اتنی اداس کیوں ہو رہی ہے۔ مھین بیگم؛ سر کو جھکائے کب سے چپ بیٹھی کہی دور کسی یاد میں کھوئی ہوئی تھی۔ کہ نائل مصطفیٰ کی آواز کا بھی نہ معلوم ہو سکا۔ نائل اٹھ کر اپنی بیوی کے پاس آئے اور کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
یادوں کا سفر کر کے مھین لوٹ آئی۔جیسے ہی چہرہ اوپر اٹھایا نائل کو دیکھ کر جو آنسوؤں آنکھوں میں تھے اُمڑ کر بہنے لگے۔۔
نائل مجھے میری بچی چاہے۔۔۔ مجھے میری نور واپس لا کر دے۔۔۔ وه میری بیٹی ہے۔۔ میں نے اسے پالا ہے۔۔ پلززز کچھ کرے۔۔ بس اس کو مجھے لا دے۔۔۔ مجھے لا دے۔۔۔۔پھوٹ پھوٹ کر روتے مھین چیخ رہی تھی۔
مھین۔۔۔ وه ہماری ہی بیٹی رہی گی۔۔۔ ہم نے اپنی بیٹی کی شادی بھی تو کرنی تھی نہ تو آپ سوچے اس کی شادی ہو رہی ہے۔۔۔ آپ کیوں اسے سوچ رہی ہے کہ وه اب آپ کو نہیں ملے گی۔۔۔ نظر نہیں آئے گی۔۔۔
پر وہ نہیں آتی ابھی سے ہی۔۔۔ایک ماں پریشان تھی اپنی بیٹی کو لے کر۔۔۔
مھین کیا ہو گیا ہے۔ آپ ایسے کیوں سوچ رہی ہے۔ آپ جانتی ہے اس کی طبعیت ہی ایسی ہے ابھی نہیں آ سکتی۔۔۔
ڈیڈ بلکل ٹھیک کہہ رہے ہے ماما۔۔۔ عین نہیں ابھی آ سکتی پر ہم تو جا سکتے ہیں نہ۔۔۔ افنان گھر میں سب کا اداس ہونا کافی دنوں سے نوٹ کر رہا تھا پر خود عین کو محمش کے ساتھ سوچ کر مطمئن تھا۔۔
پر نور پیلس والوں کو بُرا۔۔۔
کسی کو بُرا نہیں لگے گا۔۔ میں پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں، جب نور پیلس آدھی رات کو بھی چلے جائے گے تو وه آپ کو ہماری نور سے ملنے دے گئے۔۔ آپ اس کی ماں ہے۔۔۔افنان نے اپنی ماں کو تسلی دی ساتھ ہی اپنا مضبوط حصار اپنی ماں کے گرد بندھا۔۔
اور یہ کیا ہے۔۔ اتنے گفٹ کس کے لئے ہے؟؟ نائل پاس پڑی خوبصورتی سے سجے چیزوں کو دیکھ رہے تھے ہر طرف پنک ریڈ نیٹ میں چیزیں خوبصورتی سے باسکٹ میں پیک کی گی تھی۔۔
میری بیٹی کی ہے۔ نور کی شادی کے گفٹس۔اس کی ماما نے خود ایک ایک چیز اس کے لئے پسند کی ہے۔ مھین اب ان دونوں کو اپنی شاپنگ کے بارے میں بتا رہی تھی۔ جو ماہم، میره اور سارہ کے ساتھ جا کر صبح کر کے آئی تھی۔
ماما سب بہت پیارا ہے۔ میری عین کو بہت پسند آئے گا۔کل تو نکاح ہے ہم ابھی چلے ابھی نور کو اور باقی سب کو گفٹس دے آتے ہیں۔ آپ اداس بھی ہو رہی ہے تو تھوڑا سا ٹائم بھی گزر لینا۔ افنان نے پلان بنایا۔ جس پر ان دونوں نے بھی اوکے کہ دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو پھر مصطفیٰ ولاز اور رضا ہاؤس سے میره ،غازی بھی نور پیلس پوھنچے تھے۔
نور نے تو مھین تو نائل کو دیکھتے ہی رونا شروﻉ کر دیا تھا۔ یہاں عام شادیوں والا حال نہیں ہونا تھا کہ لڑکی اپنے سسرال کے ہر فرد سے پوچھ کر ہی اپنے گھر اپنے ماں باپ کو ملنے جاتی۔یہاں بات ہی خاص تھی۔ یہاں بات نور پیلس کی پری اور نور پیلس کے شہزادے کی بات تھی۔ عام سے خاص ہوئے لوگوں کی بات تھی۔
ڈیڈی۔۔۔ماما۔۔۔
نور بچے ایسے نہیں روتے۔۔۔ شادی تو سب کی ہوتی ہے۔۔۔ میره سارہ کی بھی تو ہوئی ہے۔۔ وه بھی تو ہمارے پاس ہی ہے۔ جب مرضی آئے، جائے کوئی نہیں روکتا۔۔۔پھر آپ تو یہاں ہے اپنے ہی گھر۔۔۔ سب آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں۔۔۔ ایسے نہیں کرتے میرا بچہ۔۔۔ نائل اپنی بیٹی کو سمجھا رہے تھے۔ جو ان کے ساتھ لگی کب سے سیسک رہی تھی۔۔
سب کی کہاں ڈیڈی!! ابھی تو ماہم کی بھی نہیں ہوئی۔۔ میں بھی تو چھوٹی ہوں۔۔آپ کے پاس تو تب آؤ گی، جب ہم ٹھیک ہو گے نہ۔۔ سسکیوں کے درمیان ہی اپنی باتیں بتائی گی۔
۔
۔
۔
نور کی اس بات پر معاذ کا چھت پھاڑ قہقہ لگا اس ہی وقت ماہم نے ایک چور نظر معاذ پر ڈالی۔۔ جبکہ باقی سب کے چہرے پر بھی مسکراہٹ در آئی۔
ماہم کی بھی ہو گی انشاءلله۔۔ جب ماہم کی شادی کا وقت آئے گا۔ پر ابھی تو آپ کی ہو گی میری جان۔۔ مھین نے اس کو اپنے ساتھ لگا کر پیار سے کہا۔۔۔
نور کچھ سوچتے ہوئے چپ ہوئی پھر جیسے ہی بات یاد آئی بول پڑی۔۔۔
پر ہم ایسے کپڑے، مکیپ یوز نہیں کریں گے، نہ ہی ہم ہیل پہنے گے۔۔ نور کو نئی فکر لاہک ہوئی۔۔اب ہسنے کی باری محمش کی تھی۔ جو اپنی چھوٹی سی بیوی کی فرمائشیں سن رہا تھا۔
آہینور تو اپنی بیٹی کو اس طرح باتیں کرتی دیکھتی کر اس کی نہ جانے کتنی بلائے اتار چکی تھی۔۔۔۔
پر نور میری جان ہم نے تو ساری ایسی ہی شاپنگ کی ہے آپ کی۔۔ اور شادی شدہ لڑکیاں یہ سب یوز کرتی ہے۔۔ آپ کو تو بچپن میں ہیلس اتنی پسند تھی۔۔ رو رو کر لیتی تھی۔۔ پھر پہن کر پورے گھر میں گھوم گھوم کر خوش ہوتی تھی، کھلکھلاتی تھی۔۔۔ اور میرا شہزادہ بچارہ آپ کے پیچھے پیچھے ہوتا کہ کہی آپ گر نہ جائے۔۔۔ آہینور نی بچپن کی یاد کچھ تازہ کی۔۔۔
پر ماما اب ہم بڑے ہو گے ہے نہ تو جب ایسے یہ سب زیادہ دیر کے لئے یوز کرے ہم تھک جاتے ہے۔ پھر گھٹن سی ہوتی ہے۔ طبعیت خراب کر لے گے پھر ہم اپنی۔ نور کے پاس بہت سوال تھے اور ان کے جواب اس سے بھی زیادہ معصوم ہوتے۔۔
اوکے۔۔۔ جیسے پری کو ٹھیک لگے وه ہو گا۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ویسے بھی میں آپ کا کل نکاح کا جوڑا لایا ہوں۔ ساتھ باقی سب چیزیں عام روٹین کی سمپل سی ہے۔ محمش نے اس کی مشکل آسان کی۔۔۔
واہ۔۔۔ ہمیں بھی دیکھائے نکاح کا جوڑا محمش بھائی۔۔ میره' ماہم اور سارہ ایک ساتھ بولی۔۔۔ہال میں اس وقت سب ہی موجود تھے۔ سب ایک ساتھ بیٹھے باتوں میں حصہ لے رہے تھے سب کو اپنا آپ مکمل ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
سو۔۔۔ سوری سیس پر سب کل ہی دکھے گے ڈریس۔۔۔۔ جب پری پہنے گی۔۔ اس کے بعد میں دیکھو گا پھر باقی سب۔۔۔ پہلا حق میرا بنتا ہے۔۔۔ ساتھ ہی محمش کے موبائل پر کال آئی ایک دم سب خاموش ہو گے۔
سب کے گفٹس دیکھ کر نور مچل رہی تھی کہ ابھی کھول کر دیکھے۔۔۔ پر اب اگر کھول کر دیکھنے بیٹھتی تو رات گزر جاتی۔۔ نور کی پسند کی ہر چیز سب نے الگ سے دی تھی۔۔ سب کچھ دیکھ کر نور کے منہ میں پانی بھی آ رہا تھا دل بار بار مچل رہا تھا یہ کھول کر دیکھ لے۔۔ سجاوٹ ہی اس قدر خوبصورت تھی کہ نور تھوڑی دیر بعد باسکٹ کی نیٹ کو اس کی سجاوٹ کو دیکھ کر اپنے نرم وملائم ہاتھوں سے چھو رہی تھی ساتھ ہی ساتھ مسکراتی۔۔۔ اس کی بلی آنکھیں اس وقت خوشی سے چمک رہی تھی۔
آپ آ گی ہے۔ اوکے، اندر آ جائے۔۔۔ محمش نے بات ختم کی اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ اس کے قدم باہر کی جانب تھے۔ پھر کچھ ہی پل کے بعد واپس آیا ساتھ ہی دو لڑکیاں تھی۔ جو اس کے پیچھے چلتی ہوئی آ رہی تھی۔۔
محمش بچے یہ کون ہے۔۔ آغا جان نے پوچھا۔
آغا جان یہ مہندی لگانے آئی ہیں، نور کی اور باقی سب کے بھی۔۔۔ اس کی بات پر آہینور اکفہ بہت خوش ہوئی، جس کو ہر چیز کی پروا تھی۔ کچھ بھی کہے بغیر سب خود ہی کرتا جا رہا تھا۔۔۔
مصترا نور چلے روم میں آپ کو وہاں ہی مہندی لگوانی ہے۔۔ محمش آگے بڑھ کر اپنی پری کے پاس آیا۔۔۔
پر۔۔۔ پر۔۔۔ ہم۔۔۔ نور کہتی رہ گی۔۔ محمش نے کسی کی بھی پروا کے بغیر اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھی، اس کو کچھ بھی کہنے سے مانا کیا۔۔ ساتھ کے دوسرے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب ہلکا سا کھنچا اپنے ساتھ کھڑا کیا۔
باقی سب بھی کچھ دیر میں روم میں آ سکتی ہیں۔ نور اس کے ساتھ کھنچی چلی جا رہی تھی۔ باقی سب اس کی حالت اور معصوم شکل پر قہقے لگا کر خوش ہوئیں۔
روم میں جاتے ہی محمش کی نور کے لئے ایک ڈریس نکالا اور اس کو واشروم کی جانب دھکیلا۔ کچھ دیر بعد نور چینج کر کے آئی تو بلیک نائٹ سوٹ میں تھی۔۔ ڈھیلا ڈھالا سا ٹرؤزر شرٹ میں نور بلکل چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی۔۔
ایش۔۔۔ ہم نہیں لگواتے مہندی۔۔۔ نہیں پسند ہمیں۔۔۔ اتنی دیر لگا جاتی ہے سوکھتی ہی نہیں۔۔۔ نور مہندی کے نام سے ہی کافی بیزار ہو چکی تھی۔ اب اداسی سے بولی تھی۔۔
آپ نہیں تھکتی۔۔۔ میں ہوں نہ ساتھ ، جلدی سے کہوں کا آپ کو لگا دے۔۔۔ سچ میں مجھے آپ کے ہاتھ پر اپنے نام کی مہندی لگی دیکھنی ہے۔۔ محمش چل کے نور کے پاس آیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
دلہن مہندی لگائے بغیر اچھی نہیں لگتی۔۔۔ بلکے دلہن مہندی چوڑیوں کے بغیر دلہن ہی نہیں لگتی میری جان، مجھے میری دلہن سب سے پیاری دکھنی چاہے۔ محمش بول رہا تھا نور آنکھیں زور سے بند کیے اس کو سن رہی تھی۔ محمش نے اس کو کندھے سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا ،اس کے سرخ سفید روئی جیسے ہاتھوں پر بوسہ کیا۔۔۔ میرے لئے لگوا لے پری۔۔۔ مجھے مہندی چوڑیاں آپ کے ہاتھوں میں بہت اچھی لگتی ہے۔
۔
۔
۔
نور بیچاری اب کیا کرتی۔ چپ چاپ محمش کے اتنے پیار پر اور اتنے مان سے کہنے پر ثبت میں سر هالا دیا۔۔۔ پھر وہی دونوں لڑکیاں اندر آئی۔۔ محمش نے پری کی آسانی کے لئے اس کو صوفہ پر ٹیک لگا کر بیٹھا دیا۔۔ ایک لڑکی نے اس کے دائیں ہاتھ پر مہندی لگنی شروﻉ کی جبکہ دوسری نے پری کے گورے گورے پاؤں پکڑے۔۔۔
یہ۔۔ یہ کیا کر رہی ہے۔۔۔ نور ایک دم چیخی۔
پری اِن کو اِن کا کام کرنے دے۔۔ ساتھ ہی لڑکی اس کے پاؤں پر مہندی لگانے لگی۔نور کے بائیں جانب بیٹھا محمش اس کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا۔۔
میری چھوٹی سی پری پاؤں پر بھی مہندی لگواتے ہیں۔ آپ کے گورے پاؤں پر ویسے بھی بہت خوبصورت لگے گی۔ قسم سے آپ بہت پیاری لگنے والی ہے۔۔۔
ماشاءالله۔۔۔۔۔
کل آپ کے ایش کی خیر نہیں ہونی اپنی پری کے ہاتھوں۔۔ محمش کی باتوں پر پری شرم سے لال گلابی ہو رہی تھی۔ جبکہ محمش اس کی حالت پر مزے لے رہا تھا اس کے ہر بدلتے روپ کو اپنے دل میں بسا رہا تھا۔۔
کچھ دیر کے بعد پاؤں کی مہندی کمپلیٹ ہوئی تو نور کے دوسرے ہاتھ پر مہندی لگائی جانے لگی۔۔ نور کو بیٹھے بیٹھے تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔ محمش نے اس کے سر کو اپنے کندھے پر رکھا اور اس کے سر کے بالوں کو آرام آرام سے سہلانا شروﻉ کیا ہی تھا کہ باقی آفت کی ٹولی بھی روم میں آ گی۔۔ نور کو اب شرم آ رہی تھی اپنی حالت پر۔۔ پر محمش کو کوئی پروا نہیں تھی۔۔
سب نے روم میں قبضہ جما لیا۔۔ اب معاذ تھا اور اس کی شطانیاں۔۔۔ جس پر سب لوٹ پھوٹ ہو رہیں تھے۔۔ نور کی آنکھوں میں تو ہنس ہنس پر پانی ہی آ گیا تھا پر معاذ باز نہیں آیا۔۔
رات دو بجے سب نور پیلس سے رخصت ہوئے۔نور تب تک گہری نیند میں تھی اس کی پوری مہندی سوکھ چکی تھی۔۔ آہینور کے ساتھ بچوں کی طرح لپٹ کر سوئی ہوئی تھی۔ جبکہ معاذ بھی ضد کر کے آج اس ہی روم میں سویا تھا۔۔ آہینور کے ایک طرف مصترا نور شاہ جبکہ دوسری طرف معاذ شاہ مٹھی نیند سو رہیں تھے۔
محمش روم میں ایک نظر ان کو دیکھنے آیا تھا کہ جانے دل میں کیا سمائی ان سب کی تصویریں اپنے موبائل میں قید کر لی پھر دھرے دھرے قدم اٹھاتا ہوا معاذ کی طرف آیا اور اس کی پیشانی پر بوسہ لیا۔۔ پھر آہینور کی بھی پیشانی کو آرام سے چوما۔۔ نور کی جانب آ کر اس کے ہاتھوں پر بوسہ لیا پھر مسکراتا ہوا اس کی پیشانی پر اپنی مہر ثابت کی، پھر کچھ پڑھ کر اس پر پھوک کر روم سے باہر آ گیا۔۔۔
اس کے قدم اب اپنے ماں باپ کے روم کی جانب تھے۔ روم کی لائٹ روشن ہی تھی۔ محمش نے روم کا دروازہ نوک کیا اجازات ملنے پر اندر آیا، اور کچھ بھی کہے بغیر جلدی سے بیڈ پر چڑ کر لٹ گیا۔ عالمگیر شاہ اس کے انداز پر آنکھیں پھاڑے اس کو تک رہے تھے۔ جبکہ اکفہ جو الماری سے کچھ چیزیں نکل رہی تھی خوب ہنسی۔۔۔
محمش کیا ہوا ہے۔۔ آپ روم میں۔۔۔
مجھے آپ دونوں کے ساتھ سونا ہے یہاں۔۔محمش کہہ کر تکیہ ٹھیک کرتا ہوا بولا۔۔۔
توبہ۔۔۔ خدا کو مانو لڑکے اس عمر میں ہمارے ساتھ سو گے۔۔۔ عالَم اب تک محمش کی حرکت پر سکتے میں تھے۔۔۔
وہاں جانی کے ساتھ بھی تو ان کے بچے سوئے ہے تو میں بھی آج آپ دونوں کے ساتھ سوو گا۔۔ محمش سکون سے کہتے ھوے آنکھیں بند کر گیا جبکہ عالَم اب اپنی بیوی کو دیکھ رہے تھے جس کے چہرے پر مسکان جانے کا نام ہی نہیں کے رہی تھی۔۔
اکفہ اپنا کام چھوڑ کر لائٹ افف کرتی بیڈ پر آئی۔ محمش نے اپنا سر اپنی باپ کی گود میں رکھا اور اپنی ماں کا ایک ہاتھ اپنے دل پر جبکہ دوسرا ہاتھ اپنے سر پر رکھا۔اکفہ جان گی تھی محمش ان کو اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے کو کہہ رہا ہے۔۔۔۔
عالَم اور اکفہ اپنی اکلوتی کو اس طرح دیکھتے ھوے خوش ہو رہے تھے۔ آج اتنے سالوں کے بعد ان کا بیٹا دل سے خوش ہو رہا تھا۔۔ مسکرا رہا تھا۔۔۔ اپنے بھی لاڈ پورے کروا رہا تھا اور باقیوں کے بھی کر رہا تھا۔ اکفہ اور عالَم دونوں نے ایک ساتھ اس کی گالوں پر پیار کیا تھا۔
اولاد کی عمر کچھ بھی ہو جائے چاہے وہ بوڑھے ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ماں باپ پہلے دن کی طرح ہی ان سے پیار کرتے ہیں۔اس کے لاڈ اٹھاتے ہیں۔
"پہلے دن کا پیار"
پہلے دن کا پیار ماں باپ دونوں کو کبھی بھی نہیں بھولتا۔ ایک چھوٹا سا خوبصورت سا اپنے وجود کا ہی ایک حصہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ جب پہلی بار اپنی اولاد کو پکڑتے ہیں۔تو کیسے اپنے سینے سے لگتے ہیں۔ بہت احتیاط سے اس کو پکڑتے ہے۔ کہی ان کے ہاتھ سے یہ نازک، نرم سا وجود پھسل نہ جائے۔ پھر کون سا وقت ایسا نہیں ہوتا جب آپ اس کو پیار نہیں کرتے۔جب جب آپ کی نظر اپنے بچے پر جاتی ہے آپ کو تب تب اور بھی پیار آتا ہے۔بار بار اس کے بوسے لئے جاتے ہے۔ اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کرتے ہے۔۔ یہ پیار آپ کو باقی سب احساسات سے الگ لگتا ہے۔ جیسے آپ یہ وقت نہیں بھولتے نہ بھولا سکتے ہیں ویسے ہی اپنی اولاد کی زندگی میں آنے والے حالت، خوشیاں،غم کچھ بھی آپ نہیں بھول پاتے۔
۔
۔
۔
اکفہ اور عالَم کی نظریں بھی اپنے بیٹے پر جمی ہوئی تھی جو کب سے پرسکون نیند میں تھا۔۔ پر یہ دونوں اس کا بچپن اس کی جوانی کو یاد کر رہے تھے۔بچپن جتنا خوبصورت اس نے گزارا تھا جوانی میں ان کا بیٹا بہت تڑپا تھا۔ بہت صبر سے آزمائشوں کا سامنا کرتا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھابی میں۔۔۔ اگر وہاں۔۔۔ ثانیہ کچھ کہتے کہتے چپ ہو چکی تھی۔ اس کی حالت سے ہی لگا رہا تھا کوئی بات اس کو پریشان کر رہی ہے۔۔ پر کیا میره یہ جان نہیں پا رہی تھی۔
اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر تسلی دی گی۔۔ یہاں دیکھو میری طرف میره نے اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا تھا۔۔۔ اب بتاؤں کیا بات پریشان کر رہی ہے تمہیں۔۔ ہم فرینڈز ہے نا تو کوئی بھی بات شئیر کر سکتی ہوں۔۔
وہ بھابی مجھے نور پیلس جانا ہے۔۔ نور سے ملنے۔۔۔ مجھے معافی مانگنی ہے پلززز۔۔۔ مجھے سکون نہیں آتا ایسے۔۔ میرے دل میں بوجھ سا ہے۔۔۔ مجھے لے جائے گی نہ آپ پلززز۔۔۔ ثانیہ تو مچل ہی رہی تھی نور پیلس جانے کو معافی مانگنے کو۔۔
ہاں میں آپ کو ضرور لے کر جاؤ گی وہاں۔۔۔ آپ نور سے مل لینا۔۔ پر ابھی نہیں ثانی۔۔۔
ابھی کیوں نہیں بھابی پلززز لے جائے نہ۔۔۔
ابھی اس لئے نہیں کیوں کہ ابھی نور ٹھیک ہونا شروﻉ ہوئی ہے۔ اور آپ کے بارے میں ابھی کوئی بھی بات کسی نے بھی اس سے نہیں کی۔۔۔ محمش بھائی ایسی کوئی بھی بات نہیں کرنے دیتے جس سے نور پریشان بھی ہو۔۔۔ پر سچ میں ثانی، نور آپ سے بہت ڈرتی ہے ابھی بھی۔۔۔ہم کچھ دنوں تک خود محمش سے بات کرے گے اجازات لے دو گی پھر آپ مل لینا۔۔۔
میره اس کو اصل بات سمجھا رہی تھی۔۔
پر وه ہمیں ملنے دے گے؟؟ ہمیں معاف کر دے گے نہ؟؟
انشاءلله میں خود بات کرو گی محمش بھائی سے وه مانا نہیں کرے گے۔۔۔
جی۔۔۔ ثانیہ چپ ہو گی تھی۔۔۔ اداس نا ہو۔۔ سب جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ اور یہ کب تک گھر بیٹھے رہنے کا ارادہ ہے آپ کا جناب!!!
مطلب۔۔۔۔ ثانی کی پیشانی پر ذرا سے بل آئے سوچنے کی کوشش کی گی۔۔۔
مطلب آفس کب سے جانا ہے۔ ماموں اور غازی صبح کافی دیر ویٹ کرتے رہے ہیں تمہارا۔۔
وه بھابھی بس کچھ دن۔۔۔ دہمی آواز میں کہا۔۔
کچھ دن نہیں آپ ابھی جا رہی ہے۔ فرش ہو جاؤ میں ڈریس نکال رہی ہوں تمہارا۔۔
پر بھابھی ابھی نہیں۔۔۔۔
کوئی شور نہیں، میں نے کہا ہے نہ جا رہی ہو، تو جا رہی ہو۔۔ جو تمہارا کام ہے کرو جا کے۔۔۔ میرے ماموں کو شوھر کا لگاتا بزنس تباہ کرنے کا اردہ ہے۔۔۔
میرہ کی لاسٹ بات پر ثانی کا قہقہ لگا۔۔ میره اس کے انداز پر خوش ہوئی تھی۔۔
چلو زیادہ باتیں نا کرو۔۔۔ فرش ہو جا کر۔۔۔ میره نے ڈریس دے کر اس کو واشروم میں دھکیلا تھا۔۔
غازی کو باقی گھر والے بھی کافی پریشان تھے ثانیہ کے انداز سے جو ایک منتھ ہونے پر بھی اس سب سے باہر نے نکال پا رہی تھی۔۔ پھر رات کو میره نے سب سے بات کی تھی۔۔ اور اب اپنا پلان اس کو بھی کامیاب ہوتا ہوا نظر آیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمش کچھ دیر ہی سویا تھا۔ پھر تہجد کی نماز کے لئے اٹھ گیا۔۔ تہجد کے نوافل پڑھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا۔۔ آج ایک بات تھی جو محمش خود سب کو بتانا چاہتا تھا۔۔
فجر کی اذان کے وقت نور پیلس میں ہل چل شروﻉ ہو گی تھی سب اللہ کو یاد کرنے کے لئے اٹھ چکے تھے۔۔
۔
۔
۔
پر باہر لان میں محمش جماعت کروانے کے لئے کھڑا تھا۔۔ پہلے تو سب کافی حیران ہوئے۔ پر کچھ بھی کہنے کا موقع دئے بغیر اس نے جماعت ادا کروائی۔۔ پھر جمعہ ہونے کی نسبت سے ذکر بھی کیا گیا۔ محمش کے الفاظ، اس کی آواز، لہجہ، تاثیر سب حیران تھے۔۔
دوا مانگ کر محمش سب سے گلے ملا تھا۔۔
مجھے آپ سب کو کچھ بتانا ہے۔۔ محمش نے بات کا آغاز کیا۔۔
کیا بات ہے محمش۔۔۔!!!آغا جان اس کے اندازہ پر حیران تھے۔۔
وہ مجھے یہ بتانا تھا کہ میں نے بہت سال پہلے قرآن حفظ کیا ہے۔ پر میں نے کسی کو نہیں بتایا۔۔ کیوں کہ مجھے لگا تھا کہ جس کی وجہ سے میں اس راہ پر آیا۔۔۔ یا لایا گیا اس کو سب سے پہلے بتاؤں گا۔۔ محمش اب ان سب کے چہروں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
اکفہ کی آنکھوں میں آنسوؤں تھے۔ جبکہ عالَم کو آج اپنے بیٹے پر سب سے زیادہ فخر محسوس ہو رہا تھا۔ ان کی ایک ہی اولاد کو اللہ نے سب کچھ عطا کیا تھا۔ جس پر شکر کرتے تھک نہیں رہے تھے۔ آغا جان آگے بڑھے اور اپنے جان سے عزیز پوتے کو زور سے گلے لگایا۔۔
میرا بچہ۔۔۔ میرا شیر بچہ۔۔۔ اللہ تمہارے صدقے ہمیں بھی نیک کرے۔۔ اللہ تمہیں نیک اور خوشیوں بھری لمبی زندگی عطا کرے۔۔سب نے امین بولا تھا۔۔
آہینور اور اس کی پری تو پہلے سے سب جانتی تھی۔
ہماری پری نے جو کہا تھا آپ نے تو مانا ہی تھا نا۔۔۔ پھر آپ کیسے نہیں کرتے قرآن یاد۔۔۔ لالا۔۔۔ معاذ کو کوئی پروا نہیں تھے سب ایک ایک بات یاد کروا رہا تھا جو اس کو اکفہ اور آہینور سے معلوم ہوئی تھی۔۔۔
۔
۔
۔
ابھی اجالا سہی سے نہیں ہوا تھا محمش کو مصترا کا خیال آیا۔ اس کے قدم نور کے روم کی جانب تھے۔
روم میں ہلکی ہلکی روشنی تھی جبکہ ونڈو پر ابھی بھی پردے گرے ھوے تھے۔ اس کے دونوں بازوں کے نیچے کوشن تھے جو شاید آہینور رکھ کر گئی تھی۔ مٹھی نیند سوئی ہوئی اس کی پری معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ رہی تھی۔۔ محمش اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا اس کے ماتھے پر بکھرے بال سہی کیے پھر پڑھی گی سورتیں اس پر پھوکی تھی۔ہر نماز کے بعد محمش ایسا ہی کرتا تھا۔۔۔ نور کی صحت کے لئے اس کو کچھ بھی کرنا پڑتا یہ کرتا۔۔ بلکے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔۔ اس لئے ہی نور بہت جلد صحتیاب ہو رہی تھی۔۔ ہاتھوں پر لگی اس کی مہندی پوری طرح سوکھ چکی تھی۔نور نیند میں ذرا سی کسمائی۔ محمش کو اس کے انداز پر بہت پیار آیا۔۔ پر ابھی تو اصل کام ہونا باقی تھا۔۔ جو تھا نور کو اٹھنا۔۔۔ سب سے بڑا اور مشکل کام۔۔۔
محمش اس کے بالوں میں اپنی انگلیاں چلا رہا تھا۔۔ نور کے چہرے پر مسکان آئی۔ نیند میں بھی اس کو اس طرح کرنے سے خوشی مل رہی تھی۔۔۔
محمش اس کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا۔
نور اٹھ جائے۔۔ صبح ہو چکی ہے میڈم!!
نور کے چہرے کے تاثرات کچھ پل کو بدلے۔ محمش اس کی حالت پر لُطف اندوز ہو رہا تھا۔
نور۔۔۔ پھر سے پکارا گیا۔۔ پری نے بہت مشکل سے اپنی ایک آنکھ کھولی۔۔۔
پری اٹھ جائے اب۔۔۔ محمش نے اس کے ہاتھ کی ہتھیلی پر اپنی انگلی پھری جس سے نور کو گوگدی ہوئی۔۔۔
ایش۔۔ سونا ہے ابھی۔۔۔ تھوڑا سا پلززز۔۔۔
نماز کا وقت نکل جائے گا۔۔۔ بعد میں سو جانا۔ پر ابھی اٹھ جائے۔۔۔
پری نے مشکل سے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔۔ بس تھوڑا سا نہ۔۔۔ ابھی تو سوئے تھے ہم۔۔۔ بوجھل آنکھیں جو کھل کم بند زیادہ ہو رہی تھی۔۔ محمش اس کے انداز حالت پر قہقہ لگا رہا تھا۔۔ پر نور میڈم کی شکل ایک دم رونے والی ہو گی۔۔۔
آپ ہمارا مزہ بنا رہے ہے۔۔۔ ایش آپ۔۔ ہم بات ہی نہیں کرتے آپ سے۔۔۔ منہ پھلا کر نور بولی۔
توبہ توبہ۔۔ ہم مزہ کیوں کرے گا۔۔۔ ہم تو خوش ہو رہے ہے۔آپ کو دیکھ کر، آپ اتنی پیاری لگ رہی ہو۔محمش نے اس کو پیار سے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔
اسلام و علیکم!!! صبح بخیر۔۔۔۔ نور اس کے سینے میں منہ چھپائے بولی۔۔۔
آپ کو اب یاد آیا ہے یہ سب؟؟؟
نہیں ہمیں ہوش اصل میں اب آیا ہے نا ،تو اس لئے۔۔۔
محمش اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتا کم تھا۔ جس نے اس کے نصیب میں اتنی اچھی اور معصوم لڑکی لکھی تھی۔۔۔
محمش اٹھ کر واشروم میں گیا۔۔ جب آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ٹب تھا۔۔
چلے اپنے پاؤں ڈالے اندر۔۔۔
کیوں؟؟
آپ کی مہندی اتارنی ہے۔۔ پاؤں اندر رکھے۔۔۔ محمش اب اس کے اوپر سے کمبل اتار دیا۔۔
نہیں ایش ہم خود کر لے گے۔ بس واش روم تک چھوڑ دے آپ۔ نور اپنے پاؤں پر ہاتھ رکھ چکی تھی۔ سر نفی میں هالا رہی تھی۔
آپ کو پتا ہے نا، نور صبح صبح آپ سے سہی سے کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا۔۔ آپ کو ویکنس محسوس ہوتی ہے۔۔ آپ واشروم میں جا کر کیسے اتنی دیر کھڑی رہ کر پاؤں سے مہندی صاف کرے گی۔
پر آپ نہیں۔۔۔۔
میں نے آپ سے پوچھا نہیں ہے۔۔۔ ساتھ ہی محمش نے اس کے پاؤں ٹب میں ڈال دئیں۔ پانی نیم گرم تھا جس کی وجہ سے سوکھی مہندی اب پانی میں گھل رہی تھی۔ نور کو یہ سب بہت برا لگ رہا تھا محمش کو اس کے چہرے پر صاف ناراضگی کا ٹیگ لگا نظر آ رہا تھا۔۔
"اچھی لڑکیاں اپنے شوھر سے ناراض نہیں ہوتی"
تو شوھر بھی اچھے ہونے چاہے نہ، جو چھوٹی سی معصوم بیوی کی بات بھی مانتے ہو۔۔
محمش تو اس کی انداز پر ،بات پر اش اش کر اٹھا۔۔۔
ساری بات نہیں مانی جاتی صرف اچھی اور سہی باتوں پر عمل کیا جاتا ہے۔۔
ایش۔۔ آپ ایسے کیوں کرتے ہے۔۔ ہمیں بلکل بھی اچھا نہیں لگتا۔۔ نور کی آواز میں نمی تھی۔۔
پری میں نے اپنے آغا جان کو بی جان کو آنی کی خدمت کرتے دیکھا ہے۔۔ میں نے پاپا کو ان کی ماں، بیوی، بہن کی خدمت کرتے دیکھا ہے۔ مجھے شرم نہیں آتی یہ سب کرتے ھوے اور میں کیوں شرم محسوس کرو،جبکہ آپ میری بیوی ہے۔
پر ایسے کوئی بھی نہیں کرتا ایش۔۔۔۔
کرتے ہیں۔۔ جو جانتا ہو وه سب کرتے ہیں۔۔ آنی جب بیمار تھی پاپا روز ان کے پاؤں اور ہاتھوں پر مساج کرتے تھے کیوں کہ قوما میں جانے کی وجہ سے ان کی صحت بہت خراب ہو گی تھی۔ اس کے اثر ان کی سکن پر بہت ہوا تھا۔۔ اور آغا جان تو آنی کے پاؤں صاف کرتے تھے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے بال بھی خود بناتے تھے۔۔ یہی نہیں جب بی جان بیمار ہوئی تھی تو آغا جان ان کے سب کام خود کرتے تھے کوئی بھی نرس نہیں رکھی تھی۔
اگر کوئی بیوی اپنے شوھر کا ہر کام کر سکتی ہے۔ اس کی بیماری میں اس کا خیال خود رکھ سکتی ہے۔ تو شوھر بھی اپنی بیوی کے سب کام خود کر سکتا ہے۔ بیوی کبھی بھی شوھر کے بیمار ہونے پر کوئی ہیلپر لڑکا نہیں رکھتی تو پھر شوھر کو بھی چاہے کہ وه بیوی کی بھی خود دیکھبال کرے۔۔ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ بیوی ہی سارے کام کیا کرے۔۔ اور مرد کچھ بھی نہیں کر سکتا۔۔۔
محمش اس کو سمجھا رہا تھا بتا رہا تھا ساتھ ہی ساتھ اس کے پاؤں سے مہندی صاف کر کے اب ہاتھ صاف کر رہا تھا۔۔
اور اس کی پری ہمیشہ کی طرح اس کی باتوں اس کی آواز میں کھوئی ہوئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بچے سمجھنے سے اتنا نہیں سیکھتے، جتنا وه دیکھ کر سیکھتے ہے۔ بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ بچے کی تربیت بہت اچھی کی جاتی ہے۔ پر کہی نا کہی کوئی کمی سی رہ جاتی ہے۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔۔ اس کے بعد وه ماحول ہوتا ہے جہاں وه پلتا، جوان ہوتا ہے۔ گھر کے ماحول سے ہر بچہ بہت کچھ جانتا ،سمجھتا، سیکھتا ہے۔ تربیت میں یہ سب بھی شامل ہوتا ہے۔ بچے کو مارنے، پیٹنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بچہ آپ کے انداز گھر کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ یہی سب سے اس بچےکی تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ پھر جب تربیت سہی سے ہو گی، وہی تربیت اس کی زندگی اور اس زندگی کے ساتھ جوڑے لوگوں کی زندگیوں میں سکون اور خوشحالی لاتی ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔