نہ سحر، نہ حقیقیت، میرے روبرو
چاند میں چھوپا وہ چہرہ میرے روبرو
نہ روشنی، نہ شور ،میرے روبرو
اندھیری رات میں پھیلا وه نور میرے روبرو
نہ آرزو، نہ خوائش، میرے روبرور
گہری آنکھوں میں پھیلی وه نمی میرے روبرو
نہ حسن، نہ خوبصورتی،میرے روبرو
حیا میں چھوپا وہ وجود میرے روبرو
نہ دلکشی، نہ دنیا، میرے روبرو
گلاف میں لپٹا، وہ قرآن میرے روبرو
(میری حسین)
قاری عبدالفیف کی مسجد اسلام آباد سے ذرا ہٹ کر تھی۔۔ چاروں جانب پہاڑ، درمیان میں خوبصورت سی یہ مسجد۔۔۔ اس خوبصورتی کو دیکھ کر لوگ اپنی آنکھیں جھپنکنا بھول جاتے تھے۔
آج جمعہ تھا۔ جمعے کی نسبت سے نکاح جمعے کے بعد ہونا تھا۔ سب ایک ساتھ نور پیلس سے نکلے تھے۔ آج سب پہلی بار ایک ساتھ اس مسجد جا رہے تھے۔ جہاں سے اس گھر کے شہزادے کی تربیت ہوئی تھی۔ آج یہاں کا ایک ایک بندہ اس نیک اور اللہ لوگ بندے سے ملنا چاہتا تھا۔ جس نے ان کے بچے کو بدل کر رکھ دیا تھا۔۔ کوئی غلط راستہ چُونے سے بچا لیا تھا۔۔
۔
۔
۔
آج کا خطبہ محمش دے رہا تھا۔ یہ بات بھی یہاں آ کر سب کو معلوم ہوئی تھی۔ ایک جانب مرد تھے،دوسری جانب پردے کا خاص خیال رکھا گیا تھا جہاں عورتوں کے لئے اہتمام کیا گیا۔ خطبے کے بعد اذان دی گی۔۔جمعے کی نماز ادا کر کے سلام ،دعا پڑھا گیا۔
اس کے بعد بھی اس بھری مسجد سے کوئی باہر نہیں نکلا تھا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے تھے۔۔
وجہ؟؟؟
وجہ تھی آج کا درس جو ہر جمعے کو یہاں دیا جاتا تھا۔ سفید شلوار قمیض میں سر پر ٹوپی بھی سفید ہی لئے وہ شہزادہ اللہ کو یاد کر رہا تھا۔ اس کی ایک ایک بات میں رب کا ذکر تھا۔
"وه کوئی عام انسان نہیں تھا۔ہاں پر عام سے اسے خاص بنایا گیا تھا۔اللہ نے اس کو چونا تھا۔ اپنی راہ کے لئے۔۔۔صبر کے لئے۔۔۔ آزمائشوں کے لئے۔۔۔انسانیت کی مدد کے لئے۔۔۔
وه حافظ محمّد محمش شاہ تھا۔"
درس کا آغاز ہوا تھا۔ درود پڑھ کر سلام لیا گیا۔سب کو اپنی طرف متوجہ کیا گیا۔۔
میں نہیں جانتا میں کیا کہنے جا رہا ہوں۔ نا ہی میں نے کچھ اس درس کے لئے تیار کیا تھا۔
ہاں پر نیت ضرور میری تھی۔ آپ کی نیت جیسی ہوتی ہے۔ میرا، آپ کا, ہم سب کا رب آپ کو ویسے ہی عطا کرتا ہے۔جیسے عمل کا درومدار نیت پر ہوتا ہے- ویسے ہی رب پھر آپ کی نیت کو دیکھ کر عطا کرتا ہے۔
یہاں آئے بہت سے افراد مجھے جانتے ہیں۔ کچھ مجھے یہاں کافی سالوں سے دیکھتے بھی آ رہے ہیں۔ اور کچھ اس لئے جانتے ہیں کہ میں اس ملک کا بزنسمیں ہوں۔۔ میں امیر ترین انسان ہوں۔۔۔" پر آپ کی پہچان یہ نہیں ہوتی کہ آپ امیر ہو۔ آپ کے پاس اتنا پیسہ، اتنے گھر ، اتنی گاڑیاں ہیں۔۔ آپ کی پہچان آپ کے اخلاق سے ہوتی ہے۔۔ آپ اپنی سوچ کردار سے جانے جاتے ہیں۔ "
دیکھا جائے تو سب مجھے دیکھ کر یہی کہے گے کہ میں بہت خوش قسمت ہوں۔۔ میرے پاس سب ہے۔۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔۔ میں نے کبھی کسی چیز کے لئے انتظار نہیں کیا ہو گا۔ میں کبھی رویا نہیں ہو گا۔۔ پر ایسا نہیں ہے۔۔ دولت سے آپ سب خرید سکتے ہیں۔۔ سب چیزیں مل جاتی ہیں۔ پر دولت سے آپ کو رشتے نہیں ملتے۔۔ ہاں!! دولت سے آپ کو آپ کے اپنے نہیں ملتے۔۔۔ دیکھنے والے کو سمجھ نہیں آتی اور سنے والے یقین نہیں کرتے۔۔۔
میں ہوں امیر۔۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ اور ہے۔۔ "الحمداللہ"۔۔۔۔ پر میرا یہ سفر آسان نہیں تھا۔ جس پر گزرتی ہے وہی سب جانتے ہیں۔ یا جو آپ کے ساتھ ہوتا ہے جو پل پل آپ کے ساتھ رہتا ہے۔۔ آج میں آپ کو اپنا اصل بتاتا ہوں۔ اس لئے نہیں کہ مجھے شوق ہے اپنی ایک ایک چیز ظاہر کرنے کا اپنا کام اپنا نام بتانے کا۔۔
نہیں !!!
بلکے اس لئے بتانا چاہتا ہوں کے آپ سب جان لے کہ اللہ ساتھ ہے۔۔ وه ہر حال میں کوئی نا کوئی راستہ تھما ضرور دیتا ہے۔۔ انسانی آنکھیں اسے دیکھ نہیں پاتی ،اور دل اس آواز کو سن نہیں پاتا۔۔ پر جو سن لیتا ہے، سمجھ لیتا ہے، دیکھ لیتا ہے۔ وہ پا لیتا ہے ،وه سب حاصل کر لیتا ہے۔
میرا نکاح میری خوائش پر بہت چھوٹی عمر میں ہوا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں۔۔ میری شریک حیات کی عمر اس وقت محض پانچ سال ہی تھی۔۔ نکاح کے کچھ عرصے بعد وه ہم سے جُدا ہوئی۔۔۔ وه کہی کھو گی۔۔ وه صرف میرے لئے اہم نہیں تھی۔۔ وه پورے گھر کی جان تھی۔۔ اس کو جُدا بھی اس کے باپ نے کیا تھا۔۔ ہم نے اپنی جان لگا دی اس کو ڈھونڈنے میں پر وہ نہیں ملی۔۔ وه جان تھی سب کی۔۔ جاتے جاتے بہت سی کی جانیں بھی ساتھ لے گی۔۔۔ میرا گھر برباد ہو گیا۔ میرے گھر کی خوشیاں، قہقے کہی کھو گے۔ میں نے بہت کچھ کھویا۔ بہت بار ایسا ہوتا ہے آپ کے گھر کی خوشیاں ایک انسان میں ہوتی ہے وه جان ہوتا ہے گھر کی۔۔۔ وه کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ آپ کی ماں، باپ، بیوی، بیٹا، بیٹی۔۔
پر اصل گھر وه ہوتا ہے جہاں لڑکی ذات کی قدر ہوتی ہے۔۔ ہمارے گھر میں چھ نسلوں کے بعد کوئی بیٹی پیدا ہوئی تھی وه میری آنی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ان کو بھی بیٹی عطا کی۔۔ پر ہمیں ان دونوں کا غم بہت ملا۔۔ بہت زیادہ۔۔ محمش کا لہجہ بھاری سا تھا۔۔ بہت مشکل سے پھر سے وه تکلیف دہ منظر باتیں یاد کر رہا تھا۔۔
میں نے اپنی بی جان ،ماں جیسی دادی کو کھو دیا۔۔۔ ان کی آخری سانسیں میرے سامنے بند ہوئی۔ مرنے سے پہلے انہوں نے ایک بات کی تھی میرے سے۔۔۔ جو آج تک کسی کو نہیں بتا سکا میں۔۔۔
"محمش۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔ غم نہیں کرنا۔ اللہ ساتھ ہے۔ وہ مالک ہے سب کا۔ تکلیف نہیں دیتا، کسی کو بھی اس کے بس سے زیادہ۔ میرے شیر اگر انتظار لمبا ہو جائے آزمائش لمبی ہو جائے تو صبر کرنا۔۔ پختہ یقین کرنا۔۔۔ وه ساتھ ہی رہے گا۔۔ بس وہی ساتھ رہے گا۔"
میں رو رہا تھا۔ میں ان کو جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ مجھے ان کو روکنا تھا پر میرے بس میں نہیں تھا۔
پھر ان کی سانسیں تیز ہوئی۔۔ محمش جو میں بولو گی میرے پیچھے پیچھے بولو گے۔۔ میں نے اپنی بی جان کا ایک ہاتھ تھما ہوا تھا۔ ان کی بات پر ثبت میں سر ہلایا۔۔۔
"میرا رب ،میرا سب کچھ۔۔ میرا سب میرے رب کا۔۔ میرا یقین، میرا ایمان، میرے رب، میرے نبیؐ پر۔۔۔انتظار۔۔۔ آزمائش۔۔ صبر۔۔صرف رب کے لئے۔۔ اس کی پکار پر لبیک۔۔۔ میرا دین اسلام۔۔میرا رب ایک۔۔۔ میرا نبی محمّد ؐ۔۔ اس کی امانت وه جب چاہے لے' لے۔۔پر صبر عطا کر دے۔۔ میں فقیر ہوں اپنے رب کا، مجھے اپنے نبی ؐ کے صدقے لوٹا دے۔"
آنسوؤں دونوں کے مسلسل بہہ رہے تھے۔ نسرین اس کی بی جان مسکان لئے بول رہی تھی جبکہ محمش اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔۔
میرا بچہ اس کو کبھی بھولنا نہیں۔۔ محمش نے روتے ھوئے جی کہا۔۔۔ کلمہ پڑھا اور روح پرواز کر گی۔ محمش چیخ چیخ کر رویا تھا۔ ابھی ایک قیامت باقی تھی۔ بی جان کی وفات کے بعد میری آنی قوما میں چلی گی۔۔
بی جان کے الفاظ سنے والے کو عام لگے گے پر وہ الفاظ نہیں تھے۔۔
"وہ عہد تھا جو مجھ سے لیا گیا مجھے میری اصل پہچان بتانے کے لئے یاد کروانے کے لئے۔ وه الفاظ نہیں تھے۔ ایک تحسیر تھی۔جو آج تک مجھے جوڑ کر رکھی ہوئی ہے۔"
۔
۔
۔
"میرے رب نے مجھے آزمایا۔۔۔ وه میرے سامنے، ساتھ ہی تھی۔ پر انتظار رب نے واجب کیا، وقت سے پہلے پھر کیسے ممکن تھا کہ وه رب ملاقات کرواتا۔ لمحہ، لمحہ مجھے آزمایا گیا۔ میرے یقین کا امتحان لیا گیا۔ میرا انتظار عام نہیں تھا۔ اس نے مجھے ہر جگہ سے توڑ دیا۔۔۔ اتنا کے میرا جوڑنا ناممکن تھا۔ میں نے دعا مانگی۔
""اللہ مجھے چن لے، یا مجھے بلا لے۔۔ مجھے صبرعطا کر دے، یا اور توڑ دے۔ پر میرا یقین نا ٹوٹنے دے، جو آپ پر ہے میرے نبی محمّدؐ پر ہے""۔۔۔
میری دعا قبول ہوئی۔ میرے رب نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ مجھے سمیٹا جانے گا۔ میرا وجود پھر سے بنایا گیا۔پھر سے ایک، ایک رنگ مجھے میں اتارا گیا۔ میرے صبر کو بار بار، پل پل آزمایا گیا۔ مجھے ٹوٹنا نہیں تھا اب، مجھے بکھرنا نہیں تھا۔ مجھے خود کو اپنے رب کی مرضی پر ڈھالنا تھا۔ میں نے اپنا سب پختہ یقین کے ساتھ اپنے رب پر چھوڑ دیا۔"
میرے لئے ان کو چونا گیا۔ مجھے میرے اصل کو پہچانے کے لئے ان کو بھجا گیا۔۔ ارشارہ ساتھ بیٹھے قاری عبدالفیف کی جانب تھا۔ بہت سی آنکھیں اس وقت رو رہی تھی۔ کچھ کہ دل اس کی تکلیف پر پھٹ رہے تھے۔۔ پر جو بیان کر رہا تھا کمال کا ضبط لئے بیٹھا تھا۔میری اصلاح انہوں نے کی۔۔۔ انتظار میرا جاری ہی تھا۔۔۔ وه انتظار اب ختم ہوا۔۔ آپ یقین نہیں کرے گے پر میرا انتظار پورے چودہ سال کا تھا۔۔ پورے چودہ سال کا۔۔ انسان چودہ سال میں کیا کچھ نہیں کر لیتا۔۔ میں نے سب کیا۔۔۔ میرے رب نے میرے سے بہت کچھ کروایا۔۔۔ میں خوش ہو "الحمد اللہ"
پر میرا انتظار تو پھر انتظار تھا نا۔۔۔ میری آزمائش اتنی لمبی تھی۔ کوئی جان نہیں سکتا میں ان سالوں میں کتنی تکلیف سے گزارا گیا۔ میں نے کیا کیا سہا۔پر مجھے صبر کرنا سکھایا گیا وه تھا۔۔۔
"" رب کا راستہ۔۔۔ رب کی رسی۔۔ پختہ ایمان' یقین۔۔۔""
""کہتے ہے عشق ہر رنگ میں ڈھل جاتا ہے
پر جب تک" لا"نہیں ہوتا تب تک کمال نہیں ہوتا۔ یہ لا عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے "نہیں"۔۔ جب اللہ بار بار ہمیں اپنے پاس بولتا ہے تو ہم نہیں نہیں کرتے ہے۔ اس کی جانب نہیں موڑتے۔۔ پھر رب اپنے طریقے سے پاس بولتا ہے۔ تب انسان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پھر رب اس کو اپنی جانب اپنے طریقے سے موڑتا ہے تو تب ہی کمال ہوتا ہے""
۔
۔
یہی سب تھا۔ جس نے مجھے حافظ محمّد محمش شاہ بنایا۔۔۔نیلی آنکھوں سے مسلسل آنسوں بہہ کر چہرے کو گِلا کر چکے تھے۔
آپ کا ایمان، یقین بھی آپ کے خود کے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ ہے تو آپ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔۔ کچھ بھی۔۔ پھر شرط یہ ہے۔ آپ کی محنت کے بعد آپ کا یقین پورا رب پر ہوں۔۔۔ ہاں!! اگر آپ مانگ رہے ہو اور آپ کو وه عطا نہیں کیا جا رہا تو سمجھ لو وه آپ کے لئے ہے ہی نہیں، وه آپ کے حق میں بہتر ہی نہیں۔۔ پھر اللہ اس کی آس امید بھی آہستہ آہستہ آپ کے دل سے نکل دیتا ہے۔۔۔
خوبصورت الفاظ۔۔۔ ایک امید، یقین کے ساتھ اپنی بات کو سمیٹا گیا۔۔۔قاری عبدالفیف نے اپنے اس بیٹے کو گلے لگایا۔ کھانا بھی اس کی جانب سے دیا گیا۔۔۔ اس کے بعد قاری عبدالفیف نے ان کا نکاح پڑھایا۔ ہر طرف مبارک باد کے ہی الفاظ تھے۔۔ آج اس جوڑے کے لئے ہزاروں ہاتھ بلند تھے۔۔ خصوصی محمش نے اپنی مصترا نور شاہ کی صحت کے لئے دعا کروائی۔ کچھ دیر کے بعد مسجد خالی ہوئی اب صرف گھر کے ہی افراد تھے۔
محمش کے قدم دوسری جانب تھے جہاں اس وقت اس کی بیوی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
۔
۔
۔
فل سفید غرارے میں، سفید اور سرخ حجاب میں، ساتھ خوبصورتی سے موتیوں والا ٹیکہ ڈارک ریڈ بھری ہوئی کام والی شال کندھے پر لئے ھوے۔نرم و ملائم سفید ہاتھوں پر مہندی، دونوں کائیوں میں کانچ کی بھر بھر کر ریڈ چوڑیاں ڈالی ہوئی تھی۔ ریڈ نیٹ کا کرن والا ڈوپٹہ گھوگھٹ کی طرح دیا ہوا تھا۔ خوبصورتی سے کیا گیا لائٹ میکپ اس پر جچ رہا تھا۔ بلی آنکھیں رو رو کر کچھ سوجی ہوئی اور سرخ ہوئی نظر آ رہی تھی۔
محمش اس کے سامنے آ کر روکا۔ اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا گھوگھٹ اٹھایا۔ اس کی پری کا سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا۔
"میری زندگی تیرے لئے اور تو میرے دل کے لئے
تو ضروری سا ہے میرے جینے کے لئے
اب ہر پل دعا ہے اس زندگی کے لئے
کہ تو جُدا نہ جو اب اس دل کے لئے "
(میری حسین)
۔
۔
السلام و علیکم!! ساتھ ہی اس کے منہ سے بے ساختہ ماشاءالله نکلا۔۔
وعلیکم السلام!! دھیمی آواز میں کہا آواز سے صاف ظاہر تھا کہ اس کی پری زوجہ محترم خوب رو چکی ہے۔
محمش نے اس کی ٹھوڈی سے ہلکا سا پکڑ کر اس کا جھکا چہرہ اٹھایا۔۔ بلی آنکھوں میں نمی ابھی بھی تھی۔
نکاح مبارک ہو پری۔۔۔ محمش اس کو پر سکون کر چاہتا تھا۔
آپ کو بھی۔۔۔
نفل ادا کرے گی میرے ساتھ ابھی۔۔ سوال پوچھا گیا۔۔ مصترا نور نے اس کے سوال پر لبیک بولو۔۔۔
محمش آگے کھڑا تھا ،جبکہ نور کچھ قدم اس کے پیچھے۔۔ سجدوں میں نور کی ہچکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔ سلام پھیر کر محمش نے اس کی جانب گردن موڑ کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔
"اللہجی مجھے معاف کر دے۔۔۔ مجھے معاف کر دے۔۔ میری وجہ سے اتنے لوگ روتے رہیں۔۔ میری وجہ سے اتنے آنسوں بہے۔۔ میری وجہ سے انتظار۔۔۔اتنا لمبا کر دیا۔۔۔ یا اللہ۔۔ اللہ جی۔۔۔ "مصترا نور سجدے میں گڑگڑا کر رو رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد اس کو اپنے کندھے پر محمش کا ہاتھ محسوس ہوا۔۔ چہرہ اٹھا کر دیکھا تو محمش سر کو نفی میں هالا رہا تھا۔نور نے ذرا بھی دیر نہیں کی اور اس کے گلے لگ کر خوب روئی۔
پری یار بس کرے۔۔۔ بس۔۔۔
اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گے ایش۔۔ ہم نے آپ کو اتنا انتظار کروایا۔۔ آپ کو اتنا رولایا۔۔۔ اتنی تکلیف دی۔۔۔ نہیں معاف کرے گے اللہ جی۔۔۔۔ ہچکیوں کے ساتھ روتی ہوئی بولی جا رہی تھی۔
پری ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ کیوں اس طرح سوچ رہی ہے۔۔ یہ سب ہونا ہی تھا۔۔ اللہ خاص عطا کرنے کے لئے پہلے اس انسان کو بھی خاص بناتے ہے۔ جس کو وه خاص بندہ عطا کرنا ہوتا ہے۔۔ مجھے بھی بنایا گیا پھر ہی آپ میرے نصیب میں لکھی گی۔
پر۔۔۔۔
پر کچھ بھی نہیں نور۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ محمش نے اس کے آنسوؤں صاف کیے۔ اپنی محبّت کی مہر اس کی پیشانی پر ثابت کی۔۔
سب چلے گے ہیں گھر، ہم بھی نکلتے ہیں۔۔۔ اوکے۔۔۔
مصترا نور شاہ نے سر ہلایا۔۔ ایک ہاتھ میں اس کی پری کا ہاتھ تھا۔ جبکہ دوسرے ہاتھ سے محمش نے اس کا غرارہ ذرا اونچا کیا تھا تاکہ اس کو چلنے میں آسانی ہوں۔ باہر آ کر محمش نے اس کو مدد کی تھی کار میں بیٹھنے میں۔۔۔۔
مصترا نور آپ ٹھیک ہے، طبیعت تو سہی ہے نا آپ کی؟؟ محمش نے اپنی نظریں اس پر مرکوز کی تھی۔ جو سر جھکائے ابھی بھی ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔
ہ۔۔ ہم ٹھیک ہے۔۔۔ آواز اتنی دہمی تھی کہ محمش مشکل سے ہی سن پایا تھا۔ محمش کار ڈرائیو کرتا ہلکی پھلکی باتیں کر رہا تھا جس کا جواب نور ٹو دا پوانٹ ہی دے رہی تھی۔ ایک گھنٹے کے بعد کار نور پیلس کی جانب موڑی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور پیلس آج روشن نہیں تھا بلکے چمک رہا تھا۔۔۔ اور یہ چمک ہی الگ تھی۔۔ نور پیلس کا کوئی بھی کونہ،چھت ،دیوار، ٹیرس ایسا نا تھا جہاں گولڈن لائٹس نا لگی ہوں۔۔۔ نور پیلس کے باہر پورے فیز میں بھی ایسے ہی لائٹ لگائی گئی تھی۔ لان میں سب کلوز فیملی فرینڈ اور باقی سب گھر والے ہی تھے۔۔ سب کے چہروں پر اس قدر خوشی تھی کہ صبح سے اب ڈھلتی شام تک کوئی بھی نہیں تھکا تھا۔ آج کا دن بہت سالوں بعد آیا تھا۔۔ اس کا انتظار کس کو نہیں تھا۔۔ اور پھر آج محمش کا دیا ہوا تحفہ یہ سب کیوں نا خوش ہوتے۔ ابھی تو سب محمش اور نور کے استقبال کے لئے کھڑے بےصبری سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔
۔
۔
۔
بلیک کار خوبصورتی کے ساتھ ریڈ، وائٹ،پنک پھولوں کے ساتھ سجی ہوئی تھی۔ جیسے ہی کار نور پیلس میں انٹر ہوئی پاتھ کے دائیں بائیں دونوں جانب انار فضا میں بلند ھوے۔۔ کار روک کر محمش نور کی جانب آیا تھا۔ اس کا ہاتھ تھام کر اس کو باہر آنے میں مدد دینا چاہتا تھا۔۔۔ لان میں سب کھڑے جو ان کو دیکھ رہے تھے۔ محمش کے ایسے کرنے سے زور زور سے ہوٹنگ شروﻉ کر دی۔ محمش ان سب کے انداز پر اپنا قہقہ نا روک پایا تھا۔ محمش اب بھی اپنا دائیں ہاتھ نور کی جانب لئے کھڑا تھا۔ جبکہ نور نے ہاتھ تھام تو لیا تھا پر باہر نہیں آ رہی تھی۔۔۔
محمش نے پاس ہو کر اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔ میری معصوم سی بیوی باہر آ جائے سب ہمارا ہی انتظار کر رہے ہے۔۔
نور مسلسل نفی میں سر هالا رہی تھی۔
ا۔۔۔۔یش۔۔۔ ایش۔۔۔ پلززز یہ۔۔ یہ سب بند کروائے۔۔۔ہمیں در۔۔ ڈر لگتا ہے ان سب چیزوں سے۔۔ نور کا اشارہ چلتے انار اور شورلیوں سے تھا۔۔۔
میں ہوں نا آپ کے ساتھ۔۔۔ یہ سب خوشی کا اظہار ہوتا ہے مصترا۔۔۔ آپ نہیں ڈاروں میں ساتھ ہی ہو آپ کے۔۔۔ محمش نے پھر سے روز دیا تھا۔۔۔نور ہلی تھی۔ محمش نے نیچے سے اس کا غررہ نیچے سے ذرا سا اٹھایا تھا۔ بہت آرام سے نازک قدم رکھتی یہ پری کار سے باہر آئی تھی کہ ساتھ ہی ڈھول بجنا شروﻉ ہوا تھا۔ ایک دم اتنے شور سے نور کا دل ہی دھک گیا۔۔
سفید شلوار قمیض کے اوپر ہی محمش وائٹ اور لائٹ گولڈ کام والی شروانی پہنی ہوئے تھا ساتھ کھوسہ پہنے وه اصل میں ہی شہزادہ لگ رہا تھا۔۔ اس کا چمکتا مکھڑا جس پر سیاہ ہلکی سی داڑھی اس پر ججش رہی تھی۔ ساتھ ہی اس کی پری پوری معصومیت لئے اس وقت فل وائٹ غررے میں تھی۔ جبکہ چہرے کو اب بھی آگے سے ریڈ نیٹ کے ڈوپٹے سے کوور کیا گیا تھا۔ دونوں ساتھ چلتے ھوے اس ریاست کی شہزادہ، شہزادی لگ رہے تھے۔
جیسے ہی لان کی انٹرس سٹارٹ ہوئی تھی۔ وہاں پر کھڑی سب لڑکیوں نے پھولوں کی برسات ان کے اوپر کی تھی۔پورے وقت میں نور کے چہرے پر اب خوشی اور مسکان تھی۔ اندر آ کر آہینور اور مھین نے اس کو سجے ھوئے جھولے پر بیٹھایا تھا۔ باقی سب بھی ان دونوں سے مل رہے تھے ساتھ تصویریں بھی بنوا رہے تھے۔۔ آغا جان سب کو دیکھ کر بہت خوش لگ رہے تھے۔۔۔۔
کاش زندگی وفا کر جاتی آپ نسرین شاہ۔۔ کاش۔۔ ہم آج مل کر اپنے بچوں کی خوشیاں ایک ساتھ دیکھتے۔۔ ان کو ایک ساتھ ہستے مسکراتیں دیکھتے اپنے بچوں کو ایک ساتھ دھیڑوں دعائیں دیتے۔۔۔ کاش آپ آج میرے ساتھ ہوتی۔۔۔کاش آپ کو جانے کی اتنی جلدی نا ہوتی۔۔۔ آغا جان دل میں ہی اپنی بیوی کو آج بہت یاد کر رہے تھے۔۔
ڈیڈی ہم نے ٹھیک کیا نہ؟؟؟ جھولے پر اس وقت نور اور نائل ہی بیٹھے ہوئے تھے۔
ہماری بیٹی نے بہت اچھا کیا۔۔ دیکھے سب کتنا خوش ہیں۔ نور نے ان کی نظروں کی جانب اپنی نظریں مرکوز کی۔ نور نے اپنا سر نائل کے کندھے پر رکھ دیا۔۔ ہم آپ کو بہت مس کرے گے ڈیڈی۔۔۔۔!!!
پر ہم نہیں کرے گے۔۔ نائل نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر نور اچھی خاصی حیران ہوئی۔۔
وہ کیوں؟؟
وه اس لئے کہ ہم جب بھی اداس ہو گے آپ کے پاس آ جائے گے۔۔ اور آپ بھی آ سکتی ہے۔۔ چاہے دن میں جتنی بار مرضی آئے ، آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔۔۔ بلکے محمش نے خود میرے سے اور آپ کی ماما سے پرومس کیا ہے وہ آپ کو روز خود لے کر آئے گا ملوانے۔ اور ویک میں ایک دن آپ ہمارے ساتھ گزرے گی۔۔
کیا سچ میں؟؟ نور کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی تھی۔ جبکہ اس کے ڈارک ریڈ لیپس خوشی سے مسکرائے تھے۔
پکا والا سچ۔۔ ہم اپنی بیٹی دے رہے ہیں۔تو سب آپ کا خیال بھی رکھے گے۔۔
کچھ دیر یہی باتوں کے بعد میره اور ماہم نے مل کر اس کو کھانا کھلایا تھا۔ جو بہت ضد کے بعد نور نے کھایا۔ ان سب چکروں کے بعد محمش اب چاہ رہا تھا سب ان کی جان چھوڑ دے۔۔ پر یہ سب ایسا کوئی بھی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔۔ بلکے محمش کی خوب کلاس لگ رہی تھی۔
ماما یار ان کو بھیجے سب کو یہاں سے، قسم سے اب میں بھی پریشان ہو رہا ہوں۔ اس کے انداز پر باقی سب نے قہقہ لگایا تھا جبکہ معاذ تو ایسے کاموں میں ویسے ہی بہت ماہر تھا جب تک کسی کو تنگ نہیں کر لیتا تھا کہاں چین قرار آتا تھا۔۔۔
لالا ابھی کہاں، ابھی تو بس دس بجے ہے۔
دس کے کچھ لگتے۔۔۔ مصترا نور صبح سے ایسے ہی بیٹھی ہوئی ہے۔ تھک گی ہے پری۔۔ ویسے بھی زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتی یہ ابھی۔۔ محمش نے ذرا سخت لہجہ اپنایا تھا۔نہیں تو کہاں اس کی جان چھوڑنی تھی سب نے۔۔۔۔
ہاں۔۔۔ ہاں جاؤ۔۔۔ شاباش!! بچی تھک گی ہے ہماری۔۔ اکفہ نے اشارہ کیا تھا سارہ اور میره دونوں اس کو محمش کے روم میں چھوڑنے گئی تھی۔
۔
۔
۔
روم کی پوری چھت کو گلاب کی لڑیوں سے کوور کیا گیا تھا۔اور بیڈ کے چاروں کونوں پر گلاب کی باریک باریک لڑیاں لٹک رہی تھی۔ ونڈو اور باقی سائیڈ ٹیبلز پر دئے اور کنڈل جلتی نظر آ رہی تھی۔۔ نور تو اس خوابگاہ میں آ کر سب بھول گی گئے تھی۔۔ کھوئی کھوئی سی تھی کہ اس کے قدم وال ونڈو کی جانب بڑھے۔ نور کی پسند کے مطابق ونڈو سے نیچے کا سارا لان نظر آ رہا تھا۔۔۔روم میں نور کی بچپن کی بہت ساری تصورات تھی۔
آپی یہ سب کتنا پیارا ہے۔ نور بچوں کی طرح خوش ہوئی تھی اپنی پسند کا روم دیکھ کر۔۔ سارة اور میره اس کے انداز پر جی بھر کر خوش ہوئی تھی۔۔۔
میره اس کو ساتھ لئے بیڈ پر آئی تھی۔ ماشاءالله سب بہت پیار ہے۔ سب نے مل کر نور پیلس کو آج اور بھی خوبصورت بنا دیا ہے۔
نور تکیوں کے سہارے آرام سے بیٹھی تھی۔۔ میری چندہ نے بلکل پریشان نہیں ہونا۔۔ اپنا بہت خیال رکھنا ہے۔۔ محمش بھائی آپ سے بہت پیار کرتے ہے۔ ان کے لئے اب آپ نے آپ خیال رکھنا ہے۔۔ کوئی پریشانی نہیں لو گی آپ کسی بات کی۔۔ آپ کو کچھ بھی پریشان کرے، کوئی بھی بات سب محمش بھائی کے شئیر کرے گی۔ ہممم۔۔۔ میره اس کو سمجھا رہی تھی۔ اور مصترا نور شاہ پوری معصومیت لئے باتیں سن رہی تھی۔ بلکے صبح سے سب کی سن ہی رہی تھی بس۔ کچھ دیر کے بعد یہ دونوں اٹھ کر باہر چلی گی تھی۔محمش باہر ہی کھڑا تھا جانتا تھا اکیلے نور ڈر بھی سکتی ہے اور گھبرا جائے گی۔۔
محمش بھائی کہنے کی ضرورت تو نہیں پھر بھی میری چندہ کا خیال رکھے گا۔۔۔میره کی آنکھیں نم تھی۔
اپنی جان سے بھی زیادہ۔۔ محمش نے عقیدت سے سر کو جھکا کر کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمش روم میں آیا ساتھ ڈور لاک کر کے سینے پر ہاتھ بندھے تسلی سے نور کا جائزہ لے رہا تھا۔ پھر قدم قدم چلتا اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا تھا۔ روم کی لائٹ افف ہی تھی۔ ایک نائٹ لائٹ جبکہ باقی روشی کا کام کنڈل کر رہی تھی۔
نور کا چہرہ اس روشی میں خوب چمک رہا تھا۔ محمش نے اس کی جانب دیکھتے ہی ماشاءالله بولو تھا۔ جو دن سے اب تک نا جانے کتنا بار بول چکا تھا۔ اپنا ہاتھ نور کے ہاتھوں پر رکھا تھا جو گھبرا رہی تھی۔
روم پسند آیا۔سادہ سا سوال کیا گیا، محمش کی نظریں اس کے چہرے پر ہی تھی۔
بہت زیادہ۔۔ سب بہت پیارا ہے ایش۔۔۔ نور نے اپنی جھکی ہوئی نظریں اٹھائی۔ محمش کے چہرے سے مسکان جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ محمش جانتا تھا نور پریشان گھبرائی ہوئی ہے پر ظاہر نہیں کر رہی۔ اس لئے سادہ سی باتیں کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ نور نارمل ہی رہے۔
پری آپ تھکی نہیں آج۔۔۔ صبح سے ایسے ہی ہے۔ محمش چاہتا تھا وه جس بات سے پریشان ہو رہی تھی وه بول ہی دے۔۔
تھک گے ہے۔۔ صبح سے تو ہی ہے ہم ایسے۔۔۔ کوئی چینج کرنے بھی نہیں دے رہا تھا۔۔
"ماما کہتی ہے۔ اچھی بیویاں شوھر کے لئے تیار ہوتی ہے۔ ان کے لئے سب کرتی ہے۔ پھر جب تک شوھر ان کی تعریف نا کر دے، ان کو چینج نہیں کرنا چاہے۔ شوھر سے پوچھے بغیر۔۔۔" محمش تو اس کی معصومیت پر اش اش کر اٹھا تھا۔ اور میڈم نور فل اپنی بلی آنکھوں کو گھوما گھوما پر اپنی باتیں بتا رہی تھی۔
تو مھین ماما ٹھیک ہی کہتی ہے۔ شوھر کو اچھا لگتا ہے یہ سب۔۔
تو پھر آپ کرے نا میری تعریف، تاکہ میں چینج کر لو۔
ہاہاہاہا۔۔۔ لائک سیریسلی۔۔۔۔ محمش نے اس کو اپنے حصار میں لیا تھا اور پیارا بھرا بوسہ اس کی پیشانی پر کیا۔۔
"میں کیا آپ کی تعریف کرو، آپ تو ہے ہی میری شہزادی۔۔۔ میری پری۔۔۔ میرا نور۔۔۔ میری جان۔۔۔میرا سکون۔۔۔ میری زندگی۔۔۔"
محمش کے اندازہ پر پری شرما گی اس کے گال گلابی ہوئے۔۔۔ محمش اس کی اجازات سے اس کی حجاب پن نکل رہا تھا۔۔ پھر اس کو چینج کرنے کا بولا تھا۔ کچھ دیر کے بعد نور مہرون سلک کے ٹراؤزر شرٹ پہنے باہر آئی۔ تب تک محمش بھی ڈریسنگ روم میں جا کر چینج کر چکا تھا۔
نور مرر کے پاس کھڑی اپنے بال برش کر رہی تھی۔ جب محمش نے پیچھے سے آ کر ایک خوبصورت چین کو اس کے گلے کی زینت بنایا۔گولڈ کی چین جس پر نور محمش ایک ساتھ بہت باریک اور خوبصورتی سے لکھا گیا تھا ۔ان دونوں کے نام کے اندر باریک باریک ڈائمنڈ لگے نظر آ رہے تھے۔ محمش نے اس کے کندھے پر اپنی ٹھوڈی رکھی نور دونوں کا عکس آئینہ میں دیکھ رہی تھی۔
مصترا نور نے چین پر ہاتھ پھیرہ۔ ایش یہ بہت بہت خوبصورت ہے۔ ہمیں بہت اچھا لگا آپ کا گفٹ۔۔ نور اس کی جانب موڑی تھی۔ اور اپنے پاؤں اٹھا کر اونچی ہوئی پر پھر بھی محمش کے برابر کہاں آتی۔ محمش نے اس کو کمر سے پکڑا تو نور پھر سے ایک بار اوپر ہوئی عقیدت سے ،پیار سے، اپنے انوکھے اندازہ سے محمش کی نیلی آنکھوں پر باری باری پیار کیا تھا۔۔ محمش کے اندر تک سکون اتر گیا۔۔
کبھی یوں بھی آ میرے روبرو
تجھے پاس پا کے میں رو پڑوں
تجھے منزل عشق پہ ہو یقین
تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں
کبھی سجا لوں تجھ کو آنکھوں میں
کبھی تسبیحوں پہ پڑھا کروں
کبھی چوم لوں تیرے ہاتھوں کو
کبھی تیرے دل میں بسا کرو
(#Copied)
میری جان نے مجھے خوش کر دیا۔ ہمیشہ ایسے ہی رہنا۔۔۔ محمش اس کو اپنی باہوں میں بھرے بیڈ پر لایا۔ نور کی آنکھیں اب بند ہو رہی تھی پر زبردستی پھر بھی کھولے اپنی آنکھوں پر ظلم کر رہی تھی۔ محمش نے سائیڈ ٹیبل سے اس کو میڈیسن نکل کر دی جو نور نے چپ چاپ کھا لی۔
اب آرام سے سو جائے۔ باقی باتیں بعد میں کرے گے آرام سے۔ محمش اس کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔
نہیں۔۔۔ آپ ہمارے ساتھ باتیں کرے،ہم سن رہے ہے۔ نور کا ابھی بھی کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا تھا سونے کا۔ پر محمش سب جانتا تھا۔ اس کو نیند کیسے آتی ہے۔ دوسری جانب سے آ کر محمش نے اپنا ایک بازوں سیدھا کھولا تھا۔ جس پر نور کا سر رکھا، اور اس کو بلکل اپنے ساتھ لگا لیا۔ جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں کو سہلانے لگا۔ نور نے اپنے چھوٹے ہاتھوں اور بازوں سے محمش کے گرد حصار بندہ تھا۔
آپ خوش ہے میں جانتا ہوں۔۔ اور آپ آگے بھی ایسے ہی خوش رہے گی۔ کسی بات کی پریشانی نہیں لے گی۔۔ محمش اب اس کو آہستہ آہستہ باتیں سمجھا رہا تھا۔ نور محض سر کو هالا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اس کی سانسوں کی آواز تیز ہوئی۔ تو محمش نے اس کو دیکھا جو پوری معصومیت لئے گہری نیند میں تھی۔ محمش کو اس کے اس معصومانا اندازہ پر بہت پیار آیا۔۔ پر اس کو تنگ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے لئے نور کی صحت زیادہ اہم تھی۔ اس کا خیال بھی اس کو ہی رکھنا تھا۔۔
محمش اپنی آنے والے زندگی کے بارے میں سوچتا نا جانے اب نیند کی وادی میں چلا گیا۔ چاندی رات کا حسن ہر جانب پھیلا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ ماہ بعد۔۔۔۔
معاذ کی انتہا کی ضد اور دو دن کی بھوک ہڑتال پر معاذ اور ماہم کا نکاح ہوا۔۔ تین سال یونیورسٹی کے ابھی باقی تھے ،پر معاذ کہاں مانتا کہ اتنا لمبا انتظار کرتا۔۔ ان کچھ ماہ محمش کے دوست ارون کی شادی ثانیہ سے ہو چکی تھی۔ ارون کی پسند ثانیہ تھی جبکہ ثانیہ اس سب میں بہت بدل چکی تھی۔۔۔
گہری کالی رات میں چمکتے ستارے آسمان کو بہت حسین بنا رہے تھے۔۔۔ کچھ ہی لوگ اس وقت یہاں تھے۔۔ ہر جانب سکون ہی تھا۔ کسی بات کی فکر نہیں نا ہی کسی چیز کا غم یہ جگہ اس جہاں کی لگتی ہی نا تھی۔۔۔
فل بلیک عبایا میں جبکہ محمش احرام بندھے دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اپنا طواف مکمل کر چکے تھے۔ اس مقدس زمین پر کچھ دیر پہلے ہی دونوں نے اپنے قدم رکھے تھے۔ اور ایسا محسوس ہوا جیسے دنیا جہاں کا سکون مل گیا ہو۔
تہجد کی نماز دونوں نے ادا کی۔۔ یہاں اس وقت موجود بہت سے لوگوں کی نظروں میں یہ دونوں تھے۔ جن کے چہروں پر سکون اطمینان تھا۔
"اللہ جی آپ کی رحمت ہی ہے۔ جو مجھے یہ سب عطا ہوا مجھے آپ کا ساتھ ملا ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنوں کا اتنا پیار ملا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے آپ کا ہاتھ میرے سر پر ہے۔ آج آپ کی نوازش ہی ہے۔ جو میں اس پاک جگہ پر آپ کے گھر میں کھڑی ہوں۔ مولا مجھے پر کرم کرنا۔ میرے اپنوں پر رحم کرنا ان کو اب کوئی غم نہیں دکھانا۔ بہت لمبی آزمائشوں کے بعد اب خوشیاں ملی ہے۔ خوشیوں کا دورانیاں بڑھا دینا۔مجھے میرے شوھر کی عزت کرنا سیکھنا۔۔ ان کا احترم کرنا۔۔ میرے ایش کو لمبی خوشیوں بھری زندگی عطا کرنا میرے اللہ جی۔ مجھے کبھی بھی اپنے راستے سے دور نا کرنا۔۔ مجھے حیا عطا کرنا۔۔ مجھے اپنی چادر کی حفاظت کرنے والا بنانا۔۔۔۔" مصترا نور شاہ سجدے میں اپنے رب سے ہمکلام تھی۔
جبکہ محمش اپنے ہاتھ بلند کیے رو رو کر اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا۔
"میرا خواب پورا کر دیا آپ نے۔۔ میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہے۔ میں کیسے کس طرح آپ کا شکر ادا کرو ۔۔آپ نے مجھے سب عطا کر دیا۔۔ میرا سکون، قرار، چین، اطمینان سب کچھ۔۔ میری بیوی کو مجھے لوٹا دیا اسے مکمل صحت یاب کر دیا۔۔وه عام نہیں تھی، نہ ہی ہے۔۔ مصترا نور شاہ میری بیوی، میری جان، میری روح کا حصہ ہے۔ میرے دل کی ٹھنڈک آپ کا قرآن ہے۔ اس کے بعد میرے دل کے ہر کونے میں آپ کی یہ بندی ہے۔ میری آنکھوں میں اس کا عکس ہے۔یہ سب آسان نہیں تھا، پر میرا یقین ہے آپ پر، اس لئے سب یہ عطا ہوا۔ اللہ جی میرا یقین اور پختہ کر دینا۔۔
میں نے پچھلے سال جو منگا تھا آپ نے بہت جلد مجھے لوٹا دیا۔ میری اتنی اوقات نہیں تھی پر آپ تو رب ہے۔ آپ دل کے حال جانتے ہے۔ آپ نے اپنے اس گناہگار بندے کو پھر بھی اپنے پاس اس کے ہمسفر کے ساتھ بولا لیا۔ یا رب مجھ پر اتنے مہربان ہے، تو میرے معملے میں بھی نرمی کرنا۔ مجھے سہی راستہ عطا کرنا۔"
محمش نے اپنی دعا مانگی۔ کوئی خاص نہیں بہت عام الفاظ تھے۔ پر جو اس کی دعاوں میں شامل تھی۔وه بہت خاص اس کے دل کے قریب تھی۔
نور کب سے اس کی دعا کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ دونوں کے چہرے آنسوؤں سے بھیگے ھوے تھے۔ محمش ذرا کا قریب ہوا تو نور کو جیسے کندھا مل گیا تھا رونے کے لئے۔۔
مجھے یہاں ہی رہنا ہے۔ یہاں سے کہی نہیں جانا۔ یہ جگہ یہاں بہت سکون ہے، محمش پلززز۔۔۔ نور زورو شور سے رو رہی تھی۔ محمش جانتا تھا اس کی حالت، جو بھی یہاں آتا تھا جانے کا سوچ کر ہی اداس ہو جاتا ہے ۔ ہم ابھی کچھ دیر پہلے آئے ہے پری۔ اور پھر پورا ایک ماہ یہاں ہی رہے گے۔محمش نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔
"پر مجھے یہاں سے جانا ہی نہیں ہے۔نہ اب، نہ ہی ایک ماہ بعد۔"
اوکے۔۔۔ میرا وعدہ ہے۔ آپ سے جب تک میری سانسیں ہے۔میری دعا ہے۔ اللہ مجھے ہر سال موقع دے میں آپ کو یہاں لے کر آؤ۔
سچ ایش۔۔۔ ہم ہر سال آ سکتے ہے؟؟ محمش نے اس کی بات میں ثبت میں سر ہلایا۔
مجھے سورت رحمٰن سنا دے ایش۔مصترا نور اس کی آواز کی دیوانی تھی۔ یہ لڑکی اس کی آنکھوں کی دیوانی تھی۔ اس کی دی جانے والی عزت احترم کی دیوانی تھی۔ اس کو عشق تھا۔ اپنے شوھر سے اپنے حافظ محمّد محمش شاہ سے۔
محمش نے سورت رحمٰن کی تلاوت شروﻉ کی تھی جبکہ نور اس کے کندھے پر سر رکھ کے آنکھیں بند کیے اللہ کا کلام محمش کی خوبصورت آواز میں سن رہی تھی۔
"جب سے حقیقی عشق ملا ہے جیسے تو مل گیا ہے
بس فرق یہ ہے' تو میری روح میں بس گیا ہے"
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے عشق ہے اپنے رب سے۔۔۔ اُس کی راہوں سے۔۔۔ اُس کی آزمائشوں کا احترم ہے مجھے۔۔
مجھے اس کے بندوں سے محبّت ہے۔۔ پر مجھے اپنے رب کی ایک بندی سے عشق ہے۔ دل کی گہرائیوں سے آگے کی بات جو ہوتی ہے وه عشق کی منزل تک جاتی ہے۔ ہاں مجھے عشق ہے اپنی بیوی سے جس کو رب نے میرے حق میں لکھا۔ مجھے عشق ہے۔۔۔۔مصترا نور شاہ سے۔
نور جو اس کی مدھم آواز سن رہی تھی اس کے جواب میں بولی اور مجھے عشق ہے اپنے شوھر سے حافظ محمّد محمش شاہ سے۔۔۔۔"
دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ھوے تھے جبکہ ان کی نظریں کعبہ پر تھی دل میں سکون اور آنکھوں میں چمک تھی۔
"جس کو چاہت ہو، طلب ہو، اُس کو مل ہی جاتا ہے۔
عشق اپنا رنگ چڑھا کر سکون دے ہی جاتا ہے "
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شدہ