بازل جب اٹھ کر کھڑا ہوا تو نرس اسکی طرف ایک بچی لے کر آئی۔ بچی بلکل عاریہ جیسی تھی۔ اسی کی طرح خوبصورت، نازک اور پاکیزہ۔ بازل اپنی بیٹی میں اتنا کھوگیا تھا کے اسکا دھیان ایمان کی طرف گیا ہی نہیں جو اپنی بہن کے سفید چادر میں لپٹےوجود کے ساتھ لگی رو رہی تھی۔ بازل نے محسن کی طرف دیکھا جو ایمان کو گلے لگا کر اسے تسالیاں دے رہا تھا۔بازل انکو نا سمجھی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ایمان کیوں رو رہی ہے محسن اور یہ اس چادر میں کون ہے؟ محسن سے پوچھتے ہوئے وہ ایمان کی طرف متوجہ ہوا۔
ایمان مت رو تمہیں پتا ہے عاریہ کو اچھا نہیں لگتا کے تم رو پھر کیوں رو رہی ہے۔ ابھی وہ تمہیں دیکھے گی تو پریشان ہو جائے گی۔ کون ہے اس چادر میں تم بتا کیوں نہیں رہے مجھے اور ایمان تم کیوں اس کے ساتھ لپٹ رہی ہو؟ بازل بہت آرام سے سرگوشی کے انداز میں بول رہا تھا کے کہیں اسکی بیٹی نا اٹھ جائے۔ جب ایمان خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔
بازل یہ عاریہ ہے وہ تمہیں اور اپنی بیٹی کو چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ عاریہ مر چکی ہے۔ خود کو سنبھالو۔ اپنے لیئے اپنی بیٹی کیلئے۔ میری بہن جا چکی ہے۔ ایمان روتے ہوئے اس ننھی پری کو بازل سے لیتے ہوۓ بولی۔
نن نہیں۔ یہ یہ جھوٹ ہے وہ کیسے مر سکتی ہے۔ وہ کیسے جا سکتی ہے مجھے اور ہمارے بچے کو چھوڑ کر ایسا نہیں ہوسکتا۔ بازل چیختے ہوئے ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھ گیا اور اپنے بال نوچتے ہوئے بولا۔
وہ نہیں جا سکتی وہ کیسے جا سکتی ہے مجھے چھوڑ کر۔ نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ بازل چیخ رہا تھا رو رہا تھا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ملک ہاؤس اور خان ولاء میں جشن کا سماء تھا۔ ہر جگہ برقی قمقیں چمک رہے تھے۔ ان دونوں گھروں میں خوشیاں آ چکی تھیں۔ محسن سلطانہ بی اور منیزہ بی کو کال کر کے عاریہ کی بیٹی کا بتا چکا تھا اور یہ بھی کے بازل بلکل ٹھیک تھؤڑی دیر پہلے بچھی ہوئی ماتم کی صفیں خوشیوں میں بدل گئی تھی کیونکہ سب ٹھیک ہوچکا تھا۔ علی بھی پاکستان آچکا تھا محسن کے بیٹے کے عقیقے اور بازل کی بیٹی کی کو ویلکم کرنے کیلئے۔ جب بازل اور محسن اپنی فیملیز کے ساتھ داخل ہوئے اور ہر جگہ پر ویلکم بےبی کے نعرے گونج اٹھے۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل چیخ اور رو رہا تھا۔ جب محسن نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اٹھایا اور بازل نے جھٹ سے آنکھیں کھولی۔ اسکا چہرا آنسوؤں سے تر تھا اور جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا. اسکے ہونٹ ہولے ہولے لرز رہے تھے اور سرگوشی میں صرف ایک آواز نکلی تھی اسکے ہونٹوں سے جو صرف اور صرف بازل کی سماتوں سے ٹکرائی تھی۔
اللہ میری عاریہ کو بچا لے۔ وہ ہوش میں آگیا تھا لیکن وہ بھیانک خواب ابھی بھی اسکے حواس پر سوار تھا۔ جب محسن نے اسکو آواز دی اور بولا۔
بازل تم ٹھیک ہو؟ کیا آنکھ لگ گئی تھی؟ کوئی برا خواب دیکھا ہے کیا؟ محسن مختلف سوال پوچھ رہا تھا۔ جب بازل اثبات میں سر ہلاتا بولا۔
میں ٹھیک ہوں۔ میں نے بہت بھیانک خواب دیکھا تھا۔ ابھی بازل کچھ اور بولتا کے ایک نرس اور ڈاکٹر باہر آۓ۔ نرس نے بازل کے ہاتھوں میں ایک لائٹ پنک کمبل میں لپٹا ہوا نومولود وجود پکڑایا بلکل شفاف فرشتوں جیسا معصوم۔ اسکی ناک بازل جیسی تھی اور آنکھیں عاریہ جیسی۔ بازل اس نومولود وجود کی روشن پیشانی پر بوسہ دیتا ہوا ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا۔
ڈاکٹر میری وائف کیسی ہیں اب؟ بازل نے ڈاکٹر کی طرف منتظر نظروں سے دیکھا۔
خان صاحب آپکی وائف بلکل ٹھیک ہیں۔ آپ ان سے مل سکتے ہیں تھوڑی دیر میں ہم انہیں روم میں شفٹ کردیں گے۔ ڈاکٹر پروفیشنل مسکراہٹ اچھالتے ہوئے چلے گئے اور بازل اپنی بیٹی کو دیکھتا ہوا اسے چومنے لگا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
عاریہ نے گھر آنے کے بعد بھی اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ خاص لگاؤ کا اظہار نہیں کیا تھا۔ آج اسکی بیٹی کو ایک مہینہ ہوگیا تھا اور وہ اپنی بیٹی سے دور رہتی تھی۔ جب اسے فیڈ کروانا ہوتا تب ہی اسکے پاس جاتی ورنہ دور بھاگتی تھی۔ اسنے اپنے آپ کو گھر کے کاموں میں اتنا بزی کر لیا تھا کے نا اسکا سامنہ بازل سے ہوتا نا بازل کا اس سے آج بھی بازل ہی منہا کو لے کر عاریہ کے پاس آیا تھا۔ عاریہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی۔ جب بازل آ کر بولا۔
عاریہ یہ صرف میری نہیں تمہاری بھی بیٹی ہے۔ تم اس سے دور کیوں رہتی ہو کیا تمہارا دل نہیں کرتا اسکو پیار کرنے کو؟ اس معصوم سے کس بات کی ناراضگی ہے تمہاری؟ دیکھو یہ کیسے تڑپ رہی ہے تمہارے پاس آنے کیلئے۔ بازل اپنی طرف سے منہا کو چپ کروانے کی ہر ممکن کوشش کر چکا تھا لیکن منہا تو اپنی ماں کیلئے تڑپ رہی تھی وہ باپ کی گود میں چپ کیسے ہوتی۔عاریہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی بازل کی طرف گھومی اور بولی۔
میری منہا سے کوئی ناراضگی نہیں ہے لیکن میں اسکو اپنے قریب بھی نہیں کر سکتی کیونکہ جب اسکی زندگی میں کوئی آپ جیسا شخص آۓ گا نا تو مجھے تکلیف ہوگی اور تب میں برداشت نہیں کرسکوں گی۔ آپ سب کہتے ہیں میری ماں بدکردار تھی۔ ہاں تھیں وہ ایسی لیکن وہ ایک ماں تھی جو اپنی بیٹی کی تکلیف میں تڑپتی تھیں اور میں نہیں چاہتی کے مکافاتِ عمل کی تکلیف سے میری بیٹی کو گزرنا پڑے۔ میں مر جاؤں گی اگر میری بیٹی کو اس سب سے گزرنا پڑا۔ عاریہ اپنی بات کہتے ساتھ دوبارہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اور بے اختیاری میں بازل کی آنکھوں سے بھی کچھ آنسوؤں لڑھک کر گالوں پر پھسل گئے۔ بازل بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ بولا۔
عاریہ مجھے معاف کردو خدا کیلئے مجھے معاف کر دو۔ اب برداشت نہیں ہوتا مجھ سے یہ سب۔ کتنی ہی دفعہ تم سے معافی مانگ چکا ہوں لیکن تم ہو کے معاف ہی نہیں کرتی میرے لیئے نا سہی منہا کیلئے ہی کردو۔ اگرتم مجھے معاف کردو تو منہا کے سامنے ایسا کچھ نہیں آۓ گا۔ پلیز عاریہ پلیز۔ وہ جوان مرد تھا جو آج اپنی بیوی کی معافی کیلئے گڑگڑا رہا تھا۔ رو رہا تھا لیکن شاید محبت کے ساتھ ساتھ عاریہ کے اندر کا نرم مزاج شخص بھی مر گیا تھا۔ وہ عاریہ جو ہر کسی کو معاف کردیتی تھی۔ آج اپنے شوہر کی منتیں اسکی معافیاں عاریہ کی سمعتیں سننا نہیں چاہ رہیں تھیں۔ عاریہ اسکی بات مکمل ہونے پر بولی جب وہ زمین پر گٹھری کی صورت میں لیٹا رو رہا تھا اور اسی وقت منہا دوبارہ رونے لگ گئی۔ جب عاریہ اسے بازل کے ہاتھوں سے لیتی ہوئی بولی۔
آپ سہی کہہ رہیں ہیں اگر میں آپکو معاف کردوں تو میری بیٹی کے سامنے یہ سب نہیں آۓ گا لیکن میں اتنی عظیم نہیں ہوں کے آپکا کیا سب بھول جاؤ اور آپکے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگ جاؤ۔ میں نے پورا سال جس اذیت میں گزارا ہے وہ یا تو صرف میں جانتی ہوں یا میرا خدا۔ میں نے آج آپکو اپنی بیٹی کیلئے معاف کیا لیکن ایک بات یاد رکھیئے گا محمد بازل عدیل خان میں نے معافی آپکو منہا کیلئے دی ہے۔ اس سے زیادہ اسے کچھ مت سمجھیئے گا۔ عاریہ اپنے بات ختم کرتی منہا کو لیئے اس کمرے سے نکل گئی تھی اور بازل خوش تھا کے عاریہ نے اسے معاف کردیا ہے لیکن عاریہ کی سوئی ہوئی محبت کو جاگنے میں ابھی کچھ وقت لگنا تھا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
عاریہ کو ہسپتال کے کمرے میں شفٹ کردیا گیا تھا۔ عاریہ آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی جب بازل منہا کو لے کر اندر آیا اور منہا کو بولا جو سوئی ہوئی بلکل عاریہ جیسی لگ رہی تھی۔
بےبی دیکھو آپکی مما سوتے ہوئے کتنی پیاری لگ رہی ہیں بلکل آپکے جیسی۔ اے عاریہ اٹھو دیکھو اللہ نے ہمیں رحمت سے نوازہ ہے۔ دیکھو یہ بلکل تمہارے جیسی ہے شفاف اور معصوم فرشتہ۔ اس سے پہلے کے بازل کچھ اور بولتا عاریہ نے آنکھیں کھولی اور چیختے ہوۓ بولی۔
خبردار جو اسے مجھ سے ملانے کی کوشش کی اللہ نہ کرے یہ مجھ جیسی ہو۔ مجھ جیسی لڑکیاں ہمیشہ تم جیسے مردوں کے کیئے کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔ ہمیں تو اس دنیا میں لایا بھی اسی لیئے جاتا ہے تاکے ہمارے باپ، بھائی جو کریں ہمیں ان سے انتقام کیلئے استمعال کیا جائے۔ ہمیں جتنا زہنی اور جسمانی ٹارچر کیا جا سکتا ہے کیا جاۓ۔ اگر جان سے مر جائے تو ٹھیک ورنہ اسکی روح کو تو مارا جا ہی سکتا ہے۔ میری دعا ہی کے یہ جلد ہی مر جاۓ تاکہ یہ کسی مکافاتِ عمل کی بھینٹ نہ چڑھے۔ عاریہ اپنے آنسوؤں صاف کرتی ہوئی رخ موڑ گئی تھی۔
عاریہ ایک دفعہ تو اسکی طرف دیکھ لو؟ تمہارے بھی وجود کا حصہ ہے یہ۔ بازل کی آنکھوں میں ندامت تھی اور لہجا بھی کافی کمزور تھا بولتا بھی تو کیسے؟ اپنے انتقام میں وہ عاریہ کے ساتھ بہت زیادتی کر گیا تھا۔
اسکو لے جائیں بازل یہاں سے ورنہ میں اسے خود مار دوں گی۔ آئندہ اسکو مجھ سے دور رکھیئے گا۔ عاریہ تلخی سے بول گئی تھی۔ اسکی بات ختم ہونے پر بازل بولا۔
ٹھیک ہے آئندہ کے بعد یہ تمہارے پاس نہیں آۓ گی لیکن اسکو فیڈ تم ہی کرواؤ گی اور ٹائم ٹو ٹائم کرواؤ گی کیونکہ میں اسکی صحت و زندگی پر کوئی کمپرومائز نہیں کروں گا اور فلحال اسکو فیڈ کروا دو۔ بازل منہا کو عاریہ کے پاس لیٹاتا نکل گیا تھا۔ جب عاریہ اٹھ بیٹھی اور منہا کو چومنے لگی۔ آنسو بے اختیار ہو کر اسکے رخسار بھگو رہے تھے۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ریعان کی ساتویں برتھڈے پر ملک ہاؤس کو سجایا گیا تھا۔ ایمان اور عاریہ ایک ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ محسن اور بازل ایک ساتھ بیٹھے ہوۓ اپنی اکلوتی اولاد کو کھیلتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ جب محسن گویا ہوا۔
بازل میں کچھ سوچ رہا ہوں۔ اگر تم بھی اس بارے میں سوچوں تو مجھے اچھا لگے گا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ میں چاہ رہا ہوں کیوں نا ریعان اور منہا کا رشتہ کر دیا جائے۔ اس سے ہماری دوستی مضبوط ہو جائے گی اور ایمان اور عاریہ بھی سکون میں آجائیں گی۔ سوچنا اس بارے میں۔ محسن بازل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
ٹھیک ہے میں اس بارے میں ضرور سوچوں گ اور عاریہ سے بھی اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ بازل پرسوچ انداز میں کہہ رہا تھا اور محسن اثبات میں سر ہلا رہا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
پانچ سال گزر گئے تھے لیکن عاریہ کا رویہ بازل کے ساتھ سرد ہی تھا۔ وہ منہا کے ساتھ تو اپنا رویہ درست کر چکی تھی لیکن بازل کو معاف نہیں کر پائی تھی۔ بازل اپنے بزنس ٹرپ کیلئے امریکہ گیا ہوا تھا۔آج اسکی واپسی تھی۔ ایک مہینہ بعد۔ عاریہ کھانا بنا کر فارغ ہو چکی تھی کیونکہ بازل اسکے ہاتھوں کا بنا ہوا کھانا کھانے کا عادی تھا۔ عاریہ فریش ہونے کا بعد ٹی وی کا ریموٹ لے کر صوفے پر آکر بیٹھ گئی اور ملزمہ کو کافی بنانے کا کہہ دیا۔ جب نیوز چینل پر نیوز چلی۔
امریکہ سے آنے والی فلائٹ کریش۔ پسنجرز کے بچنے کے امکانات کم ہیں۔
یہ نیوز عاریہ کی سمعاتوں میں بازگشت کر رہی تھی۔ عاریہ کو بازل کی کہئی ہوئی باتیں یاد آرہی تھیں۔
اگر میں مر گیا تو تب بھی معاف نہیں کرو گی؟
عاریہ میں بار بار معافی مانگتا ہوں لیکن تمہیں مجھ پر رحم نہیں آتا دیکھ لینا جس دن میں مرگیا تو مجھے بھی تم پر رحم نہیں آۓ گا۔
اب گیا تو تمہاری پکار پر بھی نہیں آؤ گا۔
عاریہ مجھے مار ڈالے گی تمہاری یہ بے اعتنائی۔
یہ مت کہو تمہیں مجھ سے محبت نہیں یہ بات میری جان لے لے گی۔
عاریہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتی چیخ رہی تھی۔ وہ یہ لفظ نہیں سن سکتی تھی۔ جب اسے اپنے سامنے ایک وجود نظر آیا۔ جو عاریہ کو دیکھتا استہزائیہ ہنس رہا تھا اور پھر بولا۔
اب خوش ہو اسکو مار کر؟ لے لی جان اسکی۔ کہتا تھا وہ معاف کردو۔ نہیں کیا تم نے اب یہ ڈرامہ کیوں جاؤ خوشیاں مناؤ۔ جشن کرو۔ مر گیا ہے وہ۔ جان لے لی تم نے اسکی۔ قاتل ہو تم اسکی۔ وہ وجود عاریہ پر دوبارہ ہنس رہا تھا۔
نہیں نہیں میں نے نہیں مارا اسکو۔ میں تو اس سے محبت کرتی ہوں۔ میں کیسے اسکی جان لے سکتی ہوں۔ میں نے نہیں مارا اسکو وہ زندہ ہے۔ اسے کچھ نہیں ہوا تم جھوٹ بول رہی ہو۔ اسے کچھ نہیں ہو سکتا۔ عاریہ چیختے ہوۓ روتے ہوۓ زمین پر گر گئی تھی۔ جب منیزہ بی بھاگتی ہوئی آئی۔ منہا بھی انکے ساتھ تھی۔ وہ اپنی ماں کی یہ حالت دیکھ کر سہم گئی تھی۔
عاریہ نے بے ہوش ہونے سے پہلے جو لفظ اپنے منہ سے نکالے تھے وہ یہ تھے۔
بازل میں نے معاف کیا۔مجھے تم سے محبت ہے۔ عاریہ کا زہن دوسری دنیا میں چلا گیا تھا اور جسم نے حرکت چھوڑ دی تھی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••