چھوتے ہوئے بولا۔
کاش تم میرے ماں باپ کے قاتل کی بیٹی نہ ہوتی تو شاید تم سے محبت مجھے آسان لگتی لیکن ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم سے محبت کا خیال مجھے میرے انتقام سے دور کر دے گا اور یہ میری ماں باپ کے ساتھ بے وفائی ہوگی کہ میں انکے قاتل کو معاف کر دوں۔ میں سمجھ نہیں پارہا کے میں تم پر اپنا غصہ کیوں نہیں کنٹرول کر پا رہا۔ جس دن میرا انتقام مکمل ہو گیا میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔ہر تکلیف ہر درد اور خود سے بھی۔ وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا کیونکہ عاریہ کسمسا رہی تھی۔
اس نے کروٹ لے لیا تھا۔ عاریہ کو ہوش آگیا تھا اور وہ بازل کی پیٹھ کو دیکھ رہی تھی جس نے عاریہ کو کچھ بھی نہیں کہا تھا ورنہ وہ ہر رات اسکو ازیت دیتا تھا اور جب تک وہ اسکی ازیت کو آخری حد تک نہیں لے جاتا تھا اسکو چھوڑتا نہیں تھا اور آج وہ اسکو بغیر ازیت دیئے سو گیا تھا۔ عاریہ پوری رات جاگتی رہی تھی اور سوچتی رہی تھی کے آج ایسا کیا ہوا کے بازل نے اسے کچھ نہیں کہا ورنہ ان تین مہینوں میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی عاریہ کو تکلیف دینے میں۔ عاریہ کی جب آنکھ لگی تب بازل جاگنک کی لئے جا رہا تھا۔ بازل اسکو دیکھتا اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے چلا گیا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ایمان ان تین مہینوں میں بہت ڈ سٹرب رہی تھی وہ بہت ڈپریشن میں چلی گئی تھی اور ڈاکٹر نے محسن ملک کو یہ بات صاف لفظوں میں کہہ دی تھی کہ
دیکھیں ملک صاحب آپکی وائف بہت ڈپریس ہے اور انکا ڈپریشن آپ کے بچہ اور وائف دونوں کی جان کیلئے خطرہ ہے۔ انکو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ سب اسے ہی چلتا رہا تو آپ کا بہت بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہو گے انکی طبیت کی نوعیت۔ محسن اثبات میں سر ہلاتا چلا گیا تھا۔ اسکی سوچیں منتشر ہو رہی تھی۔ وہ خود بھی ایمان سے محبت کرنے لگا تھا۔ ایمان بلا شبہ حسین تھی اور اسکا نےچر اسکو اور پرکشش بناتا تھا اور محسن نے اسی لیئے شہیر شاہ کی شرائیت مان لی تھی کیونکہ وہ خود ایمان اے شادی کرنا چاہتا تھا۔ محسن ایک خوبرونوجوان تھا جو ایمان سے دس سال بڑا تھا اور ایک مشہور پارٹی کا چیئرمین تھا۔ محسن ایمان سے بات کرنے جب آیا تو وہ بے اختیار ہی محسن کے گلےلگ کر رونے لگ گئی تھی اور اس عمل نے محسن کو اور پریشان کر دیا تھا۔ محسن ایمان کی کمر کو سہلا رہا تھا اور ایمان روتے ہوئے بولی۔
مجھے بہت ڈر لگتا ہے محسن اگر ہمارے بچے کو کچھ ہوگیا تو میں بھی مر جاؤ گی۔ آپ کو نہیں پتہ میں کس کرب سے گزر رہی ہوں۔ میرے ماں باپ انہوں نے قتل کیا ہے ایک خاندان کو آپ سمجھنے کی کوشش کرے نا میں اس سب کو کیسے نکالوں اپنے دماغ سے آپ جانتے ہیں جس خاندان کو میرے ماں باپ نے برباد کیا وہ عاریہ کے شوہر کا تھا۔ بازل نے عاریہ سے شادی ہی اسی لیئے کی تاکہ وہ انتقام لے سکے۔ میری بہن تو بہت معصوم ہے اسکا کوئی قصور بھی نہیں لیکن وہ اتنا کچھ برداشت کر چکی ہے۔ بابا نے عاریہ کے بچے کو جان سے مار دیا تھا۔ ایسے بھی کرتا ہے کوئی باپ اپنے بیٹی کے ساتھ اور بیٹی بھی وہ جو جان سے عزیز ہو؟ محسن مجھے عاریہ سے ملنا ہے پلیز مجھے اسکے گھر لے چلیں۔ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی اور محسن ملک اپنی بیوی کو دیکھ رہے تھے جو کتنا کچھ اپنے دل میں رکھے بیٹھی تھی۔
محمد بازل عدیل خان کی بات کر رہی ہو تم؟ وہ ہے عاریہ کا شوہر؟ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
جی وہ ہی ہے۔ وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
ٹھیک ہے چلیں گے ابھی تم ریسٹ کرو۔ وہ محسن کی بات مان کر لیٹ گئی اور محسن گاڑی کی چابی اٹھاتا ہوا بازل کے دفتر کی جانب چل پڑا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
منیزہ بی عاریہ کو گلے لگائے بیٹھی تھی اور عاریہ کو اب بازل کا رویہ سمجھ آرہا تھا کے وہ اس وجہ سے عاریہ سے نرمی برت رہا تھا کیونکہ وہ دوبارہ ماں بننے والی تھی۔ عاریہ انہیں سوچوں میں گم تھی ۔جب ایمان اندر آئی تو منیزہ بی اٹھ گئی تو ایمان بولی۔
بی جان کہاں جارہی ہیں؟ بی جان نے ایمان کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہتی چلی گئی۔
تمہارے لیئے چائے، کھانے کا انتظام کرنے۔ ایمان کو بی جان کے بارے میں یاد تھا اور بازل بھی اسے کافی حد تک یاد تھا اور اگر کچھ نہیں پتا تھا تو بازل کا چلا جانا۔ بازل، ایمان اور محسن بچپن میں ایک ساتھ ہوتے تھے۔ بازل اور محسن ایک ہی عمر کے تھے جب کے ایمان ان دونوں سے دس سال چھوٹی اور عاریہ پندرہ سال۔ بازل اور محسن کی دوستی بہت گہری تھی اور دونوں ہی بہت ذہین تھے لوگوں کی نظروں کر پہچانتے تھے اور محسن کو ہمیشہ ہی فاطمہ بیگم کھٹکتی تھی جبکہ بازل کو شہیر شاہ۔ عدیل خان اور شاہ زیب ملک بہت اچھے دوست تھے انکی دوستی وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی جارہی تھی۔ انہوں نے تو اپنی دوستی کو رشتہ داری میں بدلنے کا بھی سوچ لیا تھا۔ امل(محسن کی بہن) اور بازل کا نکاح کر کے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا تبھی محسن کی بہن، بازل اور علی کے ماں باپ کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ عاریہ اپنی بہن کو حیران نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔
آپی آپ یہاں کیسے؟ اگر بازل کو پتا چل گیا تو؟ آپ سوچ بھی نہیں سکتی جو وہ کریں گے۔ آپ پلیز چلی جائیں۔ عاریہ سہم رہی تھی کیونکہ وہ بازل کے غصہ کو جانتی تھی۔ ایمان مسکراتے ہوئے بولی۔
بازل مجھے کچھ بھی نہیں کہے گا۔ محسن اس سے بات کر چکے ہیں اور میں یہی رہوں گی ایک ہفتہ تک اور بازل کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب تم اس سب کی فکر چھوڑو میں تمہیں گڈ نیوز سناتی ہوں تم چھ مہینہ بعد خالہ بن جاؤ گی۔ ایمان خوشی سے بتا رہی تھی اور عاریہ کیلئے یہ وہ پہلا موقعہ تھا ان چار مہینوں میں جب وہ دل سے خوش ہوئی تھی اور اسی وقت بی جان ملازمہ کے ساتھ اندر آئی۔ بازل سارے ملازموں کو واپس بلا چکا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کے عاریہ ریسٹ کے علاوہ کچھ بھی کرے۔ بی جان ایمان کی بات سن چکی تھی تو بولی۔
ایمان بچے مبارک ہو آپکو بہت۔ اللہ آپکو اور آپکی اولاد کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھیں۔ وہ محبت بھرے لہجے میں بول رہی تھی۔
امین بی جان۔ اب بتائیں کیسی ہیں آپ۔ میں نے آپکو بہت مس کیا بی جان۔ آپ کیوں چلی گئی تھی مجھے چھوڑ کر۔ وہ افسردہ لہجے میں بولی۔ بی جان اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے بولی۔
بازل کیلئے۔ خیر آپ ان باتوں کو چھوڑیں۔ عاریہ بیٹا اپنے بتایا ایمان کو؟ وہ عاریہ کو دیکھتے ہوئے بولی۔
نہیں بی جان۔ بس ابھی بتانے ہی والی تھی۔ تبھی ایمان بولی۔
کیا بتانا ہے مجھے جلدی بتاؤ۔ بی جان اسے چھوڑیں آپ بتائیں۔ ایمان بی جان سے پوچھ رہی تھی اور تبہی بی جان نے ایمان کو بتا دیا۔
ایمان آپ بھی نومہینے بعد خالہ بن جائیں گی۔ ایمان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور تبہی عاریہ بولی۔
ماما بابا کیسے ہیں؟ اور یہ بات سنتے ہی ایمان کے چہرے پر سختی آگئی تھی اور یہ بات عاریہ کیلئے حیرانکن تھی کیونکہ ایمان کبھی کسی پر غصہ نہیں کرتی تھی اور اپنے ماں باپ پر غصہ تو کبھی نہیں ہوئی تھی۔
مجھے نہیں پتا اور نا میں جاننا چاہتی ہوں کہ وہ کیسے ہیں۔ ایمان سخت لہجے میں بولی۔
ایسا کیا ہوا ہے؟ جس کی وجہ سے آپ ایسا کہہ رہی ہیں۔ عاریہ پریشانی سے بولی۔
مما بابا دونوں نے بازل کے پیرنٹس کا قتل کیا ہے اور بازل کے فادرز کے شیرز بھی بابا کے پاس ہیں۔ ابھی ایمان اور بھی بولتی تبھی بی جان بولی۔
ایمان بس اس بارے میں اب کوئی بھی بات نہیں کریں گی آپ۔ بی جان درشتی سے بول رہی تھی اور عاریہ سکتے میں تھی کے اس کے ماں باپ اسکے شوہر کے ماں باپ کے قاتل اور یہی بات بی جان کو بھی سوچوں میں ڈال گئی تھی کہ فاطمہ بیگم بھی قاتل ہیں؟
•••••••••••••••••••••••••••••••••••