شہیر شاہ جب گھر پونچھے تو فاطمہ انہیں نظر آگئی تھی۔ وہ فاطمہ بیگم کو دیکھتے ہوئے انہیں کمرے میں چلنے کا اشارہ کرنے لگے۔ فاطمہ بیگم اثبات میں سر ہلاتی انکے پیچھے چل پڑی۔ کمرے میں پونچھ کر انہوں نے فاطمہ بیگم کو سب بتا دیا کے کیسے بازل آیا اور اس نے کیا کیا کیئا ہے عاریہ کے ساتھ اور فاطمہ بیگم یہ سنتے ساتھ رونے لگی اور شہیر شاہ پر چیخنے لگی۔
آپ کا کیا میری بیٹی کے سامنے آرہا ہے شاہ جی۔اسکو کسی بھی طرح سے وہاں سے لے کر آئیں واپس۔ میری بیٹی کو کچھ بھی ہوا تو میں آپکو بھی نہیں چھوڑوں گی۔ میری بیٹی کیوں آپکے کیئے کی بھینٹ چڑھے۔ میں آپ لوگوں کو بھی بے نقاب کر دوں گی۔ میں سب کو بتادوں گی کہ کیسے آپ لوگوں نے عدیل کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ فاطمہ بیگم چپ ہوئی تو شہیر شاہ بولے۔
کیا تم یہ چاہ رہی ہو کے میں عاریہ کو یہ بتا دوں کے بازل کے باپ کی تم منگیتر تھی اور چونکہ میں تمہیں پسند آگیا اور میں عدیل کی طرح نکیں تھا تو تم نے مجھ سے شادی کر لی اور جب تمہیں پتا چلا کے عدیل نے تم سے خوبصورت لڑکی سے شادی کر لی ہی اور وہ اپنی بیوی بیٹے کے ساتھ خوش ہے تو تم نے ہمارا ساتھ بھی دیا اور بازل کی ماں کے ساتھ کیا کروایا تھا یاد ہے نا ؟ اس بچاری عورت کو تو موت کے گھاٹ تم نے اتارا تھا نا اپنی جلن کے ہاتھوں یاد ہے کیسے تڑپا تڑپا کر مارا تھا اسکو؟ اب جاؤ عاریہ کے پاس اسے بتاؤ پھر میں بھی اسے بتاؤں گا کے اسکی ماں کس قسم کی عورت ہے۔ وہ غصہ میں بول گئے تھے۔ اور باہر کھڑا نفوس یہ سب سن کرسکتے میں آگیا تھا کے یہ ظالم انسان جو اسے بہت عزیز تھے وہ دونوں کسی کے قاتل تھے۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل جب گھر آیا تو منیزہ بی نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی اور نا ہی بازل کی کسی بات کا جواب دے رہی تھی۔ بازل کافی دیر تک انتظار کرتا لیکن منیزہ بی اسکے پاس بھی نہیں آئی تھیں اور عاریہ کو بھی اپنے کمرے میں لے گئی تھیں۔ منیزہ بی کی عادت تھی وہ رات کو بازل کے کمرے میں جاتی تھیں۔ جب بازل کے ماں باپ کو بے دردی اے قتل کیا گیا تھا تب بازل رات کو ڈر جاتا تھا اور منیزہ بی اسکے پاس سو جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اسکو ڈر کم ہو گیا یا ختم لیکن منیزہ بی اسکو سلا کر جاتی تھی اور اب منیزہ بی اسکے پاس آتی اور اس سے باتیں کرتی تھیں کیونکہ یہ انکی بھی روٹین میں شامل ہو گیا تھا لیکن بازل کی اس حرکت نے انہیں بہت پریشان کر دیا تھا۔ بازل اپنے انتقام میں اندھا ہوگیا تھا۔ جب بازل کے انتظار کرنے کے بعد بھی وہ نہیں آئی تو بازل خود انکے کمرے میں چلا گیا۔
بی جان آپ مجھ سے کس بات پر ناراض ہیں؟ میری کسی بات کا بھی جواب نہیں دیا اور اسکو بھی یہاں لے آئی۔ وہ عاریہ کو دیکھ کر بولا جو سہمی ہوئی تھی وہ بازل کا کیا ہوا ٹارچر نہیں بھول پا رہی تھی۔
ہم کون ہوتے ہیں آپ سے ناراض ہونے والے؟ ہم تو آپکی ملازمہ ہیں آپکو جو دل آئے کیجیئے۔ وہ بول رہی تھی اور بازل کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔
بی جان خدارا ایسے مت کہیں۔ آپ میرے لیئے مما کی جگہ پر ہیں میں نے ہمیشہ آپکو اپنی مما ہی مانا ہے۔ آپ ایسے کیسے کہہ سکتی ہیں بی جان؟ بازل شدتِ جزبات سے چور لہجے میں کہہ رہا تھا اور بی جان کو اپنے آپ پر اور بازل کی محبت پر فخر ہو رہا تھا لیکن عاریہ پر نظر پڑتے ہی دکھ نے انہیں گھیر لیا تھا۔
بازل آپ سٹدی میں جائیں ہم وہی آتے ہیں اور عاریہ آپ سو جائیں. یہ کہتے ساتھ ہی وہ عاریہ پر بلینکٹ ڈالتی اٹھ گئی۔ عاریہ کروٹ لیتی سو گئی۔ بازل جا چکا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ایمان سست قدموں سے اپنے کمرے میں آگئی۔ وہ ابھی میکہ ہی آئی تھی ایک مہینہ بعد رہنے اور جو اسنے سنا تھا۔ اسکی روح فنا کرنے کیلئے کافی تھا۔ اسکے ماں باپ قاتل تھے. انہوں نے کسی کی زندگی چھین لی تھی۔ اسکی ماں جو اسکی آئیڈل تھی۔ انہوں نے حسد میں کسی عورت کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اسکا باپ جو اس سے اور عاریہ سے اتنی محبت کرتا تھا وہ کسی خاندان کو صفہِ ہستی سے مٹا چکا تھا۔ ایمان انہی سوچوں میں غرق تھی جب فاطمہ بیگم کمرے میں آئی اور بولیں۔
ایمان آپ کب آئیں بیٹا۔ آنے کی عطلاح بھی نہیں دی آپنے۔ وہ ایمان کو دیکھ رہی تھیں جس کی آنکھوں میں آج محبت نہیں تھی صرف حیرانی اور اجنبی پن تھا پر فاطمہ بیگم ایمان کی آنکھیں نہیں پڑسکتی تھیں کیونکہ ایمان پر انہوں نے توجہ ہی نہیں دی تھی۔
بس تھوڑی دیر پہلے تب آپ اور بابا شاید کوئی بات کر رہی تھے۔ اعجاز نے نیچے ہی بتا دیا تھا تو میں نے آپ لوگوں کو ڈسٹرب کرنا ضروری نہیں سمجھا اس لیئے یہاں آگئی۔ کیا میں نے کچھ غلط کیا؟
ایمان اپنے جزبات کو چھپانے میں کامیاب ہو رہی تھی کیونکہ وہ ابھی ان پر کچھ بھی اشکار کر کے خود کو مصیبت میں نہیں ڈال سکتی تھی۔
یہ آپ نے اچھا کیا لیکن آپ آئی کیسے؟ وہ سر سری سا پوچھ رہی تھی۔
وہ دراصل محسن (ایمان کا شوہر)کسی میٹنگ میں مرئیٹ آئے ہوئے تھے تو انہوں نےُمجھے یہاں چھوڑ دیا۔ تھوڑی دیر میں واپس چلی جاؤ گی۔ وہ فون اٹھاتی ہوئی بولی اور محسن کو مسیج کرنے لگی کے۔
محسن ڈرائیور بھیج دیں میں گھر جانا چاہ رہی ہوں مجھے طبیت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ویسے تو ایمان اپنی خوشی بانٹنے آئی تھی لیکن یہاں آکر جو اسے پتا چلا تھا وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی جلد از جلد۔
ایمان کیا سوچ رہی ہو؟ طبیت ٹھیک ہے آپکی؟ وہ لہجے میں فکرمندی سموئے ہوئے بولی۔
جی وہ نہیں دراصل مجھے اپنی طبیت ٹھیک نہیں لگ رہی ابھی ڈرائیور آجائے گا میں گھر جا رہی ہوں۔ وہ بول ہی رہی تھی جب ملازمہ اندر آئی۔
وہ جی ایمان بی بی آپکا ڈرائیور آیا ہے۔ وہ کہہ رہا زرا جلدی آجائیں اسنے صاحب جی کو بھی لینا ہے۔ وہ کہہ کے چپ ہوگئی۔
ٹھیک ہے تم جاؤ میں آرہی ہوں۔ وہ کہتے ساتھ ہی فاطمہ بیگم کی طرف موڑی اور گویا ہوئی۔
اوکے مما اللہ حافظ میں چلتی ہوں۔ وہ ان سے گلے ملتے ہوئے گویا ہوئی۔
ٹھیک ہے میری جان اپنا خیال رکھنا۔ وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے بولی۔
جی۔ وہ کہتی ہوئی چلی گئی۔ بہت سے دکھ اپنے دل میں چھپا کر جو اسکی شخصیت کا خاصہ تھا وہ کبھی کسی کو دکھ نہیں دیتی تھی چاہے قصوروار جو بھی ہوتا وہ سب کے ساتھ اچھی تھی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل سٹدی میں انکا انتظار کر رہا تھا جب وہ داخل ہوئی اور کہنا شروع کیا۔
مجھے افسوس ہوتا ہے بازل اپنی پرورش پر۔ آپ نے میری محنت زایا کر دی۔ یہ جو سلوک آپ کرتے پھر رہے ہیں یہ کیا ہے؟ بتاؤ مجھے؟ یہ سیکھایا ہے میں نے آپکو انتقام لینا چاہتے ہو تو شہیر شاہ سے لو عاریہ کے ساتھ یہ سب کیوں؟ وہ دکھ سے بولی۔
بی جان اس معاملے میں مت پڑیں پلیز۔ میں کوشش کروں گا کے آئندہ ایسا نہ ہو اور آپکو شکایت کا موقع نہ ملے۔ وہ بولتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور سرعت سے نکل گیا اور بی جان تاسف سے دیکھ رہی تھی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••