بارات کا دن کسی جنگ سے کم نہ تھا۔ہر کوئی یہاں وہاں اپنی چیزوں کے لئے بھاگ رہا تھا۔۔ پورا گھر بکھرا نظر آ رہا تھا۔۔۔آج کا فنکشن مصطفیٰ صاحب کے فام ہاؤس میں تھا۔سب کچھ تیار تھا۔۔ دونوں دولہے کسی سے کم نہیں لگ رہے تھے۔
۔
۔
۔
افنان فل گولڈن شیروانی میں جبکہ سارہ ڈیپ ریڈ لہنگے میں تھی۔۔ دوسری طرف میره مہرون رنگ کے لہنگے میں نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت نظر آ رہی تھی غازی بلیک شیروانی میں سٹیج پر بیٹھا شہزاد لگ رہا تھا۔۔
سب گیسٹ موجود تھے اگر کوئی نہیں تھا تو وہ صرف نور تھی۔ طبعیت خرابی کی وجہ سے ابھی تک یہاں نہیں آ پائی تھی۔
افنان بار بار فون کر رہا تھا آخر تنگ آ کے نور کو کال سنی ہی پڑی۔
نور کہاں ہو۔۔۔ نام لے کر ناراضی کا اظہار کیا گیا۔۔۔
بس آ رہی ہوں۔۔بھاری آواز رونے کا اعلان کر رہی تھی۔۔
نور آپ سچ بتاؤں آ رہی ہو یا میں خود آؤ پھر لینے۔۔افنان کو اب سچ میں نور پر غصہ آ رہا تھا پر ضبط کر لیا اس بات کو جانے کی کوشش ہی نہیں کر پایا کہ نور اس کی جان سے پیاری بہن آج ہی نہیں کافی دنوں سے تکلیف میں ہے
بھائی کہا نا ہم آ رہے ہے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے ہمارے لئے اپنی شادی چھوڑ کے آنے کی، ساتھ ہی ٹھک سے فون بند کیا گیا۔۔
افنان کبھی فون کو دیکھتا کبھی نور کی کہی ہوئی بات کو۔۔۔ آج تک ایسا نہیں ہوا نور نے میرے سے یا کسی سے اس لہجے میں بات کی ہو۔ پر اب ایسا کیا ہوا؟؟
کیا ہوا افنان سب ٹھیک ہے بچے۔۔ نائل مصطفیٰ نے پریشان سے بیٹے کو دیکھا۔۔
جی۔۔ ٹھیک ہوں آپ پریشان نا ہو۔۔۔ محمش بےدلی سے مسکرایا۔۔۔
محمش کب سے نور کے انتظار میں یہاں وہاں ٹہل رہا تھا۔۔۔ وائٹ شلوار قمیض کے ساتھ گولڈن واسکوٹ پہنے نظر آ رہا تھا۔۔۔ جو اس وقت بہت سے دلوں میں اتر رہا تھا۔۔۔ پر اس کو کوئی پروا نہ تھی۔۔۔
۔
۔
ماہم، مھین سب ہی نور کی وجہ سے پریشان تھے۔۔ سب کو ضد کر کے یہاں بھیج دیا پر خود اب تک نہیں آئی۔۔۔
مہرون کام دار شرٹ ساتھ کیپری زیب تن کیے نور چل کے سٹیج تک آئی،ایک گفٹ میره کو جبکہ دوسرا گفٹ سارہ کو تھمایا۔
شادی مبارک۔۔۔۔!!! اللہ آپ سب کو ایسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ خوش رکھے آپ کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دے۔۔
بہت سے دلوں نے اس پر آمین کہا۔
کچھ دیر یوں ہی باتیں کر کے نور سائیڈ کے ایک ٹیبل پر جا کے بیٹھ گی۔۔۔ اداسی، پریشانی ، چہرے سے نمایا تھی۔ دو آنکھیں مسلسل اس پر گہری نظر رکھے ھوے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو بارات کے بعد تم سے ملنا ہے، کچھ خاص ہے۔۔۔ثانیہ نے عجیب ہنسی لئے کہا۔۔
خاص کیا۔۔۔ مطلب۔۔۔
تمہارے بارے میں ہی ہے۔۔۔ یہ سمجھ لو کے تم کو اس بات سے انجان رکھا گیا۔۔۔ پر سناؤ گی تو سارا غرور۔۔۔ خاک میں مل جائے گا۔۔
کیا آپی غرور۔۔۔ میرے میں۔۔۔ میں ایسی نہیں ہوں۔۔ نور پریشان کھڑی ثانیہ کا منہ تاک رہی تھی۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔ نور تم تو ابھی سے گھبرا رہی ہو جب بات پتا چلے گی تو کیا حال ہو گا۔۔ثانیہ کے اندر نور کو لے کر جو حسد پیدا ہوا وه کسی کو برباد کرنے والا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک صبح کی باتیں نور کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح بج رہی تھی۔۔۔ بار بار وہی باتیں وہی الفاظ طنز بھرا لہجہ۔۔۔
آنے والے لمحوں سے ڈری یہ لڑکی انجان تھی کے اس کے ساتھ ہونے کیا والا ہے۔۔۔ قسمت کیا کھیل کھیلنے والی ہے۔۔۔ قسمت لکھنے والا اب اپنا رنگ دکھانے والا تھا۔۔۔ ہمت اس کو خود دکھانی تھی۔۔ اپنا صبر۔۔۔ اپنا حوصلہ۔۔ خود سے بڑھانا تھا۔۔۔
۔
۔
۔
اسلام و علیکم ڈول۔۔۔۔کیسی ہو آپ۔۔۔
نور نے جھکا چہرہ اٹھا کر دیکھا۔۔۔ پر نہ سمجھی سے۔۔۔جیسے کہ رہی ہو کیا کچھ مجھے سے کہا؟؟
کیا ہوا۔۔۔ کوئی پریشانی ہے؟ محمش اچھے سے جان چکا تھا اس کی پری پریشان ہے۔۔ پر کس بات پر یہ نہیں جان پایا۔۔
نا۔۔۔ نہیں تو۔۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔۔
پر کچھ تو ہے۔۔۔ آپ مجھے اپنا سمجھ کے بتا سکتی ہے۔۔۔
نور کو ایک پل کو لگا کہ ہاں یہ اپنا ہے اس کو بتا کے دل کو سکون مل جائے گا۔۔۔ پر۔۔۔۔
نیلی آنکھیں۔۔۔ اففف۔۔۔ پھر سے یہ لڑکی ان آنکھوں میں ڈوب رہی تھی۔۔۔ کچھ دنوں سے ان نیلی آنکھوں نے اس کے دل کا چین لوٹا ہوا تھا۔۔۔ پر قسمت کے کھیل اس معصوم کو کہاں پتا تھے۔۔۔ جس کو انجان سمجھ رہی ہے وہی تو اس کا اپنا تھا۔۔۔
۔
۔
۔
آپ سے ایک بات پوچھو۔۔۔۔نور نے اپنا ایک ہاتھ ٹھوڈی کے نیچے رکھے سوال کیا۔۔۔
بلکل آپ کچھ بھی پوچھ سکتی ہے۔۔۔ ایک تمہیں ہی تو حق ہے۔۔ آخری بات اپنے دل میں ہی کی۔۔۔
اگر آپ کسی کا برا نہ چاہے اور دوسرا آپ کو غلط سمجھے, اور بہت غلط باتیں کریں آپ کو لے کر تو تب ہمیں کیا کرنا چاہے۔۔۔
اس موقعے پر یہ سب باتیں کسی کے لئے بھی حیران کن تھی۔۔۔ محمش بری طرح چونک گیا تھا۔۔۔
آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی وہی مچھلی وہی جال اچھا ہے
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیم
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے۔۔۔۔۔
(#copied)
اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ہماری نیت دیکھتے ہے۔ جیسی نیت ہوتی ہے صلہ بھی ویسا ملتا ہے۔۔ اگر ہم دوسرے کے سامنے اچھے ہو، پر ہماری نیت ٹھیک نہ ہو تو کیا یہ ہمارے رب کو پسند آئے گا۔۔۔
نہیں نہ۔۔۔!! آپ اچھا سوچ رہیں ہو پر دوسرا آپ کو لے کر آپ کا ہی برا چاہتا ہے تو پھر آپ اس کو اپنی بات سمجھا سکتے ہو۔۔ اگر وه آپ کو سمجھ جائے تو یہ اچھا ہے پر اگر وه آپ کے سمجھنے پر بھی نا سمجھے تو اپنا معملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہے۔۔۔
"بےشک وه ہم سے بہتر جانتا ہے، بہتر فیصلے کرنے والا ہے"
جب انسان ہر طرف سے مایوس ہو جائے پر پھر بھی اللہ پر بھروسہ ہو امید ہو تو وه رب اس وقت آپ کے صبر کو آزما رہا ہوتا ہے۔۔۔ کہ آیاں اس کا بندہ اس مشکل وقت میں بھی اپنے رب کو یاد کرتا ہے یا نہیں۔۔ وه تو سترہ ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے پھر کیسے تکلیف دے سکتا ہے۔۔ کیسے اس کی حد سے زیادہ آزما سکتا ہے۔!!آزمائش تک ہم یاد رکھتے ہے ہر تکلیف ۔۔۔دکھ ۔۔۔اذیت، پر جیسے ہی آزمائش ختم ہو جاتی ہے خوشیاں عطا ہوتی ہے رب کو بھول جاتے ہے۔۔۔ شکر ادا ہی نہیں کرتے۔۔
یہ بھی تو ٹھیک نہیں ہے۔۔ انسان ہمیشہ سے ناشکرا رہا ہے۔۔۔
اللہ نیت دیکھ کر بہت کچھ عطا کرتا ہے۔ کسی کے لئے اپنے دل میں برا سوچو یا برا کرنے کی کوشش کرو تو رب کیسے آپ ک ساتھ سب ٹھیک کر سکتا ہے۔۔۔ نفرت۔۔۔ حسد۔۔۔ یہ اللہ کو سخت نا پسند ہے اور جو کسی کے لئے اپنے دل میں یہ سب رکھتا ہے اللہ اس کو نا پسند کرتا ہے۔۔۔ اچھے لوگوں کے ساتھ اللہ ہمیشہ اچھا کرتا ہے۔۔۔
" ہاں۔۔۔۔تکلیفیں بہت آتی ہیں زندگی میں پر، یہ بھی اس لئے آتی ہیں کہ آپ کہی اپنے اصل کو تو نہیں بھول گے۔۔۔ کہی اپنے رب کو تو نہیں بھول گے۔۔اللہ ایسی آزمائش۔۔ تکلیفیں دے کر بھی آزماتا ہے۔ انسان اوقات بھولتا ہے تو وه رب یاد بھی کروا دیتا ہے اس کے لئے کچھ مشکل نہیں۔ پر انسان غلط کام کر کے اللہ کی نافرمانی کر کے اپنے لئے بہت مشکل پیدا کر لیتا ہے۔"
بات مکمل کر کے ایک بھرپور نظر سامنے بیٹھی پری کر ڈالی جو کہی اور ہی کھوئی سی معلوم ہو رہی تھی۔۔۔
سمجھ آئی کچھ؟؟
جی۔۔۔ جی ہم سمجھ گے۔۔۔ بلی آنکھیں چمک رہی تھی۔۔ ہر طرف گہما گہمی تھی۔ کوئی باتوں میں مصروف تھا تو کوئی کھانا کھانے میں۔۔ پر یہ دونوں اپنے آپ میں اپنی دنیا میں کھوئے ھوے لگ رہے تھے۔۔
آپ سے ایک بات کہہ سکتے ہے ہم کیا؟؟ اس نے جیجھکتے ھوے سوال کیا۔۔
۔
آپ کچھ بھی پوچھ سکتی ہے کہہ سکتی ہے۔ محمش نے مسکراتے ھوے جواب دیا۔۔۔
آپ۔۔۔ آپ کی آواز بہت پیاری ہے۔۔۔ نور کا سر اس وقت جھکا ہوا تھا جبکہ گھبراہٹ میں ہاتھوں کی اچھی خاصی شامت آئ ہوئی تھی ہاتھوں کو گھبراہٹ میں موڑو رہی تھی۔۔
ہاہاہا۔۔۔ جاندار ایک قہقہ لگا۔۔۔ بس آواز ہی اچھی ہے؟؟
نہیں۔۔۔
اور کیا اچھا ہے۔۔۔ محمش کون سا کسی سے کام تھا جو چپ ہو جاتا۔۔۔ آخر اتنے سالوں کے بعد تو خوش ہوا تھا اپنی پری سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔ وہ لڑکی جس پر جان بھی قربان کر ڈالتا تو سوال نا کرتا ،بلکے ہنستے ہنستے اپنی جان دے دیتا
آپ کی آنکھیں۔۔۔
بس آواز۔۔ آنکھیں اچھی ہے۔۔۔ میں نہیں اچھا؟؟ محمش کا فل موڈ ون تھا۔۔۔ اپنے سامنے موجود اس پری کو تنگ کرنے میں مزہ آ رہا تھا۔۔ اس کے چہرے کے بدلتے رنگ محمش کے چہرے پر روشنی، خوشی بن کر چمک رہے تھے۔۔
نہیں ہاں نے بھلا ایسا کب کہا۔۔۔ آپ سب کے سب اچھے ہے۔۔
مطلب۔۔۔۔ محمش سچ میں نور کی حالت کو دیکھ کر مزہ لے رہا تھا۔ پوری کوشش سے ہنسی کنٹرول کرنے میں لگا ہوا تھا جس سے چہرے کا رنگ سرخ ہوا۔۔۔۔
مطلب آپ بھی اچھے ہے۔۔۔ سارے کے سارے ہی اچھے ہے۔۔۔ معصومیت ابھی تک برقرار تھی۔۔۔
شکریہ آپ کا۔۔۔ محمش نے سر کو خم دے کر شکریہ ادا کیا۔۔۔
جس پر نور مسکرائی۔۔۔
میری معصوم پری آج بھی ویسی ہی معصوم ہے۔۔۔ یا اللہ اس کو کوئی غم نا دکھانا۔۔۔ اس کی جھولی خوشیوں سے بھر دینا۔۔۔ امین
دل سے کی دوعاوں میں کتنا اثر تھا یہ تو اب وقت نے بتانا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسم ہونے کے بعد کافی گیسٹ چلے گے تھے۔۔ چاندی رات کی چاندی ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔۔ سونہری روشنی رات کے اندھیرے میں ایک الگ ہی جادو ،طلسم میں گھیر رہی تھی۔۔
بارات کے وقت اگر کوئی سب سے زیادہ رویا تھا تو وہ بھی نور میڈم ہی تھی۔۔۔ جو بھی باتیں ناراضگیاں تھی اس وقت سب ختم تھا بس یاد تھا تو اتنا کے اس کی بڑی بہن آج رخصت ہو کر جا رہی ہے۔۔
سب نےلاکھ سمجھایا کہ میره بھی یہاں اسلام آباد میں ہی رہے گی۔۔۔ مصطفیٰ ولاز کے پاس ہی ، پر نور تو رونے کے آج سارے ریکاڈ پورے کرنے کے چکر میں تھی۔۔
میره، رخصت ہو کر رضا ہاؤس جبکہ سارہ رخصت ہو کر مصطفیٰ ولاز آ گی۔۔۔
کافی دیر ہونے کی وجہ سے اور کچھ ثانیہ کی ، کی ہوئی باتوں سے نور بری طرح تھاک چکی تھی۔ کوئی رسم نور نے اپنے ہاتھوں سے نا کی جس پر سب سے زیادہ افنان چونکا تھا۔۔
نور نے روم میں آ کر سب سے پہلے اپنے کپڑے چینج کیے۔۔ آرام دہ لباس پہن کر جیسے ہی روم میں آ لیٹی تب ہی افنان نوک کر کے اندر آیا۔۔
۔
۔
نور ایسی بھی کیا بات ہو گی کہ اپنے افی بھائی کی شادی ہی انجونے نہیں کی آپ نے۔۔ اتنی ناراضگی تو آپ نے پہلے کبھی بھی نہیں دکھائی۔افنان ابھی تک اپنے روم میں نہیں گیا تھا۔ پر اپنی لاڈلی بہن سے ملنے ضرور آ گیا۔
بلی آنکھیں میں اس وقت سرخ دوڑے نظر آ رہے تھے۔ نور نے اٹھ کر تکیے سے ٹیک لگائی۔
۔
۔
۔
کمرے میں بلیو نائٹ لائٹ ون تھی۔ پر نور کی حالت کچھ اچھی نظر نہیں آ رہی تھی۔۔ بکھری بکھری۔۔۔ پریشان۔۔۔ یہ افنان کی عین تو تھی ہی نہیں۔۔۔ شادی کی تیاروں میں افنان بہت کم وقت دے پایا تھا۔۔ پھر کیسے وجہ جانتا۔۔ کیسے جان پاتا کہ اس کی لاڈلی بہن کیوں کس وجہ سے پریشان اداس ہے۔
ناراضگی میں نے تو ابھی دکھائی ہی نہیں بھائی۔ نور کا انداز افنان کو انجانا سا لگا۔اتنی بے اعتباری افنان بس سوچ کر ہی رہ گیا۔
پر یہ سب پھر کیا ہے؟؟ میری،میره کی شادی میں آپ کو کوئی انٹرسٹ ہی نہیں۔۔۔ سب سے الگ الگ نظر آ رہی ہے جس دن سے شادی کی بات ہوئی۔۔ یہ سب کیا ہے پھر۔۔۔ میں کیا سمجھو ان سب باتوں کا مطلب۔۔۔۔افنان اپنی دلہن کو چھوڑ کر اپنی بہن سے رات کے اس پہر وجہ تلاش کر رہا تھا۔۔
آپ کو سب نظر آ گیا بس وجہ ہی معلوم نہیں ہو پائی اس پر مجھے ساری زندگی افسوس رہے گا۔۔نور نے آنکھیں موندے جواب دیا۔۔پر اس بات پر افنان کا سارا سکون برباد ہو گیا۔
آپ نے تو شادی سے پہلے ہی ہمیں وقت دینا چھوڑ دیا۔وقت ہمارے سے زیادہ اہم ہو گیا آپ کے لئے بھائی۔۔ آپ کی عین اب آپ کی عین نہیں رہی سب کی طرح آپ کے لئے بھی وه نور ہو گی۔۔ آپ نے اسے خاص سے عام کر دیا بہت کم وقت لگا آپ کو پر یہ وقت میرے لئے کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔۔
آنسوں گھنی پلکوں کی باڑ توڑ کر چہرے کو بھیگو گے۔نور کی سسکیاں اس بڑے سے کمرے میں گونج رہی تھی۔۔ پر افنان صدمے کی کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا۔۔ اتنی بعد گمان ہو گی اس کی بہن۔۔۔
آپ پریشان ہو ۔۔۔ غلط فہمی کا شکار ہو۔۔ اداس ہو۔۔۔ ان سب کی وجہ میں جان کر رہو گا۔ پر ابھی آپ تھکی ہوئی ہے آرام کرے صبح ان سب پر بات کرے گے۔۔۔ افنان نے ہمت کر کے کہا۔۔
ضرور۔۔۔بات ہو گی پر۔۔۔ نور نے بولتے ھوے بات چھوڑ دی پر چہرے پر عجیب ہنسی تھی۔ کچھ ٹوٹ چکا تھا اس کے اندر۔۔۔ یا اداسی حد سے زیادہ تھی۔۔ افنان بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا نور کے سر پر پیار بھرا ہاتھ رکھا جاتے ھوے سائیڈ ٹیبل پر ایک خوبصورت کا گفٹ کرنا نا بھولا۔۔۔اور پھر خاموشی سے روم سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔پر بیڈ پر لیٹی نور اب پھوت پھوت کر رو رہی تھی۔۔۔ صبر جواب دے گیا۔۔۔
اتنا مان۔۔۔ اتنا پیار دے کر کوئی آپ کو ایک دم اکیلا چھوڑ جائے جان تو نکلتی ہے۔ پر یہاں تو بات ہی دنیا کے خوبصورت رشتے ہی تھی۔۔ نور کا مان توڑا گیا تھا۔ افنان کا رویہ گھر کے باقی افراد کا رویہ نور کے لئے ایک خوفناک یاد کی طرح بنتا جا رہا تھا۔۔ یہ لڑکی ایسا ہی پریشان اداس نا تھی بہت جگہ پر نور کو اہمیت نا دی گی پر نور چپ رہی۔۔ پر کسی اور کی نظریں اس پر ہی لگی ہوئی تھی جو کہ اس لڑکی کی سوچ کو هالا گی۔۔ ثانیہ خوب اس کی حالت کو لے کر مزہ کرتی۔۔ طنز بات بات پر تیار ہوتا۔۔جس سے نور بری طرح متاثر ہوئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا کمرہ اس وقت گلاب کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ سلک کی وائٹ بیڈشیٹ کنگ سائز بیڈ پر بہچی ہوئی تھی جس پر گلاب کی پتیاں کہی کہی گری نظر آئی۔۔ بیڈ کے چاروں جانب جاری دار پردوں کے ساتھ سرخ گلاب کی لڑریاں لٹک رہی تھی۔ سائیڈ ٹیبلز اور فل سائز شیشے کے پاس دیے روش کیے گے۔ ونڈو کے پردے ڈارک ریڈ رنگ کے تھے۔۔ گویا اس کمرے کی ہر چیز اپنی مثال آپ تھی۔
بیڈ پر بیٹھی میره ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی تھی جب غازی روم میں انٹر ہوا۔۔
ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے لبوں پر تھی جبکہ چہرے پر خوشی صاف نظر آ رہی تھی۔۔ ایک ایک قدم اٹھاتا غازی بیڈ کے پاس آ رہا تھا۔ پر میره کو اس کا اٹھتا ایک ایک قدم اپنے دل پر بھاری پڑتا محسوس ہو رہا تھا۔۔
۔
۔
اسلام وعلیکم!! خوشی سے بھرپور بھاری آواز۔۔۔
میره سمٹی سے جو بیٹھی تھی غازی کے سلام پر محض سر کو ہلا کر سر کو جھکا گی۔۔
ہاہاہا۔۔۔ یار اب ایسے تو نا کرو۔۔۔ غازی،میره کی حالت دیکھ کر اپنا قہقہ نا روک پایا۔۔
غازی پلززز۔۔۔ میره کی روہانسی سی آواز آئی۔
اچھا نہیں کرتا پر چہرہ تو اوپر کر لو، میرے سے تو پردہ نہیں ہے اب، ہم محرم ہے۔
میره نے ذرا سا چہرہ اوپر کیا تھا۔۔ غازی کے منہ سے بے ساختہ ماشاءالله نکالا تھا۔۔۔
سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک خوبصورت سا گفٹ نکال کر میره کے سامنے رکھا۔۔
المیره غازی۔۔۔ کچھ پل کو روکا۔۔۔ پر اپنے نام کے ساتھ غازی کا نام اس کے ہی منہ سے سن کر میره کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گی۔ بے یقین سی کیفیت جو غازی کو اس وقت خوب مزہ دے رہی تھی۔۔
کیا ہوا اچھا نہیں لگا ایسا نام لینا۔۔غازی نے اس کا مہندی سے بھرا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگایا۔۔۔
میره جو اپنے اس طرح نام لینے سے گھبراری ہوئی تھی غازی کے لمس سے جی جان سے کانپ گی۔۔۔
بولو بھی۔۔۔ غازی نے اس کا ہاتھ اب تک نہیں چُھوڑا تھا بلکے مہندی سے بھرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے بیٹھ گیا۔۔۔
جی۔۔ جی۔۔۔ اچھا لگا۔۔۔ بہت اچھا لگا۔۔۔ مدھم سی آواز میں جواب دیا۔۔
گوڈ۔۔۔ ایک ہاتھ سے گفٹ میره کے آگے کیا۔ المیره غازی کو ان کے مجازی خدا کی طرف سے ایک چھوٹا ،معمولی سا تحفہ پیش کیا جا رہا ہے۔ قبول کر کے اس تحفے کو عزت بخشی جائے۔۔ غازی کا انداز شہزادوں جیسا تھا۔۔
میره کے چہرے پر مسکان آئی۔ گفٹ کھولتے ھوے ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں ہل کر عجیب سی آواز پیدا کر رہی تھی۔۔۔ یہ چن چن چوڑیوں کی آواز غازی کو اس وقت سب سے زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔ گفٹ کو کھول کر دیکھا جس میں ایک خوبصورت سا ڈائیمڈ کا پنڈڈ تھا۔۔
یہ تو بہت پیارا ہے غازی۔۔۔ تھنک یو۔۔۔۔
ویلکوم میری جان۔۔۔ غازی نے ہاتھ پکڑ کر میره کو اٹھایا اور سائیڈ پر فل سائز مرر کے سامنے کھڑا کیا۔ صرائی دار گردن میں پہنا ہوا سیٹ نکل کر اپنا دیا ہوا ڈائیمڈ کا سیٹ پہنایا، ساتھ ہی ایک بوسہ لیا۔۔۔
اپنے سامنے میره کو کھڑا کیا۔۔۔ جھوکتی اٹھتی پلکے ، شرمایا شرمایا حسیں روپ غازی کو بہت سی گستخیوں پر مجبور کر رہا تھا۔ ماتھے پر ایک اور بوسہ لر کر پیچھے ہٹا گیا۔۔۔
جائے چینج کر آئے۔ پھر مل کر نفل ادا کریں گے ایک ساتھ۔۔۔
میره اتنے پیار پر کیسے شکر ادا نا کرتی۔۔ دو قدم غازی کی جانب بڑھائے۔۔اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ پھر دونوں ہاتھوں کو عقیدت سےباری باری اپنی آنکھوں سے لگایا۔۔۔ ہاتھ چھوڑا نہیں گیا۔۔ بلکے وہی ہاتھ اپنے ہونٹوں کے پاس لے کر گئی اور دونوں ہاتھوں پر پیار بھرا بوسہ دیا۔۔۔
غازی اس کے انداز پر جتنا حیران تھا اس سے زیادہ خوش تھا۔۔
یہ الگ انداز ،اتنا الگ اظہار، یہ خاص روپ صرف میری جان المیره غازی کا ہی ہو سکتا ہے۔۔ جیسے ہی غازی نے اس کو باہوں میں بھرنا چاہا میره بھاگ کر ڈریسنگ روم میں چلی گی۔ اس کا اس طرح جان چھڑوا کر بھاگنا غازی کا ہنسنے پر مجبور کر گیا۔۔
چاندی رات کا چاند بھی اس کے ملنے پر خوش تھا۔۔۔
تیرے سینے پر جو سر رکھ کے سوئے ہے
جاناں رات بھر عجیب طلسم میں گرفتار رہے ہے
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔