تم ...اسکے لہجے میں سرا سیمگی تھی
ارے محبوب ہو تو ایسا دیکھو ذرا صائمہ کیسے پہلی نظر میں ہی اپنے عاشق کو پہچان لیا..لگتا ہے آگ دونوں طرف لگی ہوئی ہے ...بلال راجپوت خباثت سے مسکرایا
صائمہ نے بھی اسکی ہنسی میں ساتھ دیا..
شٹ اپ ..زبان سنبھال کر بات کرو ...کچھ دیر پہلے جو خوف اسکے چہرے پہ نظر آ رہا تھا اس پہ قابو پاتے ہوئے وہ چلائی تھی
نہ نہ سوہنیے ...اتنی اونچی نہ بول ...وہ کیا ہے نا اونچا بولنے والے تیرے عاشق کو پسند نہیں ہیں ...
بکواس بند کرو اور پیچھے ہٹو ...اس نے اسے دھکا دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا
اتنی دور آکے پیچھے ہٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سوہنیے ..آئی تو اپنی مرضی سے ہی مگر جائے گی ہماری مرضی سے ...بلال راجپوت نے اسکا بڑھا ہوا ہاتھ پکڑا
کیا بکواس کر رہے ہو ..ہاتھ چھوڑو میرا ...عیشل نے پھر بلند آواز میں کہا
اردگرد اس وقت کوئی بھی نہیں تھا ...
بڑی زبان چلتی ہے تیری چل آجا آج تجھ سے سارے حساب برابر کرونگا ...وہ اسے دھکیلتے ہوئے کھیتوں کے درمیان سے ہی راستہ بناتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا
وہ چیخ رہی تھی ...لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی
آجا تو بھی یا تجھے بھی ایسے لیکر جانا پڑے گا ....کچھ دور جا کر اس نے پلٹ کر وہیں کھڑی صائمہ سے کہا
وہ ..میں.....وہ کچھ متذبذب ہوئی
کیا وہ میں ..ہاں جو ڈیل ہوئی ہے اس پورا کر...ورنہ ...اس نے آنکھیں دکھائیں ...
نہیں میں ....صائمہ کے کچھ کہنے سے قبل ہی عیشل بلال راجپوت کی کمزور پڑتی گرفت سے اپنا بازو نکال کر وہاں سے بھاگ اٹھی
تیری تو ....بلال راجپوت جو صائمہ سے بات کرنے کے دوران اپنی نرم پڑتی گرفت پر دھیان نہیں دے پایا تھا اب عیشل کو بھاگتے دیکھ کر اسکے پیچھے بھاگا
عیشل بنا کچھ دیکھے بھاگ رہی تھی ... شلوار قمیض وہ کم ہی پہنتی تھی اسلیے اسے بھاگنے میں بھی اسے دشواری ہو رہی تھی
بلال راجپوت اور صائمہ اسکے پیچھے لگے ہوئے تھے ..
وہ بس ایک دفعہ ان کھیتوں سے بھاگ جانا چاہتی تھی ...لیکن اس کی ہمت کم پڑ رہی تھی
بھاگتے بھاگتے اسکی نظر کھیتوں کے درمیان موجود درانتی پہ پڑی تھی
اس نے ایک لمحے میں فیصلہ کیا...وہ کمزور نہیں تھی ....وہ جانتی تھی جتنا مرضی بھاگ لے لیکن ان دونوں نے اسے پکڑ ہی لینا تھا
اس فورا درانتی پکڑی ....
اور اپنے پیچھے آتے بلال راجپوت اور صائمہ کی طرف مڑی
خبردار اگر تم دونوں میں سے کوئی آیا..وہ درانتی انکی طرف کرتی ہوئی غرائی...خوف سے اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں
عیشل یہ ...یہ نیچے کرو ....بلال راجپوت دور سے ہی بولا ...وہ ایک بزدل مرد تھا جو اپنے نوکروں کے بل بوتوں پر اکڑتا تھا
تمہاری پسٹل کہاں ہے ..صائمہ کی آواز پر بلال راجپوت سٹپٹایا
وہ تو گاڑی میں ہے ...
لعنت ہو تم پہ یہ اگر بھاگ گئ یہاں سے تو دونوں مریں گے ...آگے بڑھ کر اکے ہاتھ سے درانتی لو ...صائمہ آہستہ آواز میں بول رہی تھی
عیشل آہستہ آہستہ پیچھے کو چل رہی تھی
نہ بابا اس نے اگر مجھے درانتی مار دی تو ...وہ ڈرا ہوا تھا
تم کیسے مرد ہو بلال راجپوت ایک لڑکی سے ڈر رہے ہو ..صائمہ اب کی بار غرائی تھی
بلال راجپوت اس لمحے کو کوس رہا تھا جب اس نے یہاں اکیلے آنے کا فیصلہ کیا تھا
اب ساری گیم انکے ہاتھوں سے نکل رہی تھی ...تبھی بلال راجپوت کے دماغ نے کام کیا
دیکھو عیشل ہماری تم سے کوئی دشمنی نہیں ...ہمارا دشمن تو یزدان ہے ....تم یہ نیچے رھو اور آرام سے بات سنو ...وہ ایک فراڈیا انسان ہے میری بہن کو بھی اپنی باتوں میں پھنسا کر بھگا لے گیا تھا ..تم یہ درانتی نیچے رکھو آرام سے بات سنو میری ... بلال راجپوت کے الفاظ پر وہ پل بھر کو چونکی
کیا مطلب ہے تمہارا...
میری بہن عدیلہ کے ساتھ تمہارے شوہر کا چکر تھا ...اس نے ہمارے گھر رشتہ بجھوایا لیکن ہم نے منع کر دیا تو اس نے عدیلہ کو گھر سے بھاگ کر شہر آنے کا کہا ...میری بہن تو اسکے پیار میں اندھی ہو چکی تھی اس نے ایسا ہی کیا ...شہر جا کر دونوں نے نکاح کر لیا ...اب وہ اسے چھوڑ کر تمہارے پیچھے پڑ گیا ہے ...میری بہن کی حالت بہت خراب ہے میں نے سوچا تمہیں اغوا کر کے یزدان کو بلیک میل کرونگا کہ عدیلہ کو اپنے ساتھ لے جائے لیکن ....بات کرتے کرتے وہ اسکے سر پر پہنچ چکا تھا
عیشل اسکی بات پر حق دق کھڑی تھی ...
عدیلہ کو خود ا س نے اسکے گھر دیکھا تھا
وہ اس سے بہت فرینک بھی تھی ...
تو کیا واقعی ...!!!
دور رہو مجھ سے ...وہ اسے اپنے نزدیک دیکھ کر ہوش میں آئی
یہ سچ کہہ رہا ہے یقین کرو ...صائمہ بھی اسکے پیچھے آتے ہوئے بولی
مجھے تم دونوں پہ یقین نہیں ...عیشل پیچھے ہوئی تھی اور یہ پیچھے ہونا ہی سارا کام خراب کر گیا
اسکے پیچھے پانی والی کھال تھی ...اسکا پاؤں زمین کی بجائے کھال پر آیا تھا اور وہ توازن برقرار نہیں رکھ پائی ....
درانتی ہاتھ سے چھوٹ کر پرے گری تھی اور
خود کھال کے اندر گری تھی
اب پتہ چلا..بڑی چالاک بن رہی تھی نا اب نکل کے دکھاؤ مجھے ...وہ اسکے اوپر ہوا غرّایا
__________________________________________________________
دانی آیا ہے اس وقت ....شمائلہ جہیز کے کپڑے ٹانک رہی تھی جب اسے پیغام ملا کہ یزدان گاڑی میں ان دونوں کا انتظار کر رہا ہے
ہاں جی اور باجی مجھے پریشانی یہ ہو رہی عیشل باجی کو تو صائمہ باجی اپنے ساتھ باغ میں لے گئیں ہیں ..مصباح نے اصل پریشانی بتائی
کیا کہہ رہی ہے تو ..صائمہ کو باہر کس نے جانے دیا اور وہ بھی عیشل کو لیکر ...ہائے اللہ اب میں کروں ...شمائلہ بھی پریشان ہو چکی تھی
تبھی دوسرا بلاوا آیا ..
آرہی ہو ں ...وہ چپل پہنتے ہوئے باہر آئیں
گیٹ کے سامنے ہی یزدان کی گاڑی کھڑی تھی ..
بھابھی کو آتا دیکھ کر اس نے دروازہ کھولا ..
کیا بات ہے خیر تو ہے نا..تجھے تو شام کو کہا تھا آنے کو ...شمائلہ بھابھی نے اسکے آنے کی وجہ پوچھی
جی ..بس وہ آنی کہہ رہیں تھی آپ دونوں کو ابھی لے آؤں ...اس نے پہلے سے سوچا ہوا جھوٹ بولا
اچھا لیکن...انکے چہرے پہ پریشانی تھی
لیکن کیا بھابھی آپ عیشل کو بلائیں ..میں رات کو آپکو دوبارہ چھوڑ جاؤں گا ..یزدان کو لگا انہیں یہاں سے جانے کی پریشانی ہے
اصل میں یزدان عیشل گھ نہیں ہے صائمہ اسے لیکر باغ کی طرف ..
کس کی اجازت سے لیکر گئ ہے میری بیوی کو ...آپ نے جانے کیوں دیا ...وہ غصے سے بولا ...
صائمہ کو وہ اچھی طرح جانتا تھا ..اس نے کبھی عیشل کے بارے میں ایسا کچھ کہا تو نہیں تھا لیکن پھر بھی اسکا دل اس پہ یقین نہیں کر رہا تھا ....
بھابھی آپ اندر جائیں ..میں عیشل کو لیکر آتا ہوں ....اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا ...شمائلہ فورا نیچے اتر گئیں ...گاڑی دھول اڑاتی انکی آنکھوں سے اوجھل ہو چکی تھی...
____________________________________
دور ہٹو میرے سے ...عیشل اسے دھکا دیتی خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی...وہ مظبوط اعصاب کی لڑکی تھی...اسی لیے ابھی تک ایسے حالات سے لڑ رہی تھی ...
عیشل تم ایک دفعہ اسکے ساتھ جا کر عدیلہ کی حالت تو دیکھو ...صائمہ جان چکی تھی عیشل بلال راجپوت کی بات پر کچھ حد تک یقین کر چکی ہے
یہ ساتھ نہ بھی جائے تو بھی میں اسے لیکر جاؤں گا ...بچ کر دکھائے مجھ سے ...ابھی تو میں نے اپنے تھپڑ کا بدلہ بھی لینا ہے ...چل میرے ساتھ ...وہ اسکی کلائی پکڑ کر اس کھال سے باہر نکال کر اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا ...
چھوڑو مجھے ...عیشل اپنے بچاؤ کے لیے اردگرد کوئی چیز ڈھونڈ رہی تھی ...تب ہی اسکی نظر سڑک پر آتی گاڑی پہ پڑی ...وہ گاڑی کو پہچان چکی تھی
گاڑی کی آواز پر بلال اور صائمہ دونوں پلٹے ...گاڑی سے نکلتے شخص کو دیکھ کر دیکھ کر ان کے سانس سوکھ گئے
صائمہ فورا کھال کی طرف بڑھی اور درانتی اٹھا کر بلا کی طرف بڑھائی
بلال جو خوفزدہ کھڑا تھا درانتی دیکھ کر اسکا حوصلہ کچھ بڑھا
چھوڑو مجھے ...عیشل نے ایک بار پھر خود کو چھڑوانے کی کوشش کی ...
بلال راجپوت نے یزدان ملک کو نزدیک آتے دیکھ کر بازو عیشل کے گلے میں ڈال کر درانتی اسکے حلق پہ رکھ دی
درانتی اتنی پاس دیکھ کر عیشل کی خوف کے مارے آنکھیں ابل پڑیں
یزدان کے پاؤں بھی اپنی جگہ پہ رک گئے ...
میری بیوی کو چھوڑو بلال راجپوت ...غصے سے تنی ہوئی رگوں سمیت وہ بولا
نہ کبھی بھی نہ....اب تو اسے نہیں چھوڑنے والا ...تو ابھی اور اسی وقت اسے طلاق دے ورنہ اگر یہ میری نہ ہوئی تو تیری بھی نہیں ہو گی ...اس نے اپنا مطالبہ اسکے سامنے رکھا
تمہارا دماغ خراب ہو چکا ہے چھوڑ دو اسے...تمہارا انجام تو پہلے ہی برا کرنیوالا ہوں میں ...یزدان نے اسے وارن کیا
ہاہاہا..جب تک یہ ترپ کا پتہ میرے ہاتھ میں ہے تب تک تم کچھ نہیں کر سکتے ...بلال راجپوت نے عیشل کی طرف اشارہ کیا
مجھے اس سے کو ئی غرض نہیں ...اگر تم چاہتے ہو میں اسے طلاق دے دوں تو ٹھیک ہے لیکن میں بابا جان کو بتائے بغیر کچھ نہیں کرتا تم جانتے ہو...یزدان نے بیچارگی سے کہا
اسکی باتوں میں نہ آنا بلال ...صائمہ نے اسے سمجھا نا چاہا اور یہی موقع تھا جب بلال نے صائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے درانتی اسکے حلق سے نیچے کی تھی
عیشل نے ہاتھ مار کر درانتی دور پھینکی ...
اور تبھی یزدان اسکے اوپر جھپٹا تھا ....پلک جھپٹنے میں وہ بلال راجپوت کا حلق پکڑ کر دبا رہا تھا ...عیشل اسکا بازو پیچھے کرتی اس سے دور ہو گئی تھی
صائمہ یہ سب دیکھتی وہاں سے بھاگنے کے لیے مڑی...
بھاگ جاؤ جہاں بھاگنا چاہتی ہو ...لیکن یہ مت بھولنا اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے جو تم نے میرے ساتھ کیا اسکا انجام تمہیں بھگتنا ہی پڑنا ہے ...عیشل نے اسے بھاگتے دیکھ کر اونچی آواز میں کہا
صائمہ ان سنی کرتے بھاگ گئ...
م..مج...مجھے ..چھوڑ ..دو...می..میرا ..سانس ..بلال راجپوت یزدان کے شکنجے میں بر یطرح پھنسا ہوا تھا
تجھے وارن کیا تھا نا ...لیکن تجھے پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی ....انہی ہاتھوں سے پکڑا تھا نا ...سلامت نہیں بچیں گے یہ ہاتھ ....وہ اسکا گلا چھوڑ کر اسکے ہاتھوں کی طرف بڑھا تھا
بلال راجپوت بری طرح کھانس رہا تھا ...
یزدان نے دو تین جھٹکے دیے تھے اسکے بازؤں کو اور اسکی چیخیں بلند ہو چکی تھیں
کیا بکواس کر رہا تھا طلاق دوں اسے ...اس زبان سے کہہ رہا تھا ...اسنے ایک ہاتھ پکڑ کر اسکا منہ کھولا .اوردوسرے ہاتھ سے پاس پڑی درانتی اٹھائی..بلال راجپوت جو پہلے ہی چیخ رہا تھا اسکے ہاتھ میں درانتی دیکھ کر حلق کے بل چیختے کوئے معافی مانگنے لگا
مانگ لے جتنی معافی مانگنی ہے آج کے بعد تو بولنے کے قابل ہی نہیں رہے گا ....وہ اسکا منہ سختی سے کھولنے لگا
عیشل جو اس سے کچھ دور کھڑی تھی بھاگ کر نزدیک آئی
چھوڑ دو اسے...اتنا کافی ہے اسکے لیے ...
پیچھے ہٹ جاؤ تم ....یزدان نے اسے پیچھے ہونے کا بولا
یزدان ملک تم دونوں ایک جتنے گنہگا ر ہو اس سے اتنا بدلہ لے رہو ہو خود سے کب لو گے ....عیشل نے نفرت سے کہا
اسکے الفاظ پر یزدان نے بلال کا منہ چھوڑا اور درانتی اسکے اوپر پھینکی...جو اسکی ٹانگ پر لگی..وہ بلبلا اٹھا
کیا بکواس کر رہی ہو ...جانتی ہو تم ...وہ اسکی طرف بڑھتے ہوئے بولا
اچھے سے جانتی ہوں ...وہ بھی دھوکے باز ہے اور تم بھی دھوکے باز ہو ...زیادہ فرق نہیں ہے دونوں میں ....عیشل اپنی بات پر قائم رہی
تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے جو اول فول بول رہی ہو ...گھر چلو پھر بات کرتا ہوں تم سے ...وہ ضبط کی انتہا پر تھا
نہیں جانا مجھے تمہارے گھر ..بڑی مہربانی اتنی دیر تک مجھے محفوظ رکھنے کے لیے ...
تم....دیکھتا ہوں کیسے نہیں جاتی تم ...وہ اسکی کلائی پکڑے اسے اپنے ساتھ لیے گاڑی تک آیا...روازہ کھولا اسے اندر دھکیلا اور خود دوسری طرف سے آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا
گاڑی میں بیٹھتے ہی مسلسل بجتے موبائیل نے اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی
فیاض بھائی کی کال تھی اس نے اٹینڈ کی ...
جی بھائی ...
کیا..
جی میں ابھی آرہا ہوں ...
کس یوسپٹل میں ...
جی میں آرہا ہوں ...
فیاض بھائی کی بات سن کر وہ مزید پریشان ہو گیا تھا
دس منٹ کا راستہ پانچ منٹ میں طے کرتا وہ گاڑی حویلی کے سامنے لایا ...
اترو...
مجھے نہیں رہنا تمہارے گھر میں ...وہ چیخی
یزدان نے تیزی سے نیچے آکر اسکی طرف کا دروازہ کھولا اور بازو سے پکڑ کر اسے اندر لے کر آیا ...
یزدان نے تیزی سے نیچے آکر اسکی طرف کا دروازہ کھولا اور بازو سے پکڑ کر اسے اندر لے کر آیا جہاں سارے ملازم پریشان کھڑے تھے
عزت کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی جاؤن ایسا نہ ہو ان سب کے سامنے مجھے تمہیں ذلیل کرنا پڑے ...وہ آہستہ آواز میں بولا
عیشل اسکے ہاتھ سے اپنا بازو نکال کر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئ...
وہ جانتی تھی یہاں کچھ نہیں کر سکتی ...
یزدان تیزی سے پلٹ کر گاڑی تک آیا ...اسکا رخ شہر کی طرف تھا جہاں بابا جان زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے ...
________________________________________________
تین دنوں بعد بابا جان کو آج ہوش آیا تھا ...یہ تین دن ملک خاندان کے لیے بہت پریشانی کا باعث تھے ..
یزدان مسلسل باباجان کے پاس ہی رہا تھا ...انہیں دو ہارٹ اٹیک ایک ساتھ آئے تھے ...اسی لیے انکی کنڈیشن زیادہ خراب تھی
فیاض بھائی گاؤں کا چکر لگاتے رہے تھے ...صائمہ کی شادی ہو چکی تھی ...
آنی بھی دو دفعہ بابا جان کو دیکھنے آئیں تھیں ...ہ چاہ کر بھی عیشل کا نہیں پوچھ سکا تھا ..آنی پہلے ہی پریشان تھیں وہ اپنی بات کر کے انہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ..
البتہ آج جاتے ہوئے اس نے انہیں عیشل سے بات کروانے کا بولا تھا ...
شام میں انکا فون آیا...اس نے با با جان کو دیکھا جو دوائیوں کے زیر اثر سو رہے تھے اور باہر نکل آیا
سلام دعا کے بعد آنی نے فون عیشل کو پکڑایا
اسلام علیکم...کیا حا ل ہے ...یزدان نے اسکا حال پوچھا
ٹھیک ہوں ...دوسری طرف دے دو حرفی جواب آیا
میرا حال نہیں پوچھو گی ..کیسی بیوی ہو ....یزدان نے اسے تنگ کیا ..وہ اسکی پچھلی پاتوں کو نظر انداز کرنا چاہتا تھا ...اسکی باتوں پہ دل تو دکھا تھا مگر بتانے کا کیا فائدہ ...
حال تو تمہارے اچھے ہی ہونے ہیں آخر اپنی پہلی بیوی کے آس پاس جو ہو ...اسکے ہوتے ہوئے میں تمہیں کیوں پسند آؤں گی ...اس کے لہجے میں طنز تھا
جبکہ دوسری طرف یزدان بری طرح چونکا
کیا کہہ رہی ہو ..پہلی بیوی ...اس نے تیز لہجے میں پوچھا
اتنے انجان نہ بنو کیونکہ اب کوئی فائدہ نہیں میں سب جان چکی ہوں ...عدیلہ تمہاری بیوی ہے جو تمہاری خاطر اپے گھر والوں کو چھوڑ کر بھاگ گئ ...وہ اس پہ نئے انکشاف کر رہی تھی ...
تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے ...گھر آکر نبٹتا ہوں صبر کرو ذرا ...وہ غصے سے بولتا فون بند کر گیا
دوسری طرف عیشل نے بھی فون بیڈ پہ اچھال دیا.
_______________________________________________
بابا جان کو ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا ...یزدان انکے پاس سے ایک منٹ کے لیے بھی دور نہیں ہوا ...
سب ے کہنے کے باوجود وہ انکے پاس ہی رکا رہا تھا ...
آج بابا جان کو ڈسچارج کیا گیا تھا ...
وہ انہیں لیے حویلی آ گیا ...
باباجان کو دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے ...وہ جتنے بھی سخت تھے لیکن اپنے اردگرد رہنے والوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے یہی وجہ تھی انکے بیمار ہونے پر سب گاؤں والوں نے انکی صحتیابی کے لیے دعا کی تھی...
بابا جان کو انکے کمرے میں چھوڑ کر وہ آنی کے کمرے میں آ گیا...
اس وقت وہ بہت تھکا ہوا تھا ...پورا ہفتہ وہ ٹھیک سے سو نہیں سکا تھا ...
اپنے کمرے میں جا کر وہ مزید تھکاوٹ کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھااسی لیے آنی کے روم میں آکر جوتے اتار کر انکے بیڈ پر لیٹ گیا ...
آنکھیں بند کرتے ہی وہ سو چکا تھا ...
جانے وہ کتنی دیر سویا تھا جب نرم ہاتھوں کا لمس اپنی پیشانی پہ محسوس کرتے اس نے آنکھیں کھولیں
آنی اسکے پاس بیٹھیں سر دبا رہیں تھیں ...
اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں ...
میرا بیٹا زیادہ تھکا گیا ہے ...آنی نے نرمی سے پوچھا
پتہ نہیں آنی یہ جسمانی تھکاوٹ ہے یا دماغی ..اس نے سوچا
کیا بات ہے...آنی نے اسکی خاموشی محسوس کی
آنی زندگی میں سکون کب آئے گا ..میں اب تھک چکا ہوں ...اس نے اپنا سر انکی گود میں رکھا
میرے بچے زندگی تو نام ہی سکون اور بے سکونی کا ہے ....اگر ساری عمر تمہیں سکون مل جائے تو تم اس پروردگار کو کیسے یاد رھو گے ...آنی نے اسکے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
ہممم....اسنے بس ہنکارا بھرا
وہ ناسمجھ ہے نادان ہے اور جذباتی بھی ..اس نے مجھے سب بتا دیا ہے ..یہ خناس صائمہ اور بلال نے اسکے دماغ میں بھرا تھا .....اب جب صائمہ کو اپنے کیے کی سزا مل گئ ہے تو وہ اسے سب کچھ سچ بتا کر معافی مانگنے آئی تھی ....اس نے اسے معاف کر دیا ...تم بھی عیشل کو معاف کر دو ..آنی کی بات پر اس نے آنکھیں کھولیں
آنی میں اسکے لیے اتنا ہی بے اعتبار ہوں ...وہ کسی کی بھی باتوں میں آکر مجھے برا سمجھنے لگ جائے گی ...یہ چیز میری برداشت سے باہر ہے ...وہ جانتا تھا کسی نے اسکے دل میں غلط فہمی ڈالی ہے لیکن اسے برا لگا تھا یوں بے اعتبار کیے جانا ...
بیٹا میں کہہ رہی ہوں نا وہ جذباتی ہے ...وہ ایسے لوگوں میں نہیں رہی اسکا ذہہن اتنی دور کا نہیں سوچ سکتا ...ویسے بھی وہ غصے کی تیز ہے ..اب تمہیں ہی اسے سمجھانا ہے ...
وہ ایسی کیوں ہے آنی ...وہ سب خود کیوں نہیں سمجھ جاتی ہر دفعہ ضروری ہے کہ وہ میرا دل دکھائے ...یزدان نے اپنا دل کھولا
دانی بیوی کے باری میں اسلام میں کہا گیا ہے کہ وہ مردوں کی کھیتیاں ہیں ...کھیتی جانتے ہو کیا ہے ...جس میں فصل کاشت کی جاتی ہے ....کھیتی میں فصل لگاؤں تو اسکی دیکھ بھال بھی کرنی پڑتی ہے ...اسکے ساتھ اگنے والی کھاردار جھاڑیوں کو الگ کرنا پڑتا ہے جیسے بیوی کی بری عادتوں کو اس سے الگ کیا جاتا ہے ...کھیتی کو وقت پر پانی اور کھاد ڈالی جاتی ہے اسی طرح بیوی کو پیار کے بول دیے جاتے ہیں شوہر کی طرف سے ...مرد کو پتہ ہونا چاہیے بیوی سے کس وقت کس لہجے میں بات کرنی ہے...اتنی احتیاطوں کے بعد ہی تو فصل اچھی ملتی ہے ...اور اتنی ہی احتیاطوں کے بعد زندگی بھی لہلاہاتی ہے...
وہ آنکھیں موندیں آنی کی باتیں سن رہا تھا ..حقیقتاً انکی باتوں نے اسکے لیے سوچ کے نئے در کھولے تھے..
ایک اور بات بولوں بیٹا ...میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں ...انکی خامیاں ان تک ہی ہونی چاہیے ...آئندہ کبھی بھی ایسا موقع مت آنے دینا کہ مجھے دوبارہ اسکے بارے میں اسطرح بات کرنی پڑے...تم میری بات سمجھ رہے ہو نا ...انہوں نے اسکی پیشانی پہ پیار کرتے ہوئے سمجھایا ...
جی آنی ...ا تھینک یو آپ نے میرے سوچنے کانظریہ بدل دیا ہے...میں پوری کوشش کرونگا آئندہ جو کچھ بھی ہو ہمارے درمیان ہی رہے ...اس نے انکا ہاتھا تھام کر یقین دلایا
شاباش ..چلو اب اپنے کمرے میں جاؤ ...میری عیشو اتنی دیر سے انتظار کر رہی ہے ...
اوکے ...وہ انکے کہتے ہی فورا اٹھاتھا
______________________________________
یہ دنیا مکافات عمل کا دوسرا نام ہے ...صائمہ نے جو کیا اسکا صلہ اسے اس دنیا میں ہی مل چکا تھا . .
اسکے سسرال والے اسکے جہیز کا سارا سامان بیچ کر خود امریکا واپس چلے گئے تھے ...
یہ رات کی سوئی صبح مالک مکان کے آنے پر اٹھی ...
مالک مکان اس سے گھر کا دس لاکھ کرایہ مانگ رہا تھا ...
آپ میرے شوہر سے مانگیں اسطرح مجھ سے کیوں مانگ رہے ہیں...وہ اسکے لہجے پہ خفا ہوئی
او بی بی وہ رات کو چلا گیا ہے جاتے ہوئے مجھے فون کیا تھا اس نے کہ تجھ سے پیسے لے لوں ورنہ تجھے بیچ دوں ...اسکی بات پر صائمہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ...
بیوی ہوں میں اسکی ایسا کیسے بول سکتے ہیں وہ ....
اب نہیں ہو بیوی ...یہ کاغذات ہیں طلاق کے ....مالک مکان اس سے
پہلے آیا تھا لہذا کاغذات اس نے پہلے دیکھے تھے
وہ کاغذات دیکھ کر حق دق رہ گئ
بڑی مشکلوں سے وہ مالک مکان سے کل تک کا وقت مانگ کر اپنے گاؤں آئی ...اسکی آپ بیتی سن کر گھر میں بھونچال آ گیا ...
ملک مکان اگلے دن ہی پیسے لینے آ چکا تھا ..مجبورا انہیں پیسے دینے پڑے ...اب صائمہ کی آنکھیں کھل چکیں تھیں ...وہ سیدھا عیشل کے پاس آ کر اسکے پاؤں پکڑ کر بیٹھ گئ..
اسے ساری حقیقت بتائی کہ اس دن بلال راجپوت نے عدیلہ کے بارے میں جھوٹ بولا تھا ...عدیلہ گھر سے بھاگ گئ تھی کیونکہ اسکے بھائی اسکا حصہ لینا چاہتے تھے لیکن وہ شہر میں پڑھ رہی تھی اس لیے اپنا حق جانتی تھی سو بھاگ گئ...
عیشل نے اسے تو معاف کر دیا تھا لیکن خود سچ جاننے کے بعد وہ بے سکون ہوگئ تھی ..
_____________________________________
وہ دروازہ کھول کر کمرے میں آیا ...
عیشل صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اسے دیکھ کر کھڑی ہو گئ ...
وہ اسے نظر انداز کرتا الماری کی طرف بڑھا ...کپڑے لیکر واش روم گھس گیا
شاور لیکر باہر نکلا تو عیشل ویسے ہی کھڑی تھی ...
وہ شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر کنگھا کرنے لگا...
یزدان ....عیشل نے اسکے قریب آکر پکارا ...
شیشے میں نظر آتے عکس سے یزدان نے بمشکل نظریں چرائیں ..لیکن بولا کچھ نہیں ...
یزدان ...آئی ایم سوری ...عیشل معافی مانگتے ہی رونے لگی
اور بس یزدان کی حد بھی یہی تک تھی ...
یار رو کیوں رہی ہو ...چپ کر جاؤ ..تمہارے آنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں ...وہ کنگھا نیچے رکھتا اسکی طرف بڑھا تھا
میں بہت بری ہوں نا یزدان ....
ہاں بہت بری ہو...بچپن سے میرے دل پہ قبضہ جما کر بیٹھی ہو ...
میں سیریس ہوں یزدان ...
تمہارے آنسو دیکھ کر میں بھی سیریس ہو گیا ہوں ...آج مجھے پتہ چلا عورت کے آنسو تو واقعی ایٹم بم سے بڑے ہوتے ہیں ...وہ اسے پکڑکر بیڈ پر لایا
میں آپکو بہت تنگ کرتی ہوں نا ...مجھے معاف کر دیں
ہاں تنگ تو کرتی ہو...چوبیس گھنٹے میری نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہوتی ...لیکن جیسے ہی ہاتھ بڑھا کر پکڑنا چاہتا ہوں ویسے ہی بھاگ جاتی ہو...وہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی ایزی ہو کر جواب دے رہا تھا
جہاں محبت ہو وہاں محبوب کے بڑے بڑے گناہ بھی دل خود بخود معاف کر دیتا ہے ...
میں نے آپکو بہت ہرٹ کیا تھا نا...وہ جانتی تھی لاعلمی میں وہ اسے کافی دکھ دے چکی ہے
ہاں بہت ہرٹ کیا ...مجھے بے اعتبار کر کے ...اس نے
سچ بولا
میں اب آپ کو کبھی ہرٹ نہیں کرونگی...بلیو می ...وہ اسے یقین دلانا چای رہی تھی
اور اس وقت وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ یزدان نے بے اختیار ہو کر اسے گلے لگاتے اسکے گرد اپے بازؤوں کا حصار باندھا تھا
مجھے بس ایک یقین سونپ دو ایشے ...تم ہمیشہ میرا یقین کرو گی ...کوئی کچھ بھی کہے لیکن تم میرا اعتبار کرو گی جیسے مجھے تم پہ یقین ہے بالکل ویسے ہی ...وہ اس سے یقین مانگ رہا تھا وہ جانتا تھا کسی بھی رشتے میں اعتبار سب سے ضروری چیز ہے
آئی پرامس ..میں اب کبھی آپکو بے اعتبار نہیں کرونگی ...وہ اسکے سینے سے لگی اسے اپنا یقین سونپ رہی تھی
تھینک یو ایشے ...ایک یقین اور بھی دے دو ...
یزدان کی بات پر عیشل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
کیا ...
یہی کہ جس لڑکی پہ یزدان ملک دل ہارا ہے وہ لڑکی بھی اسے بے حد چاہتی ہے ....اس نے شرارت سے کہا
عیشل کی نظریں جھک گئیں ...اظہار بہت مشکل کام تھا
کہو نا ایشے...اس نے اصرار کیا
عیشل نے اپنا سر مزید جھکا لیا ...
ایشے ...پھر سے آواز آئی تھی
یزدان ملک جس لڑکی پہ آپ نے دل ہارا ہےوہ لڑکی بھی آپکو دل و جان سے چاہتی ہے ...وہ اپنی زندگی کا ہر دن آپ کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے ....عیشل نے ہولے سے اعتراف کیا
I will be with you today , tomorrow and forever...یزدان نے اسے خود میں چھپاتے ہوئے اسی کے الفاظ میں یقین دلایا ....
عیشل نے ان شاءاللہ کہتے ہوئے خود کو یزدان کے حوالے کیا تھا...زندگی کی تمام چاہتیں اور خوشیاں اپنے بازو پھیلائے انکی منتظ تھیں
.
ختم شد