پہلے زلف دی "ف" توں لگے فتوے
ول نین دے" ن" تے بس ہو گی
آساں "د" توں ساقی دلبر پڑھیا
ساڈی عشق دی "ع" تے بس ہو گی
مجھے پہلے بہت شکوے تھے پر تب بہت کچھ ٹھیک تھا۔ مجھے تب اتنی بےسکونی نہیں تھی ، تب مجھے ہر پل، ہر وقت ایک امید تھی۔ امید وہ جس نے مجھے آپ سے جوڑا ہوا تھا۔۔
پر اب۔۔۔۔۔
پر تب مجھے کوئی شکوہ نہیں تھا۔ کوئی بھی کسی بھی قسم کا گلا نہیں تھا میں نے بہت شکرادا کیا تھا اس کے ملنے پر۔۔۔ وه مل گی تو مجھے کچھ چاہے بھی نہیں تھا۔ مجھے اپنا آپ مکمل ہوتا ہوا محسوس ہوا، پر آپ نے ایک اور آزمائش میرے حصے لکھ دی۔ آزمائش بھی ایسی کہ میں کچھ بول بھی نہیں سکتا نہ میں سہہ سکتا ہوں۔۔۔
اللہ جی۔۔۔۔ میرے مولا۔۔۔ میں بہت گناہ گار ہوں،پر آپ سے توبہ کرتا ہوں۔ میرے پر ایسی آزمائش نہ ڈالنا کہ میں سہہ نہ سکوں اب۔۔۔ مجھے آپ پر کامل یقین ہے اس لئے آپ سے کہ رہا ہوں آپ کے پاس آیا ہوں آپ کے سامنے اپنا دل ہلکا کر رہا ہوں آپ کو مانتا ہوں آپ کو سجدہ کرتا ہوں۔۔۔
"آپ کو سجدہ کرنے والا بہت پسند ہے تو میرے اللہ جس کا سجدہ آپ کو بہت پسند ہے اس کے صدقے مجھے میری خوشی عطا کر دے۔۔ "
میری پری کو مجھے واپس لوٹا دے۔ وه بہت اذیت ،تکلیف میں ہے۔ اس کو ٹھیک کر دے صحت یاب کر دے۔۔۔
ہسپتال کی مسجد میں سجدے میں گرا محمش رو رو کر اپنے رب سے اپنی زندگی کے ٹھیک ہونے کی بھیگ مانگ رہا تھا۔ اس وقت مسجد میں موجود لوگ اٹھ اٹھ کر اس روتے ہوئے لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔ جو بہت تکلیف میں تھا۔ جس کی آواز میں ازیت تھی ۔جس کی سسکیاں وہاں بیٹھا ہر شخص باآسانی سن رہا تھا۔۔۔
سجدے سے سر اٹھایا۔ بکھرے بال۔۔۔ نیلی آنکھیں رو رو کر لال ہو چکی تھی۔ چہرے پر آنسوؤں کی لڑیاں۔۔۔ کہی سے بھی وه نور پیلس کا شہزادہ نہیں لگ رہا تھا۔۔" اسے شہزادہ بنا ہی نہیں تھا وه اپنے رب کے گھر آیا تھا فقیر بن کر سوالی بن کر۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے بھی یہ لڑکا ایسے ہی رویا تھا پاگل دیوانہ بن گیا تھا۔۔
وجہ؟؟؟
وجہ وہی بلی آنکھوں والی اس کی شہزادی تھی جو اس سے دور ہو گی، بچھڑ گی تھی۔۔
پر تب اس کی عمر پندرہ سال تھی۔
اپنی پری کے بچھڑنے کا دکھ اس پر بہت بری طرح اثر کیا۔ کئی دن تک بخار میں پھنکتا رہا۔ ہوش میں آنے کے بعد ایک ہی لفظ ہوتا۔۔
پری۔۔۔ مجھے میری پری چاہے۔۔۔۔۔
کچھ بھی تو ٹھیک نہیں تھا۔ نہ پری ان سب میں رہی ،نہ آہینور ٹھیک ہوئی، نہ ہی محمش ٹھیک ہوا۔۔
پھر ایک خاص دن تھا۔ اللہ نے مقرر کر دیا تھا وہ دن، بہت سے دلوں کو اس دن قرار نصیب ہونا تھا۔ ۔
۔
۔
۔
جمعے کی نماز کے لئے آغا جان محمش کو قاری عبدالفیف کی مسجد اپنے ساتھ لے آئے۔
یہی وه دن تھا اس کی تربیت کا۔۔۔اس کی سوچ کے بدلنے کا۔۔۔اصل میں اس کے شہزادے بنے کی طرف اس کا پہلا قدم تھا۔۔
قسمت کے رنگ عجیب ہے جس کو ملنا ہوتا ہے ۔عطا کرنا ہوتا ہے، وه اس تک آ ہی جاتا ہے یا پھر ہمارا سوہنا رب ہمیں وہاں تک لے جاتا ہے۔ اس کا بھی وہاں جانا لکھا تھا۔۔ وقت آنے پر اس کے قدم وہاں پڑ ہی گے۔۔
۔
۔
۔
پھر اس کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔۔نئے سفر کا خوبصورت آغاز۔۔۔ وه آغاز جس نے محمّد محمش شاہ کو ،حافظ محمّد محمش شاہ بنا دیا۔۔۔ اصل کا شہزادہ۔۔۔اپنی پری کا شہزادہ۔۔۔
تب بھی مسجد میں یہ شہزادہ ایسے ہی پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا کہ دیکھنے والے کا دل دیکھ کر روتا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی یہی حل تھا محمش کا دل آج پھر رو رہا تھا۔ یہ خود رو رہا تھا۔۔ دوسروں کے آنسوؤں صاف کرنے والا آج خود تڑپ رہا تھا۔۔۔ تکلیف کے آخری" ف" کو اس کی سسکیاں چھؤ رہی تھی۔۔
"کوئی فلسفہ نہیں عشق کا، جہاں دل جھکے، وہیں سر جھکا
وہیں ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جا ، نہ سوال کر ، نہ جواب دے"
دعا مانگ کر مسجد سے نکل کر اب اس کے قدم ہسپتال کی جانب تھے۔۔
اک اک پل۔۔۔ اک اک لمحہ بھاری پڑ رہا تھا صرف اس پر ہی نہیں بلکے سب پر۔۔۔ اس وقت یہاں کسی کو ہوش نہیں تھا فکر تھی تو اس کی جو اس وقت خود تکلیف میں بےخبر اندر آپریشن روم میں بیہوش تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے سالوں کا پیار آپ سب نے صرف کچھ پل میں ہی ختم کر دیا۔۔۔ اتنے سال آپ کے پاس رہی وہ ،پر آپ سمجھ نہ سکے۔۔ اتنی بڑی غلطی۔۔۔ اتنی بڑی سزا۔۔۔اس کو سمجھتے تو۔۔ اس کو جاننے کی ذرا سی کوشش کر لیتے۔۔
آپ سب کی ذرا سے لاپرواہی کی وجہ سے میری بچی اتنی تکلیف میں ہے۔
آہینور کی حالت ایسے تھی کہ جان کوئی کھنیچ کھنیچ کر نکل رہا ہو۔۔ جسم پر کوئی آری چلا رہا ہو۔۔۔
میری گڑیا۔۔۔ میرے نور۔۔۔ میری جان۔۔۔ لالا اسے ٹھیک کروا دے پلززز۔۔۔ اب کی بار اسے کچھ ہوا تو۔۔۔ تو مہ۔۔ میں مر جاؤ گی۔۔۔ میں مر جاؤ گی سچ میں۔۔۔
خدا نہ کرے آہینور۔۔۔ اللہ اسے ٹھیک کر دے گے۔ اس وقت اسے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اچھی باتیں منہ سے نکالوں۔۔۔ اللہ رحم کرنے والا ہے بےشک۔۔۔
عالَم نے اپنی بہن کو حوصلہ دیا تھا جو کہ یہاں کا ہر فرد ایک دوسرے کو دے رہا تھا۔۔پر سب اندر سے ٹوٹ رہے تھے جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا سب کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔۔افنان اور نائل نے اب تک ہوئی ہر بات بتا دی تھی۔پر جب سے پتا چلا تھا کہ نور کی حالت صرف اور صرف ثانیہ کی وجہ سے ہوئی ہے رضا صاحب ثانیہ کو اپنے ساتھ لئے گھر آ چکے تھے۔ ہسپتال میں اس وقت نور پیلس اور مصطفیٰ ولاز کی فیملی ہی باقی تھی۔ ڈاکٹر نور کا اپنے طور پر ٹریٹمنٹ کر چکے تھے پر نور کے لئے اگلے چوبیس گھنٹے بہت اہم تھے۔ نور اس وقت بھی ICU میں تھی۔ جہاں جانے کی اجازت کسی کو نہ تھی۔ باہر ہی سب انتظار میں تھے کسی معجزے کہ۔۔۔۔۔۔۔
آہینور کی باتیں بھی اپنی جگہ ٹھیک تھی۔ شادی کی تیاری میں مصطفیٰ ولاز والے اس پری کو بھول چکے تھے۔ کہ ان کا روایہ اس کی زندگی پر اس کی حالت پر کیا اور کیسے اثر کر رہا ہے۔ پر اس کا فائدہ ثانیہ نے اٹھا ہی لیا۔۔ جس کی قیمت نور سمیت بہت سے لوگ اٹھا رہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر کی نماز ادا کر کے محمش ہسپتال آیا تھا۔ وزٹ روم میں بیٹھے سب نے اس کا بکھرا حلیہ دیکھا تھا۔۔ پریشان تو سب تھے چوٹ تو سب کو لگی تھی۔ پر آہینور۔۔۔معاذ۔۔ محمش۔۔۔ افنان۔۔۔ کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔ مصطفیٰ ولاز کے سب لوگ نور پیلس والوں سے آنکھیں بچا رہیں تھے۔
آہینور کی بلی آنکھیں ایک بار پھر آنسوؤں سے بھر گی۔۔ سختی سے بیچے لبوں سے سیسكی نکل ہی گی۔
محمش آتے ساتھ ہی آہینور کے گلے لگا تھا اور اس پر ہی آہینور کی بس ہو گی۔۔۔ پھر جو یہ ماں روئی تو وہاں کھڑے سب کی آنکھیں نم کر گی۔۔۔ محمش خود ضبط کر رہا تھا پر اس کے باوجود بھی نیلی آنکھیں نم ہو گی۔
مہ۔۔۔ محمش وه۔۔۔ وه ٹھیک نہیں۔۔۔ نا۔۔راض۔ ناراض ہو گی۔۔۔ اسے ماننا لو۔۔۔ میری ب۔۔۔ میری بچی کو وا۔۔ واپس لے اؤ۔۔۔ مجھے میری بچی۔۔ میری نور چاہیے ۔۔۔ پلززز۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ لے اؤ اسے میں مر۔۔۔ میں اس کے بغیر مر جاؤ گی۔۔۔محمش لے اؤ۔۔۔ لے اؤ۔۔۔
آہینور کی آواز رو رو کر بیٹھ سی گئے تھی پر اس وقت اس ماں کو اپنی بچھڑی ہوئی بیٹی چاہے تھی جو اتنے سال پہلے کھو گئ تھی پر ملے پر پھر سے دور جا رہی تھی۔۔۔
آنی۔۔۔ پلززز نہ کرے ایسے۔۔۔ اللہ کے لئے نہ روئے وه ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ آپ خود کو بھی بیمار کر لے گی۔۔۔ سمبھال لے خود کو ابھی ہم نے اپنی پری کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ ابھی ہمت نہیں ہارنی۔۔۔ آپ سمجھ رہی ہے نہ میری بات۔۔ آپ کو اپنا خیال رکھنا ہے میرے لئے۔۔۔ معاذ کے لئے۔۔۔ پری کے لئے۔۔۔ سب کے لئے۔۔
میں اب کسی کو نہیں کھو سکتا پلززز۔۔۔ میرے پاس کچھ نہیں بچا کھونے کے لئے اب۔۔۔ میرے میں اب ہمت نہیں، اپنے چاہنے والے کو خود سے دور کرو۔۔۔اب اور نہیں۔۔۔ محمش کی روئی روئی بھاری آواز اس کی باتیں سب کو حوصلہ تسلی دے رہی تھی۔
۔
۔
۔
دوپہر کے بارہ بج چکے تھے سب تھکن سے دکھ سے نڈھال ہو چکے تھے۔ کوئی بھی گھر جانے کو راضی نہیں ہوا۔۔ اندر بے خبر سوئی ہستی کے لئے باہر اتنے لوگ اپنا آرام چین بھولیے ھوے تھے۔ تب ہی ایک نرس بھاگی ہوئی اس طرف آئی۔۔۔۔
"آپ میں سے ایش کون ہے۔۔ "
ایش لفظ پر نور پیلس والوں کی آنکھیں حیرت سے کھل گی جبکہ مصطفیٰ ولاز والے چپ چاپ ان سب کے چہرے دیکھ رہے تھے
میں ہوں۔۔ کیا ہوا ہے؟؟ محمش اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
اندر جو بچی ہے، وه بار بار "ایش" کا نام لے رہی ہے۔ ڈاکٹر آپ کو اندر بولا رہے ہے۔ نرس سے اپنے ساتھ چلنے کو کہاں۔۔۔
پر میری بیٹی۔۔۔ وه ٹھیک تو ہے نہ۔۔۔ کچھ بولے تو۔۔ میری بچی اندر۔۔۔آہینور کی دل کی دھڑکن حد سے زیادہ تیز تھی۔۔
آپ پریشان نہ ہو وه اب ٹھیک ہو جائے گی۔۔ انشاءلله۔۔۔ ان کو ہوش آ رہا ہے اس لئے ایش کا نام لے رہی ہے بار بار۔۔۔ آپ اندر چلے میرے ساتھ۔۔ محمش کو اپنے ساتھ اندر چلنے کو کہاں۔
راہداری ICU کے اندر جاتے ھوے محمش کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔۔ جسم میں کپکپاہٹ وظیع تھی۔
سامنے ہی بیڈ پر اس کی پری بےحال پڑی تھی۔ منہ پر آکسیجن ماسک لگائے۔۔۔ جبکہ بائیں کلائی پر پٹی کی ہوئی تھی۔ ہاتھوں پر ڈرپس۔۔ ہارٹ بیٹ مونیٹر کی آواز اس وقت محمش کو سب سے زیادہ خوفناک آواز لگ رہی تھی۔دائیں، بائیں اور بھی مختلف مشین تھی جس کو دیکھ کر محمش کی خود ہی حالت غیر ہو رہی تھی ماتھے پر بار بار پسینہ آ رہا تھا۔۔
ڈاکٹر محمش کے پاس آئے تھے پر اس کی نظریں صرف اپنی پری مصترا نور شاہ پر ہی تھی۔
محمش ہم نے اپنی پوری کوشش کی ہے آگے اللہ کے ہاتھ میں ہے اور پھر آپ کے۔۔۔ آپ کی وائف کو دوسرا اٹیک آیا ہے وه بھی اس چوٹی سی ایج میں، آپ کو اندازہ بھی نہیں ہو گا پر ان کی زندگی آپ سب کی بےدھیانی کی وجہ سے ایسے ہو چکی ہے۔۔ یہ بہت تکلیف میں ہے۔ ان کا ہارٹ پہلے ہی بہت ویک تھا پر اب۔۔۔محمش بینا پلکیں جھپکے اپنی پری کو ہی دیکھی جا رہا تھا پر ڈاکٹر کی بات بھی سن رہا تھا۔۔۔
پر اب کیا ڈاکٹر؟؟
اب ان کو اگر ذرا سی۔۔۔ مطلب ذرا سی بھی پریشانی دی گئ تو یہ اپنی سانس لینا بھی چھوڑ سکتی ہے۔۔۔
پر ہم آپریشن بھی کروا سکتے ہے مطلب کچھ تو ہو گا نہ جس سے میری ڈول ٹھیک ہو جائے۔۔ پیسے کی فکر مت کرے کچھ بھی کرے پلززز مجھے میری پری ٹھیک چاہے۔۔محمش اب ڈاکٹر کی منتوں پر اتر آیا تھا۔
ہم نے سب کر کے دیکھ لیا ہے۔۔ آپریشن نہیں کر سکتے ابھی تو بلکل بھی نہیں۔۔اس حالت میں آپریشن کرنا مطلب خود اپنے ہاتھوں سے ان کی جان نکلنا ہو گا۔ ابھی صرف مڈیسن سے ہی کام چلائے پھر ساتھ ان کا ٹریٹمنٹ چیک اپ بھی چلتا رہے گا جیسے ہی ہمیں لگے گا کے ان کا ہارٹ اچھے سے ورک کر رہا ہے تو ہم آپریشن کر سکے گے پر ابھی آپ کہی بھی ان کو لے جائے علاج کے لئے سب یہی بولے گے۔
اس وقت آپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ان کو۔۔ ان کا اچھے سے خیال رکھے۔۔ پرسکون رکھے۔۔۔خوش رکھے۔۔۔۔
۔
۔
۔
ڈاکٹر محمش کو تسلی دے کر جا چکے تھے اس وقت روم میں ایک نرس، محمش ہی تھے۔۔۔
اس کی پری بیڈ پر نیم بیہوشی میں بےچین سی تھی۔۔
محمش نے اپنا ہاتھ اس کے ڈرپ والے ہاتھ پر بہت احتیاط سے رکھا۔ آج اتنے سالوں بعد اپنے محرم کا لمس محسوس کیا تھا۔ محمش کو اپنے اندر تک سکون ملتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کی روح کو اتنے سالوں سے بےچین تھی۔ آج ایک پل میں ہی اس کو چین قرار نصیب ہو گیا۔۔ یہی حل کچھ اس کی پری کا بھی تھا۔ جو اپنے اس رشتے سے واقف بھی نہیں تھی پر اس کی اس طرح ہاتھ رکھنے سے کچھ دیر پہلے کی بےچینی کہی گم ہو گی۔۔
گھنی لمبی پلکیں ذرا ہی ہلی۔ لمبی سانس اپنے اندر اتاری۔پھر انتظار ختم ہوا تو ہلکی ہلکی بلی آنکھیں کھل رہی تھی۔۔
آ۔۔۔ ایش۔۔۔ ش۔۔۔
نیلی آنکھوں والے شہزادہ کا صبر یہاں آ کر ختم ہو گیا۔ آج تک کیا ہوا ضبط ٹوٹ گیا۔۔ آج کوئی پابندی نہ تھی۔۔۔ . نیلی آنکھوں سے آنسوؤں لبالب بہہ رہے تھے، پر اس کو کوئی پروا نہ تھی۔۔ اس کی پری ایش اتنی خوبصورت سے بولتی تھی کہ محمش کو اس کے انداز پر دل کھول کر پیار آتا۔۔ پر آج اتنے سالوں بعد اس کی پری کو پھر سے اس کا یہ نام یاد آیا۔۔۔
اے۔۔ ایش۔۔۔ش۔۔۔۔
جی میری جان۔۔۔۔ پا۔۔۔ پری۔۔۔ ڈول۔۔۔ آنکھیں کھولے۔۔۔ آپ کا ایش یہاں ہی ہے آپ کے پاس۔محمش نے جھک کر اس کے کان کے پاس ہلکی سی سرگوشی کی۔۔۔
بلی آنکھیں کافی مشکل سے کھلی تھی۔ پر سوجی ہوئی آنکھیں محمش کو آج پسند نہیں آئی تھی جن پر عام دنوں پر اتنا پیار آتا تھا آج یہ آنکھیں اس کی تکلیف بیان کر رہی تھی۔۔۔ پر محمش کو سکون مل چکا تھا۔۔ اپنی پری کی آواز اس کے خوبصورت آواز لبوں سے اپنا نام سن کر۔۔۔ اس کی کھلی آنکھوں سے۔۔۔۔۔
دھڑکنوں کی بیعت دے
نظر کا مجھے مرید کر
میں تیری سانس ہوں
مجھے ہر پل قرار دے
سنو جو نام ترے لبوں سے
مجھے ہر آواز پر سکون آئے
جو تو مسکرا دے
دنیا میری ساری تو لوٹ لے
تڑپا کر جو واپس چلے جائے
خواب سارے میرے ٹوٹ جائے
میری منزل تم تک جائے
میری روح تجھ میں بس جائے
نظر اٹھا کر جھکا لے
صدقے سارے تجھ پر ہم وار دے
لمس اس کا محسوس جو کرو
جان اپنی کو میں معتبر سمجو
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔