حنان نے مشتاق چوہدری کو ڈیڈ ڈیکلیر کروا کرایک ایسی جگہ پر قید کر لیا تھا جہاں صرف اسکو موت کے سناٹے سنائی دیتے تھے۔ وہ موت منگتا تھا لیکن اسے موت نہیں آتی تھی۔ اسکو یہاں پر دس دن ہوگئے تھے اور ان دس دنوں میں اسکے زخم بری طرح خراب ہوگئے تھے۔ حنان جب اسے ملنے آتا تو اسکے زخموں کو مزید دکھا جاتا وہ اسے ہر روز ازیت سے گزارتا تھا اس ازیت سے جس سے اسکی ماں گزری تھی لیکن اسکی ماں کی تکلیف کی آگے تو یہ سب بہت کم تھا۔ حنان آج جب آیا تو مشتاق چوہدری پانی مانگ رہا تھا۔ حنان نے اسے پانی تو دیا تھا لیکن ابال کر ابلا ہوا پانی اسکے منہ میں جب گیا تو اسکی چیخیں نکل پڑی اور آنکھوں سے آنسو لیکن حنان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ پڑنا بھی نہیں تھا کیونکہ ساری زندگی لوگوں کی تنزیہ باتیں، حقارت بھری نظریں اسنے برداشت کی تھی۔ مشتاق چوہدری تو اپنی عیائشیوں میں بھول گیا تھا کہ ایک نہ ایک دن پکڑ ہو جاتی ہے اللہ ڈھیل بہت دیتا ہے کہ بندہ سنمبھل جائے لیکن جب انسان نہ سدھرے تو اسکا اختتام دردناک ہوتا ہے۔حنان اسکو تمسخر سے دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔
کیا ہوا ڈیڈ؟ درد ہو رہا ہے؟ ہونا بھی چاہیئے میری ماں کو بھی ہوتا تھا لیکن تم نے ان پر رحم کیا نہیں کیا تو اس لیے اب میں بھی تم پر رحم نہیں کر سکتا۔ تم نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا نا انہیں تو چلو آج کچھ نیا کرتے ہیں تمہارے ساتھ شاید تمہیں اسکے بعد موت آجائے کیونکہ تم زندہ رہنے کے قابل نہیں رہو گے۔ بہت غرور ہے نا اپنی مردانگی کا اب بچاؤ خود کو۔حنان اپنی بات کہتا ہوا کسی کو اندر بولانے لگا۔
علی بھائی انکو لے آئیں۔ علی سات نفوس کے ساتھ اندر آیا۔ جو جسامت سے تو مرد لگتے تھے لیکن انکی چال کچھ اور ہی بیان کر رہی تھی۔ انکی آنکھوں میں ہوس اور انکی جسامت مشتاق چوہدری کو ہولانے کیلئے کافی تھی۔ حنان اسکی طرف حقارت و نفرت بھری نظر ڈالتا نکل گیا۔ علی اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا جو اتنا بڑا ہو گیا تھا جس نے اپنی ماں کے ساتھ ہونے والے ہر ظلم کا بدلا لے لیا تھا۔ علی اسکو دیکھتے ہوئے بولا۔
حنان تم۔ تم نے یہ سب کیسے؟ تمہیں کیسے پتا چلا کے مشتاق چوہدری مما کا گنہگار ہے؟ شہیر شاہ نہیں؟ علی حنان سے پوچھ رہا تھا۔
مجھے بازل بھائی نے بتایا تھا سب۔ عاریہ کو میں نے کیڈنیپ کرلیا تھا علمیر سے آزاد کروا کر تب مجھے بازل بھائی کی کال آئی انہوں نے بتایا کے مما کا گنہگار شہیر شاہ نہیں ہے وہ تو صرف خالہ کا مجرم ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ فاطمہ بیگم بھی۔ تب مجھے پتا چلا سب پر میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا کے فاطمہ بیگم کی ایسی کیا دشمنی تھی خالہ سے کے ایسی دردناک موت دی انکو وہ تو خالہ کی کزن تھی نا اور دوست بھی۔ حنان پر سوچ انداز میں بولا۔
علی اس سب کے بارے میں اب تم کچھ بھی نہیں سوچوں گے۔ واپس جاؤ اپنے فیوچر کے بارے میں سوچو تم مشتاق چوہدری کے ساتھ جو کرچکے ہو کافی ہے۔ اب واپس جوؤ بھولا مت کرو کے تم ایک میجر ہو اور تمہارے اوپر ملکِ پاکستان کی بھی زیمداری ہے۔ میری بات سمجھ رہے ہو نا؟ علی کہتے ساتھ خاموش ہو گیا۔
جی بھائی میں سب سمجھ رہا ہوں اور آپ فکر مت کریں۔ میرے لیئے سب سے پہلے میرا ملک ہے اور یہ مشتاق چوہدری بھی ایک ایسا ہی کینسر تھا پاکستان کیلئے جو پاکستان کو کھوکلا کر رہا تھا۔ اسکے غیر ملکی ایجنسیوں سے تعلقات تھے جو پاکستان کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اسکے ساتھ جو ہوا اچھا ہوا یہ اسی کے قابل تھا۔ میں آج رات کراچی جا رہا ہوں ایک مشن کے سلسلے میں آپ پلیز میری طرف سے بھائی کو سوری کر لیجیئے گا۔ عاریہ کی کوئی غلطی نہیں ہے لیکن پھر بھی میں نے اسے اغوا کر لیا بھائی مجھ سے ناراض ہوں گے۔ وہ آخری بات کہتے ہوئے افسردہ ہوگیا تھا۔
ٹھیک ہے میں کہ دوں گا اور تم اپنا بہت خیال رکھنا ویسے بھی تم کم ہی آتے ہو یہاں اور تمہارا بزنس دیکھنے کیلئے میں خود جا رہا ہوں دوبئی یہاں کا سب اب بازل دیکھ لے گا۔ علی مسکراتے ہوئے بولا۔
بھائی آپ میں کچھ بھی تیرا میرا نہیں ہے۔ سب ہمارا ہے۔ آپکا میرا اور بازل بھائی کا ہم ایک ہی تو ہیں۔ اللہ حافظ بھائی اپنا اور بھائی کا خیال رکھیئے گا۔ حنان علی سے گلے ملتے ہوئے نکل گیا تھا اور علی بھی بازل کے گھر کی طرف چلا گیا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
عاریہ کو واپس آۓ ہوۓ دس دن ہو گئے تھے وہ بازل کے سارے کام کر رہی تھی لیکن جو وہ نہیں کر رہی تھی۔ بازل سے بات اور بازل سے اب یہ برداشت نہیں ہورہا تھا۔ وہ عاریہ کے ساتھ جو اتنے مہینوں سے کر رہا تھا وہ عاریہ نہیں بھول پا رہی تھی۔ بازل اب بھی جب کمرے میں آیا تھا۔ عاریہ باہر جانے لگی تھی جب بازل نے اسکی کلائی کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور عاریہ اسکے سینے سے جا لگی۔ بازل اسکی بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولا۔
اب بس بھی کرو جانم۔ اتنی بے رخی بھی اچھی نہیں ہوتی۔ کتنی ہی دفعہ تم سے معافی مانگ چکا ہوں جبکہ ابھی تک میں نے انتقام بھی نہیں لیا تمہارے ماں باپ سے لیکن تم ہو کے معاف ہی نہیں کرتی۔ کب تک ایسا چلے گا؟ اچھا مجھے بتاؤ ایسا کیا کروں کے تم مجھ سے راضی ہو جاؤ۔ وہ مسکراتے ہوئے عاریہ کو دیکھ رہا تھا۔جب عاریہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسکے کان کے قریب جا کر سرگوشی میں بولی۔
مجھے طلاق دے دو محمد بازل عدیل خان۔ اگر تم چاہتے ہو میں تم سے راضی ہوجاؤ تو یہ کردو۔ عاریہ اسے دور ہوتے ہوئے بولی اور سینے پر بازو باندھتی بازل کو دیکھنے لگی اور بازل کا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔ بازل جب حواس میں واپس آیا تو آنکھوں میں شدید غصہ تھا اور غصہ لیئے آنکھوں میں عاریہ کی طرف بڑھا اور عاریہ کو بالوں سے دبوچتا ہوا بولا۔
تم نے سوچا بھی کیسے عاریہ کے میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ میں تمہیں کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔ تم میری ہو اور میری ہی رہو گی اور سوچنا بھی مت کے میں تمہیں طلاق دوں گا۔ ساری زندگی تم ادھر ہی رہو گی۔ اب مرضی تمہاری ہے سکون سے میرے ساتھ میری دل کی ملکہ بن کر رہنا چاہتی ہو یا زبردستی ویسے ہی جیسے پہلے رہ رہی تھی جبر و ظلم والی زندگی گزرنا چاہتی ہو؟ وہ عاریہ کا گال تھپتھپاتا ہوا کمرے سے نکل گیا اور عاریہ وہی زمین پر بیٹھ گئی اور رونے لگی۔ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔ جب بازل واپس آیا اپنا موبائل اٹھانے جو بیڈ کے سائیڈ ڈرائر پر پڑا تھا۔
میں نے تم سے محبت کی تھی اور تم نے کیا کیا میرے ساتھ؟ اپنے انتقام کا، اپنی نفرت کا بدلہ مجھ سے لیا۔ میں اتنی بے مول تھی تمہارے لیئے کے تمہیں مجھ سے محبت ہونے کے بعد بھی تم نے اپنا تشدد مجھ پر بند نہیں کیا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اور بڑھتا گیا اور تم کہتے ہو تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ نہیں ہے تمہیں مجھ سے محبت یہ جو نشان میرے جسم پر اور زخم میری روح پر ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہیں کے تمہیں صرف اپنے انتقام سے محبت ہے۔ بازل چلتا ہوا اسکے قریب آیا اور اسکے پاس بیٹھ گیا اور اسکے آنسو صاف کرتا ہوا بولا۔
مجھے چھوڑ کر جانا چاہتی ہو؟ ٹھیک ہے جاؤ لیکن میری اولاد کو میرے حوالہ کر کے جاؤ گی۔ میں نہیں چاہتا کے میری اولاد ایسے گھر میں جائے جہاں پر اسکے دادا،دادی کے قاتل رہتے ہوں۔ وہ ضبط کرتے ہوئے بول رہا تھا لیکن لہجے میں سختی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
بازل آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ ایک ماں کو اس کے بچے سے دور کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ جو بچہ دنیا میں آیا بھی نہیں آپ اسکے آنے سے پہلے ہی اسکو اسکی ماں سے الگ کرنے کی بات کر رہے ہیں؟ عاریہ غم و غصہ سے چیخی تھی اور بازل پرسکون لہجے میں بولا۔
میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا۔ تم ہی یہ سب کرنا چاہ رہی ہو۔ اب میں اپنے بچے کو ایسے ماحول میں تو نہیں پلنے دے سکتا جہاں دو قاتل رہتے ہوں اور وہ بھی اسکے سگے رشتوں کے قاتل۔ کیا تم چاہو گی کے ہمارا بچا قتالوں میں پلے؟ بازل سوالیاں نظروں سے عاریہ کو دیکھ رہا تھا اور عاریہ نفی میں سر ہلا رہی تھی۔
نہیں میں کبھی کبھی بھی نہیں چاہوں گی کے ایسا ہو۔ میرا بچا ایسے لوگوں میں بڑا ہو جو قاتل ہوں۔ ٹھیک ہے میں آپکے گھر کو چھوڑ کر نہیں جاؤگی لیکن میں آپکو معاف نہیں کرسکتی اور ایک اور بات اب مجھے آپ سے محبت نہیں ہے۔آپ نے میری روح کا قتل کیا ہے جس انسان کی روح مر جائے اسکا جسم زندہ ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ایک زندہ لاش سے آپ اپنی ضروریات پوری کر سکتے ہیں لیکن اس سے محبت کی امید نہیں کر سکتے۔ عاریہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھ گئی اور مغرب کی نماز کیلئے وضو کرنے چلی گئی اور بازل اسکی پشت دیکھتا رہا۔ جس ہنستی گاتی لڑکی سے اسنے محبت کی تھی وہ تو کہیں گم گئی تھی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل کے پاس جب حنان کی کال آئی تو وہ ڈرائیونگ کر رہا تھا بے مقصد۔ بازل کال اٹینڈ کرتے ہوئے بولا۔
ہاں حنان بولو۔ سب خیریت ہے؟
جی بھائی سب خیریت ہے۔ ائم سوری بھائی پلیز مجھے معاف کردیں۔ مجھے عاریہ کو بغیر کچھ بھی پتا کیئے کیڈنیپ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ وہ ندامت سے بول رہا تھا۔
کوئی بات نہیں. تمہیں اس بارے میں علم نہیں تھا اس لیئے خیر یہ بتاؤ واپس کب جارہے ہو میجر صاحب۔ وہ خوشدلی سے بولا۔
آج رات ہی بھائی اپنا اور علی بھائی کا بہت خیال رکھیئے گا اور میں آپکو ٹیکسٹ کر دیتا ہوں آڈریس جہاں مشتاق چوہدری ہے اسکی آخری سانسیں بچی ہیں وہ بھی چھین لیں۔ خالہ، مما، بابا اور باقی سب کا بدلہ لے لیں۔ وہ نفرت سے کہہ رہا تھا اور بازل اسکی بات ختم ہونے پر بولا۔
ہاں ٹھیک ہے اب سب ختم ہونا چاہیئے۔ بازل بھی نفرت سے بولا۔
•••••••••••••••••••••••