اکبر حمیدی کا تازہ شعری مجموعہ ”تلوار اُس کے ہاتھ“اپنے نام سے رزمیہ شاعری کا مجموعہ معلوم ہوتا ہے۔ اس مجموعہ میں شامل اکبر حمیدی کی غزلیں ۱۹۷۴ءسے ۱۹۸۶ء تک کے عرصہ پر محیط ہیں۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ اس عہد میں خاص طور پر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ قرار دینے کی اتنی تکرار ہوئی کہ عوام الناس سچ کی شناخت سے ہی بے تعلق ہو کر رہ گئے۔ ایسے عالم میں تمام تر جبر و استبداد کے باوجود اکبر حمیدی نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا ہے اور اس کی اس عرصہ کی یہ ساری غزلیں اسی سچائی سے عبارت ہیں۔
”لہو کی آگ“ اور ”آشوب صدا“ کی شاعری میں اکبر حمیدی کے ہاں جو رومانوی لہجہ ملتا ہے وہ ”تلوار اُس کے ہاتھ“ کے رزمیہ لہجہ میں گُھل کر اکبر حمیدی کی شاعرانہ انفرادیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اکبر حمیدی کی رزمیہ شاعری اس کے ذاتی تجربوں، روحانی الاﺅ اور باطن کی سچائی سے پھوٹی ہے۔ میں بار بار اکبر حمیدی کی خوبصورت غزلوں کو رزمیہ شاعری لکھے جا رہا ہوں۔ یہ واضح رہے کہ رزم کے معروف معنوں میں اکبر حمیدی رزمیہ شاعر نہیں ہے، یہ تو اپنے انداز کا پہلارزمیہ شاعر ہے:
مرثیہ لکھیں، رجز خوانی کریں غزلیں کہیں
رزم کے میداں میں ہم کو بزم آرائی ملی
........
وقت کی رزم گاہ میں اکبر
ہم غزل بے نیام کرنے لگے
”پیش لفظ“ میں اکبر حمیدی نے اپنا شعری موقف یوں واضح کیا ہے:
”میرے خیال میں شاعری کو شعوری عمل مان لینے سے شاعری کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ آج کاشاعر اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذاتی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر معاشرے کا باشعور اور ذمہ دار فرد ہے۔ اس لیے شاعری بھی سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ جذباتی فکر اور فکری جذبے میں بہت فرق ہے۔ فکری جذبہ ہی آج کے باشعور تخلیق کار کا سرمایۂ افتخار ہے۔“
اکبر حمیدی کا شاعری کو سراسر شعوری عمل کہنا اختلافی مسئلہ ہے۔ تاہم جذباتی فکر اور فکری جذبے کا جو فرق ابھرتا ہے اس سے ان کا موقف قدرے مضبوط ہوتا ہے اور اسی حوالے سے ہی ان کی شاعری کی تفہیم بھی ممکن ہے۔ وہ فکر و جذبہ اور تجربات کے حوالے سے لکھتے ہیں:
جذبے میں شدتیں اگر کم ہیں
فکر کی حدتوں کو شامل کر
........
فکر و جذبہ بھی ہے غزل لیکن
اس میں اکبر کے تجربات بھی ہیں
میں نے اوپر لکھا ہے کہ اکبر حمیدی اپنے انداز کا پہلا رزمیہ شاعر ہے اور اس کی رزمیہ غزلوں کا ترقی پسند رزمیہ شاعری یا اقبال کی رزمیہ شاعری کی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ ترقی پسندوں اور اقبال دونوں کے ہاں ایسی شاعری میں جارحانہ انداز ملتا ہے جبکہ اکبر حمیدی مدافعانہ انداز میں کھڑا ہے:
دلچسپ ہے بہت مرا اُس کا مقابلہ
تلوار اس کے ہاتھ مرے ہاتھ میں سپر
اکبر حمیدی صرف خود کو دشمن سے بچانا چاہتا ہے۔ دشمن پر وار کرنا نہیں چاہتا۔ اس کا یہ اندازِ نظر اس کے اندر کی انسانیت اور محبت کا غماز ہے۔ دراصل اکبر حمیدی سچ بھی بولنا چاہتا ہے اور دشمن کا دل بھی نہیں دکھانا چاہتا۔ یہی کشمکش اسے مدافعانہ سطح سے آگے نہیں آنے دیتی:
دلوں کو توڑ نہ ڈالے تمہاری حق گوئی
بجائے حرف کے آئینہ روبرو رکھنا
اکبر حمیدی کی غزلوں میں خود کلامی کا انداز بھی ہے جس میں وہ اپنے آپ کو اور اپنے جیسے سچوں کو حوصلہ دیتے ہیں:
بارش سنگ میں گردن نہ جھکا پاﺅں نہ روک
سج رہے ہیں تجھے سب لعل و گہر آگے چل
جا کے منزل پر حساب ان کا کریں گے اکبر
ختم ہونے کو ہے زخموں کا سفر آگے چل
اکبر ہمارا سینہ ہے تاریخ حریت
جتنے بھی تیر آئے ہیں سینے پہ کھائے ہیں
کل انھیں کے خون سے تاریخ لکھی جائے گی
آج ہم جو زخم سینے پر سجا لے جائیں گے
اترا نہ اپنی سطح سے میں جیت کے لیے
گو ہار ہی گیا ہوں مگر مان رہ گیا
ابھی تو زخم لگنے ہیں، ابھی شاخوں کو کٹنا ہے
یہ رُت بدلے گی تب آئے گا پھل آہستہ آہستہ
اس لکھے کی تاریخ بنے گی کبھی اکبر
جب تک ہے تمہیں تابِ رقم اور بھی لکھنا
اب اکبر حمیدی کے چند ایسے اشعار دیکھیں جن میں ظالم اور جابر دشمن کو براہِ راست مخاطب کیا گیا ہے:
تجھ کو پیش آئے گا ہم پر جو کرم فرمائے گا
سوچ لے آخر ہمارا بھی زمانہ آئے گا
ہم تو خوشبو ہیں ہمارا راستہ روکے گا کون
کس بلندی تک یہ دیواریں اٹھا لے جائے گا
یوں تو وہ کوئی کسر اٹھا بھی نہیں رکھتے
عنوان مگر اس کا سزا بھی نہیں رکھتے
کہہ لیجیے باتیں جو نہ کہنے کے لیے ہیں
ہم لوگ تو ہر بات کو سہنے کے لیے ہیں
مت سمجھنا چپ رہے تو کیا ہمارا جائے گا
ظالموں کے ساتھ ہی تم کو پکارا جائے گا
شکست دے کے دلوں کو نہ جیت پاﺅ گے
دلوں کو جتنا چاہو تو ہارنا ہوگا
ظلم و نفرت کی زبانوں میں نہ سمجھاﺅمجھے
میں کوئی بات بجز پیار نہیں مانوں گا
خود کلامی ہو یا دشمن سے خطاب اکبر حمیدی کی خوبی یہ ہے کہ وہ زخم کھانے کے باوجود، زہر کا پیالا پینے کے باوجود اور ہر طرح کے جوروستم سہنے کے باوجود محبت کا پیغامبر بنا رہتا ہے اور اپنے احمق دشمن کو بھی بتاتا ہے کہ محبت سے تو دلوں کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ ظلم، نفرت اور جبر سے کسی دل کو فتح نہیں کیا جا سکتا۔ اکبر حمیدی محبت کا پرچارک اس لیے نہیں کہ وہ کمزور ہے بلکہ وہ تو آنے والے تابناک دنوں کا یقین رکھتے ہوئے بھی محبت کا پرچارک ہے:
ایک سی صورت حالات نہیں رہ سکتی
دن بھی نکلے گا سدا رات نہیں رہ سکتی
بہت تبدیل ہوگا پیش منظر
کہ دریا رُخ بدلتا جا رہا ہے
اچھے موسم جب آئیں گے
بادل امرت برسائیں گے
خوشیوں کا سورج نکلے گا
گھور اندھیرے چھٹ جائیں گے
وصال یار کی ساعت بھی آنے والی ہے
سحر قریب ہے اکبر ابھی وضو رکھنا
آنے والے دن وصال یار، سورج، سحر، اچھے موسم اور امرت کے استعاروں میں محبت اور پیار سے لبریز ہوں گے اور ان دنوں میں انتقام کی کوئی آواز نہیں اُٹھے گی۔ لا تثریب علیکم الیوم۔
وطن عزیز کی سیاسی صورت حال سے اکبر حمیدی پوری طرح باخبر ہے۔ صوبائی، لسانی اور مذہبی عصبیتّوںنے اس ملک کو کس طرح مختلف خانوںمیں تقسیم کر دیا ہے:
یہ سبزہ ہے، یہ گل ہے، یہ صبا ہے
چمن تقسیم ہوتا جا رہا ہے
وہ سیاسی جماعتیں جو کل تک پاکستان کے قیام کی شدید مخالف تھیں، جن کا دعویٰ تھا کہ ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے جو مطالبہ پاکستان کو احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کا مطالبہ کہتے تھے۔ آج اس ملک کی بدقسمتی کی انتہا ہے کہ وہی دشمنان پاکستان نظریۂ پاکستان کے چیمپئن بن گئے ہیں۔ اکبر حمیدی اس عہد کے اتنے بڑے فراڈ اور جھوٹ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہے اور برملا کہتا ہے:
وہ لوگ شہیدانِ وفا میں ہوئے شامل
جو لوگ کوئی زخمِ وفا بھی نہیں رکھتے
تجھے بھی آج وطن دوستی کا دعویٰ ہے
اگر کوئی ترے ماضی کا باب لے آئے
تماشہ یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن تو اس وقت نظریۂ پاکستان کے علمبردار کہلائے ہیں اور جنھوں نے مادرِ وطن کے لیے جان، مال، وقت اور عزت سب کچھ نچھاور کر دیاان سے سوتیلوں جیسا سلوک ہو رہا ہے:
لہو سے اپنے جسے مَیں نے زندگی دی ہے
میں سوچتا ہوں مرا اس زمیں پہ حق بھی ہے
ملک کے دشمن ہی ملک کے اور ملک کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اس لیے قدرتی طور پر ان کی تو یہی خواہش ہے کہ اس سے سچی محبت کرنے والے یہ ملک ہی چھوڑ دیں۔ ایسے جابر، غاصب اور لٹیروں کی ان مذموم خواہشوں کا اکبر حمیدی کو علم ہے اس لیے وہ مادر وطن سے کہتا ہے:
جان دے کر تجھے پالیں تو غنیمت جانیں
یہ سمجھتے ہیں کہ اٹھ جائیں گے تیرے در سے
اکبر حمیدی نے وطن عزیز کی صورت حال کے سلسلے میں بھی اور انسانیت کی بقا کے لیے بھی کہیں تو جنوں، دیووں اور پری کی علامتیں استعمال کی ہیں اور کہیں استعاراتی رنگ میں اسلامی روایات سے استفادہ کیا ہے:
آواز بھی آتی تھی مجھے دیو کی اکبر
رستہ بھی کوئی گنبد بے در میں نہیں تھا
فرازِ کوہ سے پیَہم صدائیں آتی ہیں
میں اس کی ہوں جو مجھے دیو سے چھڑا لے جائے
دیو کی علامت جابر اور استعماری قوت کے لیے استعمال ہوئی ہے جس نے انسانیت کی بقا کے راستے بند کر رکھے ہیںاور پری یا شہزادی کی صدائیں در اصل اس مجبور اور مقہور انسانیت کی صدائیں ہیں جو ہزاروں تعصبات کی قید میں ہے ۔اسلامی روایات کی چمک نے اکبر حمیدی کی غزل میں چاندنی سی بھر دی ہے:
بُرا نہ کہنا زمانے کو ہم زمانہ ہیں
ہمارے بعد زمانے سے گفتگو رکھنا
کس کی سنت پہ عمل کرتے ہو یہ پوچھنا ہے
تیر بھی مارنے دریا پہ بھی قبضہ رکھنا
لو میں اُٹھ کر دیا بجھاتا ہوں
جن کو جانا ہو گھر چلے جائیں
پتھر، صلواتیں، آوازے
تحفے طائف کی بستی کے
محبت، سچائی اور انصاف کی خاطر اکبر حمیدی کی جنگ جاری ہے۔ لیکن غزل رزم کے میدان میں کتنی ہی بے نیام ہو جائے۔ وہ مضامین جو غزل سے مخصوص ہیں۔ رنگ بدل بدل کر غزل میں آتے ہیں۔ اکبر حمیدی کی غزل اپنے رومانوی اور رزمیہ کے باوجود کھری غزل ہے۔ قدیم روایت سے منسلک اورصحت مند جدیدیت کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی غزل:
ترے خوابوں سے عاری ہو گیا ہے
بہت بیٹھا تھا کھاری ہو گیا ہے
ملی ہے عشق میں وہ نیک نامی
بڑا ہی اشتہاری ہو گیا ہے
تیرے لبوں کو دیکھ رہی ہے گلاب رُت
تو بولنے لگے تو فضا بولنے لگے
اِک نگاہ غلط انداز بھی اٹھتی نہ کبھی
اہتمام اتنا کہ بے وجہ سجے رہتے تھے
میں سبزہ بن کے ترے راستے میں بچھ جاﺅں
کھلا گلاب میں ٹھہروں یہ کیا ضروری ہے
اب اس کے شہر میں رہنے سے کچھ نہ تھا حاصل
جب اس کو دیکھتے اکبر ملال ہونا تھا
اسے بھی وقت نے خاموشیاں سکھا دی ہیں
میں وہ نہیں ہوں تو وہ بھی کہاں رہا ہے وہ
عشق و محبت کے باب میں اکبر حمیدی کی غزل کا رنگ و آہنگ اس کی پہچان ہے۔ اس نے غزل میں سابقہ روایات سے الگ رہتے ہوئے ان سے آگے کا سفر کیا ہے۔ مرزا صاحباں کی کہانی میں صاحباں بھائیوں کی زندگی کی خاطر مرزے کے تیر چھپا دیتی ہے لیکن اکبر حمیدی کے اندر کا مرزا عشق کی نئی روایت بناتا ہے:
کس پر چلاﺅں تیر کہ سب بھائی ہیں ترے
لے میں نے اپنے ہاتھ سے ہی توڑ دی کمان
غالبکا عشق یوں تھا کہ وہ سرزیرِ بارمنت درباں کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔ اکبر حمیدی کا عشق اس کے برعکس ہے:
عاشق ہے اور منتِ درباں نہیں قبول
ہر شخص مجھ کو دیکھ کے حیران رہ گیا
ماضی کے شاعر سفر پر آمادہ کرنے کے لیے ہزارہا شجرِ سایہ دار کی مسافر نوازی کے قصے سناتے ہیں لیکن اکبر حمیدی کی خود داری کچھ اور ہی شان رکھتی ہے:
ٹھہروں گا نہیں سایۂ اشجار میں اکبر
احسان اٹھاتے نہیں خود دار مسافر
اکبر حمیدی نے جس فکری جذبے پر زور دیا ہے۔ اس کی چند نمایاں مثالیں بھی دیکھ لیں:
تمام عالم امکاں مرے گمان میں ہے
وہ تیر ہوں جو ابھی وقت کی کمان میں ہے
جہاں دلیل کو پتھر سے توڑنا ٹھہرے
وہ شہر سنگدلاں سخت امتحان میں ہے
جنھیں میں غیر ضروری سمجھتا تھا اکبر
وہی سوال مجھے امتحاں میں آنے لگے
پتھر ہوں تو شیشے سے مجھے کام پڑا ہے
شیشہ ہوں تو پتھر کے زمانے میں لگا ہوں
مسائلِ غمِ ہستی کا حل بھی ہوتا ہوں
ہر ایک چیز کا نعم البدل بھی ہوتا ہے
عجیب عالم دہشت میں جی رہا ہوں میں
دنوں کو چونکنا خوابوں میں رات ڈر جانا
ہمیشہ اس سے مَیں رہتا ہوں باخبر اکبر
خبر نہ آئی تو اس کو بھی اک خبر جانا
لگا ہوا تھا وہ اکبر مجھے گرانے میں
تمام شہر کی نظروں سے گر گیا ہے وہ
وصالِ یار کے خوابوں کی خیر ہو اکبر
طویل عہدِ جدائی گزارنا ہوگا
اکبر حمیدی کی غزلیں پڑھ کر میں نے محسوس کیا کہ اکبر حمیدی نے بعض ہنگامی موضوعات کو مس کرنے کے باود خود کو ہنگامی شاعر بننے سے نہ صرف بچایا ہے بلکہ اپنے زندہ رہنے والے شعروں کے باعث اُن ہنگامی موضوعات کو بھی تاریخ میں محفوظ کر دیا ہے۔ اردو غزل میں یہ اپنی نوعیت کا کارنامہ ہے ۔
بڑے بڑے شاعروں نے بھی خطابیہ اور بلند لہجے میں شاعری کی تو جتنا ان کا لہجہ بلند ہوتا گیا اتنی ان کی شاعری چھوٹی ہوتی گئی۔ اکبر حمیدی کا کمال یہ ہے کہ اس نے پہلی بار بلند لہجے میں بڑی شاعری کر دکھائی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اکبر حمیدی نے بلند لہجے کی بھی کچھ حدود کا التزام رکھا اور پھر اس میں دھیمے پن کی بھی فنکارانہ آمیزش کی۔
شروع میں مَیں نے اکبر حمیدی کے پیش لفظ سے ایک اقتباس درج کیا ہے۔ اس میں اکبر حمیدی نے فکری جذبے کی بات کی ہے۔ لیکن فکری جذبے میں بھی فکر کو برتری حاصل رہتی ہے۔ جبکہ غزل فکر سے زیادہ جذبے سے تعلق رکھتی ہے۔ مجھے لگتا ہے اکبر حمیدی نے فکر کی اہمیت بیان کر کے دانستہ یا نادانستہ اپنے ہم عصروں کو Missguideکیا ہے۔ کیونکہ اس کے اپنے ہاں اس کے ذاتی تجربات اور اس کی فکر اور تصورات اتنے رچ بس چکے ہیں کہ اس کے داخل میں جذبے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ میں اکبر حمیدی کو اس کے ذاتی تجربوں، فکر اور جذبوں کے بیشتر حوالوں سے بے حد قریب سے جانتا ہوں اور اسی لیے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں اکبر حمیدی کے تجربات اور عقائد و تصورات پوری طرح اس کے جذبوں میں رچ بس گئے ہیں اور یہ انھیں جذبوں کا اعجاز ہے کہ ہنگامی موضوعات کو مس کرتے ہیں تو تاریخ کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ بلند لہجہ اختیار کرتے ہیں تو بھی بڑی شاعری تخلیق کر دیتے ہیں اور غزل کے مخصوص بہاﺅ میں آتے ہیں تودھنک کے رنگ بکھیردیتے ہیں۔
مجموعی طور پر اکبر حمیدی تعبیروں سے بچھڑا ہوا مگر سچے خوابوں کا شاعر ہے جسے اپنے شاعرانہ رُتبے اور بڑائی کی بجائے سچائی عزیز ہے۔ اکبر حمیدی کے بقول:
”میری شاعری میرے ایسے ہی خیالات اور جذبات کو پیش کرے گی جہاں انسان سچ بول سکے۔ امن سے زندگی بسر کر سکے۔ اسے اپنے نظریات کے ساتھ باعزت زندگی گزارنے کی آزادی ہو۔ جہاں اسے معاشرتی انصاف حاصل ہواور وہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مساوی سطح پر زندہ رہ سکے۔ میرا خواب ظلم، نفرت اور ہر قسم کے استحصال سے پاک ایک ایسا ہی معاشرہ ہے۔
ہم اچھا وقت نہیں لا سکے نئی نسلو
مگر تمھارے لیے اچھے خواب لے آئے“
میں دلی طور پر دُعا کرتا ہوں کہ اکبر حمیدی کے ان خوابوں کی تعبیریں جلد ظاہر ہو جائیں۔
(این دعا از من و ایں جملہ جہاں آمین باد!)
( مطبوعہ کتاب اکبر حمیدی کا فن مرتب رفیق سندیلوی)