جدید اردو افسانے کے مختلف رویوں کا سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو یہ رویے بے حد نمایاں نظر آتے ہیں۔
۱۔ انتظار حسین کا انداز جس نے کافکا کے انداز میں اپنے کلاسیکی ادب سے اکتساب کیا ور اسطوری فضا سے اس میں ایک ایسا رنگ بھر دیا جو انتظار حسین کی انفرادیت بھی قرارپایا اور جس نے ایک رویے کے طور پر کئی دوسرے افسانہ نگاروں پربھی اپنے اثرات مرتب کئے۔
۲۔انور سجاد کا انداز جو جدید افسانے کی تجریدی صورت ہے اگرچہ، خوشیوں کا باغ میں انور سجاد نہ صرف اپنے مخصوص انداز سے ہٹ گئے ہیں بلکہ بعض جگہ یوںلگتا ہے جیسے باش کی PAINTINGSکی تشریح کر رہے ہیں اور بعض جگہ اپنے نظریات کا اس شدومد سے اظہار کرنے لگے ہیں کہ ترقی پسند بیانیہ بھی حیرت سے ان کا منہ تکنے لگا ہے تاہم اس سے قطع نظر ان کا عمومی انداز جو ان کی شناخت ہے وہ تجرید ہی ہے ۔اسے میں جدید افسانے کا انتہا پسند رویہ سمجھتا ہوں جو ایک مرحلے پر جدید افسانے کے لیے نا گزیر بھی تھا۔
۳۔رشید امجد کا انداز جس نے نہ صرف اپنے متعدد مقلد پیدا کییاور اس طرح اردو میںجدید افسانے کے بے پناہ امکانات کو اجاگر کیا بلکہ اس کا انداز جدید افسانے کی پہچان بھی بنا۔
مذکورہ تینوںرویوں نے جدید اردو افسانے پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے اور نئی نسل منفی یا مثبت کسی نہ کسی طور ان سے متاثر ہوئی۔
بلراج مین را کے ہاں انور سجاد کے اثرات صاف دیکھے جا سکتے ہیں مرزا حامد بیگ اپنی انفرادیت کو مسلسل مستحکم کر رہے ہیں تاہم تھوڑی کوشش کے ساتھ ان کے ہاں بھی انتظار حسین کے اثرات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ رشید امجد کے زیر اثر لکھنے والے نوجوانوں کی ایک پوری کھیپ موجودہے۔
ان سے قطع نظر محمد منشا یاد، مشتاق قمر اور قمر احسن جیسے افسانہ نگار جدید افسانے کے مختلف رویوں سے تخلیقی استفادے کے ساتھ علامت اور بیانیہ کا ایک نیا لہجہ تراش رہے ہیں۔ میں ذاتی طورپر اس انداز کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں تاہم مذکورہ افسانہ نگار اور ان کے ساتھ نئی نسل کی ایک پوری کھیپ اس انداز کو استحکام بخشنے میں مصروف ہے، جب بھی یہ رویہ اوریہ لہجہ اپنے تمام امکانات کے ساتھ سامنے آیا، امکان ہے کہ اسی کو جدید افسانے کی آبرو سجھا جائے۔
ان رویوں سے ہٹ کر جدید افسانے کا ایک اور لہجہ جو بے حد توانا اور نمایاں ہے وہ جو گندرپال کا ہے۔ جو گندرپال کے ہاں جدید افسانے کی مختلف شکلیںکئی پرتوں میںجھلکتی ہیںان کے اس انفرادی لہجے کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ یہ جوگندرپال سے شروع ہو کر جوگندر پال ہی پر ختم ہوتا ہے ان کے انداز کی تقلید نہ ان کے مخالفین کر سکے نہ مداحین۔
بے ارادہ میں شامل ان کے افسانے ایک طرف جدید افسانے میں ان کے گرانقدر اضافے کامنہ بولتا ثبوت ہیں تو دوسری طرف جو گندرپال کی انفرادیت کا اظہار!
انور سجاد کے ہاںروایتوں سے بغاوت کا رجحان ہے انتظار حسین کے ہاں روایتوں پر جدید عہد کی تشکیل کی خواہش ہے رشید امجد کے ہاں روایتوں سے مکمل بغاوت تو نہیںمگر انحراف ضرور ملتاہے لیکن گریز ساری کہانی میں آنکھ مچولی کی طرح چلتا ہوا آخر میںروایتوں کو مسترد کرنے کی بجائے اس کے صحت مند اجزا کو ملا کر جدید عہد کی تشکیل کرتاہے لیکن یہ سارا عمل کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں بلکہ خالص فنی اور تخلیقی انداز میں مکمل ہوتا ہے۔ بے ارادہ کے افسانوں میں تجریدی او رعلامتی لہریںبھی ہیں، نا ستلجیائی صورت حال بھی ہے، اساطیر کے اثرات بھی ہیں لیکن ان سب کے باوجود ان پر انتظار حسین، انور سجاد ، یارشید امجد کی ہلکی سی پرچھائیں بھی نظر نہیںآتی۔ان کے سارے موضوعات ان کے اپنے مخصوص تخلیقی انداز میں ہی کہانی کا روپ دھارتے ہیں۔ایک ناقد نے جوگندرپال کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کی مغالطہ آمیز کشاکش اور خود فریبی بیان کو کئی متشدد لمحوںسے گزارتی ہے۔
میں فاضل نقاد کے اس تنقیدی تشدد پر حیران رہ گیا، مغالطہ آمیز کشاکش کا الزام اگر اس لئے لگایاگیا ہے کہ ان کے ہاں ترقی پسندی ایسی حقیقت پسندی نہیں ہے تو پھرفاضل نقاد داد کے مستحق ہیں کہ وہ جدید افسانے پر بات کرتے ہوئے ترقی پسند فارمولے سامنے رکھتے ہیںوہ جدید افسانہ جو پروگریسو حقیقت پسندی کا ردِعمل ہے۔
جدید افسانہ عرفان ذات اور اظہار ذات کی ایک ارفع صورت ہے، ذات جو کسی مخصوص سماج سے وابستہ ہونے کی بجائے کل کائنات پر محیط ہے بہت کم فنکار ایسے ہیں جنہوںنے ذات کی غواصی کے نتیجہ میں اپنے عرفان کے لمحوں کو اظہار کی کامیاب صورت بھی دی۔ بہت سے تو محض اپنی ذات کے ساحل پر کھڑے لہروں کو گننے کی ناکام کوشش کرتے رہ گئے۔بعض نے ساحل کی ریت پرہی گزارہ کر لیا، بعض تھوڑی دور تک گئے تو گھبرا کرپلٹ آئے بعض ویسے ہی غرقاب ہو گئے، بعض غواصی سے بھی کامیاب آئے تو اظہار کی کمزوریاں ان کی تخلیق کو لے بیٹھیں۔ایسے میں کتنے افسانہ نگار ایسے ہیں جوصحیح معنوں میںاپنے عرفان کا اظہار کرکے جدید افسانے کی آبرو بن گئے ہوں؟
میںناموں کی گنتی کر کے کسی کو رنجیدہ نہیںکرنا چاہتا۔اپنے سوال کا جواب وقت پر چھوڑتے ہوئے میں آپ کو جوگندرپال کے تخلیقی سفر میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں:
”میںدر اصل کہانی کار نہیں، بلکہ اپنے تخلیق کا رکی بے پایاںکہانی کا ایک کردار ہوں .... اور ....بوڑھے کہانی کار کی آواز جوش آفریں مسرت سے لبالب بھر گئی....اور ہمارے لافانی کہانی کار کے فن کا اعجاز دیکھو دوستو، کہ اس نے اربوں کھربوں کرداروں میں سے ایک ایک کی شرکت کے کل امکانات اسی پر چھوڑ دئیے ہیں۔سبھی اپنے آپ کو بغیر کسی اسکرپٹ کے اپنے آپ نبھاتے چلے جاتے ہیںاور تخلیق کا جادو یہ ہے کہ ہوتا وہی ہے جو ہونا ہوتا ہے۔“
آئیے اب اسی حوالے سے جوگندرپال کے تخلیقی سفر میںشریک ہوں!
”چلا کہاں گیابھابو! پانی کہیں بھی ہو،اپنے اندر ہی اندر تم اسی میں ڈوبی ہوئی ہو۔میری طرف دھیان سے دیکھو ۔اور دھیان سے دیکھو ۔بھابو!پانی کو اتنے دھیان سے دیکھنے لگی کہ وہ اس کی آنکھوں میںبھر آیا۔
میں پتھر کا پتھر دیوار سے جڑا ہوا تھا اور پھوٹ کر دیکھے جارہا تھا کہ اپنی .... جان چھڑک چھڑک کر بھابو نے ایک ایک بے جان شے میں جان ڈال دی ہے۔ مجھ میںبھی!“ (جادو)
”آﺅ رُکو گے نہیںتو پہنچ جاﺅ گے۔
لیکن پہنچنا تو رکنے پر ہوتا ہے۔
لیکن تم ابھی پہنچے ہی نہیں تو رکے رکے کیسے جا پہنچو گے؟
کیوں ۔جیسے یہ درخت جس کی منزلیںآپ ہی آپ موسموں کی مسافتیںطے کرکے اس کے بدن پر اُگ آتی ہیں۔
مگر منزل بیچ ہی میں ہونے کے باوجود پورے موسم کی دوری پر ہوتی ہے۔“(نادیدہ)
”جس سے محبت ہو انہیں دیکھے بغیر ہی محبت کی جاتی ہے لیکن میںہمیشہ دیکھ دیکھ کر محبت کرتا ہوں ۔
اسی لئے محبت نہیں کرتے ، شک کرتے ہو۔
مگر شک یا محبت۔دونوں سے آدمی اندھا ہو جاتا ہے۔
ہاںنہ دیکھو تو اندھے ہی ہو، مگر ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہی چلے جاﺅ میں نظر پھٹ جاتی ہے۔
(نادیدہ)
”میرا گاﺅں کہاں ہے، کہیں میں پردیس ہی میں تو نہیں چلا آیا۔“ (نادیدہ)
”وہ پکی قبر؟....وہ ایک مجذوب کے قبضے میں ہے۔بے چارہ اپنی اس کھوج میںدنیاسے باہر نکل گیا کہ پیدا ہونے سے پہلے میںکیا تھا۔ارے بھائی تم ہو ہی کیا، جو کچھ ہوتے؟وہ تو شکر کرو کہ تمہارے باپ نے تمہاری ماں کو چوم چاٹ کر تمہیں بنا دیا ۔مگر باﺅ لا اپنی چھوٹی سی سمجھ بوجھ کونہ چھوڑے ہوتا تو اتنی بڑی دنیا کیوں چھوڑتا۔ تل گیا کہ اپنی تلاش میں وہیں جانا ہے جہاں سے آیا ہوں۔عین وہیں پہنچاہوا ہے اور اپنی قبر کی پکی دیواروں کے اندر ہی اندر کچی مٹی ہو چکا ہے۔ ذرے کو جان کیا ملی کہ پاگل نے مٹی سے کھیلنے سے انکار کر دیا مگر مٹی تو اپنے ذرے ذرے سے کھیلتی ہے۔“
(سانس سمندر)
”شیام بابو اگلے تارکی طرف متوجہ ہو گیا ہے کسی موت پر دکھ کا اظہار کرنے کے لیے تار گھر کی اسٹنڈرڈ عبارت کے متعلقہ نمبر کی اطلاع فراہم ہوئی ہے، پیسے بھی کم اوردکھ کے اظہار کا ڈرافٹ بھی سرکار کے ذمے۔“ (اسٹاپ)
”یہاں تو یہ ہے ٹائیگر، کہ مزے سے اپنے الگ الگ کمرے میں زندگی کی قید بھگتتے رہو۔ ہمارا محلہ؟ہمارے محلے کی کیا پوچھتے ہو وہ تو ہر طرف سے کھلا ہوا ہے جدھر سے جہاں بھی پہنچ جاﺅ گویا اپنے ہی پاس آپہنچو اور بے فکری سے آنکھیں موند لو کہ ماں کی گود میں آپڑے ہو۔“ (کایا کپٹ)
”کوڑے کی سیج پر ایک نوزائیدہ بچہ اپنی پیٹھ پرلیٹے ننھے ننھے ہاتھ پیر مار رہا ہے اور اسے دیکھ دیکھ کر مجھے لگا ہے کہ میری چھاتیاں دودھ سے بھر کر پھول گئی ہیں اور میں نے اسے اپنی آنکھوں کی ساری نرمی سے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور سوچنے لگا ہوں۔کیا سمے آگیا ہے۔ سنگدل اپنی نسلوں کو پیدا ہوتے ہی کوڑے میںڈال دیتے ہیں۔“ (بیک لین)
ان اقتباسات سے ہی قاری جوگندرپال کے تخلیقی سفر کا اندازہ کر سکتاہے، میں نے یہاں کہانیوں کے پس منظر کی وضاحت یا تجزیے سے گریز کیا ہے کیونکہ ہر کہانی کے لئے الگ مضمون درکارہے۔تاثراتی لحاظ سے میںچار کہانیوں کے بارے میں کچھ مختصراً عرض کرنا چاہتا ہوں....سہن سکھوں کا اور چہرے ، پڑھتے ہوئے،جوگندر پال کی مخصوص ڈکشن سے لطف اندوز ہونے کے باوجود یہ احساس سا ہوتا رہا کہ انہوںنے زندگی کو روایتی ترقی پسندوں کی آنکھ سے دیکھا ہے، طبقاتی کشمکش ہمارے سماج کا ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے تاہم اس میں صرف ایک فریق کو بد کردار بنا کر پیش کرنا کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کرداروں کے سامنے جوگندر پال خود بے بس ہو گئے ہوں....پناہ گاہ پڑھتے ہوئے مجھے منٹو کا افسانہ کھول دو یاد آیا۔منٹو نے ۱۹۴۷ء میں انسانی المیے کو پاکستان یا بھارت کے خانوں میںبانٹ کر نہیں دیکھا تھا بلکہ اسے انسانی سطح پر دیکھا اور تب انہوںنے گھناﺅ نے کرداروں کوجس طرح بے نقاب کیا تھا اس سے بہت سارے لوگ بھی لرز کر رہ گئے تھے ۔ یہ خود احتسابی کی ایک صورت تھی پنا گاہ میں بھار ت کے حالیہ ہندو مسلم فسادات کے تناظر میںمنٹوجیسا رویہ ہی اختیار کیا گیا ہے۔بھارت سے مسلمانوں کی ہمدردی میں ایسی آواز کا آناکسی ایسے فنکار کا کام ہی ہو سکتا ہے جو انسانی سطح پرکسی امتیاز کو قبول نہ کرتا ہو۔
بازدید میں یادوں اورمٹی کے حوالے سے ایک ایسا تاثر ابھرتا ہے جوکہ ایک طرف تہذیبی تصادم اور دوسری طرف ماضی کی شکست سے عبارت ہے، نا تواسی المیے سے دو چار ہے اسے اس شکست کااحساس ہے مگر وہ اسے ذہنی طورپر قبول کرنے کے لیے تیار نہیںیہ کشمکش اسے انتظار حسین کے کرداروں کی طرح ماتم اور گریہ و زاری پر نہیں ابھارتی بلکہ دکھوں کی ایک عجیب سی مہک اس کے چاروں طرف بکھیر دیتی ہے۔
میں اپنے مضمون کا اختتام ڈاکٹر انور سدید کے ان لفظوں پر کرتاہوں:
”جوگندر پال کے افسانوں میں حقیقت کے عقب میںبھی ایک اور حقیقت موجود ہوتی ہے اس کا فن ماورائے حقیقت کو دریافت کرنے کی ہی کاوش ہے اور یہ اس کے پوری قامت کے افسانوں میں زیادہ سامنے آتی ہے۔“
(مطبوعہ اوراق لاہور۔شمارہ : ، جدید ادب جوگندر پال نمبر ۱۹۸۵ء )