بی بی صاحبہ آپکو بی بی جان باہر بلا رہی ہیں ...وہ اذان کی باتوں میں مگن تھی جب ملازمہ نے آنی کا پیغام دیا..
وہ ہچکچاتے ہوئے اٹھی
فراک اسکے سائز کی نہیں تھی کچھ زیادہ ہی لمبی تھی ..اوپر سے دوپٹہ اتنا لمبا ..وہ جھنجھلا گئ
وہاٹ دا ہیل از دس ...اسے کوفت ہو رہی تھی
اذان اس سے پہلے ہی باہر بھاگ گیا تھا
باقی ملازمہ ہی تھی اسکے پاس جو اسکی انگلش بولنے اور لہجے پر منہ کھولے کھڑی تھی ...
یہاں ملازم سے لیکر مالک تک ہر بندہ ہی شاہکار ہے ...عیشل نے اسکے کھلے منہ کو دیکھ کر سوچا
چلیں...اس نے فراک سنبھالتے ہوئے ہونک کھڑی ملازمہ کو کہا
جی جی ..ملازمہ ہڑبڑا کر اسکے آگے لگی تھی
____________________________
واؤ آنی یہ سارا باغ آپکا ہے ...وہ حیرانی سے اس وسیع و عریض باغ کو دیکھ رہی تھی
نہیں آدھا ہمسائیوں سے مانگ کر لائیں ہیں
جب وہ بابا جان اور فیاض بھائی سے ملی تھی
بابا جان بہت پرتپاک ملے تھے جبکہ فیاض بھائی اتنے ہی ریزرو تھے
بابا جان نے عیشل کو کھیت اور باغ دیکھانے کا بولا تھا ...
نہیں بابا جان میں ابھی اسے باہر نکالنے کا رسک نہیں لینا چاہتا ...یزدان فوراً بولا
عیشل نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا ..وہ یہ گتھی نہیں سلجھا پا رہی تھی ...آخر اسے کس سے خطرہ ہے?
دانی ہم اب یوں ڈر کے تو نہیں گزار سکتے ساری زندگی ...بچی کو قیدی بھی نہیں بنا سکتے ..میں جانتا ہوں کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ملکوں کی بہو کے ساتھ کچھ برا کریں ...بابا جان نے پریقین انداز میں کہا
لیکن بابا جان ...یزدان پھر بھی مطمئن نہیں تھا
بس...اگر تمہیں زیادہ مسئلہ ہے تو خود ساتھ چلے جانا ...انہوں نے کہہ کر بات ختم کر دی
عیشل خوش تھی وہ یزدان کو یونہی ہر مقام پہ ہرانا چاہتی تھی
کمرے میں واپس آ کر وہ لیٹ گئ
شام میں آنی نے اسے باغ جانے کے لیے بلاوا بھیجا
اس نے کپڑے چینج کیے ..یزدان جو دوسرا سوٹ لایا تھا وہ ٹراؤز اوع ساتھ میں شرٹ تھی
تیار کو کے جب وہ باہر آئی تو آنی کے پاس بیٹھ گئ
آنی نے اسکی طرف چادر بڑھائی
بیٹا یہ اوڑھ لو ..ہماری لڑکیاں چادر کے بنا باہر نہیں جاتیں ..اس نے آنی کے کہنے پہ چادر پکڑی
آف وائٹ کلر کی چادر جس پہ ریڈ کلر استعمال کرکے شیشے لگائے گئے تھے ,بہت خوبصورت لگ رہی تھی
اور پھر وہ یزدان, آنی اور ایک ملازمہ کے ہمراہ باغ آئی تھی
سوچتے سوچتے وہ باغ میں کافی دور نکل گئ تھی جب ایک دم اسے ہوش آیا
اوہ آنی کہاں رہ گئیں ..اس نے سوچا
وہ واپس جانے کے لیے مڑنے ہی لگی تھی جب سامنے لگے کینو کے درخت نظر آئے
وہ جہاں کھڑی تھی وہاں صرف امرودوں کے پودے تھے ...کینو کے پودے چھوٹی سے کچی سڑکے اس پار تھے
وہ للچاتی نظروں سے کینوؤں کو دیکھتی انکی طرف بڑھی
ابھی اس نے کینو اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا جب پیچھے سے آواز ابھری
آج تو لگتا ہے ہمارے باغ میں کوئی پری اتری ہے ...
عیشل نے فوراً پیچھے مڑ کے دیکھا
وہ جو کوئی بھی تھا بہت خباثت سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا
کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو ..عیشل نے کڑے تیوروں سے پوچھا اسے بتایا گیا تھا باغ میں کوئی بھی ملازم نہیں آ سکتا جب تک وہ لوگ یہاں ہیں ..اسے لگا یہ کوئی ملازم ہی ہو گا
واہ رے واہ ..ہماری ہی زمین پہ کھڑی ہو کے ہم سے ہی پوچھ تاچھ ہو رہی ہے ...لیکن کوئی نہیں حسن پری تمہاری حسین صورت کی وجہ سے یہ گستاخی بھی معاف ..اس آدمی نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا
بان کو لگام دو سمجھے ...خبردار اب مجھے کچھ کہا تو ...عیشل کو اسکے الفاظ پہ غصہ آیا اسی لیے بائیں ہاتھ کی انگلی اٹھایا کر وارن کیا
بَلے او بَلے ..بڑی ٹور ہے حسینہ تیری ..میرے باغ میں کھڑی مجھے ہی دھمکی دے رہی ہے ...اب تو تجھے جانے نہیں دونگا دیو بن کے قید کر لوں گا تجھے حسن پری ...اس نے آگے بڑھ کے عیشل کی انگلی پکڑ کر نیچے کرنی چاہی جب عیشل کا دوسرا ہاتھ اٹھا اور اس آدمی کے منہ پہ لگا
وہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا تبھی حیرت سے پیچھے ہوا
اور عیشل کے لیے اتنا وقت کافی تھا وہاں سے بھاگنے کو ..
اس نے بنا پیچھے دیکھے دوڑتے ہوئے سڑک پار کی تھی
جب اس شخص نے اپنا باغ کہا تھ
ا وہ تبھی سمجھ گئ کے ملکوں کا باغ شاید سڑک کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے
وہ امرودوں کے باغ میں آکر بھی اندھا دھند بھاگ رہی تھی ...بھاگنے سے اسکی شال سر سے ڈھلک کر کندھوں پہ آچکی تھی اس نے سختی سے شال کو پکڑا ہوا تھا
بھاگتے بھاگتے وہ کسی سے ٹکرائی تھی
ٹکرانے والے نے اسے مظبوطی سے پکڑا تھا
عیشل نے خوفزدہ ہو کر نظریں اٹھائیں تھی اور سامنے موجود چہرے کو دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا
ایشے کیا ہوا ہے ...کہاں تھی تم ..بھاگ کیوں رہی تھی ...ایشے ...یزدان لرزتی ہوئی عیشل کو پکڑے پریشانی اور غصے سے استفسار کر رہا تھا
وہ ابھی واپس بھاگ میں آیا تھا جب آنی اور ملازمہ کو ایک جگہ بیٹھے دیکھا ...آنی کے گھٹنوں میں درد اٹھا تھا ملازمہ انکے ساتھ ہی بیٹھ گئ ..اور عیشل آگے چلی گئ
یزدان اکیلے عیشل کے اس سائیڈ کی طرف جانے سے پریشان ہوا اسی لیے اسے ڈھونڈتے ادھر آیا تھا
ایشے کچھ بولو بھی ...وہ بار بار اپنے ساتھ لگی عیشل سے پوچھ رہا تھا
وہ اسکے حصار میں تھی ...وہ آہستہ آہستہ اسکا سر تھپک رہا تھا
ایشے پلیز مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے ...ساتھ ساتھ پوچھ بھی رہا تھا
لیکن پے در پے ہونے والے حادثوں نے اسے اندر سے کمزور کر دیا تھا ..اسے پھر سے عدیلہ یاد آ رہی تھی کیسے اس نے اسکا سودا کر دیا تھا ...اسے وہ آدمی بھی عدیلہ جیسا لگا تھا ..جسکی آنکھوں میں خباثت ہی خباثت تھی ..وہ اگر اسے پکڑ لیتا تو ...
اس سے آگے سوچ کر عیشل کی جان نکل رہی تھی اور اگر یزدان کو پتہ چل جائے ..یہ تو پتہ نہیں کیا کرے گا ...یزدان کا خیال آنے پر اسے احساس ہوا وہ ابھی تک اس کے حصار میں ہے ..
وہ بدک کر پیچھے ہوئی
کیا ہوا ? یزدا ن نے اس کے بدکنے پہ پوچھا
وہ ..وہ کتا تھا ...میرے پیچھے ...عیشل نے بر وقت بہانہ بنایا
کتا لیکن یہاں تو کوئی کتا نہیں ..یزدان نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا
تھا ..پیچھے تھا ...وہ بھونک رہا تھا ..عیشل عجیب سے انداز میں کہہ رہی تھی
آر یو شیور کتا ہی تھا ...یزدان کو اسکی بات پر یقین نہ ہوا..کیونکہ اسے کتے کے بھونکنے کی کوئی آواز نہیں آئی تھی
ہا..ہاں ...عیشل نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا ...وہ کتا ہی تو تھا ...اس نے سوچا
اچھا ..چلو اٹھو گھر چلتے ہیں ...یزدان نے آگے بڑھ کے اسکے کندھوں پہ ڈھلکتی چادر کو دوبارہ سر پہ دیا..
عیشل سر جھکائے کھڑی رہی ..اسکا دماغ ابھی پیچھے ہی اٹکا ہوا تھا
یزدان کو کچھ گڑ بڑ تولگ رہی تھی مگر پھر وہ سر جھٹک کر اسے ساتھ لیے چل دیا
____________________________
گھر آکے وہ آنی کے کمرے میں بند ہو گئ ..
سوچ سوچ کر برا حال ہو رہا تھا
..
جانے وہ تھا کون ...
وہ تب تو بڑے
دھڑلے سے تھپڑ مار آئی تھی مگر اب اسے پریشانی ہو رہی تھی
رات کے کھانے پر بھی جب ملازمہ اسے بلانے آئی وہ سوتی بن گئ
آنی کے آنے پر بھی اس نے آنکھیں نہیں کھولیں ...
یزدان انہیں گھر ڈراپ کر کے شہر چلا گیا تھا لہذا اسکے آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا
وہ سوچتے سوچتے نیند کی وادیوں میں چلی گئ
___________________________
اگلی صبح اسکے لیے ایک سرپرائز موجود تھا..
صبح اٹھ کر جب وہ باہر نکلی تو حویلی میں ہر طرف گہماگہمی تھی ...
وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب آنی کی نظر اس پہ پڑی
یہاں آؤ عیشو...وہ صوفے پر بیٹھ کر کپڑے دیکھ رہیں تھی
کوئی برائیڈل ڈریس تھا
وہ ان کے پاس جا کے بیٹھ گئ
کیسا ہے لہنگا ...تمہیں پسند آیا ...انہوں نے پیچ پنک کلر کا لہنگا اسکے سامنے پھیلاتے ہوئے پوچھا ..
جی بہت پیارا ہے ...اس سچ میں ڈریس پسند آیا تھا
کس کا ہے ? ..لہنگا دیکھتے دیکھتے اس نے ویسے ہی پوچھا
تمہارا ہے ...آنی کے جواب پہ اس نے حیرت سے دیکھا
ایسے کیا دیکھ رہی ہو بیٹا ...بھائی صاحب چاہتے ہیں اس سے پہلے کوئی بدمزگی ہو سب یہ جان لیں کہ تم ملکوں کی بہو ہو ..اسی لیے آج دوپہر کے بعد ولیمے کا فنکشن رکھا ہے یہ سب ...آنی مزید بھی کچھ کہہ رہیں تھی مگر اس نے کچھ بھی نہ سنا اور لہنگا خود سے دور پھینک کر تیزی سے کمرے میں چلی گئ
وہاں موجود ملازمائیں جو کچھ دیر پہلے حسرت سے لہنگے کو دیکھ رہیں تھی اب حیرت سے زمین پہ پڑے اسی لہنگے کر پھر دیکھ رہیں تھیں ..
آنی بھی اسکے ری ایکشن پہ پریشان ہو چکی تھیں