بازل کو علمیر کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچنےُمیں دیر ہو گئی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچا تو علمیر کا خون میں لت پت وجود وہاں پڑا تھا۔ وہ مرا نہیں تھا ابھی چند سانسیں اسکی باقی تھیں۔ بازل اسکے قریب جاکر روکا اور اسکی نبض چیک کی۔ اسکی نبض چل رہی تھی۔ بازل نے پانی لا کر اسکی منہ پر چھینٹے مارے اور گویا ہوا۔
عاریہ کہاں ہے؟ بازل سختی سے گویا ہوا۔
اس سے لے گا گیا وہ۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔
وہ کون؟ بازل غصہ سے چیخا۔
حن حنا حنان لے گیا اسے۔ وہ بولتے ساتھ ہی چپ ہو گیا اور بازل اس کے بے جان وجود کو جھنجھوڑتے ہوئے چیخ رہا تھا۔
کہاں لے گیا حنان اسے؟ بولو۔ بازل چیخ رہا تھا پر وہ بے جان وجود کیا جواب دیتا اس کو۔ بازل اس پر ایک حقارت بھری نظر ڈالتا وہاں سے نکل گیا اور حنان کو کالز کرنے لگا لیکن حنان کال نہیں اٹینڈ کر رہا تھا۔
پک اپ دا کال ڈیم اٹ۔ بازل سٹیئررنگ پر مکا مرتا ہوا بولا۔
بازل کر بہت اچھی طرح اندازہ تھا کہ حنان عاریہ کے ساتھ کیا کیا کر سکتا ہے۔ عاریہ اسکے ساتھ تھی مطلب عاریہ موت کے پاس تھی اور صرف عاریہ ہی نہیں بازل کا بچہ بھی جس کے بارے میں حنان کو نہیں پتا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••
حنان عاریہ کو بےہوش کر کے لایا تھا۔ عاریہ کو ہوش میں آۓ ہوئے ۵ منٹ ہی ہوئے تھے کے حنان آیا۔
ہیلو سسٹر۔ حنان تمسخر سے بول رہا تھا۔
کک کون ہو تم؟ عاریہ حیران سی بولی۔
ہاہاہاہا بتایا تو تمہارا بھائی۔ وہ بھائی جس کی ماں کو تمہارے باپ نے بے دردی سے اپنی ہوس اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔
تم جانتی ہو میں صرف دو ماہ کا تھا جب میری ماں کو قتل کر دیا گیا لیکن تب بھی انہیں آسان موت نہیں دی گئی۔ انکی بے حرمتی کی گئی اسکے بعد انکو قتل کیا گیا۔ تم انکی تکلیف کا اندازہ کر سکتی ہو؟ نہیں تم نہیں کر سکتی۔ کیونکہ تم کبھی اس سب سے نہیں گزری اور گزرتی بھی تو کیسے بازل بھائی ایسے ہیں جو نہیں اگر ہوتے تو تم انکی بیوی نہیں ہوتی اور فکر مت کرو۔ پہلے میں بازل بھائی سے بات کر لوں پھر تمہاری سانسیں نکالوں گا۔ حنان اپنی بات کہتا اپنا فون چیک کرنے لگا جس پر بازل کی بے تحاشہ کالز تھیں۔ وہ بازل کو کال بیک کر رہا تھا لیکن اسکا فون بزی تھا۔ کچھ دیر بعد بازل کی کال آگئی۔
حنان عاریہ کو چھوڑ دو اسکی کوئی غلطی نہیں ہے۔ بازل چیخ رہا تھا۔
بھائی میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ یہ اسی شخص کی بیٹی ہے جس نے میری ماں کی بے حرمتی کی انکا قتل کیا۔ میں بھی اسکی جان لے لوں گا۔ کوئی بھی اسے نہیں بچا سکے گا کوئی بھی نہیں جیسے ماما کو کسی نے نہیں بچایا تھا۔ وہ بازل زیادہ اونچی آواز میں چیخا تھا۔
حنان میری بات سنو۔ عاریہ کی یا شہیر شاہ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ یہ سب مشتاق چوہدری نے کیا ہے وہ ہے الا انٹی کا گنہگار سمجھنے کی کوشش کرو۔عاریہ کو چھوڑ دو۔ وہ پریگنینٹ ہے۔ وہ سٹریس ہنڈل نہیں کر سکتی خدا کے لیئے اسے چھوڑ دو۔ بازل عاریہ کیلئے منتیں کر رہا تھا اور حنان ششدر سا بازل کی باتیں سن رہا تھا۔
ٹھیک ہے بھائی۔ میں انہیں چھوڑ رہا ہوں۔ آپ انہیں میرے گھر سے لے جائیے گا۔ حنان کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل جب حنان کے گھر پہنچا تو عاریہ اسی کرسی کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ بازل نے اسکو کھولتے ساتھ ہی گلے لگا لیا اور اسکا چہرا چومنا شروع کر دیا اور بھیگے ہوئے لہجے میں بولا۔
عاریہ مجھے معاف کردو۔ میں نے تمہیں اسکی سزا دی جس کی قصوروار تم تھی ہی نہیں لیکن میرا غصہ میرے قابو میں نہیں تھا۔ میں اس بات کو برداشت ہی نہیں کر پا رہا تھا کے جس لڑکی سے میں نے محبت کی وہ میری ماں،باپ کے قاتل کی بیٹی ہے۔ میں جانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا ہے تمہارے ساتھ مجھے معاف کر دو۔ مجھے آج احساس ہوا ہے کے اگر حنان تمہیں کچھ کر دیتا تو میں جی نہیں پاتا۔ پلیز مجھے معاف کردو ہمارے بچے کیلئے میرے لیئے۔ بازل کی آنکھوں میں ندامت تھی۔
بازل چلیں؟ میں بہت تھک گئی ہوں۔ وہ بے رخی سے کہتی چلی گئی اور بازل اسکی طرف دیکھتا رہ گیا۔ وہ اسے معاف نہیں کرنا چاہتی تھی یا شاید وہ اسے معاف کر چکی تھی؟
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
حنان مشتاق چوہدری کے گھر میں داخل ہوا۔ وہاں پارٹی چل رہی تھی۔ یہ اسلام آباد کا ایک پوش علاقہ تھا۔ سب لوگ بے ہودہ رقص کرتی لڑکیوں کے ساتھ رقص کر رہے تھے اور کچھ نشہ میں دھد تھے۔ حنان مشتاق چوہدری کو ڈھونڈتا ہوا اندر آیا اور مشتاق چوہدری کے کان کے قریب جا کر سرگوشی کی۔
اپنے بیٹے سے نہیں ملو گے مشتاق چوہدری۔ وہ تمسخر سے گویا ہوا۔ مشتاق چوہدری حیران پریشان سا اٹھا اور حنان کو اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔
کون ہو تم اور کسنے بھیجا ہے تمہیں؟ مشتاق چوہدری چیخا لیکن دیواریں ساؤنڈ پروف ہونے کی وجہ سے آواز باہر نہیں جارہی تھی۔
ارے ڈیڈ بھول بھی گئے مجھے۔ میں اسکا بیٹا ہوں جس کو تم نے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ میں اسکا بیٹا ہوں۔ جس کی زندگی کو نظر لگائی تھی تم نے۔ جس کی بے حرمتی کی تم نے ایک بار نہیں بار بار حتاکہ انکو موت کی نیند سلاتے ہوئے بھی۔ تمہاری روح نہیں کانپی یہ سب کرتے ہوئے تو اب میرے بھی ہاتھ نہیں کانپیں گے۔ تم میرے ہاتھوں مرو گے۔ اپنے اکلوتے بیٹے کے ہاتھوں۔ کہتے ساتھ ہے حنان تیزاب لے کر آیا اور اسکے منہ میں انڈیلنا شروع کر دیا۔ پورا کمرا مشتاق چوہدری کی چیخوں سے گونج اٹھا پھر وہی تیزاب اسکے منہ پر ڈال دیا۔ مشتاق چوہدری کو زندگی بھر کی ازیت دے کر وہ مرا نہیں تھا لیکن زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں بچا تھا۔ وہ ایسی زندگی جینے والا تھا جو موت سے بھی بدتر تھی۔ وہ نکلتے ہوئے فون نکلتا ہوا بولا۔
اسلام و علیکم سر۔میجرحنان عاظم عبداللہ سپیکنگ۔ مشتاق چوہدری از ڈیڈ۔ کیس کلوزڈ
•••••••••••••••••••••••••••••