وہ کچی سڑک پر گاڑی بھگا رہا تھا جب دوسری طرف سے آتی جیپ اسکے سامنے رکی ..یزدان نے بمشکل بریک لگائی
وہ جانتا تھا جیپ کس کی ہے اسی لیے باہر نہیں نکلا ..صبح صبح وہ مغز ماری نہیں کرنا چاہتا تھا
لیکن سامنے والا بھی ڈھیٹ تھا جب کچھ دیرتک یزدان باہر نہ نکلا تو وہ خود اسکی گاڑی کی طرف آیا
اسے آتا دیکھ کر یزدان بھی باہر نکلا ..
کیا تکلیف ہے تمہیں ..راستہ کیوں روکا ...یزدان نے اسکے قریب آنے پہ پوچھا
اچھا نہیں کیا تم نے یزدان ملک ...میری منگیتر سے ویاہ کر کے ...انجام بہت برا ہونا تمہارا ...بلال راجپوت غصے سے پھنکارا
اچھا میں تیار ہوں ..تم جیسوں کی گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں ...یزدان اسے جواب دیکر پلٹ کر گاڑی کی طرف بڑھا
بڑی اکڑ ہے تم میں بھی اور میری منگ میں بھی ...اسکو بھی نہیں چھوڑو نگا ہاتھ اور زبان دونوں بڑے چلتے ہیں اسکے ...اسے کہنا اب تیار رہے میرے جواب کے لیے ...بلال کی بات پر یزدان دوبارہ اسکی طرف آیا
اسکی اکڑ ہی بتاتی ہے کہ وہ یزدان ملک کی بیوی ہے ...اور یہ پہلی اور آخری بار برداشت کر رہا ہوں اپنی بیوی کے لیے ایسے الفاظ ..آئندہ احتیاط کرنا ..کیونکہ میں تمہاری طرح خالی دھمکیاں نہیں دیتا ...وہ اسے وارن کر کے گاڑی میں بیٹھ گیا..
بلال بھی اپنی جیپ میں بیٹھ گیا تھا اسکے بیٹھتے ہی جیپ نے راستہ چھوڑا اور اسکے پاس سے ہوتی چلی گئ
یزدان نے بھی گاڑی موڑی اب کھیتوں کی طرف جانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا ..
اسکی رگیں غصے سے تنی ہوئی تھیں ...وہ عیشل کو کہاں ملا تھا ..اور کیسے...
ملا بھی تھا تو عیشل نے مجھے کیوں نہیں بتایا ...
یہی سوچتے وہ ت
ریش ڈرائیونگ کرتا حویلی واپس آیا
عیشل اذان کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی
کمرے میں آؤ ...اس نے حد درجہ کنٹرول سے عیشل کو اندر آنے کا بولا وہ باہر سب کے سامنے کوئی تماشہ نہیں لگانا چاہتا تھا
ناشتہ کر کے آؤں گی ...عیشل نے اسکی بات کو زیاد ہ اہمیت نہیں دی
دو منٹ میں کمرے میں موجو ہو تم ورنہ سب کے سامنے تماشہ ہی بنے گا ...وہ اسکے قریب آکر آہستہ آواز میں بولا لیکن اسکا سرخ چہرہ اور غصیلا پن عیشل کو نظر آرہا تھا
چاچو فیری میرے ساتھ باتیں کر رہی ہے ..اذان نے منہ بسورا
یزدان نے اذان کی طرف دیکھا اور عیشل کو چلنے کا اشارہ کیا
وہ خود اس سے پہلے کمرے میں پہنچ چکا تھا
عیشل کے آنے پر اس نے دروازہ بند کیا اور اسے بازو سے پکڑ کر سامنے کیا
تم بلال سے مل تھی ? .اسکا انداز سخت تھا
کون بلال ...اور یہ بازو چھوڑو میرا مجھے دردہو رہا ہے ..عیشل نے بازو چھڑوانے کی ناکام کوشش کی
جو میں پوچھ رہا ہوں وہ بتاؤ تم گاؤں میں آکر کسی کو ملی تھی کسی پہ زبان یا ہاتھ چلایا تھا ...یزدان نے اسی انداز میں پوچھا
عیشل کو ایک لمحے میں باغ میں ملنے والا آدمی یاد آیا
اس نے تھوک نگلا
وہ ..وہ ..بدتمیزی کر رہا تھا تومیں نے تھپڑ مار دیا ...عیشل نے نظر جھکا کر کہا
یزدان نے غصے سے اسکو بیڈ پہ پٹخا
ساری بات بتاؤ ...ایک ایک لفظ ..اس نے عیشل کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا
عیشل نے من و عن ساری بات بتا دی
ڈیم اٹ ...اس نے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار میں مارا
تم سے اس نے بدتمیزی کی اور تم نے مجھے نہیں بتایا ...کیا سمجھتی ہو خود کو ? کس ریاست کی شہزادی ہو ..ہاں ...وہ وہیں سے تمہیں اٹھا کے لے جاتا تو کیا ہوتا? شکر کرو بچ گئ ہو ورنہ کتوں کی موت مرتی تم ...وہ ٹہل کر اپنا غصہ اس پہ اتار رہا تھا
تم ایسے نہیں سدھروں گی ..پیکنگ کرو کچھ دیر بعد میں یہاں سے نکلنا ہے ... وہ اسے حکم دیتا کمرے سے نکل گیا
ہنہہ .جنگلی نہ ہو تو ...عیشل دل ہی دل میں اسے کوستے پیکنگ کرنے لگی..شاید شہر چھوڑ آئے اس ماحول سے تو نکلوں گی نا میں ...وہ یہ سوچ کر خوش ہو گئ
_____________________________________
الفت اور نعمان کے مرنے کے بعد رابعہ نے عیشل کی ذمہ داری لے لی ...افتخار راجپوت نے کافی کوشش کی عیشل کو واپس لینے کی مگر بابا جان نے سختی سے انکار کر دیا
افتخار کچھ سال تو خاموش رہا کیونکہ اسکی بیوی بھی بچی کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں تھی مگر پانچ سال بعد وہ پھت سے عیشل کو لینے کا مطالبہ کر رہا تھا
دن بد ن حالات خراب ہو رہے تھے ...ایسے میں بابا جان کو ایک ہی حل نظر آیا
انہوں نے اپنےدوست کے بیٹے سے بات کی ...وہ انکے جگری دوست کا بیٹا تھا ...اور انکا بہت احترام کرتا تھا ..اس وقت انکی اپنی اولاد بھی نہیں تھا اسی لیے انہوں نے خوشی خوشی عیشل کو ذمہ داری قبول کر لی ...
ادھر بابا جان سمیت سب کو عیشل کے جانے کا بہت دکھ تھا ..یزدان اس سے کافی مانوس ہو چکا تھا وہ اپنی فیری کے بنا بہت اداس رہتا تھا
اسی لیے بابا جان اسے ملوانے کے لیے لے گئے واپسی پہ انہیں ایسا لگا جیسے کوئی انکا پیچھا کر رہا ہے ...انکے شک کی تصدیق افتخار راجپوت کے دھمکی آمیز فون نے کر دی ..اسی وقت انہوں نے شہر فون کر کے اپنے دوست کو شہر بدلنے اور ہمیشہ کے لیے رابطہ ختم کرنے کا کہا ...
وہ کسی صورت بھی عیشل کو راجپوتوں کے خاندان میں نہیں دینا چاہتے تھے ...
ان لوگوں نے اپنا گھر شہر سب بدل لیا ....کبھی کبھار بابا جان دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر رابطہ کر لیتے تھے ..
ایسے ہی کئ سال گزر گے جب ایک دن انہیں خالد صاحب کا فون آیا
انہوں نے بتایا کہ عیشل کے لیے دو دن سے دھمکی آمیز فون آ رہے ہیں وہ لوگ اسے اغوا کرنے کا بول رہے تھے ...
بابا جان کا دل حلق میں آ گیا
انہوں نے یزدان کو کال کی ...اسی سال بابا جان کے کہنے پر وہ اپنی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد عیشل پر نظر رکھنے کے لیے اسکی یونی میں اسی کے کورس کی کلاس میں ایڈمیشن لے چکا تھا ..
اسے دیکھ کر وہ بہت مایوس ہوا تھا ...وہ اسے جیسا دیکھنا چاہتا تھا عیشل بالکل اس سے مختلف تھی ..
اب بابا جان کی بات سن کر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے نکاح کے لیے راضی ہو گیا تھا ..
افتخار راجپوت اتنا خطرناک نہیں تھا جتنا اسکا بیٹا بلا ل راجپوت تھا ...اسی لیے عیشل جیسی بھی تھی وہ اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا ...____________________________________________
بی بی جان اور بابا جان کو بڑی مشکل سے منا کر وہ اسے بی بی جان کے گھر لے آیا تھا ..
بی بی جان (رابعہ) کی شادی عیشل کو خا لد صاحب کے حوالے کرنے کے کچھ دیر بعد کر دی گئ تھی ..انکے سسرال میں بس انکی ساس ہی تھی ....انکے شوہر اکلوتے تھے ...وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھیں ...انکی شادی کے کچھ دیر بعد ساس کا انتقال ہو گیا ...ساس کے بعد رابعہ نے ہر ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی تھی ...زندگی اچھی گزر رہی تھی مگر ایک رات انکے شوہر دل کی دھڑکن بند ہونے کی وجہ سے وفات پاگئے..روتی بلکتی رابع دوبارہ ملک حویلی میں آ گئیں اور سب کے منانے کے باوجود دوسری شادی پر رضامند نہ ہوئیں ...جیسے جیسے انکی عمر بڑھی ویسے ہی وہ حویلی میں سب کی بی بی جان بن گئیں ...انکے شوہر کا گھر اب انکی ملکیت تھا ..زمینیں وغیرہ بھی باباجان ہی سنبھالتے تھے ..خود بی بی جان مہینے کے مہینے آکر اس گھر کی صفائی کرواتی تھیں ...ابھی کچھ ہی دن پہلے وہ صفائی کروا کر گئیں تھیں اسی لیے گھر صاف سےستھرا تھا ...
عیشل ہونکوں کی طرح اس بڑے سے گھر کو دیکھ رہی تھی ...
اب چلو اندر یا یہیں رہنا ہے ...یزدان جو تالا کھول کر اسکے اندر آنے کا انتظار کر رہا تھا اسے وہیں کھڑا دیکھ کر بو
لا...
یہ تم مجھے کہاں لے آئے ہو ...اتنی سنسان جگہ ...وہ اردگرد دیکھتی ہوئی بولی ...
گھر کے ارد گرد کھیت تھے
البتہ کچھ دور چند گھر نظر آ رہے تھے
تم نے باہر نہیں رہنا عیشل بی بی ...گھر کے اندر رہنا ہے ...سو چلو ...وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر لایا
گیٹ کے بعد کا بت بڑا حصہ پودوں پہ مشتمل تھا
جنہیں کاٹ چھانٹ کی اشد ضرورت تھی
عیشل اسکے پیچھے پیچھے چلتی رہائشی حصے کی طرف آئی
اندر سے بھی گھر بہت پیارا بنا ہوا تھا ...لیکن عیشل خوفزدہ تھی
ہم ادھر کیوں آئے ہیں ...اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
پکنک منانے ...ظاہر ہے رہنے کے لیے آئے ہیں ..کچھ دن یہاں رہو گی تو سیٹ ہو جاؤ گی ..ساری اکڑ نکل جائے گی تمہاری ...وہ سامان لینے باہر کی طرف بڑھا
یزدان دیکھو آئی ایم سوری ...میں اب آئندہ کچھ نہیں کرونگی نہ بولو ں گی تم پلیز مجھے یہا ں نہ چھوڑنا ...وہ اسکے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ...
عیشل تمہیں یہیں رہنا ہے ہمیشہ کے لیے نہیں بس چند دن ...اور تم اکیلی نہیں ہو گی میں رات میں تمہارے اس ہو رہوں گا ...وہ اسے دیکھے بنا باہر چلا گیا
بس رات کو یعنی سارا دن مجھے اس جنگل میں اکیلے رہنا ہے ...عیشل نے سوچا .. یہ سوچ کر ہی اسکا دل بیٹھا جا رہا تھا