اکتوبر کا پورا مہینہ مصطفیٰ ولاز گھن چکر بنا ہوا تھا اس گھر کا ہر فرد اپنے کام وقت پر پورا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
نائل اور افنان اپنے بزنس کو اسلام آباد شفٹ کرنے کی کوشش میں تھے وہاں ہی اس گھر کی خواتین پیکنگ میں مصروف نظر آتی۔۔
بس ایک تھی۔۔۔ جو ان سب سے الگ اپنی دنیا میں گم تھی۔ جس کی اپنی ہی ایک دنیا تھی۔ جو پسند ہو اس میں کھو کہ اپنا آپ بھول جانا اس لڑکی کی خوبی تھی۔۔
میں بور ہو گی ہوں۔۔۔
کیوں بور کیوں ہو گی ہماری بیٹی؟؟
بور نا ہوں تو اور کیا کرو ماما۔ سب کام کر رہے ہیں۔۔ سب مصروف ہیں مجھے آپ سب کوئی کام نہیں کرنے دے رہے تو میں اسے اکیلی بور ہی ہو گی نا۔۔۔
اؤہ۔۔۔۔تو یہ بات ہے۔۔
جو کام آپ کو دیا تھا وہ ہو گیا؟؟ مھین نے اپنے کپڑے بیگ میں رکھتے ہوئے پوچھا۔۔ایک نظر اپنی بیٹی پر بھی ڈالی جو بہت مزے سے بیٹھی اپنی ماما کے کام کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
نہیں نا وہ بھی مجھے بھائی نے کرنے نہیں دیا۔۔ ماہم اور آپی نے سب خود ہی کر لیا۔۔ میری سب چیزوں کی پیکنگ۔۔۔ اور باقی سب بھی۔۔۔ منہ کے عجیب زاویعے بنائے گے۔۔
تو اچھی بات ہے نہ میری بیٹی ریسٹ کرے گی۔۔ جلدی سے ٹھیک ہو جائے گی پھر آپ جو چاہے کرنا کوئی بھی نہیں روکے گا۔۔
ہم اسلام آباد رہیں گے اب تو،....... کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔۔۔ مطلب ڈیڈی اور بھائی کا آفس۔۔۔ آپ کو۔۔۔نور نے آرام سے سر نیچے جھکا کے پوچھا، جیسے ڈر ہو کہ غلط سوال پوچھ لیا ہے۔۔
آپ کے ڈیڈی اور بھائی آرام سے اپنا سارا ورک وہاں کر سکتے ہیں سب سیٹ ہو گیا ہے وہاں۔۔
اور جہاں تک میری بات ہے تو مجھے کیوں برا لگے گا بولو۔۔ مھین نے بہت نرم لہجے میں بولا تھا چہرے پر مسکان تھی۔۔۔
کیوں کہ ہم اب اسلام آباد چلے جائے گے تو یہاں ماموں ہو گے آپ ان کے بغیر کیسے وہاں۔۔۔۔ اور آپی بھائی۔۔۔ آپی کی جب شادی ہو جائے گی تو وہ ہمیں چھوڑ کے یہاں آ جائے گی اتنی دور تو میں کیسے رہو گی اور باقی سب بھی۔۔۔۔اداسی کی اصل وجہ بتائی گئی۔
اچھا۔۔۔ تو یہ بات ہے اس لئے آپ اداس پریشان اس لئے ہو۔۔۔ ہیں نہ۔۔۔
سر کو ہممم میں ہلایا گیا۔۔
تو میں کیوں اداس ہوں گی بھلا۔۔۔ میرے اپنے میرے بچے سب میرے ساتھ ہو گے۔ اور بھائی تو آتے جاتے رهتے ہے مل لے گے۔۔ اور آپ کی آپی کا بھی کوئی حل نکل لے گے کہ وہ آپ کے میرے پاس ہی رہے۔۔مھین نے اپنے کام کو سائیڈ پر کر کے نور کو اپنے حصار میں لے کے پیار سے بتایا۔۔۔
سچ میں۔۔ ایسا ہو سکتا ہے؟؟
جی بلکل ہو سکتا ہے۔۔ دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔۔۔
واہ۔۔۔ پھر بہت مزہ آئے گا میں آپی اور ماہم کو بتا کہ آتی ہوں۔نور خوشی سے بھاگنے کو تھی۔۔
ہاں آپ جاؤ پر آرام سے بھاگنا بلکل بھی نہیں۔
اوکے جو حکم ماما۔۔
نور نے سر کو خم دے کے شرارت سے کہا اور اپنا رخ میره کے کمرے کی جانب کیا۔۔۔
۔۔۔۔۔؛۔۔۔۔۔۔۔
مھین نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا۔۔ کہی بہت دور کی یاد پھر سے آنکھوں کے سامنے آئی تھی۔۔۔
مجھے نہیں پتہ کہ بچی کے ساتھ کیا مسئلہ ہوا تھا پر اس ایج میں اتنی پریشانی یا خوفزدہ ہونا عام بات نہیں ہے اس کا اثر بچی پر پڑا ہے۔
ہاں سب سے اہم بات بچی کو ایک ہارٹ اٹیک بھی آ چکا ہے۔ پروپر ٹریٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ہارٹ کافی کمزور ہے اور اب یہ ایسے ہی رہے گا۔۔
ہسپتال میں موجود ان تینوں وجود پر کوئی پہاڑ آ گرا تھا۔۔
پر کوئی تو حل ہو گا کہ عین ٹھیک ہو جائے۔۔افنان کو اپنی ننی سی جان کے بارے میں جان کے بہت دکھ ہوا تھا۔۔
حل یہی ہے کہ وقت پر دوا دی جائے۔۔
پریشانی والی کوئی بھی بات نور کے سامنے نا ہو زیادہ سے زیادہ خوش رکھا جائے۔۔ ابھی ہم اور کوئی بھی سٹپ نہیں لے سکتے نور کی ایج اجازات نہیں دے گی۔۔۔ڈاکٹر ولید نے تسلی سے افنان کا کندھا تھپتھپیا۔۔۔۔۔
عام بچوں سے زیادہ خوبصورت یہ بچی محض چھ سال کی عمر میں ہارٹ کی مریض تھی۔۔۔ گھر میں جب یہ بات پتہ چلی تو سب پر سکتہ طاری تھا۔۔ گھر میں ہر کوئی نور کے درد پر سوگ میں ڈوبا تھا۔۔ افنان کی جان تو جیسے کسی نے کھنچ لی ہو۔۔
سات سال سے اٹھارہ سال تک یہ بات اس گھر کے سب افراد کو پتہ تھی سوائے نور کے۔۔۔نور کو اتنا ضرور بتایا گیا تھا کہ اس کا دل تھوڑا سا کمزور ہے اور اسے اپنا بہت خیال رکھنا ہے۔۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بتایا۔
مھین اپنی بیٹی کی تکلیف پر تڑپ جاتی تھی اور اس بار ثانیہ نے پھر سے اس گھر کی خوشیاں خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔۔
لاہورسے ان سب سے دور جانا بھی نور کی وجہ سے تھا۔۔۔ اور دوسرا اسلام آباد سے اس لڑکی کو عشق تھا۔۔۔
مھین کی آنکھوں سے ماضی سرک گیا تھا۔۔ اب بس آنکھوں میں آنسوؤں تھے جو چہرے پر بہہ رہے تھے۔۔
میرے بچوں پر اللہ کرم کرنا۔۔۔ میرے مولا مجھے اپنے گھر کا کوئی دکھ نہ دکھانا ۔۔ دل میں دُعاوں کا ایک ورد شروع ہو چکا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سالوں کے بعد آج کا دن اس پیلس کے لئے خوشیاں لانے والا تھا۔۔۔ مقدس وقت آنے والا تھا۔۔۔۔
پندرہ سال سے سوئے اس وجود میں ذرا سی ہل چل ہوئی تھی۔ایک زندہ لاش نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔ دائیں ہاتھ میں ذرا سی حرکت محسوس ہوئی۔۔ اس ہاتھ کے اوپر رکھا ہوا محمش کا ہاتھ۔۔۔
نیلی آنکھیں باہر کو نکلی۔۔۔۔ ضرورت سے زیادہ کھلی۔۔۔چہرہ پر ایک دم سے حیرانگی اتری۔۔۔
آ۔۔۔ آنی۔۔۔ جا۔۔۔ جان۔۔۔۔ میری آنی۔۔۔ خوشی تھی یا پھر خوف۔۔۔ پر نیلی آنکھوں میں نمی آئی۔ ۔۔
آغا جان۔۔۔۔ ماما۔۔۔۔ پاپا۔۔۔۔ معاذ۔۔۔ سب کو چیخ چیخ کے آوازیں دی جا رہی تھی۔۔۔
سب محمش کی آواز سن کے آئینور کے کمرے کی جانب بھاگے تھے۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔؟؟
محمش کا ہاتھ آئینور کی جانب تھا۔۔۔ بس ہاتھ ۔۔۔۔منہ سے کچھ بولا نا گیا۔۔۔ آنکھیں اب تک سرخی سے رنگی جا چکی تھی۔۔۔ نیلی آنکھوں پر اب سرخ چادر اُڈھی جا چکی تھی۔۔۔
کیا ہوا ماما کو بھائی۔۔۔؟؟
خوفزدہ اٹھارہ سال کا معاذ پوچھ رہا تھا۔۔۔
آنی نے اپنا ہاتھ ہلکا سا موو کیا۔۔۔ میں نے خود فیل کیا۔۔۔ میرے ہاتھ کے نیچے تھا اسے۔۔۔ آنی کا ہاتھ پھر میرا ہاتھ اوپر۔۔۔نیلی آنکھوں میں بھرے آنسوؤں پلکوں کی باڑ توڑ کے بہہ نکلے۔۔
سچ۔۔۔ آپ۔۔۔ سچ بول رہے ہو۔۔۔
جی سچ۔۔۔۔۔۔ آج سے آنی لوٹ آئے گی اپنی زندگی میں۔۔۔ اس کے پاؤں اس زمین کو چھونے والے ہے ۔۔۔۔ اس وقت وه اس شہر میں آنے کو ہے۔۔۔۔ یہ وقت بہت مقدس ثابت ہو گا۔۔۔۔ایک سحر تھا جو اس کو جکڑ چکا تھا۔
چہرے پر اب سکون اطیمنان تھا۔۔۔سکون بھی ایسا جو۔۔۔ کسی کو پانے کا تھا۔۔۔ جیسے انتظار ختم ہو رہا تھا۔۔۔
نوری میری بچی۔۔۔ میری نوری کی جان نور بہت جلد یہاں آئے گی۔۔۔ میری بچی۔۔آغا جان نے جھک کے اپنی بیٹی اپنی جان کے ماتھے کا ایک بوسہ لیا۔۔ پھر کان کے پاس سرگوشی ہوئی۔۔۔
"سنا۔۔۔ تمہارا شیر کیا بول رہا ہے۔۔۔ تمہاری جان کے قدم اس زمین کو چھونے والے ہے۔۔۔ انتظار ختم ہو رہا ہے۔۔۔ تم بھی واپس آجاؤ بس اب۔۔۔ ہم آپ کے بابا جانی۔۔۔آپ کے منہ سے جانی سننے کو ترس گے ہے۔۔۔ اور مت ترسنا۔۔۔ رحم کرنا بچے ہم بہت بوڑھے ہو گے ہے۔۔۔"
ایک اور بوسہ لیا گیا اور پھر آنکھوں کی نمی کو صاف کیا گیا۔۔۔
اس عمر میں بھی میری اولاد مجھے رلا رہی ہے ترسا رہی ہے۔۔۔۔آغا جان آج اصل میں بوڑھے لگ رہے تھے۔
اولاد کا غم۔۔۔ اپنی محبوب بیوی کا بچھڑ جانا۔۔۔ گھر کا بکھر جانا۔۔۔ بہت سے غم۔۔۔ پر آج خوشی کی طرف پہلا سفر تھا۔۔۔۔۔۔
سب کی آنکھیں نم تھی۔۔۔۔ کچھ دیر گزار کے سب اپنی اپنی منزلوں کی جانب روانہ ہو چکے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہی پڑھا تھا کے محبّت میں الہام نا ہو تو فٹے منہ ہو ایسی محبّت کا۔۔۔
۔'
تو محبّت میں الہام ہوتے ہیں سچ میں؟؟؟ سوال پوچھا گیا تھا۔۔۔
یہ منظر تھا نور انڈسٹری کے ہیڈ آفس کا۔۔ جہاں محمش اپنے جگری دوست ارون کے ساتھ بیٹھا کل رات کے خواب اور آج ہوئے واقع کے بارے میں بتا چکا تھا۔۔۔
ہاں محبّت میں الہام ضرور ہوتا ہے۔۔۔ پر سچی محبّتوں میں۔۔۔ جو یہاں سے ہو۔۔ اشارہ دل کی جانب کیا گیا تھا۔۔۔
اور عشق؟؟؟
عشق کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟
ہاہاہاہا۔۔۔
عشق۔۔۔
ہممم۔۔۔۔
عشق۔۔۔
عشق میں استخارہ ہوتا ہے۔۔۔
استخارہ؟؟
مطلب کیا میں سمجھا نہیں؟؟؟
جیسے محبّت میں الہام واجب ہے۔۔ ویسے ہی عشق میں استخارہ ہوتا ہے۔۔۔ ہاں۔۔۔ عشق میں کھلی آنکھوں سے استخارہ ہوتا ہے۔۔۔کھلی آنکھوں سے۔۔۔بات پر زور دیا گیا۔۔۔
میں اب بھی نہیں سمجھا تم بہت گہری باتیں کرتے ہو۔۔۔ارون نے پہلوں بدلہ۔۔
یہ باتیں سمجھنے والے کو ہی سمجھ آتی ہے۔۔۔ عشق میں، استخارے کا مطلب ہے کہ آپ کھلی آنکھوں سے آنے والا کل دیکھ لو۔۔۔ آنے والا لمحہ۔۔۔ آنے والا پل پہچان لو۔۔۔محسوس کر لو۔۔۔۔وہ جو جھلک ہوتی ہے نا وہ ان آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتی ہے۔۔۔وہی نظر۔۔وہی لمحہ۔۔۔۔ وہی پل۔۔۔۔ استخارہ ہوتا ہے۔۔۔
محمش اس پل بھی اس لڑکی کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ کسی اثر میں بول رہا تھا جیسے ابھی بھی وہ منظر سامنے ہو۔۔۔
اس شہزادے کی نیلی آنکھوں میں آج کسی اور کی جھلک بھی نظر آ رہی تھی۔
محبّت اگر پہلے ہی ظاہر کر دے کے یہ ہونا ہے۔۔۔ الہام ہو جائے تو پھر عشق میں استخارہ بھی واجب ہے۔۔۔
"عشق نازل نہیں ہوتا۔۔۔ عشق کو واجب کر دیا جاتا ہے۔۔۔ اور جو واجب کر دیا جائے اس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔۔۔ ہاں محبّت نازل ہوتی ہوتی۔۔۔ آہستہ آہستہ۔۔۔ اور جو محبّت میں بھی پھونک پھونک کے قدم رکھے تو سمجھ لینا چاہے اس کی منزل محبّت سے آگے کی ہے۔۔۔ نہیں تو محبّت میں کوئی اتنی احتیاط نہیں کرتا کہ سوچ سمجھ کے ہر قدم پر فیصلہ کریں۔۔۔"
تم بھی یہ سمجھ لو کے مجھے پہلے الہام ہوتا تھا۔۔۔ آج مجھے عشق کے" ع" کا استخارہ نظر آ گیا ہے۔۔۔ مجھے بھی اک جھلک نظر آ گی ہے۔۔۔ میں محبّت سے آگے کا سفر کر چکا ہوں۔۔۔ آج میں عشق کے "ع" کو پانے میں کامیاب ہوا ہوں۔۔۔ آج میں نے اس عشق کی جھلک دیکھ لی ہے۔۔۔ آج مجھے سکون آ گیا ہے۔۔۔ آج مجھے اپنا آپ یاد نہیں آ رہا۔۔ میں کیا تھا۔۔ کیا رہا۔۔۔ کیوں؟ ؟؟۔۔
کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔ مجھے اک جھلک کا عشق ہوا ہے۔ تو سوچو مجھے پوری جھلک نظر آئے گی تو کیا میں ہوش میں رہوں گا؟؟؟
نہیں۔۔!!!!
میری دھڑکن کچھ پل کے لئے نہیں۔۔ بلکے جب تک میرے آس پاس ہو گی تو یہ قابو میں نہیں ہو گی۔۔۔
پھر ہی پتا چلے گا الہام سے استخارے تک کا سفر کیسا دلکش کیسا دل کو مول لینے والا ہے۔۔۔
ایک جھلک نے مجھ پر سحر تری کر دیا ہے۔۔۔ آگے کا سفر بہت دلکش ،دلفریب، ہونے والا ہے۔۔۔
یہ دھڑکن پل پل بڑھ رہی ہے۔۔۔ ملاقات واجب ہو چکی ہے۔۔۔ بہت جلد۔۔۔ واجب ہو چکی ہے۔۔۔ عشق کا پہلا استخارہ واجب ہونے جا رہا ہے۔۔۔
میں نے اپنے رب کا مجھ پر واجب کیا گیا استخارہ دیکھ لیا ہے۔
ہاں۔۔!!!
ہاں۔۔۔۔ مجھ پر استخارے آج سے واجب ہو گے۔۔۔
محمّد محمش شاہ پر الہام کے بعد استخارے واجب کر دئے جا چکے ہیں۔۔۔محمش اب تک ایک سحر میں تھا۔۔۔ اس ہی سحر میں جکڑا سب بول رہا تھا۔۔۔
سامنے بیٹھا وجود اس شہزادے کو دیکھ کے پل پل حیرت میں ڈوب رہا تھا۔۔۔
ایک ایک لفظ سحر میں جکڑ رہا تھا۔۔
محبّت کا تو سنا تھا۔۔۔ آج عشق کا مطلب جانا چکا تھا۔۔
فکر سے پیار تک کا سفر۔۔۔
خلوص سے چاہت تک کا سفر۔۔
عزت سے احترام تک کا سفر۔۔۔
وفاؤں سے وعدوں تک کا سفر۔۔
دلوں سے دھڑکن تک کا سفر۔۔۔۔
بدن سے روح تک کا سفر۔۔۔
محبّت سے عشق تک کا سفر۔۔۔
الہام سے استخارے کا سفر آج ہوا تھا۔۔۔
منہ سے نکلنے والے الفاظ اس شخص سے عشق کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔۔ پر اس کو جس سے عشق تھا وہ کیسی ہو گی۔۔۔؟؟ جس کے عشق میں یہ شہزادہ اتنا خوبصورت بول رہا تھا۔۔۔ جس نے اپنے جگری دوست ارون پر بھی اک سحر طاری کر دیا تھا۔۔۔
کبھی یاد آؤں تو پوچھنا
ذرا اپنی فرصت شام سے
کِسے عشق تھا میری ذات سے
کِسے پیار تھا تیرے نام سے
ذرا یاد کر کہ وه کون تھا
جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا
وه جو جی اٹھا تیرے نام سے
وه جو مار مٹا تیرے نام پے
ہمیں بے رخی کا نہیں گلہ
کہ یہی وفاؤں کا ہے صلہ
مگر ایسا جرم تھا کون سا؟؟
گے ہم دعاوسلام سے
(#Copied)
۔..............................