غزل کا اپنا ایک مزاج ہے جو مشرقی مزاج کی اجتماعی ترجمانی کرنا ہے ۔غزل کے برعکس نظم اور بالخصوص آزاد نظم کا مزاج انفرادی نوعیت کا ہے۔ دونوں شعری اظہار کے الگ الگ پیمانے ہیں۔ دونوں کا باہمی طور پر کوئی جھگڑا یا مقابلہ نہیں ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مغرب کے بہت زیادہ زیرِ اثر نظم کے حامیوں نے غیر ضروری طور پر نظم کے فروغ کے لیے ضروری سمجھا کہ غزل کو ہدفِ تنقید بنایا جائے۔ اس سلسلے کی سب سے اہم مثال کلیم الدین احمد رہے۔انہوں نے غزل کے خلاف انگریزی سے مستعار ایک جملہ کہہ کر اپنی دانست میں بہت بڑا معرکہ سر کر لیا لیکن وہی کلیم الدین احمد جو اردو شاعری سے اور غزل سے بطور خاص بڑے بڑے مطالبے کر رہے تھے، جب خود شاعری کرنے پر آئے تو پتہ چلا کہ وہ اپنے عہد کے ممتاز شعراءکے مقابلہ میں دوسرے درجہ کے شاعر بھی نہیں ہیں۔ ان کے بعد وقفے وقفے سے غزل کی مخالفت میں بیان بازی چلتی رہی۔
غزل کے بعض پہلوﺅں پر اعتراض کرنے یا اس کی بہتری کے جذبہ کے تحت خامیوں کی نشاندہی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔جن دوستوں نے اس جذبہ کے تحت کچھ لکھا ہے کہ اس سے غزل بحیثیت صنف مزید ترقی کر سکے، وہ سب قابلِ احترام ہیں۔ ان کی باتوں پر غور ہونا چاہیے اور خوب سے خوب تر کے امکانات پر مکالمہ ہوتا رہنا چاہیے۔یہاں اس افسوس ناک صورت حال کا ذکر بھی کردوں کہ ایک زمانہ تھا جب شاعر نہ ہوتے ہوئے عوام میں ادبی ذوق پایا جاتا تھا اور ان میں شعر فہمی کی عمدہ سوجھ بوجھ ہوتی تھی۔ کہیں کسی نے شعر پڑھا اور اس میں کہیں جھول محسوس ہوا تو لوگ باگ ایک دوسرے کو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگتے۔ لیکن اب اس ادبی ذوق کی حالت اس عبرتناک مقام پر پہنچی ہوئی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا خاص طور پرریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جو عوامی رابطے کے پروگرام پیش کئے جاتے ہیں ان میں بے دھڑک بے وزن شعر سنائے جاتے ہیں اور پروگرام پیش کرنے والوں کے اپنے ادبی ذوق کا یہ حال ہوتا ہے کہ بے وزن اشعار پر داددے رہے ہوتے ہیں۔ایسی فضا میں ایسی کوئی خواہش کرنا بے معنی ہو جاتا ہے کہ ٹی وی چینلز کو معیاری اردو ادبی پروگرام شروع کرنے چاہئیں۔
ہم کو ان سے ”ادب“کی ہے امید........؟
غزل کے نام پر جگالی کرنے والے شاعروں سے لے کر مجروں جیسی مشاعرہ بازی کرنے والوں تک کی سرکوبی کی جانی چاہیے۔دوسروں سے لکھوا کر شاعر بن جانے والوںسے لے کر ان کو پورے مجموعے لکھ کر دینے والے کاروباری شاعروں کی نشاندہی ہونی چاہیے۔یہ سارے منفی عوامل ہیں جن سے عام قارئین میں ہی نہیں عام شاعروں میں بھی ادب کی سوجھ بوجھ ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن ان سب کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری غزل پر ڈال کر غزل کو اردو بدر کرنے کے مشورے دئیے جانے لگیں۔ بلکہ اگر الزامی جواب کے رنگ میں دیکھا جائے تو غزل کی بجائے آزاد نظم اور پھر ”نثری نظم “ پر اس کا الزام زیادہ لگتا ہے کہ انہوںنے آکر غزلیہ یا پابند شاعری کے ردھم کوتوڑ کر عوام کو شاعری کے بنیادی شعور سے بے بہرہ کر دیا تاہم یہ بات صرف الزامی جواب کے رنگ میں ہے ورنہ میرے نزدیک آزاد نظم اہم شعری صنف ہے اور غزل کے بعد ابھی تک سب سے مقبول اردو شاعری ہے۔
اس وقت کلیم الدین احمد کی طرح شہرت حاصل کرنے کے چکر میں الجھے ہوئے بعض نظم نگار شعراءغزل کی مذمت کا ”کارِ خیر“ انجام دینے میں مشغول ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ بھائی! اگر آپ آزاد نظم کے شاعر ہیں تو اپنی نظموں پر توجہ دیں، تاکہ پھر ادب کے قارئین بھی آپ کی نظم کی طرف متوجہ ہو سکیں۔اپنی تخلیقات کے بَل پر قارئین کو اپنی نظموں کی طرف متوجہ نہ کر سکنے والے شعراءکو یہی رستہ سوجھا ہے کہ حیلے بہانے سے غزل کو ملامت کرتے رہو، اس میں کیڑے ڈالتے رہو اور غزل مخالف ہونے کی سند حاصل کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرلو۔ لیکن کیا اس طریقے سے مخالفینِ غزل خود کو اہم نظم نگار منوالیں گے؟اس کے لیے تو اچھی نظمیں لکھنا ہوں گی اور اچھی نظمیں کسی ورکشاپ میں تیار نہیں کی جاتیں۔غزل کی مخالفت میں اب باقاعدہ کھاتے کھتونیوں کے انداز میں چارٹ بنا کر لفظوں کی شعبدہ بازی دکھائی جانے لگی ہے۔ اس پر مجھے آج کے ایسے جدید تر ذہنوں کے مقابلہ میں پرانے دور کے بزرگ شاعر ہمت رائے شرما یاد آگئے۔سال ۴۰۰۲ءمیں غزل کی تفہیم (مخالفت) کے لئے جو چارٹ بنا کر کلاس لگائی جارہی ہے اس انداز کے اعتراضات کا جواب آج سے ۲۰سال پہلے ہمت رائے شرما نے اپنے شعری مجموعہ ”شہاب ثاقب“ میں یوں دیا تھا:
”میری مراد اس طبقے سے ہے جسے ہر بات کا ٹھوس اور بین ثبوت چاہیے جسے ہر کام ناپ تول کر کرنے کی عادت ہے جس کے لئے محبت کا ایک خاص معیار ہے جو چکوری کو چاند تک پہنچنے کے لیے میلوں ،کلومیٹروں اور گھنٹوں کا حساب کرتا ہے ۔جو پروانے کے جلنے کے لئے شمع کا درجہ حرارت ناپتا ہے جو آنسوﺅں کے لیے مقیاس المطر ڈھونڈتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں شاعری فقیروں کا حصہ ہے۔حساب دانوں اور سائنسدانوں کا نہیں“
غزل پر بے جا اعتراض کر کے شہرت کمانے کے خواہشمند نظم نگار دوستوں سے اتنی گزارش ہے کہ غزل اور نظم کو ایک دوسرے کے حریف کے طور پر پیش نہ کریں۔دونوں کے اپنے اپنے جہان ہیں اور دونوں میں ہی بہت اچھی تخلیقات کے ساتھ بہت سارا ٹریش بھی پیش کیا جارہا ہے۔میرے نزدیک اس عہد کے سب سے اہم اور معتبر نظم نگار ڈاکٹر وزیر آغا ہیں ۔ ان کی نظموں ”آدھی صدی کے بعد“ اور ”اک کتھا انوکھی“کو میں اردو کی شاہکار آزاد نظموں میں شمار کرتا ہوں۔ڈاکٹر وزیر آغا جیسے جدید شاعر اور معتبر نقاد توعالمی سطح پر بدلتی ہوئی دنیا کے منظر نامہ میں اکیسویں صدی میں غزل کی مقبولیت کے امکان کو اجاگر کر رہے ہیں۔اور ہمارے گزارے لائق نظمیں کہنے والے اور ورکشاپوں میں نظمیں ڈھالنے والے دوست غزل کو اردو بدر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر وزیر آغا کے ایک مضمون کے چند اقتباس یکجا کر کے پیش کئے دیتا ہوں۔
”پوری دنیا قوموں کی سطح سے اوپر اُٹھ کر تہذیبوں کی صورت میں اپنا جلوہ دکھانے لگی ہے۔ ان جملہ ”حلقوں“میں جزو اور کُل کا رشتہ وہی ہے جو غزل کے شعر کا پوری غزل سے ہوتا ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ آزاد ہے مگر ردیف اور قافیہ کی ڈور میں پرویا ہوا بھی ہے۔ لہٰذا اس کی حیثیت غزل کے ایک انگ کی ہے۔ اسی طرح پوری دنیا ایک ایسی اکائی میں تبدیل ہو رہی ہے جو بالآخر بہت سی اکائیوں کا ایک جالی دار مرکب قرار پائے گی۔ایسے منظرنامے میں غزل ایسی شعری صنف کے مقبول ہونے کے امکانات کا کچھ اندازہ کیا جا سکتاہے....یہ تجربہ عام ہے کہ غزل کے شعر کو اگر غزل کے مطلع کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس کا تاثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں پوری غزل کی خوشبو اوررفتار بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے ....چونکہ غزل ہئیت کے اعتبار ہی سے جڑواںنہیں بلکہ تجسیم اور تجرید کے منطقوں کو بھی جڑواں بنانے پر قادر ہے، اس لیے آئندہ صدی میں اس کے فروغ پانے کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔ واضح رہے کہ یہاں میرا اشارہ اس نئی غزل کی طرف ہے جو پٹے ہوئے کلیشہ زدہ اسلوب شعر کی جکڑ سے آزاد ہوتی ہے۔“
(”اکیسویں صدی میں اردو ادب کے امکانات “از ڈاکٹر وزیر آغا
مطبوعہ مجلہ عالمی اردو سیمینار۲۰۰۰ء ، انگلینڈ)
جہاں تک غزل کی بقا اور ترقی کا مسئلہ ہے یہ تخلیقی اذہان کے ذریعے تب تک زندہ رہے گی جب تک اردو زبان زندہ ہے۔ نظم سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، کوئی مخاصمت نہیں ہے۔جو نظم نگار غیر ضروری طور پر غزل کی مخالفت میں اپنی توانائیاںضائع کر رہے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ غزل کے غم میں ہلکان نہ ہوں اور اچھی نظمیں کہنے پر توجہ دیں تاکہ پھر ان کا نام ان کی اچھی نظموں کی وجہ سے یاد رکھا جاسکے۔
(مطبوعہ سہ ماہی شعرو سخن مانسہرہ ،غزل نمبر شمارہ :جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء)