شاہ ولا میں ہر طرف خوشیوں کا ساماں تھا۔ ہر جگہ برقی قمقموں نے روشنی پہیلا رکھی تھی اور لاؤڈ میزک اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی وہ لڑکی سادہ حلیہ میں بھی سب کے دلوں میں اتر رہی تھی اس بات سے انجان کے ہنسی کے بعد آنسو بھی ہوتے ہیں۔
عاریہ بیٹا آجاؤ اب آپکے بابا غصہ کریں گے مہندی رات میں ہے ابھی نہیں جو آپ ابھی سے خود کو ہلکان کر رہی ہو۔ فاطمہ بیگم جلدی میں بولتی ہوئی آگے چلی گئی۔
عاریہ شاہ اپنے ماں باپ، بہن کی لاڈلی اور چہیتی ہے۔چھوٹے ہونے کے باعث عاریہ کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ عاریہ ایک خوبصورت لڑکی ہے سلکی لائٹ برائون لمبے بال، مغرور ناک, گلابی بھرے بھرے ہونٹ، ہرن جیسی بڑی بڑی بھوری آنکھیں، ناک میں ہیرے کا بہت نازک لونگ اور گھنی و لمبی پلکوں کے ساتھ بلاشبہ وہ ایک حسین لڑکی ہے۔ عاریہ کی ایک بہن ہے جو عاریہ سے بڑے ہیں۔ عاریہ کی بڑی بہن کا نام ایمان ہے جس کی شادی ایک مشہور سیاست دان سے سیاسی مفادات کی وجہ سے کی جا رہی ہے جس سے عاریہ بلکل انجان ہے۔ عاریہ ہنس مکھ ،نازک دل اور تھوڑی سی ضدی بھی ہے۔
اف ایک تو ماما بھی بابا کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں۔ اب میری ایک ہی بہن ہے اسکی شادی میں بھی انجوائے نہیں کروں گی تو کب کروں گی اب اپنی شادی میں تو میں نے شرمانہ ہو گا اور رونا بھی ہو گا تب تہ نہیں ہو سکتا انجوائے۔ وہ منہ میں بڑبڑاتی جا رہی تھی کے اسکی ٹکر علمیر سے ہوئی۔"علمیر شاہ " شہیر شاہ کی بہن اور چچا زاد کا اکلوتا بیٹا اور عاریہ کا بچپن کا دوست اور منگیترلیکن اب وہ عاریہ کیلیئے ایک بدکردار شخص تھا۔
ہم جو آئی آپکے غریب خانہ میں خدا کی قدرت ہے
ہم کبھی خود کو کبھی آپکے غریب خانے کو دیکھتے ہیں! علمیر جانتا تھا عاریہ ٹھیک کرنے کیلئے بات ضرور کرے گی ورنہ تو جب سے رشتہ ہوا تھا وہ صرف ضرورت کے تحت بات کیا کرتی تھی۔
یہ ایسے نہیں ہوتا آپ غلط پڑھ رہے ہیں۔ عاریہ نے جلدی سے بولا اور جانے ہی لگی تھی کے علمیر نے اسکی کلائی نرمی سے تھام لی۔
عاریہ کیوں مجھ سے بھاگ رہی ہو جب سے ہمارا رشتہ ہوا ہے تم تو بات بھی نہیں کرتی چپ چپ رہتی ہو وجہ جان سکتا ہوں؟ وہ چپ ہوا ہی تھا کے عاریہ کوئی جواب دے گی لیکن عاریہ ایک جھٹکے سے کلائی آزاد کرواتی آیک نگاہِ غلط علمیر پر ڈال کر آگے بڑھ گی۔
علمیر پُرسوچ نظروں سے عاریہ کو جاتے ہوۓ دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے پوجھل نہیں ہوگئی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
اپنی مغرور چلتے ہوئے وہ شہیر شاہ کی حویلی میں داخل ہوا تھا جب اسکی نظر عاریہ پر پڑی۔ وہ پر سوچ نظروں سے عاریہ کو دیکھ رہا تھا۔جب شہیر شاہ سامنے سے چلتے ہوئے آگئے اور مصاحفہ کے لیئے ہاتھ بڑھتا ۔اپنی سوچوں کو جھٹکتا وہ شہیر شاہ کی طرف متوجہ ہوا۔
ارے خان صاحب آپ ہمارے غریب خانے پر کیسے آگئے آج؟ انہوں نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔
محمد بازل خان اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد۔ آپنے دادا اور باپ کی نسل کا واحد آمین۔ بازل خان کے والد اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ بازل کے والدین کی پسند کی شادی ہوئی تھی۔ بازل ایک خوبرو نوجوان ہے۔ لمبا قد، سرخ و سپید رنگت، کالے سلکی بال، کالی سٹالش داڑھی اور کالی گہری آنکھیں جو مقابل کو جھکنے پر مجبور کر دیں۔
بلاشبہ وہ حسین مرد تھا۔
ارے شاہ جی آپ نے تو ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھا کے آپنے گھر کی خوشی میں ہی شریک کر لیتے خیر ہماری طرف سے یہ چھوٹا سا تفحہ قبول کریں۔ وہ اپنے مخصوص سنجیدہ انداز میں گویا ہوا۔
شکریہ خان صاحب لیکن اسکی کیا ضرورت تھی۔ وہ اس نازک و خوبصورت ڈیمنڈ سیٹ کو دیکھتے ہوئے بولے۔ وہ سیٹ دیکھنے میں ہی کڑوڑؤں کا لگتا تھا۔ وہ سیٹ کو دیکھنے میں ہی مصروف تھے کے عاریہ کمرے میں داخل ہوئی۔ گرے فٹد جینز کے ساتھ گھٹنو سے اپر تک آتے شاڑٹ رویل بلیو فراک میں ملبوس ڈوپٹہ سے بے نیاز لمبے بالوں کی پونی ٹیل بنائے میوچل لو کی خوشبو میں رچی بسی اپنے بابا کی لاڈلی شہزادی لگ رہی تھی۔
بابا جان اپنے مجھے بلایا ماما کہہ رہی تھیں کے آپ بلا رہے ہیں؟ اپنی ہی دھن میں کہتی اس پاس سے بے نیاز وہ معصوم سی لڑکی بازل خان کو اسکے انتقام کیلئے سازش بتا رہی تھی۔
ہاں بلایا تو تھا لیکن کتنی دفعہ کہا ہے بیٹا کے نوک کر کے آیا کریں۔ وہ شفقت و محبت سے اسے سمجھا رہے تھے۔
جی بابا جان آئندہ خیال رکھو گی۔بابا جان کوئی خاص کام تھا جو اپنے مجھے بلایا؟ وہ جلدی سے اپنی بات مکمل کر رہی تھی۔
ہاں وہ علمیر بیٹا ملا تھا وہ کہہ رہا تھا کے آپ جب سے منگنی ہوئی ہے چپ چپ ہو؟ کیا بیٹا آپ اس رشتے سے خوش نہیں؟ وہ پریشانی سے گویا ہوئے۔
نہیں بابا جان ایسی کوئی بات نہیں بس مجھے تھوڑا وقت چاہیئے میں نے کبھی علمیر کو اس طرح نہیں سوچا بابا پلیز سمجھے نا مجھے تھوڑا وقت دیں۔ عاریہ جلدی سے بات ختم کر چکی تھی اور بازل خان عاریہ کو ناگوار نظروں سے گھور رہا تھا۔
ٹھیک ہے آپ جاؤ۔ وہ آثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔
یہ ہماری چھوٹی بیٹی ہے ہماری زندگی ہماری عاریہ شاہ اسکی منگنی ہمارے بھتیجے علمیر کے ساتھ ہوئی ہے بس اسی سلسلے میں اسے بات کرنے کیلیئے بلایا تھا۔ وہ بازل کو عاریہ کو دیکھتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔ وہ انکی باتوں پر سر آثبات میں ہلا رہا تھا لیکن اصل میں اپنے پلین کو ترتیب دے رہا تھا۔
چلیں مجھے اجازت دیں مورے ویٹ کر رہیں ہوں گی۔ وہ اجازت طلب نظروں سے انہیں دیکھتا اٹھ گیا اور مصافحہ کرتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
مہندی کا فنکشن عروج پر چل رہا تھا ہر جگہ رنگ و بو کا سیلاب تھا ایسے میں وہ اپنی خوبصورتی سے بے نیاز اپنے آپ میں منگن جنت سے اتری حور کی مانند سب کے دلوں میں اتر رہی تھی۔ لیمن یلو ناف تک آتی کامدار کرتی اور شاکنگ پنک نیٹ کے لہنگے میں ملبوس بالوں کو سائیڈ ٹوسٹ بنا کے ماتھا پٹی سیٹ کی ہوئی تھی۔کانوں،گلے اور ہاتھوں میں پھولوں کی جیولری پہنے وہ پوری محفل کی جان بنی ہوئی تھی اس بات سے بلکل انجان کے دو آنکھوں میں اسکے لیئے بے تحاشہ محبت ہے اور دو میں بے تحاشہ نفرت۔ بازل خان جو اسی وقت آیا تھا۔بلیک شلوار کمیز کے ساتھ براؤن واسکٹ اور کالی پشاوری چپل پہنے،مضبوط کلائی میں رولکس پہنے بالوں کو سلیقے سے جل سے بنا رکھا تھا اور بہت سی حسیناؤں کے دل میں بس رہا تھا۔ آبھی وہ شہیر شاہ سے مل ہی رہا تھا کے اندھیرا چھا گیا۔
وہ سٹیج سے رسم کر کے اتری ہی تھی کے لائٹ چلی گئی اور لائٹ کے ساتھ ہی عاریہ شاہ بھی اپنی بد قسمتی کی طرف۔ہر جگہ شور مچ گیا تھا۔ گارڈز ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے۔ جتنی دیر میں الیکڑیشن نے آ کر لائٹ ٹھیک کی عاریہ شاہ جا چکی تھی۔ ایک انتقام میں جلتے وجود کی زندگی میں شامل ہونے اپنے باپ پر قربان ہونے۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
غفار،عزیز،اعجاز کہاں مر گۓ ہو سب کے سب لائٹ کو دیکھو کیا ہوا ہے اگر بر وقت لائٹ نا آئی تو میں تم لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں۔ وہ غصہ سے چیخ رہے تھے اور دوسری طرف شہیر شاہ کی بیٹی انکی جان کا ٹکڑا انکے گھر سے باہر نکالی جا رہی تھی بغیر کسی کی آنکھوں میں لائے عاریہ شاہ کو سب کی نظروں سے دور لے کے جایا جا رہا تھا اور عاریہ کے جاتے ہی لائٹ آگئی۔ بازل خان اور شہیر شاہ باتیں کر ہی رہے تھے کے فاطمہ بیگم روتی ہوئی آئی۔
شاہ جی؟ وہ روتی ہوئی بولی۔
کیا ہوا فاطمہ رو کیوں رہی ہو؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟ وہ پریشانی سے گویا ہوئے۔
نن نہیں شش شاہ جج جی و وہ پت پتہ نن نہیں عاریہ کا کہاں چل چلی گگ گئی ہ ہے۔مم میں نن نے پو پوری حح حویلی دی دیکھ لی ہ ہے و وہ کہیں نن نہیں مل ملی۔ شش شاہ جج جی مم میری بب بیٹی کو ڈھو ڈھونڈیں۔ وہ روتی ہوئی بہت مشکل سے اپنی بات مکمل کر پائی تھیں اور یہ بات سنتے ہے شہیر شاہ مضطرب اور بازل خان پر سکون ہو گیا تھا۔ہوتا بھی کیوں نا اس نے انتقام کی پہلی سیڑہی کامیابی سے پار کر لی تھی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بازل جب ٹینٹ میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کے عاریہ ایک گانے پر ڈانس کر رہی تھی جیسے ہی وہ گانا ختم ہوا۔عاریہ سٹیج پر چلی گئی رسم کیلئے اور اسی وقت بازل کے آدم حویلی میں داخل ہوئے اور بازل نے علی کو کال کی۔
علی عاظم عبداللہ بازل خان کا بہت اچھا دوست اور سیکٹری ہے۔ علی بھی ایک خوبرو اور تیکھے نقوش والا نوجوان ہے۔ علی کے والد کو بچپن میں ہی قتل کر دیا تھا ایک سیاستدان نے کیونکہ اسنے اپنی بہن کا سودا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ علی کے والد کی ایک ہی بہن تھی جسے وہ بہت محبت کرتے تھے۔ علی کی پھپو ایک خوبصورت دوشیزا تھی جن کو دیکھتے ہی کسی بھی مرد کا احسان ڈگمگا جاۓ۔
جی سر کام ہو گیا ہے! علی نے خوشی سے بتایا۔
ٹھیک ہے اسے میرے کمرے میں چھوڑ آؤ باقی کام صبح کریں گے ویسے بھی چار تو بج ہی گئے ہیں جہاں اتنا انتظار کیا تھوڑا اور سہی۔ وہ تمسخر سے کہتا کال کاٹ گیا تھا۔ یہ خبر اسکو سکون بخش رہی تھی۔
انتقام میں تپتے اسکے جسم پر پڑتی ٹھندی پھووار کی مانند۔ شہیر شاہ کو ایسے بے بس دیکھ کے وہ سرشار ہوگیا تھا۔ ابھی وہ اور بھی روکتا شہیر شاہ کو تڑپتا دیکھنے کیلئے لیکن جانا ضروری تھا۔وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔ شہیر شاہ کی بربادی کا انتظام کرنے،اسکو منہ کے بل گرانے،اپنے انتقام کو سٹیپ ٹو تک لے کے جانے کیلئے۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
جب عاریہ کو ہوش آیا تو صبح کی روشنی پہیل چکی تھی جسے ہی اسکے حواس نے کام کرنا شروع کیا ۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھی اور دروازے کی طرف لپکی۔
دروازہ کھولو ۔
پلیز دروازہ کھو لو۔
دروازہ کھو لو۔
وہ دروازہ بجاتے بجاتے تھک گئی اوروہی بیٹھ کے رونے کا شغل شروع کر دیا۔ وہ سر گٹھنوں پر رکھ کے رو ہی رہی تھی کے دروازے کا ناب گھوما اور دروازہ کھولا اور وہ آنے والے کو دیکھ کر حیران تھی کے آنے والا کوئی اور نہیں بازل خان تھا۔ شہیر شاہ کا بزنس پارٹنر اور سب سے بڑا دشمن۔
تم۔ وہ حیرانی سے بولی۔
ہاں! میں کیسی ہو مسز خان ٹو بی؟ وہ مزاق اڑانے والے انداز میں بولا۔
کک کیا مطلب؟ وہ پریشانی سے بولی۔
تھوڑی دیر میں پتا چل جائے گا تب تک ناشتہ کرو۔ وہ کہتے ہوئے نکلنے ہی لگا تھا کے عاریہ اسکے سامنے آتے ہوئے بولی۔
مجھ مجھے پپ پلیز جا جانے د دو۔ وہ روتے ہوے بمشکل اپنی بات مکمل کر پائی تھی۔
ایسے کیسے میری جان ابھی تو تمہارے باپ کے کیئے کی قیمت بھی وصول نہیں کی۔ وہ تمسخر سے ہنس رہا تھا۔ کتنی سفاکیت تھی اسکی ہنسی میں۔
دی دیکھو ما میرے با بابا تم تمہیں چھ چھوڑیں گ گے نہیں تت تم ان انہیں جا جانتے نہیں ہو وہ (MNA) ۔ ابھی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کے ایک زناٹہ دار تھپڑ اسکے رخسار پر پڑا اور وہ ہوش سے بیگانہ ہو گئی۔
علی وہ دھاڑا۔
ہاں ! علی آرام سے بولا
نکاح خواہ کا انتظام کرو میرا اور اسکا نکاح ہے ابھی اور اگر زرا بھی ہوشیاری کرے ہوش میں آنے کے بعد تو گولی مار دینا۔ وہ حقارت سے کہتا آگے بڑھ گیا اور علی عاریہ کے بے ہوش وجود کو دیکھتا رہ گیا اور خود بھی باہر نکل گیا۔
______________________