عاریہ جب گھر پونچی تو وہ بغیر کسی سے کوئی بات کیئے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اور بے اختیار ہی اسکے قدم باتھروم کی طرف بڑھ گئے تھے وہ وضو کر کے اپنے پریرروم میں چلی گئی۔ یہ پریرروم بہت بڑا نہیں تھا لیکن ڈرسنگ روم جتنا ضرور تھا۔ بلکل صاف ستھرا اور کنڈشن تھا۔ سفید انرجی سیورز سے جگمگا رہا تھا۔ تین دیواروں پر سفید پینٹ تھا جبکہ ایک دیوار ہلکے آسمانی رنگ سے رنگی ہوئی تھی اور اس دیوار پر سفید رنگ سے کیلیگرافی کی گئی تھی۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (۵۵:۱۳)
اور تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
عاریہ کی نظر بےساختہ ہی اس آیت پر ٹھر گئی تھی اور آنسوں اسکی آنکھوں کی باڑ توڑ کر اسکا چہرا بھگو رہے تھے۔ جو چیز عاریہ کو بےچین کر رہی تھی اب وہی چیز سکون بخش رہی تھی۔ االلہ رب العزت نے عاریہ کو چنا تھا اپنی اس نعمت کیلئے۔ وہ روتی ہوئی جائے نمازپر کھڑی ہوگئی نیت باندھنے سے سجدے تک اسکی آنکھیں ہمنواز ہی برس رہی تھی۔ عاریہ کے سجدے تویل ہوتے جارہے تھے اور روتے ہوئے ہچکی بندھ گئی تھی۔ وہ دعا کیلئے ہاتھ بلند کرتی ہوئی روتے ہوئے بےقراری سے اپنے رب کو اپنا حالِ دل بتا رہی تھی۔
اللہ پاک میں بہت گناہگار ہوں۔ ایک عام سی عورت جو آپکی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتی۔میرے ساتھ جو بھی ہوا میں نے کبھی شکوہ نہیں کیا آگے بھی نہیں کروں گی کیونکہ مجھے پتا ہے آپ سے زیادہ محبت مجھ سے کوئی نہیں کرتا اور نا کوئی کرسکتا ہے۔آپ جو بھی کریں گے اس میں میری بہتری ہو گی۔ اللہ میں جتنا شکر کروں اتنا کم ہے آپ نے مجھے اس نعمت کے قابل سمجھا۔ میرا نکاح اس سے جیسے بھی ہوا ہو میں اس رشتے کو دل سے مانتی ہوں۔اللہ میرے لیئے آسانیاں پیدا کر۔ وہ منہ پر ہاتھ پہیرتی جائے نماز سے اٹھ گئی۔ وہ پریر روم سے باہر آئی تو اسے سامنے فاطمہ بیگم بیٹھی ہوئی عاریہ کا ہی انتظار کر رہی تھی۔عاریہ انکے پاس آکر بیٹھ گئی تھی کہ فاطمہ بیگم اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے گویا ہوئی۔
عاریہ میری جان آپ نے کیا سوچا ہے؟ آپکو اس شخص کے بارے میں بھی کچھ نہیں پتا ایسے میں یہ خبرآپکے کردار کی دھجیاں اڑا دے گی۔ آپ سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں۔ وہ سمجھانے والے انداز میں بول رہیں تھیں۔
میں بلکل سمجھ رہی ہوں مما آپ جو کہنا چاہ رہی ہیں۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اور نا ہی میں اس بچہ سے جان چھوڑواؤں گی سمجھیں آپ اور یہ بات بابا جان کو بھی سمجھا دیں۔مجھے معلوم ہے بابا جان نے آپکو یہاں بھیجا ہے مجھے منانے کیلئے لیکن میں انکی بات نہیں مان سکتی میں اس بچے کی جان نہیں لوں گی۔ وہ اٹل لہجے میں بولتی ہوئی ٹیرس میں چلی گئی جسکا صاف مطلب تھا کے فاطمہ بیگم تشریف لے جا سکتی ہیں۔ فاطمہ بیگم پریشانی سے ٹیرس کے دروازے کو دیکھتی رہیں جس کے پیچھے عاریہ گم ہوئی تھی اور پھر اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل کو واپس آئے تین دن ہوگئے تھے لیکن اسکو شاہ ہاؤس جانے کا موقعہ ہی نہیں مل رہا تھا۔ آج جب اسے شاہ ہاؤس سے اسکی وفادار خادمہ کا فون آیا تو وہ چونک گیا۔وہ ملازمہ تب ہی فون کیا کرتی تھی جب کوئی بہت زیادہ اہم بات ہو اور وہ ملازمہ ہی بازل اور عاریہ کے نکاح کے بارے میں جانتی تھی۔ بازل نے دوسری بیل پر ہی فون آٹھا لیا تھا۔
ہاں نسرت بولو۔ وہ جلدی سے بولا۔
وہ خان صاحب وہ جی شاہ جی نے عاریہ بی بی کے ناشتے میں کچھ ملا دیا تھا جی۔ عاریہ بی بی کی طبیت خراب ہوگئی تھی۔ فاطمہ بیگم انہیں ہسپتال لے کر گئی ہیں جی اور فاطمہ بیگم شاہ جی کو کہہ رہیں تھیں کے اگر عاریہ بی بی یا انکے بچے کو کچھ ہوا تو وہ شاہ جی کو معاف نہیں کریں گی۔ وہ رازدرانہ انداز میں کہہ رہی تھی اور بازل وہ تو اسے ہو گیا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس کے دماغ میں صرف ایک ہی بات گونج رہی تھی۔ "عاریہ اور اسکا بچہ" اگر ان دونوں کو کچھ ہو گیا تو؟ وہ گاڑی کی چابیاں اٹھاتا شاہ ہاؤس کی طرف جانے لگا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شاہ جی عاریہ نہیں مان رہی میں تین دن سے کوشش کر رہی ہوں پر وہ اپنی بات پر قائم ہے۔ فاطمہ بیگم شہیر شاہ کو سیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔ وہ شہیر شاہ اور عاریہ دونوں کو سمجھا رہیں تھیں لیکن دونوں ہی اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ رہے تھے۔
تم رہنے دو۔ اب اس معاملےکو ہم خود دیکھیں گے۔عاریہ کو یہاں بھیج دو اور تم جاؤ۔ وہ درشتی سے کہہ رہے تھے اور فاطمہ بیگم آثبات میں سر ہلاتی وہاں سے چلی گئیں۔عاریہ جب کمرے میں داخل ہوئی تو شہیر شاہ ناشتہ کرنے لگے تھے۔ انہوں نے پہلے سے ہی عاریہ کیلئے پلیٹ سیٹ کی ہوئی تھی۔ عاریہ کو اپنے پاس انے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ گویا ہوئے۔
ہم سے ناراض ہے ہماری بیٹی؟ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
نہیں بابا جان ناراض تو آپ ہیں مجھسے اس کیلئے جو میں نے کیا بھی نہیں بلکہ میں تو مکافاتِ عمل کی زد میں آگئی ہوں۔ وہ افسردہ سی مسکرائی۔ اسے زیادہ نہیں معلوم تھا لیکن اتنا پتا تھا کے بازل نے اسکے باپ کے کیئے کا بدلہ عاریہ سے لیا ہے۔
پرانی باتیں چھوڑو اور اپنے بابا کے ساتھ ناشتہ کرو۔ انکی مسکراہٹ میں کچھ تھا جسے عاریہ نوٹس نہیں کر رہی تھی اور کرتی بھی کیسے وہ پچھلے ایک مہینے اپنے باپ کی محبت و شفقت کیلئے ترس رہی تھی۔ آج اسے وہ محبت و شفقت نصیب ہورہی تھی وہ سب کچھ بھول کر اپنے بابا کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھی۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ایک گھنٹے بعد اسکی طبیت خراب ہونا شروع ہوگئی تھی اور وہ درد سے چیختی رہی تھی۔ فاطمہ بیگم جب اسکو ہاسپٹل لے کر پونچی تو انہیں پتا چلا کے عاریہ کا بچہ مر گیا ہے اور عاریہ اب خطرے سے باہر ہے اور عاریہ نے ابورشن پلز کھالیں تھی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
عاریہ کو چار گھنٹے بعد وہ ہاسپٹل سے گھر لائی تھیں۔عاریہ نے ایک آنسو بھی نہیں بہایا تھا لیکن اپنی طرف بڑھتے شہیر شاہ کو دیکھ کر وہ اپے سے باہر ہوگئی تھی وہ ہزیانی انداز میں شہیر شاہ پر چیخ رہی تھی۔
بابا آپ نے مجھے دھوکہ دیا۔ آپ نے میرے بچے کی جان لی ہے۔ آپ قاتل ہیں میری اولاد کے۔ آپ کو ڈر نہیں لگا اسکا قتل کرتے ہوئے کبھی سوچا ہے آپ نے کہ کیا جواب دیں گے آپ اللہ کو ایک انسانی جان کا قتل کرنے کا۔ مجھے گھن آرہی ہے خود سے کے آپ میرے بابا ہیں اورمیں آپکے جسم کا حصہ ہوں۔ کاش مجھے پتا ہوتا کہ آپ اتنا گر جائیں گے تو میں کبھی آپ کے فریب میں نہ آتی میں کبھی آپکو معاف نہیں کروں گی۔
اسی لمحے بازل بھی اندر آیا تھا اور وہ عاریہ کی گفتگو سن چکا تھا بازل خاموش کھڑا کبھی عاریہ کو دیکھ رہا تھا اور کبھی شہیر شاہ کو۔ عاریہ اپنی بات مکمل کرتی جانے کیلئے مڑی ہی تھی کے اسکی نظر بازل پر پڑی اور وہ شکستہ سی قدم اٹھاتی بازل کے پاس گئی اور ایک زوردار تھپڑ بازل کے منہ پر مارا اور اسکا گریبان پکڑتی ہوئی چیخی۔
انکے ساتھ ساتھ تم بھی قاتل ہو میرے بچے کے۔ تم سب نے برباد کر دیا مجھے۔ نکاح کرنے کی ہمت تھی نا تو اپنی بیوی کے بارے میں جاننے کی ہمت بھی رکھتے اسے تحافظ دینا بھی تمہاری زمہ داری تھی۔ میں تم سب کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔ روزِ محشر میں آپ دونوں گا گریبان پکڑوں گی۔ اپنے بچے کا خون میں کبھی نہیں بخشوں گی۔
وہ اپنی بات مکمل کرتی وہاں سے چلی گئی تھی۔ بازل کے کانوں میں عاریہ کے کہے گے لفظ بازگشت کر رہے تھے۔ شہیر شاہ اور فاطمہ بیگم سکتے کے عالم میں تھے۔ بازل تھا وہ شخص جس نے عاریہ سے نکاح کیا تھا لیکن کیوں؟ بازل لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل جب گھر پونچا تو علی لاؤنج میں بیٹھا وڈیو گیم کھیل رہا تھا۔ بازل نے اسکے سر پر پونچھ کر ایک جھٹکے سے اسکو اپنے سامنے کھڑا کیا اور ایک مکوں کی برسات علی پر شروع کر دی اور دھاڑتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔
کیا تمہیں پتا تھا کے عاریہ ماں بننےوالی ہے؟ جواب دو کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے؟
ہا ہاں مجھے پتا تھا اس بارے میں دو دن پہلے ہی پتہ چلا۔ علی اپنے ہونٹ کے پاس سے نکلتا ہوا خون صاف کرتے ہوئے بولا۔
تو تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ تم جانتے ہو اس شہیر شاہ نے میری بچے کو مار دیا ہے۔ قاتل ہے وہ میری بچے کا۔ میں اب اس شہیر شاہ کو بخشو گا نہیں اب اسے اتنی دردناک موت دوں گا کہ اسکی روح کانپ اٹھے گی اور تم مجھے اب اپنی شکل نا دیکھانا کیونکہ تم بھی اس سب کے زمہ دار ہو تم مجھے بتا دیتے تو میں اسکو بچا لیتا۔ اب کے وہ بے بسی سے بولا تھا اپنی پہلی اولاد کو کھونے کا کرب اسکی آنکھیں، اسکا لہجا باخوبی بیان کر رہے تھے۔
بازل مجھے غلط مت سمجھو۔ میں نے یہ سب ہمارے انتقام کیلئے کیا ہے اگر میں تمھیں بتا دیتا تو تم اپنا انتقام بھول جاتے اور عاریہ کو معاف کر دیتے تم بھول جاتے کے وہ شہیر شاہ کی بیٹی ہے جس کی وجہ سے ہماری ماؤں کی عزتیں مٹی میں مل گئیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے باپ قتل ہوگئے اور حنان جو جس کو اسنے اپنا نام تک نہیں دیا اس شہیر شاہ نے تم سب بھول جاتے۔ وہ یاد دلانے والے انداز میں بولا اسکا لہجے اور آنکھوں میں کرب تھا۔ وہ تکلیف جو اتنے سالوں میں بھی کم نہیں ہوئی تھی۔
میرا بچہ اس انتقام کا حصہ نہیں تھا۔ وہ آنکھیں میچے بول رہا تھا۔
وہ بچہ عاریہ کا بھی تھا لیکن شہیر شاہ نے کیا کیا؟ اپنی لاڈلی بیٹی جس میں اسکی جان بستی تھی اسکے بچہ کو موت کی نیند سلا دیا۔ جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ اسکے لیئے اسکی عزت پیاری ہے اسکی بیٹی کی اولاد نہیں اور عاریہ وہ بچی تو نہیں تھی جو اسے پتا نہیں چلا کے اسکا باپ کیا کر رہا ہے؟ پورا ایک مہینہ اسنے شہیر شاہ نے اسے بات نہیں کی۔ پچھلے تین دن سے وہ اسکو اس بچے سے جان چھوڑوانے کا کہہ رہا ہے اور ایک دم سے اس کے دل میں بیٹی کی محبت جاگ گئی اور بیٹی کے بچہ کو بھی قبول کر لیا؟ تم مانو یا نہ مانو لیکن عاریہ کو اب معلوم ہو گا۔ علی اپنی بات مکمل کر کے چپ ہو گیا۔ بازل اسے دیکھتے ہوئے خالی نظروں سے گویا ہوا۔
اگر ایسا ہے تو عاریہ کو بھی نہیں چھوڑوں گا میں اسے بھی جواب دینا پڑے گا ۔ میں اسکو ابھی لینے جارہا ہوں اور تم منیزہ بی کو بولو سب ملازمین کو چھٹی دی دیں اور سب کی تنخواہیں انک اکاؤنٹز میں ہر مہینے ڈلوا دی جائیں گی۔ یہ کہتے ساتھ ہی بازل لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنی گاڑی تک پونچا اور ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا شاہ ہاؤس کی طرف جانے والے راستہ پر گاڑی کردی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
عاریہ ابھی بھی اپنے کمرے میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی جب ایک جھٹکے سے اسکے کمرے کا دروازہ کھولا اور بازل اندر آیا اور عاریہ کے سر پر پونچھ کر اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے اسے اٹھایا اور سرگوشی کے انداز میں اسکے کان کے قریب ہوتے ہوئے بولا۔
صرف دس منٹ ہیں تمہارے پاس جو جو ضروری سامان ہے لو بغیر کسی چوں چاں کے۔ عاریہ ہکہ بکہ سے بازل کو دیکھ رہی تھی اور پھر ہمت کر کے بولی۔
میں تمہارے ساتھ کہیں بھی نہیں جاؤ گی سمجھے تم۔ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تم میرے بچہ کے قاتل ہو اور میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ وہ اٹل لہجے میں کہہ رہی تھی اور اس کی بات نے بازل کے غصہ کو بھڑکا دیا تھا اور وہ عاریہ کا منہ دبوچتا ہوا سرگوشی کے انداز میں دھاڑا۔
میں کوئی بھی بکواس نہیں سنوں گا سمجھی تم۔ صرف دس منٹ اگر اس میں سامان رکھ لو تو ٹھیک ہے ورنہ ایسے ہی چلو گی اور دنیا میں کوئی بھی فلحال ایسا نہیں ہے جو مجھے اپنی بیوی کو یہاں سے لے کے جانے سے روکے۔ وہ تمسخر سے ہنس رہا تھا اور عاریہ بے بسی سے اپنا سامان رکھنے لگی۔ پورے دس منٹ بعد عاریہ بازل کی گاڑی میں تھی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
وہ ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا آدھے گھنٹے کا سفر پندرہ منٹ میں کر آیا تھا۔ عاریہ کے بازوں کو دبوچتے ہوئے اسکو گاڑی سے نکالا۔ گھسیٹتے ہوئے اندر لے آیا اور ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا ہوا منیزہ بی کو بلانے لگا۔ منیزہ بی جب آئیں تو بازل ان سے گویا ہوا۔
منیزہ بی یہ ہے میری بیوی اور شہیر شاہ کی بیٹی۔ آج سے آپ ساری ملازموں کو چھٹی دی دیں۔ ساری کام عاریہ کرے گی۔ کھانا بن گیا ہے تو اسے ملازموں کو دی دیں۔آج سے کھانا بھی عاریہ ہی بنائے گی۔
بازل اپنی بات کہہ چکا تھا اور عاریہ کے تو ہوش اڑ گئے تھے۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••