رضا اور زینب کی دو اولادیں تھی۔۔۔
احتشام رضا۔۔۔ اور بیٹی مھین۔۔۔
احتشام کی شادی زینب بیگم نے اپنی بھنجی المیہ سے کی۔۔ اللہ نے احتشام اور المیہ کو تین خوبصورت بچوں سے نوازا۔۔
بڑا بیٹا غازی۔۔ پھر سدرہ۔۔ اورسب سے چوٹی ثانیہ جس کو سب ثانی کہہ کے بولاتے۔۔۔
مھین کی شادی احتشام رضا اور سب کی رضامندی پر احتشام کے بیسٹ فرینڈ نائل مصطفیٰ سے ہوئی۔۔۔
مھین اور نائل کے بھی تین بچے۔۔۔ بڑا افنان ۔(آفی ) افنان سے چھوٹی المیرہ جو کے سب کے لئے میره۔۔۔
پھر آتی تھی اس گھر کی جان۔۔ شہزادی والی آن بان رکھنے والی چھوٹی سی پری۔۔ اپنی معصوم سی اداؤں اور باتوں سے دل مول لینے والی۔۔۔
نورالعین۔۔۔
سب سے الگ۔۔۔کچھ معصومیت کا کمال کچھ اللہ کا یہ تراشا ہوا انمول موم تحفہ۔۔۔
خوبصورتی۔۔۔شکل صورت میں بھی سب سے الگ منفرد۔۔۔ جس کو دیکھ کے بار بار دیکھنے سے لوگ اپنی آنکھیں سہراب کرے۔۔ کوئی اک بار دیکھ لے تو نظر اس موم کی گڑیا پر ہی ٹھہر جائے۔۔
دیکھنے سےمعلوم ہوتا تھا یہ جیسے کانچ کی کوئی مورت ہو کہ ہاتھ لگا تو ٹوٹ کے بکھر جائے گی۔۔۔
اس گڑیا کی آنکھیں سب سے الگ تھی۔۔ باقی سب تو مانو دیوانے تھے ہی پر یہی آنکھیں خود اس معصوم کے لئے پریشانی بناتی تھی۔۔
وجہ۔۔۔۔۔؟؟؟
باقی سب فیملی کی آنکھوں کا رنگ براؤن جبک نور کی آنکھوں کا رنگ اُس کی ہی طرح سب سے الگ بلی آنکھیں تھی اس گڑیا کی۔۔۔ جو نور کو سب سے زیادہ پریشان رکھتی تھی۔۔
ایسا تو ہوتا ہی نہیں نہ۔۔ میری آنکھیں کیوں سب سے الگ ہے۔۔۔ عجیب بلی آنکھیں۔۔۔سب گھر والوں سے ہی انوکھی ہوں۔۔
ایسا نور کا مانا تھا۔۔۔ یا پھر نور اب بہت سی باتوں کو سوچنے لگی تھی وہ باتیں جن پر کبھی دھیان نہ دے پائی تھی۔۔۔
نورالعین کو سب ہی نور کہہ کر بولاتے تھے۔۔ پر افنان اپنی اس بہن پر جان لوٹتا تھا۔۔ پوری فیملی میں نور کو صرف افنان ہی عین بولا سکتا تھا۔۔۔
افنان کی عین۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشآء کی نماز اور سب کاموں سے فارغ ہو کہ محمش آغا جان کے کمرے میں آیا تھا۔۔
محمش آپ یہاں۔۔۔ سب خیریت بچے۔۔!!!
آغا جان نے اپنا چشمہ اتار کے کتاب کو بند کر کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔۔
محمش تھکن بھرے قدموں سے چلتا ہوا بیڈ کے دوسری جانب سے آ کے آغا جان کی شفقت بھری گود میں سر رکھ کے لیٹ چکا تھا۔۔
آغا جان کا ایک ہاتھ پکڑ کے اپنے سر پر رکھا تھا۔۔ آغا جان مدہم سا مسکرائے ضرور تھے۔۔
معاذ سو گیاہے۔۔۔
جی۔۔۔۔ سو نہیں رہا تھا بہت مشکل سے سلا کے آیا ہوں۔۔۔
اللہ ہمت دے میرے بچے کو۔۔۔ آسانی پیدا کرے۔۔۔ آغا جان نے ایک آہ ہوا کے سپود کی تھی۔۔۔
بہت تھکے ہوئےلگ رہے ہو آج محمش۔۔۔ کیوں تھاکتے ہو اتنا کام کر کے خود کو۔۔
۔
نہیں کام تو ڈیلی کا ہی ہوتا ہے آغا جان۔۔۔ آنکھیں بند کیے جواب دیا گیا تھا۔۔۔
کمرے کی ہر چیز اپنی جگہ ترتیب سے موجود تھی۔۔ خاموشی۔۔۔۔ سناٹا۔۔۔ اداسیاں۔۔ ویرانی چھائی ہوئی تھی۔۔۔ آواز صرف ان دو لوگوں کی آتی تھی جب کوئی بات کرتے۔۔
پھر صبح جو ہوا اس سے پریشان ہو؟؟
کیا نہیں ہونا چاہے مجھے۔۔۔ میں معاذ کو بلکل بھی اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ وہ چھوٹا ہے۔ شرارتی ضرور ہے پر اب وہ بہت شدت سے آنی کی کمی محسوس کرتا ہے۔۔
آپ نے دیکھا نہیں صبح وہ آنی کو بہت مِس کر رہا تھا۔۔۔ میں اِسے ایسے نہیں دیکھ سکتا۔۔
بس بچے قسمت میں اس کے ایسا لکھا ہے میں یا آپ کوئی بھی بدل نہیں سکتا۔۔ فیصلہ تو اٹل ہے۔۔ ہم دعا کر سکتے ہے وہ ہمارے بس میں بھی ہے۔۔۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد۔۔۔
محمش آپ کو وہ کبھی بھولی کیا؟؟؟
کیا کوئی سانس لینا بھولتا ہے آغا جان؟؟؟
وہ پتہ نہیں کہا۔۔۔ کس کے پاس ہو گی۔۔ کیسے کس حالات میں ہو گی۔۔۔ پھر بھی تم انتظار میں ہوں اس کے۔۔۔
پیار کیا ہے میں نے۔۔ پہلا پیار مجھے بھلا بھول سکتا ہوں۔
""وہ تھک جائے اور میرے سینے سے آ لگے
کچھ ایسی خواہشوں نے اب تک زندہ رکھا ہے بات صرف اُسے چاہنے کی نہ تھی
ہم تو قربان بھی ہو جاتے بات ساری اُس کے نظرِ کرم کی تھی.""
(از: میری حسین )
۔۔
۔،
تمہیں پتا ہے پیار انسان سے نہیں ہوتا۔ پیار اُس کے اخلاق اُس کی سوچ اُس کی باتوں سے کیا جاتا ہے ۔ صورت کا کیا ہے وہ آج اچھی ہے جوانی میں خوبصورتی ہو گی پر کچھ عرصے بعد وہ بھی ڈھل جائے گی
تب کیا پھر اس صورت پر پیار آے گا
تمہیں ۔۔۔ بلکل بھی نہیں۔۔۔ پیار ہمیشہ سیرت سے اخلاق سے کرنا۔۔
آغا جان سوچ رہے تھے شاید محمش کو خوبصورتی سے پیار ہو گا۔ وقت آنے پر بھول جائے گا پر یہ سوچ تھی۔ایسا نہ اتنے سالوں میں ہوا تھا نہ ہو سکتا تھا۔۔
آواز میں کھویا ہوا وجود یکدم ہوش میں آیا تھا۔۔۔۔۔۔
آغا جان پر مجھے تو پیار ہو گیا ہے وہ بھی بہت پہلےمیں نہیں جانتا کے مجھے اس کی کس بات۔۔۔کس وجہ۔۔۔ یا کیسے ہوا تھا۔۔۔ پر مجھے پیار ہو گیا۔۔۔۔۔
آنکھوں کی نمی کچھ اور بڑھی تھی پر اسے کوئی پروا نہ تھی پروا تھی تو صرف اس کی جس کی باتیں کی جا رہی تھی۔۔۔
جہانزیب شاہ اپنے پوتے کی اک اک حرکت نوٹ کر رہے تھے اس وقت وہ صبر کی حد کو چھو رہے تھے۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے میرا دکھ تم سے زیادہ ہے لیکن میں بھی تو صبر کر رہا ہو۔۔۔تم بھی حوصلہ کرو۔۔۔
تم تو میرے شیر ہو پھر کیوں کرتے ہو یہ سب میرے میں اب اور برداشت نہیں ہے کے میں اب اس گھر کا کوئی اور دکھ برداشت کرو۔۔۔خوش ہے وہ مجھے اپنے رب پر پختہ یقین ہے اللہ اسے کچھ نہیں ہونے دے گے۔۔۔
تم دعا کیا کرو نہ دیکھ لینا وہ آ جائے گی۔۔
سامنے بیٹھے وجود میں ذرا سی حل چل ہوئی تھی چہرہ اوپر کرنے کی دیر تھی بس آنسوؤں قطار در قطار بہہ رہے تھے۔۔۔ چہرہ سرخ۔۔ ہونٹ کپکپا رہے تھے۔۔۔۔
آغا جان میں کیسے بھول جاؤں اس کو وہ زندگی ہے میری۔۔۔ اور زندہ رہتے ھوے اپنی زندگی کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔۔۔
صبر کب تک کرو میں بولے کب تک۔۔۔۔ وہ کھو گئی ہوئی ہے۔۔۔۔ نہیں ملتی وہ۔۔۔۔۔
وہ ناراض۔۔۔ ہاں وہ بہت۔۔۔
۔ بہت ناراض ہے۔۔۔ اس لیے چھپ کے بیٹھ گئی ہے۔۔۔ سامنے نہیں آے گی
وہ۔۔ آپ لا دے۔۔۔۔۔مجھے کہی سے نہیں ملی۔۔۔
میں نے ہر جگہ دیکھ لیا ہے وہ یہاں کہی بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔
آج ایک شہزادہ۔۔۔ ایک خوبصورت مرد۔۔۔ ایک مشہور بزنس مین۔۔۔ اپنا صبر کھوتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔۔۔
میرے بچے میری جان بس کر دو۔۔۔ کیوں دل دکھا رہے ہو اپنے ساتھ ساتھ میرا بھی۔۔۔ جہازیب شاہ نے اگے بھڑ کے اپنے پوتے کو باہوں میں سمیٹا تھا۔۔۔۔ اب تک کا نہ ختم ہونے والا دکھ ایک بار پھر سے خود ہی سمیٹنا تھا۔۔۔
میرے مولا اب بس کر دے آزماش میں بہت گناہگار ہو مولا معاف کر دے اپنے اس بندے کو رحم کر دے۔۔۔۔ جہازیب شاہ دل ہی دل میں اپنے رب سے دعاگو تھے۔۔۔
۔
کچھ دیر بعد محمش گود میں سر رکھے باتیں کرتا کرتا ہی سو گیا۔ بکھرے بال۔۔ سوجی آنکھیں بند تھی۔۔۔ پلکوں پر نمی۔۔۔ اس گھر کا بڑا پوتا سب کو سمبھالتے تھک رہا تھا۔۔۔ اتنی لمبی آزمائش پر کون نہ تھکتا۔۔۔ پندرہ سالوں کی اس آزمائش میں اس گھر نے بہت کچھ کھویا تھا۔۔۔
واجب کی گئی آزمائش پر صبر تو آیا تھا پر در حقیقت سب اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔
آغا جان ابھی بھی سوئے ہوئے اپنے پوتے کے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے سہلا رہے تھے۔ اپنے دکھ کو اپنے رب کو سنا رہے تھے جانتے تھے وہی ہے جو رحم کرتا ہے۔۔۔ عطا کرتا ہے۔۔۔
بےشک۔۔۔۔۔
دل ہی دل میں رب کو مخاطب کیا جا رہا تھا۔۔۔ رات آہستہ آہستہ سرک رہی تھی۔۔ صبح کے اجالے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں میں بھی اجالے کے خوائشمند تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس کر دو لڑکی کوئی اتنا بھی نہیں روتا یار۔ نہ اگر وہ مر بھی گئی ہے تو کیا ہو گیا ہے سب نے مارنا ہی تو ہے ایک دن آج وہ چلی گی, کل ہم چلے جائے گے۔۔۔
نہ رو پلزز۔۔۔۔ماہم کب سے اس کو خاموش کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ پر وہ سن ہی نہیں رہی تھی۔۔۔
کی۔۔۔ کیوں چلی گی۔۔۔ ایسے بھی کوئی جاتا ہے بھلا۔۔۔ کوئی بھی نہیں جاتا ایسے۔۔۔
لو جی۔۔۔ خود ہی اندازے۔۔۔ چلے جاتے ہے اب بتا کے تھوڑی نہ جائے گے۔۔۔ماہم ہنسی تھی۔۔پر جلدی ہی ہنسی پر قابو پا لیا تھا۔۔۔
۔
تو۔۔۔ تو۔۔۔ تم مذاق بنا رہی ہو میرا۔۔۔۔ گندی۔۔۔ بہت خراب ہو تم ۔۔۔
ہائے۔۔
مجھے چھوڑ گی۔۔۔
نور کو پھر سے یاد آئی اور رونے میں اضافہ ہوا۔۔۔
نور اگر اب چپ نہیں ہوئی تو بہت برا ہو گا سمجھی۔۔۔ بس کر دو کب سے چپ کروا رہی ہوں، اگر طبعیت خراب ہو گی نہ تمہاری، تو جوتیاں مجھے پڑجانی ہے۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے رحم کرو چپ ہو جاؤں نہ میری جان۔۔۔
ماہم اب نور کی مِنتوں پر اتر آئی تھی۔۔۔۔۔
عین بچے کیا ہوا ہے؟؟؟
اندر آتے سب سے پہلے افنان کو نور روتی نظر آئی۔ چیزیں سب وہی رکھ کے نور کے پاس آیا تھا۔۔
افی۔۔۔ بھائی۔۔۔
سسکیاں۔۔۔۔افی۔۔۔ بھائی۔۔۔۔
ہاں۔۔ بولو کیا ہوا۔۔ کسی نے کچھ کہا کیا ؟؟ چہرے کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کے پیار سے پوچھا گیا۔۔۔
نفی میں سر کو ہلایا۔۔
پھر۔۔۔!!!
شاپنگ سے آئے مھین، نائل، میره سب چپ چاپ بےصبری سے نور کے بولنے کا انتظار میں اب تک کھڑے تھے۔
میری کیھتی مر گی۔۔۔ رونے میں پھر سے اضافہ ہوا۔۔۔
کیا؟؟؟
تو اس لئے آپ اتنا رو رہی ہو نور۔۔ میره اب بےہوش ہونے کو تھی۔ جبکہ ماہم پاس کھڑی مسکرا رہی تھی۔
تو نہ روں میں کیا؟؟؟۔۔۔۔
بھائی وه بلکل ٹھیک تھی کل بھی میرے ساتھ تھی رات کو میں نے خود دیکھا اتنی اچھی تھی خوش بھی تھی۔۔ اب ایسے کیسے۔۔۔!!!!
عین۔۔۔۔ کوئی بات نہیں، میں آپ کو اور اچھی اس سے پیاری لا دو گا۔۔۔ پر آپ رو تو نہیں۔افنان نے نور کو اپنے حصار میں لے کر چپ کروانا چاہا تھا۔۔۔
نہیں وه بیسٹ تھی۔۔ مجھے یہی چاہے اس کو ٹھیک کرے۔۔ ڈاکٹر کو دیکھائے پلزز۔۔ ان سے بول کے ٹھیک کروا دے۔۔۔
بچوں سی ضد۔۔ جانتی بھی تھی کے اس کی کیھتی بلی مر گی ہے۔۔۔ جی ہاں اتنا رونا دھونا اپنی بلی کے لئے تھا۔۔۔
نور میرا بیٹا وه مر گی ہے۔ اور جو مر جاتا ہے وه واپس نہیں نہ آتا۔۔ بھائی پرومیس کر رہے ہے نہ کے اس سے بھی اچھی اور پیاری لا دے گے۔۔ پھر کیوں میرا بیٹا رو رہا ہے۔۔ نائل اپنی بیٹی کو روتا ہوا نہ دیکھ سکے پاس آ کے نور کو سمجھنا چاہا۔۔۔
۔
پر۔۔۔ وہ میری کیھتی تو نہیں نہ ہو گی۔۔مجھے یہ بہت پیاری تھی آپ کو پتہ ہے نا۔
بلی آنکھیں رونے سے سرخ ہو رہی تھی۔ گالوں پر آنسوؤں کے نشان بھی نظر آ رہے تھے۔۔
آئی پرومیس۔۔۔ پکا والا۔۔۔
ہم خود جا کے نیو والی اس سے بھی زیادہ پیاری مانو لے کے آئے گے۔۔جو کسی کے پاس بھی نا ہو۔۔۔ بس میری عین کے پاس ہو گی۔۔۔۔افنان نے اپنی ایک کوشش کی۔۔۔
نور نے محض سر ہلایا۔۔!!!!
پر اب کیھتی کو قبرستان لے کے جائے گے۔۔۔دفنا بھی ہے نا ۔۔ اپنی طرف سے سمجھداری سے نور نے بولا تھا۔جس پر ماہم اور میره کا قہقہ ایک ساتھ بلند ہوا۔۔
باز آ جو آپ دونوں۔۔۔مھین نے آنکھیں دیکھائی تھی۔۔۔
۔
دیکھا یہ ہنس رہی ہے مجھ پر۔۔ ان کو کوئی دکھ نہیں میری مانو چلے گی۔۔ آپ ان کو ڈانٹتے بھی نہیں۔۔۔آنسوؤں پھر بہہ کر گلابی گالوں کو گلا کر چکے تھے۔۔
اپنے روم میں جائے دونوں۔۔ ایک منٹ سے پہلے مجھے نظر نا آئے۔۔
کنوو گیٹ اوٹ۔۔
افنان نے غصے سے دونوں کو جھاڑ پلائی۔۔۔
دونوں خاموشی سے اوپر کی جانب دوڑ گئی۔
ہم سب کچھ کرے گے ٹھیک ہے۔ پر آپ رو گی نہیں اوکے۔۔
ایسے کرے گی تو مانو زیادہ ہرٹ ہو گی نہ۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ پر اب وہ میرے پاس نہیں آے گی۔۔۔میں کیا کرو گی۔۔
کیوں نہیں آے گی۔۔ ہم اپنی بیٹی کے لئے آج ہی نیو مانو لے آے گے۔۔ سب سے پیاری والی جو صرف عین کی ہو گی۔۔۔ ہممم۔۔۔ وه پھر کہی نہیں جائے گی آپ کے پاس رہے گی۔۔ سمجھنے کی ایک کوشش پھر سے کی گئی۔۔
۔
مجھے ایسی کی ہی چاہیے، وائٹ میں بلیو آنکھوں والی پیور بلیو۔۔۔ پر بےبی ہو۔۔ جو زیادہ دیر میرے پاس رہے۔۔
نور کی فرمائش شروع ہو چکی تھی۔۔مھین اور نائل دونوں فریش ہونے روم میں چلے گئے۔ اور نور میڈم اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھی فرمائشوں کی لسٹ بتا رہی تھی۔۔ افنان بھی بیٹھا خوشی خوشی سب سن رہا تھا۔۔
عین آپ کو بلیو آنکھوں والی ہی کیوں چاہئے بلی۔
بس۔۔۔ مجھے بلیو آنکھیں بہت پسند ہے۔۔کاش میری آنکھیں بلی نا ہوتی بلیو ہوتی۔۔۔
آپ کی یہ بھی بہت پیاری ہے۔ لاڈ سے کہا گیا
بٹ بلیو تو بلیو ہی ہوتی ہے نہ۔۔
ہممم۔۔۔۔
افنان تھکن کے باوجود بھی بیٹھا اپنی بہن کو خوش کر رہا تھا۔۔ وہ مان، پیار ، احساس ، خلوص، توجہ دے رہا تھا جو ایک بھائی اپنی بہنوں کو اپنے رشتے سے عطا کرتا ہے۔۔افنان اپنا رشتہ اچھے سے نباہ رہا تھا۔۔ ایک اچھا بیٹا۔۔ ایک اچھا بھائی۔۔۔ ہر رشتے کو اپنی توجہ پیار محبّت بانٹنا فرض سمجھتا تھا۔۔۔
تو ہم کب جائے گے۔۔۔افنان اپنی سوچو سے باہر آیا۔۔۔
کہا؟؟؟
میری مانو لینے۔۔۔!!!
ہممم۔۔۔۔ میری مانو کی مانو لینے ہم ابھی لینے جائے گے۔۔۔
کون کون جائے گا ساتھ۔۔۔سوال پھر سے تیار تھا ہمیشہ کی طرح۔۔۔
میں اور آپ۔۔۔ پھر ہم آپ کی شاپنگ بھی کرے گے۔ ساتھ خوب مزہ کرے گے۔۔۔ اور آپ کی پیاری سی مانو بھی لے کے آے گے۔۔۔اوکے۔۔۔۔
جی۔۔۔ جزاك اللہ افی بھائی۔۔۔ آپ بہت۔۔۔ بہت اچھے ہے۔۔ سب سے اچھے۔۔۔ زور سے ہگ کیا۔۔
ہاہاہا میری چھوٹی سی جان اوکے۔۔۔
اب چلے۔۔ یا نہیں۔۔۔ تنگ کرنے کے لئے پوچھا گیا۔۔
نہیں ابھی چلے۔۔ نور فٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
ان دونوں کو باہر جاتے نائل مصطفیٰ نے دیکھ کے ہمیشہ ایسے ہی رہنے کی دعا کی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے اس پہر جب سب گہری نیند میں تھے اس وقت یہ پیلس بھی اندھیرے میں چاروں اور سے لپٹا ہوا تھا۔۔۔ موسم میں ہلکی ہلکی خنکی۔۔۔ اکتوبر کے اس مہینے میں رات کے اس پہر موسم کچھ ٹھنڈا سا تھا۔۔۔
اس پیلس کے اوپری منزل میں محمش بھی اپنے کمرے میں گہری نیند میں سویا تھا۔۔۔
کمرے کا منظر کوئی عام منظر نا تھا۔۔۔
شہزادے کا کمرہ بھی شہزادے کی آن بان جیسا تھا۔۔۔ کمرے کی ہر چیز اپنی مثال آپ ۔۔۔ فل سائز خوبصورت سا بیڈ۔۔۔ بیڈ کے سامنے فل ونڈو سے نیچے کا پورا لان نظر آتا تھا۔۔۔ مہرون اور بلیک رنگ کے سلک کے پردے۔۔۔ بیڈ کے دائیں جانب کی وال پر اس پیلس کے سب افراد کی تصورات تھی۔۔۔
جبکہ بیڈ والی وال پر فل سائز محمش اور مصترا نور کی خوبصورت تصویر تھی۔۔۔ فراک پہنے وہ بچی اپنی گود میں بلی کا بچہ لے کے لان میں بیٹھی ہوئی تھی پر اس بچی کے پیچھے گیارہ سال کا محمش بھی تھا جو اس کے بال بنانے کی کوشش میں تھا پر یہ خوبصورت پل کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کے لئے قید ہو چکا تھا۔۔۔
یہی قید ہوا لمحہ اب تک محمش کی وال پر تھا۔۔۔سب کے ہزار بار کہنے کے باوجود بھی محمش نے کبھی بھی یہ تصویر نہیں اتاری تھی۔۔
"نہیں اتار سکتا میں یہ۔۔۔ یہ تصویر نہیں۔۔۔ میری زندگی کی آخری خوشی تھی۔۔۔ میری اور میری پری۔۔۔مصترا کا ایک آخری لمحہ۔۔۔"
۔
بیڈ پر سویا ہوا وجود کچھ پل کے لئے ہلا تھا۔۔ کروٹ بدلی گئی۔۔۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کے سویا وجود نیند میں بھی کسی بات سے پریشان ہے۔۔۔
تجھے کیا خبر میرے حال کی
میرے درد میرے ملال کی
یہ میرے خیال کا سلسلہ
کس یاد سے ہے ملا ہوا
(#copied)
اور پھر ایک دم سے اٹھ کے بیٹھ گیا۔ جسم پسنے سے شربو تھا۔۔آنکھوں میں نیند کا خمار۔۔۔ بکھرے بال۔۔۔
اففف یہ کیا تھا اب۔۔۔
بلی آنکھیں۔۔۔
کوئی لڑکی۔۔۔
بلی آنکھیں تو مصترا کی تھی۔۔۔
پھر یہ لڑکی۔۔۔
جھلک۔۔۔۔
مطلب کچھ تھا۔۔۔
نہیں مطلب کچھ ہے۔۔۔۔۔
پریشانی اور بڑھی تھی۔۔۔۔
محمش اٹھا اور تہجد کی نماز کے لئے وضو کرنے واشروم میں چلا گیا۔۔۔
"محبّت میں الہام ہوا کرتے ہے
پر تم کیا جانو یہ کس کس پر وار ہوتے ہے"
از: میری حُسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔