لاہور کے مصطفیٰ ولاز سے بھی کہی بڑا اور خوبصورت ترین کمرہ اسلام آباد کے بھی اس ولاز میں تھا۔۔۔
لاہور اور یہاں کے گھر میں ایک چیز بلکل سیم تھی وہ تھا اس گھر کا بڑا خوبصورت لان۔۔۔
اس گھر کے اوپر کی منزل کے پہلے روم سے اس لان کا منظر اور بھی دلکش لگتا جب فل وال ونڈو کے سامنے کھڑا ہو کر دیکھا جاتا۔۔۔
بلند بلا پہاڑ۔۔۔
اسلام آباد کا ٹھنڈا موسم۔۔۔
اس پوش علاقے میں کوئی شور نا تھا۔۔۔
بس ہر طرف سکون اور ایک عجیب کا طلسم تھا جو ایک بار وہاں کھڑا ہو کے باہر کا منظر دیکھتا تو کئی کئی وقت وہاں کھڑا گزار دیتا۔۔۔
صبح کا اجالا پوری طرح سے اسلام آباد کو روشن کر چکا تھا۔۔۔ اکتوبر کے مہینے میں بھی اچھا خاصا موسم ٹھنڈا تھا۔۔
15: 10بج گے تھے۔۔۔ اس گھر میں پہلی صبح تھی۔ ملازم ناشتے کی تیاری میں تھے۔۔ نائل مصطفیٰ، مھین باہر لان میں بیٹھے اپنی صبح کو اور بھی خوبصورت بنا رہے تھے جبکہ ماہم اور میره گھوم پھر کے گارڈن کا دورہ کرنے میں مصروف تھی۔۔۔
گول بیڈ پر سفید اور گلابی بیڈ شیٹ اور کوور شیٹ۔۔۔ بیڈ کے چاروں جانب سے نیٹ کے پردے لٹک رہیں تھے۔۔۔ اس نرم بستر پر ایک پری دنیا جہاں سے بے خبر سوئی ہوئی تھی۔۔۔ لمبے بروان بال تکیے پر بکھرے پڑے تھے۔۔۔
سویاوجود نیند میں کسمایا۔۔۔ پر نیند میں خلل پڑ چکا تھا پھر درے درے بلی آنکھیں کھلی۔۔۔
کچھ دیر لگی تھی نور کو منظر صاف دکھنے میں۔۔۔
نئی جگہ۔۔۔
نیا روم۔۔
سب چینج۔۔۔
اٹھ کے نور نے ایک نظر پورے کمرے میں ڈالی۔۔۔
افنان پاس ہی ایزی چیئر پر دراز بے ترتیب آنکھیں بند کچی نیند میں تھا۔۔ نور کی ہلکی سی حل چل سے افنان کی آنکھ بھی کھل گئی۔۔۔
افی بھائی۔۔۔ ہم۔۔۔
اسلام ؤ علیکم!!!! گوڈ مارننگ۔۔۔
ہم رات کو اسلام آباد گھر آ گے تھے اور اس ٹائم آپ اس ہی گھر کے ایک روم میں سو رہی ہے۔۔
پر ہم آئے کب تھے۔۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔ نور نے جمائی لتیے ہوئے پوچھا۔۔۔
آپ کار میں ہی سو گی تھی پھر ہم نے آپ کو اٹھنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔اس لئے۔۔۔آپ کو پتا نہیں چلا۔۔۔
اففف۔۔۔ کی۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔ بھائی۔۔۔ مطلب سچ میں۔۔۔ ہم گھر میں آ گے۔۔۔ اور آپ نے بتایا نہیں ہمیں۔۔۔ ایک رات بھی گزر لی وہ بھی پہلی۔۔ اور پہلی صبح بھی۔۔۔ نور اب اچھی خاصی ناراضی کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔
مطلب سچ میں۔۔۔ آپ کو پتا تھا نہ ہم کتنے عرصے سے ویٹ کر رہے تھے اور گھر میں آ بھی گے تو پتا بھی نہیں چلا۔۔۔
کوئی ایسا کرتا ہے کسی کے ساتھ۔۔۔ ہم ناراض ہے اب سب سے۔۔۔ کسی کو ہماری پروا ہی نہیں۔۔۔ نور کو اب سچ میں افسوس ہو رہا تھا۔۔۔
ہم کیسے سو گے کل۔۔۔ اور کل رات سے سو رہے ہے۔۔۔ ہا۔۔۔ئے۔۔۔ہائے۔۔۔۔ سب مِس ہو گیا۔۔۔بلی آنکھیں میں نمی اتری۔۔۔
افنان چیئر سے اٹھ کے نور کے پاس بیڈ پر آیا تھا۔۔۔ چہرے پر کندھے پر بکھرے بال سہی کیے گے۔
عین کل شام میں آپ کے سر میں بہت درد تھا۔ میں نے آپ کو ٹیبلٹ دی تھی پھر آپ سو گی۔ اگر میں آپ کو نہ دیتا تو آپ کی طبیت زیادہ خراب بھی ہو سکتی تھی۔بس اس لئے میں چاہتا ہوں آپ نے اب یہاں ہی تو رہنا ہے آرام سکون سے سب انجونے کرنا پر آپ کی ہیلتھ زیادہ اہم ہے ہم سب کے لئے۔۔۔ ہاں۔۔
۔
عین نے مثبت میں سر ہلایا۔۔۔ پر ہم نے تو سب مس کر دیا نہ۔۔۔
نور کو اب تک افسوس تھا۔۔۔
کچھ بھی مس نہیں کیا رات میں سب سو گے تھے آتے ہی۔۔ اور کچھ دیر پہلے ہی جاگے ہے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا کسی نے۔۔
۔
سچ ابھی گھر بھی نہیں دیکھا کسی نے؟؟
نور نے حیران اور خوشی سے افنان نے چہرے کی جانب دیکھ کے سوال کیا۔۔۔
جی سچ میری گڑیا۔۔ اور سب سے فنن بات آپ کو بتاؤں۔۔
کل رات میں ماہم اور میره کو اپنا روم ہی نہیں تھا مل رہا۔۔ کافی دیر یہاں وہاں گھومتی رہی۔۔۔
ہاہا۔۔۔ ہاہا۔۔۔ سچ میں ایسا ہوا۔۔ نور کا قہقہ روم میں گونجا ۔۔۔۔
ہاں ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔ افنان ابھی بول ہی رہا تھا کے روم کا دروازہ کھلا اور پوری مصطفیٰ فیملی اندر تھی۔۔۔
میره اور ماہم تو نور کو جاگتا دیکھ کے شروع ہو چکی تھی۔۔۔
قسم سے نوری کوئی بہت ہی بے وفا ہو۔۔۔ کل کی سوئی ہوئی ہو کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔۔۔ پر نہیں۔۔۔ آرام ایسے کر رہی تھی کے پیدل چل کے آئی ہو لاہور سے اسلام آباد۔۔۔
آخری بات پر سب کا قہقہ اس گھر میں میں سنا گیا۔۔۔
تو آپ سب نے کون سا کچھ کر لیا۔۔۔ رومز تو آپ کو مل نہیں رہے تھے۔۔ بڑی آئی ہمیں باتیں کرنے والی۔۔ نور نے منہ بنا کے اصل مودا بتایا۔۔۔
جس پر میره اور ماہم نے ایک ساتھ افنان کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا ان دونوں کے اچانک دیکھنے پر سیریس ہو گیا۔۔۔
افی بھائی آپ نے ساری رپورٹ بھی دے دی۔۔ کبھی ہماری بھی سائیڈ لے لیا کرے کچھ نہیں ہوتا۔۔ ہم بھی آپ کی ہی چھوٹی سسٹر ہی ہے۔۔
میره نے اپنا مذاق بنتا دیکھا تو افنان کو ہلکا سا طنز کیا۔۔
اچھا آپ سب تو جان ہے میری۔۔۔ پر۔۔۔
پر کیا؟؟
پر عین تو دل جگر ہے اپنا۔۔۔ افنان نے ایک پیار بھرا حصار بندھا۔۔۔
توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ دل بھی یہ تو جو لاہور میں وہ کون ہے۔۔۔ کیا زمانہ آ گیا بھلا۔۔۔ میره نے بڑھی بیبیوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کے بولا۔۔۔
ہاہاہا میره بس کرو بچے۔۔۔ نائل اور مھین بچوں کے انداز پر مسکرا رہیں تھے۔۔
وہ الگ ہے ان سب سے۔۔۔وه ابھی اس گھر میں نہیں آئی اور نا ہی میری لائف میں محرم کے رشتے سے سو۔۔۔
۔
جی۔۔۔ سمجھ گے بابا جی۔۔۔ آپ تو درس شروع کرنے لگ گے ہے۔۔۔
ماہم کو افنان کا معلوم تھا اب ایک پورا گھنٹہ کہی نہیں گیا۔۔۔پر اپنابول کے بات ختم کر دی گئ۔۔۔
عین ان سب میں چپ تھی۔۔۔ اس خوبصورت صبح کا آغاز بہت خوبصورت ہوا تھا۔۔۔ اپنوں کے ساتھ اس کے اپنے شہر میں۔۔۔
چلو بہت ہو گی باتیں سب نیچے چلو ناشتہ بھی کر لینا چاہے۔۔۔
ماہم اور میره اک ساتھ روم سے غائب ہوئی۔افنان اپنے روم میں فرش ہونے چل دیا۔۔۔
روم میں اب عین مھین اور نائل تھے۔۔
رات میں ٹھیک سے نیند آئی میری بچی کو۔۔ مھین اٹھ کے نور کے پاس آئی۔۔
جی ہمیں تو کچھ یاد بھی نہیں ماما۔۔۔ کار میں جب آ رہے تھے تو۔۔۔ تب میرے سر میں بس درد سٹارٹ ہو گیا پھر ٹیبلٹ لی تھی۔۔۔
نور نے اپنی بلی آنکھیں میں معصومیت لئے بتایا۔۔۔
کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا اب۔۔۔
انشاءلله۔۔۔ آواز نائل کی تھی اپنی جگہ کو چھوڑ کے نور کی دوسری سائیڈ پر آئے۔۔۔
معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑے یہ گڑیا اب اپنے ڈیڈی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے۔۔
میری بچی۔، کتنی معصوم ہے۔۔۔ نازک سی۔۔۔ اور باہر کی دنیا اتنی بری۔۔۔ باہر کیا یہاں تو اپنے ہی نہیں بخشتے۔۔۔ یہ کیسے رہے گی ہم سب کے بغیر۔۔۔ اس کو تو لوگوں کی چلکیوں کا نہیں پتا۔۔۔ جو جیسا کہتا ہے ویسی ہی ہو جاتی ہے۔۔
کبھی یہ۔۔۔ دور چلی۔۔
۔
نہیں نہیں۔۔۔ یہ کبھی بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔
مھین کہا کھو گی ، چلے نیچے بچے ویٹ کر رہے ہو گے۔۔۔
مھین اپنی کھیلی دنیا سے لوٹی۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ بلکل۔۔۔۔
یا اللہ رحم۔۔۔ ملک میرے گھر کو اسے ہی رکھنا ہستا مسکراتا۔۔۔
امین۔۔۔
دل ہی دل میں اپنے رب کو مختب کیا۔۔۔ التجا۔۔۔ دعا کی گی۔۔۔
. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ۔۔۔۔ اللہ۔۔۔ یہ کیا۔۔۔ نوری یار اب تو خود کچھ کھا لیا کرو۔۔۔نہیں تو سب نے اپنے ہاتھ اترور کے رکھ لینے۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔ یہ چھوٹی جان خود کبھی نہیں کھاتی کھانا۔۔۔ اس کا پیٹ ہی چھوٹ سا ہے۔۔۔ ابھی دیکھنا بھر جائے گا۔۔۔ میره نے ناشتہ کرتے ھوے جواب دیا۔۔۔
نور محض سن کے یہ باتیں دوسرے کان سے نکل رہی تھی۔۔۔
اسے پسند تھا مھین نائل افنان کے ہاتھ سے کھانا۔۔۔
دوسری وجہ نور تھوڑا سا کھا کے فل ہو جاتی تھی۔۔۔ وجہ ہارٹ ' دماغ کا ٹھیک سے کام نا کرنا۔۔۔ پھر اس پر ستم اس ننی جان پر اتنی دوائیاں کھانی۔۔۔۔
نور کا رونا تھا یہ روز کا۔۔۔۔ اس کو بس اس گھر کے ہی لوگ سمبھال سکتے تھے۔۔۔۔
ابھی بھی بیٹھی نائل کے ہاتھ سے ناشتہ کر رہی تھی۔۔۔ ساتھ ساتھ اپنے پلان تیار کر رہی تھی۔۔۔
کہا گھومنا۔۔۔ کہا جانا۔۔۔ کیا سب سے پہلے کرنا۔۔۔
عین آپ ابھی فلحال ریسٹ کرے گی پھر یہ گھومنا پھرنا ہوتا رہے گا۔۔۔ کچھ دنوں میں یونیورسٹی میں کلاسز سٹارٹ ہو جائے گی اس سے پہلے کمپلیٹ ریسٹ۔۔۔۔
افنان نے سارا تیار کی پلان مٹی میں ملا دیا تھا۔۔۔
نا۔۔۔ نہیں بلکل بھی نہیں۔۔۔ مجھے اسلام آباد دیکھنا ہے سارا۔۔۔ بس اب نہیں روکو گی میں۔۔۔ آپ نے افی بھائی پرومیس کیا تھا نا۔۔۔
وعدہ یاد کروایا گا۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔
پر کچھ نہیں۔۔۔ انجونے کرے گے سب۔۔۔ پلزز۔۔۔
اوکے پر اپنا خیال بھی رکھنا ہے۔۔۔
وہ آپ سب ہے نا میرے ساتھ آپ سب رکھ لینا۔۔۔ پورے سکون سے جواب دیا گیا۔۔۔
ماہم اور میره اس بات پر ہنسے۔۔۔ کیوں کہ ان کا بھی شوق پورا ہو رہا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر کی نماز کے بعد معمول کی طرح آج بھی محمش اپنی آنی جان۔۔۔ آہینور کے کمرے میں تھا۔۔۔۔
سفید شلوار قمیض میں سر پر ٹوپی پہنے روز کی طرح پرنور چہرہ لئے ہوا تھا۔۔۔
۔
شیلف سے قرآن کو اٹھایا پھر چوم کے عقیدت سے اپنی دونوں آنکھوں کو لگا کے درود پڑھا گیا ان سب میں محمش کی آواز اونچی تھی وه نا صرف قرآن پڑتا تھا بلکے اپنی آنی کو روز سناتا بھی۔۔۔
آواز کی خوبصورتی اور الفاظ کی تحسیر سننے والوں کو ایک الگ کی سرور بخشتی۔۔
میٹھا لہجہ، کھلی بلند آواز۔۔۔۔ اللہ نے اس لڑکے کو ناصرف خوبصورت بنایا تھا بلکے اس سے زیادہ خوبصورت آواز عطا کی تھی جب بھی اللہ کا کلام پڑھا جاتا محمش ہو دیکھ کے گھر والے ہی نہیں باہر کے لوگ بھی عجیب طلسم کا شکار ہو جاتے۔۔۔اس کی آواز میں نشہ تھا جو ایک بار سنتا بار بار سننے کی فرمائش کی جاتی۔۔۔
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان ، رحم کرنے والا ہے
وہ سراپا رحم ہے۔
اس نے قرآن کا علم دیا۔
اس نے انسان کو بنایا۔
اسے واضح کرنا سکھایا۔
سورج اور چاند حساب میں ہیں۔
اور ستارے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں۔
اور آسمان کو اس نے بلند کیا اور ترازو رکھ دی۔
اور وزن کو انصاف پر قائم کرو اور ترازہ میں کمی نہ کرو۔
۔
۔
آواز کا جادو ہر سو پہل رہا تھا۔۔ سوئی ہوئی اس کی آنی کے چہرے پر بھی سکون اطمینان سا تھا۔
سورہٴ کے مکمل ہونے کے بعد اس نے کچھ دعائیں پڑھی اور آہینور پر پھوک ماری۔ سورہ کا حصار اپنی آنی کے چاروں جانب بندھا۔۔
۔
۔
آپ کو پتا ہے آنی آپ کی نور اور میری ڈول کو میری آواز کتنی پسند تھی نہ۔۔۔ اور اب تو سب کہتے ہے کہ میری آواز میں تحسیر ہے جادو ہے۔ اب جب ڈول مل جائے گی، تو میری آواز سن کے کیسے ریکٹ کرے گی؟
۔
محمش آہینور کا ہاتھ پکڑے ڈول کی باتوں میں مصروف تھا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی یادوں کو یاد کیا جا رہا تھا۔ یہی وقت ہوتا تھا جب محمش آہینور سے ان کی بیٹی کی ڈیروں باتیں کرتا۔۔۔۔۔
۔
۔
"یہ تختِ خدا ہے اسے تم پاک ہی رکھنا
ہر شخص کو اس دل میں بسایا نہیں کرتے"
(#copied)