ولیمے پر بہت کوشش کے باوجود بھی محمش نا آ سکا۔نور پیلس کے باقی سب افراد فنکشن میں شامل تھے۔معاذ نے نہ ہی میره کو بخشا نہ نور کو خوب ہنسا ہنسا کے پاگل کر رہا تھا۔ پر ماہم اب بھی خود کو معاذ سے دور ہی رکھ رہی تھی جانتی تھی وه کیا ہے اور سامنے والا کیا چاہ رہا ہے۔ نور، ماہم ، معاذ ایک ہی عمر کے تھے پر تینوں بہت مختلف۔۔ ماہم کو زمانے کے رنگ اس چھوٹی سی عمر میں نظر آ چکے تھے اس لئے کافی سمجھدار بھی تھی۔ معاذ دیکھنے میں لاپروا ضرور نظر آتا تھا پر اگر کوئی تھوڑی دیر بھی اس کے ساتھ گزارتا تو اس کو مات دے جاتا۔۔جبکہ نور سدا کی معصوم۔۔۔شریف۔۔لوگوں کی چالاکیوں سے انجان۔۔
۔
۔
۔
سوری۔۔۔
پر کس لئے۔۔۔ سارہ کو افنان کا سوری کرنا عجیب لگا۔۔۔
کل رات کے لئے، میں بہت ڈسٹروب تھا۔۔۔
اور۔۔۔
اور کیا افنان؟؟ کھانا کھاتا یہ شادی شدہ جوڑا سب سے بے خبر آپس میں لگے کل کی باتوں پر غور کر رہے تھے۔۔
اور یہ کہ مجھے تمہارا خیال کرنا چاہے تھا کل کا دن تمہارے لئے بہت اہم تھا پر میں۔۔۔
افنان اب بھی بہت پریشان تھا۔ جیسے سب کو خوش نظر آ رہا تھا ویسا کچھ نہیں تھا۔ اپنی شادی کو لے کر سارہ کو لے کر بےشک بہت خوش تھا خود کا شکر ادا کر رہا تھا پر کہی نا کہی نور کی باتیں اس کا انداز افنان کو پریشانی میں ڈال رہا تھا۔
افنان آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہے ہے۔ ہمیں بلکل بھی برا نہیں لگا اگر میں پریشان ہوں یا کوئی ایسی بات ہو تو آپ بھی میرے سے پوچھتے یا پوچھے گے نا، تو میں نے بھی یہی کیا۔۔ پھر ایسے وقت حالت مین ایسی باتیں نہیں سوچی جاتی۔
ہم آج ولیمے سے فری ہو کر نور کے پاس جائے گے بات کرے گے۔ نور کبھی بھی آپ کی بات نہیں ٹالتی۔ ہم کوشش کرے گے کہ وه جس وجہ سے پریشان ہے وه بات ہم سے شئیر کر لے۔ سارہ نے اپنا ہاتھ افنان کے ہاتھ پر رکھا جیسے تسلی دی گی ہو۔۔۔
افنان کچھ ٹیبل دور بیٹھے نور کو دیکھ رہا تھا جو کھانا نہیں کھا رہی تھی پر معاذ اور ماہم اس کو کھلانے کی بھرپور کوششوں میں مصروف تھے۔۔
شکریہ مجھے سمجھنے کے لئے۔۔ میرا ساتھ دینے کے لئے۔۔ افنان نے سارہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے نکال کر اس پر ایک بوسہ لیا۔ جبکہ اس کے اس انداز پر سارہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گی سب کے سامنے اس کو سوچ کر ہی شرم آ رہی تھی۔
میری پیاری سی زوجہ موحترم کسی نے نہیں دیکھا سب اپنی اپنی والی کے ساتھ مصروف ہے۔۔ افنان کے چہرے پر اب خوبصورت سی مسکان آئی۔۔۔
افی آپ بھی نا۔۔۔ کوئی دیکھ لیتا تو ، کیا سوچتا۔۔نظریں جھکائی سارہ افنان کے اس انداز پر شرما رہی تھی۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔کیا سوچتا۔۔۔۔ یہی کہ ماشاءالله دونوں میں کتنا پیار ہے۔۔ ساتھ کتنے خوش ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہے۔ سب کے سامنے ایسے پیار بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں تو،۔،۔۔۔۔۔۔ تو اکیلے میں۔۔۔۔۔۔۔
افنان۔۔۔ بس بھی کرے آپ۔۔۔۔ کوئی ایسے بھی کرتا ہے۔ کچھ خیال ہی کر لے۔۔۔ سارہ کو ہی افنان کی زبان کو اسٹاپ لگانا پڑا۔۔
اچھا جناب پیاری سے بیوی ہم چپ ہے اب، آپ کھانا کھائے۔۔افنان خود بھی کھانے میں مصروف ہو چکا تھا۔۔۔
سارہ اپنے مجازی خدا کو دیکھ رہی تھی جو سب سے الگ تھا۔ کسی بھی رشتے کو نہیں چھوڑتا تھا سب کے لئے پیار۔۔ فکر۔۔۔ اس کی نظروں باتوں سے جھلکتا۔۔۔کل رات کا منظر پھر سے اس کو یاد آنے لگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزاری رات۔۔۔۔۔
افنان نور سے بات کرنے کے بعد لان میں چلا گیا۔ سارا گھر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا پر روشنی میں ڈوبا یہ مصطفیٰ ولاز جتنا خوبصورت اس وقت لگ رہا تھا دن میں شاید نا لگتا۔۔ بھاگ ڈور شادی میں پورا دن کاموں میں افنان بری طرح تھک چکا تھا۔۔ پر نور کی وجہ سے ذہنی طور پر زیادہ تھک گیا تھا۔آنکھوں میں سرخ دوڑے صاف نظر آ رہے تھے نور کی باتیں افنان کے دل کو چیر گی تھی۔ اس کا رونا۔۔ اتنی دکھی باتیں۔۔ جو نور نے کبھی آج تک نہ کہا تھا آج اس دن اس خوشی کے موقعے پر بول دیا۔۔۔افنان کا سوچ سوچ پر سر پھٹ رہا تھا پر ضبط کمال کا دکھا رہا تھا۔۔۔۔
افنان نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا ایک دم حیرت سے آنکھیں کھل گی۔۔ پہلا خیال اندر اس کا انتظار کرتی سارہ کا آیا تھا۔۔ اپنی سوچوں پر سر جھٹا اندر کی جانب چل دیا۔۔
پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا پر جگہ جگہ جلتی موبتیاں بہت خوبصورت نظر آ رہی تھی۔ بیڈ کے چاروں طرف پنک وائٹ گلاب لگے ھوے تھے۔۔ افنان نے خود یہ سب تیار کروایا تھا کتنا خوش تھا پر اب۔۔۔۔
رات کے دو بج چکے تھے۔۔۔سارہ بیڈ پر برائیڈل ڈریس پہنے بےترتیب بیٹھے بیٹھے سو چکی تھی۔ افنان کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا۔ پاس جا کے سارہ کے پاس بیٹھ گیا پر وہ بےچاری کب سے انتظار کرتی کرتی اب نیند کی وادیوں میں تھی۔ افنان نے بہت احتیاط سے اس کا سیٹ' گلے سے نکالا پر پھر بھی سارہ کی آنکھ کھل گی۔
۔
۔
۔
آپ۔۔ آپ۔۔ یہاں۔۔۔ افنان کو اچانک اپنے سامنے اتنے قریب دیکھ کر سارہ کافی گھبرا گی۔
افنان مسکرا کر تھوڑا سا پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔
جی ہم آپ کے مجازی خدا افنان مصطفیٰ۔۔۔کہ کر چپ ہو گیا پر نظریں ابھی بھی اپنی اس دشمنِ جان پر تھی۔
سوری مجھے کافی دیر ہو گی آنے میں۔
اٹس اوکے۔۔۔ میں آپ کا انتظار کر رہی تھی پر۔۔۔۔ جھجھکتے گھبراتے ھوے سارہ بولی۔
پر کیا؟؟ افنان اس کی کلائیوں میں پہنی چوڑیوں سے کھیل رہا تھا۔
پر آپ باہر لان میں تھے کب سے اکیلے بیٹھے ھوے۔۔ اور یہ کافی دیر پہلے کی بات ہے۔
ہممم۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔
ایسے ہی نہیں افی آپ پریشان ہے کسی بات پر۔۔ کوئی بات ہوئی ہے۔۔۔ میری کوئی بات بری لگی ہے کیا؟؟ اس کے لہجہ سے لگ رہا تھا یہ کچھ دیر پہلے بھی رو چکی ہے۔۔
۔
آپ۔۔۔ آپ کو اگر کچھ برا لگا ہے تو پلزز بتا دے ہم معافی مانگ لیتے ہے پر آپ ناراض تو نا ہوں۔ آخر پر سارہ نے رونا شروﻉ کر دیا۔۔
افنان ایک دم پریشان ہو گیا یہ لڑکی کیا سوچے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ اففف اللہ جی آج کی رات مجھ معصوم کی ایسے ہی گزر جانی ہے لگتا۔۔۔ افنان نے دل ہی دل میں سوچا ۔۔
روتی ہوئی سارہ کو اپنے ساتھ لگایا۔۔
سارہ میں آپ سے ناراض نہیں ہوں۔۔۔ اور بھلا آپ سے ناراض کیوں ہونا تھا میں نے؟؟ فضول سوچے سوچ رہی تھی آپ۔۔۔ میں مانتا ہوں میں باہر لان میں تھا آپ کے پاس آنا چاہے تھا پر میں نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ اس کے لئے سوری، میں سچ میں کسی اور وجہ سے پریشان تھا۔ میں نور کو لے کر پریشان تھا پر اب سب ٹھیک ہے تو آپ بھی پریشان مت ہو۔۔ افنان اس کو ساتھ لگائے بیٹھا اپنی باتوں سے سارہ کے واجد میں سکون اتار رہا تھا۔۔۔
آپ سچ کہ رہے ہے نا۔۔۔ میرے سے کچھ چھپا تو نہیں رہے۔۔۔ سارہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔۔
اووو۔۔۔۔ نہیں میری جان ایسا کچھ بھی نہیں ہے سب ٹھیک ہے۔۔ ایک بوسہ اس کے ماتھے پر لیا۔۔
اس کے انداز پر سارہ شرما گی۔۔۔ افففف لڑکی ایک تو تم بلش بہت کرتی ہو میں تو پاگل ہی ہو جاؤ گا تمہارا یہی حال رہا تو۔۔۔۔
سارہ مسکرا دی۔۔ خوبصورت انداز۔۔۔ خوبصورت لہجہ۔۔۔شکل وصورت میں بھی اس کا شوھر کسی سے کم نہیں تھا۔ اللہ نے اس کو بن مانگے ہر چیز عطا کی تھی اس کا روم روم آج خوش ادا کر رہا تھا اپنے رب کا جس کو اللہ سے افنان کی صورت اتنا اچھا تحفہ دیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں کھو گی سارہ۔۔۔
نہ۔۔ نہیں کہی نہیں۔۔۔ رات کی باتیں، منظر آنکھوں سے جھٹ گیا۔۔
آپ سے ایک بات پوچھو افی۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ کچھ بھی پوچھ لو اس میں اجازت کی کیا بات ہے۔افنان کھانا کھا چکا تھا اب پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ اس کی پلیٹ میں پڑا کھانا ایسے کا ایسے ہی پڑا تھا۔ افنان نے چاول کا چمچ بھرا اور کوئی بھی موقع دئے بغیر اس کے منہ میں ڈال دیا۔
ہم خود کھا لیتے ہے افنان پلززز۔۔۔ سارہ شرمندہ ہو رہی تھی۔۔
پتا ہے کیا کھانا ہے۔تب سے تو کھایا نہیں گیا میں کھلاتا ہوں اب، اور آپ بات پوچھے جو پوچھنی ہے۔
افی وه۔۔۔ وه۔۔۔ مطلب۔۔۔۔ سارہ بات کرتے ھوے ڈر بھی رہی تھی۔۔
سارہ پلزز آرام سے بات کرے میرے ساتھ پریشان نہ ہو۔
آپ سب سے زیادہ نور سے پیار کرتے ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو کہ آپ کو لگے کچھ نور کے ساتھ غلط ہوا ہے تو آپ۔۔۔ آپ مجھے خود سے الگ تو نہیں کرے گے۔۔۔ مطلب۔۔ پہلے ثانیہ کی وجہ سے وه سب ہوا۔۔۔۔سارہ بات کرتے ھوے نظریں نیچے کیے ہوے تھی۔۔۔پر آواز سے صاف لگا رہا تھا کہ ابھی رو دے گی۔۔۔
۔
۔
۔
افنان نے اس کو اپنی باہوں کے حصار میں لیا۔ یار سارہ۔۔ کیا کیا سوچ کر بیٹھی ہوئی ہو۔ ابھی کل شادی ہوئی ہے ہماری تو آپ یہ سب۔۔۔مطلب کے حد ہی ہے۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے پہلے کی بات اور تھی اب آپ میری بیوی ہے۔۔۔
افنان اس کی باتوں پر حیران تھا کہ اب اس وقت اس دن سارہ یہ سب سوچے بیٹھی ہے یہ باتیں اس کو کتنا پریشان کر رہی ہو گی۔
میں بھی مرد ہوں پر ایسا نہیں کہ جو بس ایک رشتے کو نبھانا جانتا ہو میں صرف شوھر نہیں ہو ،جو صرف آپ کا خیال رکھو۔ میں بیٹا بھی ہوں، اور بھائی بھی ہوں۔ میری تین بہنیں بھی ہے اور تینوں سے الگ پیار ہے ہاں عین سب سے الگ ہے وه میری جان ہے۔ آپ کا مقام الگ ہے آپ میری بیوی ہے۔۔۔ میری ہمراز۔۔۔ میری ساتھی۔۔۔ میری دوست۔۔۔میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہے ان میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہوتا۔ پر ان دونوں کو ہی ایک دوسرے کی ایک جتنی ہی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ اس بات کی پریشانی مت لے کے میں عین کی وجہ سے آپ سے کسی بھی قسم کی زیادتی کر جاؤ گا۔ آپ بےفکر رہے،اور ویسے بھی اب میرا آپ کے بغیر ایک دن بھی گزارا نہیں۔۔افنان نے خوبصورتی سے بات کو مکمل کیا۔۔
افی۔۔۔۔۔ افففف۔۔۔ بس بھی کرے سب دیکھ رہے ہو گے ہمیں۔۔۔ آپ بھی نہ۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔ سب اپنی اپنی والی کے ساتھ مصروف ہے تو میں نی بھی سوچا میں بھی اپنی والی کے ساتھ لگا رہو ویسے تو آپ نے ہاتھ نہیں آنا۔۔۔۔
آپ بھی نہ بس۔۔،۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ٹیبل دور بیٹھی بلی آنکھوں نے یہ منظر دیکھا تھا۔۔ یہی نہیں سب مصروف تھے کسی کو کوئی پروا نہیں تھی سوائے اپنے ، ایسے میں یہ پاگل الگ ہی روگ لے کر بیٹھی تھی جس سے سب انجان تھے۔۔۔۔
کیا ہونے والا تھا۔۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔ پر نور کو یہ وقت سب سے زیادہ مشکل والا لگ رہا تھا۔۔۔ ناراضگی۔۔۔ لاپرواہی۔۔۔۔ یہ سب کچھ نور کے لئے ٹھیک نہیں تھا۔۔۔ پر سب خوشیوں میں مصروف اچھے وقت کو یادگار بنا رہے تھے یہ جانے بغیر کے آنے والا وقت بہت سی خوشیوں کو کھا جائے گا۔طوفاں تھا جو اپنے ساتھ بہت سو کو بہہ کے لے جانے کو تیار تھا۔۔۔۔۔۔
۔
۔
۔
آج صبح سے نہ تو کوئی میڈیسن لی نہ ہی کچھ کھا رہی تھی پریشانی کی وجہ سے طبیعت نے اپنا رنگ دکھانا شروﻉ کر دیا تھا۔۔
نور کا سانس پھول رہا تھا۔ گھبراہٹ میں بار بار چہرے پر پسینہ آ رہا تھا جس کو نور اپنے کانپتے ہاتھوں سے صاف کرتی۔۔
کافی گیسٹ جا چکے تھے رات کے بارہ بجنے کو تھے۔ کچھ ہی قریبی لوگ بچے تھے۔۔
سامنے سے محمش آتا ہوا نظر آیا۔۔ ایک ہاتھ میں کوٹ ڈالے جبکہ دوسرے ہاتھ ایک پھولوں کا گلدستہ لئے چلتا ہوا کوئی سچ کا شہزادہ معلوم ہو رہا تھا۔۔
۔
۔
۔
سوری مجھے ذرا آنے میں دیر ہو گی۔ پر میں وعدے کے مطابق آ گیا دیکھ لو۔۔ پھولوں والا بوکے سارہ کی جانب بڑھایا تھا جس کو لے کر اس نی شکریہ ادا کیا پر افنان چپ ہی تھا۔
یار میں کون سا شوق سے گیا تھا اگر ضروری نا ہوتا تو کبھی بھی نا جاتا۔ دیکھ بھائی معاف کر دے۔محمش صبح کا لاہور کام کی وجہ سے گیا ہوا تھا اور اب تھاک ہار کر پھر بھی مصطفیٰ ولاز میں آیا۔
بہت ہی کوئی تم نا قدرے ہو ذرا شرم نہیں دوست کا ولیمہ ہے ایک دن بعد چلے جاتے پر نہیں۔۔۔ خیر چلو آ گے ہو تو کھانا کھاؤ پہلے، پھر ہو گی باتیں۔ بلکے اندر چلتے ہے۔
۔
۔
رضا صاحب کی فیملی نور پیلس اور مصطفیٰ کی فیملی سب اندر ہال میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے چاۓ کی صورت میں تھکن اتاری جا رہی تھی۔ان سب میں بیٹھی نور عجیب الجن کا شکار تھی۔ پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ رائل بلیو میکسی کو سمبھال کر ابھی ایک قدم چلی ہی تھی کہ نائل کی آواز آئی۔
نور بچے کہاں جا رہی ہے آپ، سب بیٹھے ہے آپ بھی کچھ دیر سب کے ساتھ بیٹھو میری شہزادی۔۔۔
ڈیڈ۔۔۔۔ وه نہیں۔۔۔۔ ہم تھک گے ہے۔ پلزز پھر کبھی ابھی نہیں۔۔ نور کی آواز۔۔۔۔
افنان جو محمش کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا ایک دم چونکا۔۔کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔۔
عین۔۔۔۔ طبعیت ٹھیک ہے آپ کی۔۔ ہال میں سب خاموش تھے سب اب ان کی طرف متوجہ تھے پر جو اس پر کے دل میں تھا وه کوئی نا جان سکا۔
ہم ٹھیک ہے بس سونا چاہتے ہے کوئی ڈسٹرب نا کرے ہمیں پلزز۔۔۔ آج اتنے دنوں کے بعد اپنے بھائی کے منہ سے اپنے لئے عین سنانا۔۔۔ اس کے نام پر ہی بلی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گی ۔دہمے لہجے میں کہہ کر نور شہزادیوں کی چال چلتی ہوئی ہال سے باہر نکل گی۔۔
کچھ دیر بعد پھر سب اپنی باتوں میں مصروف ہو چکے تھے۔ پر محمش کو کسی بھی پل چین نہیں آ رہا تھا کچھ تو تھا جو ٹھیک نہیں تھا۔
ثانیہ نے موقع دیکھا کہ سب باتوں میں لگے ہے کوئی اس کی جانب نہیں متوجہ تو اپنا آپ بچاتی ہال سے نکل کر اوپر کی جانب بڑھ گی۔ پر بےخبر تھی کہ نیلی آنکھیں اس کو ہی دیکھ رہی تھی آج سے ہی نہیں پچھلے تین دن سے محمش کو ثانیہ میں کچھ عجیب لگا تھا اس لئے سب سے زیادہ اس کی ہی جانب نظریں رکھے ہوا تھا۔۔
روم میں آنے کے بعد نور نے سب سے پہلے رونے کا پیریڈ پورا کیا۔۔ اس کے بعد شاور لے کر نائٹ سوٹ پہنے بیڈ پر آئی۔ کسی بھی صورت چین نہیں تھا نازک جان یہ پری ہمت ہار چکی تھی پر اس بات سے انجان کہ ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی تھا۔۔۔
ثانیہ چہرے پر مسکراہٹ لئے ھوے اندر کی جانب آئی نائٹ لائٹ میں بھی نور کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔
یہ آج کل نور پیلس والوں کے ساتھ بہت باتیں ہو رہی ہیں، دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں۔ ثانیہ کی آواز پر نور نے موڑ کر دیکھا تو بلکل پاس کھڑی بازوں سینے سے لگائے طنز کرتی نظر آئی۔
نور اٹھ کر بیٹھ گی۔ آپ کو نہیں پتا کسی کے روم میں بغیر اجازت اندر نہیں آتے۔
شٹ اپ۔۔۔ اپنی زبان بند رکھو تم،اپنے آپ کو بہت روح پری سمجھتی ہو نہ، تم پری ہو نہیں یہ سب مصطفیٰ انکل، افنان بھائی،کا ہی دیا ہوا ہے۔۔ یہاں ہو تو شکر ادا کرو۔۔ نہیں تو اگر اس رات زندہ بچ جاتی تو کہی پڑی ہوتی یتمیم خانے پر ۔۔۔۔ تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہے تھا کہ مصطفیٰ انکل اور افنان بھائی تمہیں گھر لے آئے اپنی بیٹی بنا کر۔۔۔۔
پتا نہیں کس کا گندہ خون ہو۔۔۔
یا پھر۔۔
نا جائز اولاد۔۔۔
کہی سے بھی اچھے گھر کی نہیں لگتی اور دیکھو یہاں کیسے سکون میں پریوں جیسی زندگی گزارا رہی ہو۔۔۔
تم ہو ہی مانوس جب سے آئی ہو میرا چین سکھ سب چین لیا سب مجھ سے پیار کرتے تھے پر صرف۔۔۔ صرف تمہاری وجہ سے سب میرے سے دور ہوئے۔۔ سب کو بس تم چاہے تھی۔۔۔ مجھے سب نے بھلا دیا۔۔۔۔
ثانیہ کا لہجہ۔۔۔۔ باتیں۔۔۔ نور پر قیامت بن پر برس رہی تھی۔۔۔ ثانیہ چیخ چیخ کر ایک ایک بات بیاں کر رہی تھی۔ جبکہ نور بیٹھی حیران پریشان تھی بلی آنکھوں سے کب آنسوں بہنا شروﻉ ھوے کچھ خبر نہیں تھی۔ کانپتا جسم۔۔۔لالزتے ہونٹ۔۔۔ کسی کو بھی اس کی حالت پر ترس آ جاتا پر یہاں تو سامنے اس کی سب سے بڑی دشمن تھی جس کو رحم کا مطلب دور دور تک نہیں تھا پتا۔۔
ثانیہ۔۔۔۔ آپی۔۔۔ میں ایسی۔۔ نہیں ہوں۔۔ آپ غلط۔۔۔ نور بیڈ سے اٹھ کر ثانیہ کے پاس آئی۔ قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی ایسے لگ رہا تھا ابھی گری یا اب۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ تمہاری معصومیت پر بھی کیا کہنے ان سب سے ہی لوگوں کو پاگل کرتی ہو بلکے پاگل کر چکی ہو۔۔۔ اپنی اوقات مت بھولو کہ کیا تھی، کیا ہو، ہم سب نے تمہیں سہارا دیا۔۔۔ اس ملک کی سب سے امیر فیملی کا حصہ بنی۔۔ کہاں تم اور کہاں ہم۔۔ اب بھی تم نور پیلس جانے کے خواب سجا رہی ہو۔۔۔۔ لعنت ہو تم پر اور تمہاری اس معصومیت پر۔۔۔
۔
۔
۔آپی سچ میں۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔ روم میں زور در تھپڑ کی آواز گونجی۔ اُنیس سال کی اس معصوم سی پری کے نرم و ملائم گال پر ایک نہیں دو تھپڑ اتنی زور سے مارے کہ نور پیچے بیڈ پر گری۔۔۔۔
اپنی زبان بند رکھنا اب۔۔۔ خبر دار جو اپنی اس زبان سے آپی کہا۔۔۔ منہ توڑ دو گی میں۔۔۔ ثانیہ گرجدار آواز میں بول کر روم سے چلی گی۔۔۔
۔
۔
۔
پیچھے نور اور اس کی سسکیاں تھی۔ اتنا بڑا سچ۔۔۔۔ حقیقیت۔۔۔۔۔ ہم کیا۔۔۔ کون تھے۔۔۔ یہاں۔۔۔۔ یہ سب۔۔۔۔
ثانیہ جسی چپ چاپ ہال سے گئے تھی ویسے ہی لوٹ آئی تھی چہرے سے مسکراہٹ جانے کا نام نہیں لے رہی تھی محمش کو عجیب لگا ثانیہ کا انداز۔۔۔
ثانیہ آپ کہاں گئی تھی رضا صاحب نے پوچھا۔۔
بابا ہم ذرا فریش ہونے گے تھے۔ ثانیہ ان کے ساتھ لگ کر بیٹھ گی۔۔۔
۔
۔
۔
گال پر تھپڑ کے نشان سرخ سوجی ہوئی آنکھیں۔۔ لڑکھڑاتے قدم۔۔ کپکپاتے ہونٹ۔۔ بکھرا عجیب اجڑا سا حُلیہ نور کا جسم بھی اس کے ساتھ چلنے سے انکاری تھا۔ ذہنی، جسمانی کمزوری حد سے زیادہ تھی لیکن پھر بھی چل کر روم سے باہر آئی۔۔
سیڑھیوں سے نا جانے کتنی بار پاؤں پھسلا پر پھر اٹھ کھڑی ہوتی۔۔ قدم کہاں رکھ رہی تھی اور پڑ کہاں رہے تھے۔۔ ہنسی مذاق قہقوں کی آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھی۔۔۔
ہال میں آ کر ایک نظر سب کو دیکھا پر ابھی بھی کسی کی نظر اس پر نہیں تھی پڑی۔
۔
۔
۔
ہم۔۔۔۔کس ک۔۔۔ کی بیٹی ہے۔۔۔ بکھرا حلیہ۔۔
گالوں پر انگلیوں کے نشان۔۔۔ نائٹ بلیک سوٹ میں آج پہلی بار نور بے حجاب سب کے سامنے آئی تھی۔۔ لائٹ گولڈن بال بکھرے ھوے تھے۔ہال میں سب اس کی حالت کو دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
نور میری جان کیا ہوا۔۔۔ نور۔۔۔ مھین اس کے پاس آئی۔۔ پر نور اپنی جگہ سے چند قدم پیچھے ہوئی۔۔۔سر کو نفی میں بار بار ہلایا جبکہ آنکھوں سے آنسوں کا سمندر جاری تھا۔
ہم ن۔۔۔ نے پوچھا۔۔۔ ہم۔ کون۔۔۔
نور پیلس کی پوری فیملی اس وقت ضبط کر رہی تھی پر آہینور تو ماں تھی کیسے چپ رہتی سر کو جھکائے رو پڑی۔۔۔
عین۔۔۔۔ میری گڑیا۔۔۔ کیا ہوا ہے بچے بولو تو۔۔۔ آپ یہ سب کیا۔۔۔ افنان نے نور کے پاس آنے کی کوشش کی تھی پر نور نے پیچھے کیے ھوے ہاتھ آگے کیے۔۔۔ دائیں ہاتھ میں چھری تھی جو بائیں کلائی پر رکھی ہوئی تھی جہاں سے کچھ بوندیں خون کی بھی نکل رہی تھی۔۔۔
نور۔۔۔ گڑیا۔۔۔۔ سیس ۔۔۔نوری۔۔۔۔ پری۔۔۔ عین۔۔۔
بہت سی درد ناک آوازیں مصطفیٰ ولاز میں ایک ساتھ گونجی۔۔۔۔۔
تا حال رابطے میں نہیں ہے ہم
اگر کبھی بلاوا آ جائے تمہیں تو
اِک چکر یوہی لگا آنا گھر کہ
مرنے کے بعد جنازہ زیادہ دیر رکھا نہیں کرتے
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔