کمرے میں آکر وہ بے چینی سے ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی ..
مجھے یہ رشتہ کسی طور بھی قائم نہیں رکھنا پھر میں کیوں ولیمے کی دلہن کا ڈھونگ رچاؤں ...مجھے کچھ کرنا ہو گا ...لیکن کیا ...اففف ...وہ چلتے چلتے سوچ رہی تھی
ہاں ...یزدان سے بات کرتی ہوں وہ مان گیا تو ٹھیک ورنہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی...اس نے اپنے پلین کو پھر سوچا اور اسے عملی جامہ پہنانے کمرے سے نکل گئ
_______________________________
تم اس سے طلاق لو گی الفت ..اسکی ماں نے سختی سے کہا
نہیں امی میں کبھی بھی اس سے الگ نہیں ہو سکتی ...الفت نے بنا سوچے جواب دیا
دروازے کے پاس کھڑے بابا جان نے شدت غم سے آنکھیں بند کر لیں
تم لو گی اس سے طلاق ورنہ میرا مرا ہوا منہ دیکھو گی ...اسکی ماں اپنی زبان دے کر چلی گئیں ...
بابا جان بھی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں آ گئے ..
ملکوں کی حویلی میں اس وقت سوگ کا عالم تھا
الفت باجی آپ کیوں ایسا کر رہی ہیں جانتی ہیں نا بابا جان آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں ...الفت کی چوٹی بہن رابعہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی
لیکن وہ سمجھنے سمجھانے کے دور سے نکل چکی تھی وہ بس نعمان سے بات کرنے کا طریقہ سوچ رہی تھی
الفت باجی دیکھیں ....
چپ کرو تم ..زیادہ زبان نہیں چلنے لگ گئی تمہاری ..نکلو میرے کمرے سے ..دفع ہو جاؤ ...الفت اپنے اندر کی فرسٹریشن چھوٹی بہن پر نکال رہی تھی
وہ ڈرتے ہوئے کمرے سے نکل گئ
کچھ سوچ کر الفت بھی مطمئن ہو گئ ..اسے اب رات کا انتظار تھا
___________________________________
سنیں یزدان کہاں ہے ..کمرے سے نکل کر عیشل نے سامنے سے آتی ملازمہ سے پوچھا
ہاہ بی بی جی آپ کیسے اپنے مزاجی خدا کانام لے رہی ہیں ...ملازمہ نے اسے حیرانگی سے دیکھا
جو تم سے پوچھا ہے وہ بتاؤ...عیشل نے سختی سے پوچھا
وہ بی بی جی چھوٹے ملک جی بیٹھک میں بیٹھے ہیں ...ملازمہ نے جلدی سے بتایا
کہاں ہے بیٹھک ...اس نے اسی لہجےمیں پوچھا
وہ جی یہ ہال سے نکل کے ساتھ ہی بیٹھک ہے ...پر وہاں تو جی بہت بندے بیٹھے ہوئے ہیں ....ملازمہ نے اس کے جانے کا ارادہ دیکھ کر احتیاطاً بتایا
عیشل نے اسے گھورا اور ہال کے دروازے کی طرف چلی گئ
ابھی وہ باہر نکل کر آس پاس دیکھ رہی تھی جب بیٹھک کی کھڑکی کے پاس بیٹھے یزدان کی نظر اس پہ پڑی
وہ تیزی سے اٹھ کے باہر نکلا ..
عیشل ....یزدان کی آواز پر عیشل جو آس پاس کا ماحول دیکھنے میں مگن تھی فوراً پلٹی
تم یہاں کیا کر رہی ہو چلو اندر ...یزدان اسکا جواب سنے بنا ہی ہاتھ سے پکڑ کر اندر کی طرف لے گیا
ہاتھ چھوڑو میرا ..عیشل نے اونچی آواز میں کہا
یزدان رک گیا
بلکہ یہاں وہاں جاتے ملازم بھی اسکی اونچی آواز سن کر رک گئے ..
ان سب کے لیے یہ عجیب بات تھی کہ کوئی نئ نویلی دلہن اپنے شوہر سے اس طریقے سے بات کرے ..
یزدان کا فطری غصہ عود کے آیا
اس نے گرفت مزید سخت کر دی اور اسے لیے آنی کے روم میں آیا ...
ولیمے سے پہلے اگر تم یہاں سے باہر نکلی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دونگا ...یاد رکھنا...تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو لیکن اب بس ...وہ اسے بیڈ پہ پھینک کے غرایا
عیشل یوں پھینکے جانے کے لیے تیار نہیں تھی اسی لیے اسے سنبھلنے میں کچھ وقت لگا
یزدان ملک تمہاری بھول ہے میں تمہاری سیج سجاؤں گی ...نفرت ہے مجھے تم سے سنا تم نے ..وہ چیخی تھی
مسز عیشل یزدان ملک میری سیج پہ بیٹھنا تو تمہیں ہی پڑے گا ورنہ تمہاری ساری سو کالڈ فیملی میرے ایک اشارے سے اس جہان فانی سے رخصت ہو جائے گی ...سمجھی...اس نے اسے دھمکایا
دھمکی دے رہے ہو مجھے ...عیشل نے کپکپاتے لہجے کو مظبوط بناتے ہوئے کہا
نہیں..بس بتا رہا ہوں ....یزدان نے ایک نظر اسے دیکھا اور چلا گیا
اسکے جاتے ہی عیشل بے بسی سے رونے لگ گئ
____________________________________
اس نے نعمان کو چوری چھپے فون کر کے بلا لیا تھا وہ الفت کی بات پہ نہ چاہتے ہوئے بھی عمل کرنے کو تیار تھا آخر وہ اسکی محبت تھی
رات کے پچھلے پہر الفت باپ کی رہی سہی عزت کو بھی پیروں تلے روند کر گھر سے بھاگ گئ تھی
صبح اک ہنگامہ کھڑا تھا ...سب الفت کو ڈھونڈ رہے تھے ... وہ گھر میں ہوتی تو ملتی
اسکی ماں یہ غم برداشت نہیں کر سکیں اور بیٹی کا زخم لیے دنیا سے کوچ کر گئیں ....سوگ کسے کہتے ہیں آزمائش کیا ہوتی ہے ملکوں کے خاندان کو اب پتہ چلا تھا
دوسری طرف نعمان جب الفت کو لیکر اپنے گھر گیا تو سب نے مخالفت کی...وہ اسے گھر سے نکال دینا چاہتے تھے لیکن یہاں اسکا شاطر بھائی آگے آگیا...
نعمان تم یہاں اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتے ہو ..لیکن میری ایک شرط ہے ...سب نے
ناپسندیدگی سے افتخار راجپوت کو دیکھا
جی بھائی ہمیں ہر شرط منظور ہے ...نعمان نے جوش سے کہا
ارے سن تو لو ...شرط یہ ہے تمہاری بیوی اپنے باپ سےزمینوں میں سے اپنا حصہ مانگے گی ...افتخار راجپوت نے الفت پہ بم پھوڑا
لیکن ...اس نے کچھ بولنا
چاہا
نعمان اپنی بیوی سے بول دو ہم اس گھر میں اسکی آواز سنننا نہیں چاہتے ہاں رہنے کے لیے ایک کمرے دے سکتے ہیں وہ بھی اگر یہ ہماری شرط مان لے تو ..نعمان کے باپ نے سخت لہجے میں الفت کو اسکی اوقات باور کروا دی
ابا ہمیں سوچنے کی مہلت دی جائے ...پلیز ..نعمان نے التجا کی
اسکے باپ نے بڑے بیٹے کا اشارہ پاتے نعمان کو رہنے کی اجازت دے دی
نعمان نے سکھ کا سانس لیا ...
لیکن الفت کے دل پہ بوجھ بڑھا تھا ...
________________________________
نواز ملک اور ریاض ملک دو بھائی تھے جو ایک ہی حویلی میں رہتے تھے
نواز ملک کے دو بچے تھے فیاض ملک اور الفت ملک
ریاض ملک کے بھی دو ہی بچے تھے بڑی رابعہ ملک اور ان سے چھوٹا یزدان ملک ..جسکی پیدائش پر اسکی ماں وفات پا گئیں تھیں
بن ماں کے بچے کو نواز ملک کی بیوی نے سینے سے لگایا تھا اور اپنے بچوں کی طرح پال رہیں تھیں
یزدان جب دو سال کا تھا تب ریاض ملک دل کا دورہ پڑنے سے دنیا چھوڑ گئے تھے ..اب نواز ملک اور انکی بیوی ہی ان دونوں بچوں کی سر پرست تھیں ..
نواز ملک نے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا تھا ...رابعہ یزدان سے پندرہ برس بڑی تھی ...
سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن الفت کے ایک قدم نے ملک حویلی میں سب درہم برہم کر دیا
______________________________________
یزدان کی دھمکی کا اثر تھا کہ تیار ہونے سے لیکر ولیمے کے سارے فنکشن میں اور پھر یزدان ملک کے کمرے میں جانے تک وہ خاموش رہی تھی
یزدان کا کمرہ اوپر والے پورشن میں تھا ...
آنی جوڑوں کے درد کی وجہ سے نیچے ہی رہی تھیں اسکے ساتھ شمائلہ اور اسکی بہن صائمہ تھیں جو کمرے میں چھوڑنےآئیں تھیں
کمرے میں آتے ہی عیشل نے سب سے پہلے جوتا اتارا جو پتہ نہیں کس کے سائز کا تھا بہت مشکل سے اس نے سارے فنکشن میں گزارا کیا
اوہ لگتا آپکی دیورانی اس شادی سے زیادہ خوش نہیں ہیں شمائلہ باجی ...صائمہ نے اسکی بیزاری کو دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں تبصرہ کیا
بے چاری کے ساتھ ہوا بھی تو برا ہے ...کہاں یہ شہر میں اتنی اعلی زندگی گزارنے والی اور کہاں یہ گاؤں کا ماحول ...اور پھر سنا ہے ایک دم سے نکاح کا بھی بڑا صدمہ تھا اسے ...بے چاری کو سنبھلنے ہی نہیں دیا اور ولیمہ بھی کر لیا..شمائلہ کے لہجے میں ہمدردی تھی ...عیشل کوفت سے انکی باتیں سن رہی تھی
باجی یزدان کوڈر ہو گا جیسے پہلے ملکوں کی لڑکی بھاگی تھی کہیں یہ بھی شہری کڑی ہونے کی وجہ
سے بھاگ ہی نہ جائے ...صائمہ کے لفظوں نے اسے آگ لگائی تھی
زبان سنبھال کے بات کرو لڑکی ...عیشل تمہاری عام سوچ پہ پورا اترنے والی لڑکی نہیں ہے ..میں تمہارے منہ نہیں لگنا چاہتی اس لیے بہتر یہی ہے چلی جاؤ یہاں سے ...عیشل نے بنا لحاظ کے اسے جانے کی راہ دکھائی
دونوں بہنیں تن فن کرتیں چلی گئیں ...
عیشل نے بے دردی سے اپنا دوپٹہ اتارا ..وہ اسکے منہ سے بھاگنے والے ذکر کا سن کر خود کو ہی کوس رہی تھی ..کہ صبح اس نے ایسا سوچا بھی کیوں .
.
وہ یہی سوچ رہی تھی جب اس لڑکی کی پوری بات اسکے ذہہن میں آئی
اوہ تو یزدان ملک کو بے اعتباری تھی ...اور کون سی لڑکی بھاگی تھی یہاں سے ?
وہ حیرت سے سوچ رہی تھی _______________________________________________________________
یزدان جب کمرے میں داخل ہوا تو عیشل منہ سر لپیٹے بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی ..
اسے ذرا بھی حیرت نہ ہوئی وہ ایسا ہی ری ایکشن ایکسپیکٹ کر رہا تھا..
.
وہ الماری سے کپڑے نکال کر چینج کرنے چلا گیا
اسکی واپسی پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی .
.
یزدان نے کچھ سوچتے ہوئے اس پکارا
عیشل ...ایشے ...
وہ نرمی سے پکار رہا تھا اسے اپنے صبح والے رویے کا گلٹ تھا جو بھی عیشل یہاں کی روایات کو نہیں جانتی تھی اسے ہی برداشت سے کام لینا چاہیے تھا ... وہ سب مردوں کی نظریں اس پہ ٹکی دیکھ کر آپے سے باہر ہوا تھا ...لیکن اب اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اسے نرمی سے بھی سمجھا سکتا تھا
ایشے ...پلیز بات سنو ...اسکی اتنی نرمی سے پکارنے پہ عیشل کے دل کو کچھ ہوا لیکن پھر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ...
ایشے یار اٹھو نا ...وہ اسکی کلائی سے پکڑ کر اٹھا رہا تھا
اسکے ہاتھ لگانے پہ ایشے کی فوراً اٹھئ
انف مسٹر یزدان ملک ...خبر دار مجھے ہاتھ لگایا تو ...تم کیا سمجھتے ہو تمہارے کمرے میں ہوں تو جیسا چاہے سلوک کر وگے ..نہیں بالکل نہیں ...میں تمہاری ان جاہل گنوار گاؤں کی عورتوں جیسی نہیں ہوں ...تمہیں لگا جیسے کوئی جاہل عورت تمہاری اس حویلی سے بھاگی تھی ویسے میں بھی بھاگ جاؤں گی ...نہیں یزدان ملک بالکل نہیں میں ان عورتوں کی طرح نہیں ہوں جو چوری چھپے منہ کالا کرتی ہیں تمہارے جیسے نام نہاد لوگوں کی عزت خراب کرتی ہیں میں عیشل نعمان ہوں مجھے کچھ کرنا ہو گا تو ڈنکے کی چوٹ پہ کرونگی ...ویسے کتنے افسوس کی بات ہے نا تم جو اتنے عزت کے پاسدار بنے پھرتے ہو تمہاری ہی کوئی عورت گھر سے بھاگ گئی کیا بچی ہو گی تم لوگوں کی گاؤں میں لوگ تو تھو تھو کرتے ہونگے چہ چہ ویسے تھی کون وہ ..تمہاری بہن یا ...
اور بس یزدان کی برداشت بھی یہی تک تھی اسکا ہاتھ اٹھا تھا اور عیشل کے نازک چہرے پر نشان چھوڑ گیا
بس....اب میں تمہارے منہ سے ایک لفظ بھی نہ سنوں ...سمجھی ..اور آئندہ اتنا ہی بولنا بعد میں جتنا تم برداشت کر سکتی ہو ..وہ انگلی اٹھائے اسے وارن کرتا سرخ چہرے کے ساتھ کمرے سے نکل گیا ...
عیشل منہ پر ہاتھ رکھے بے آواز رو رہی تھی ....