آج صبح صبح اتنی تیاری ماما کون آ رہا ہے جو پورا گھر چمکایا جا رہا ہے۔۔ نور یونیورسٹی جانے کے لئے تیار تھی۔۔۔ پر گھر میں اتنی ہل چل دیکھ کے حیران بھی تھی۔۔۔
آپ بتاؤں آپ کو کیا لگتا ہے کون آ رہا ہے۔۔۔ مھین نے نور کو اپنے ساتھ لگاتے ھوے لاڈ سے پوچھا۔۔۔۔
ڈیڈ کے کوئی فرینڈز۔۔۔۔؟؟
نا۔۔۔
پھر ؟؟
آپ کے ماموں آ رہے ہے۔۔۔ بلکے سب آ رہے ہیں۔۔ مھین نے کچھ ڈرتے ڈرتے بتایا۔۔۔
سچ۔۔۔ آپ سچ کہ رہی ہے نہ۔۔۔ ماما سچ میں بہت مزہ آئے گا۔۔۔ نور کافی خوش تھی مھین اپنی بیٹی کو دیکھ کر زیادہ خوش ہو رہی تھی جس نے کوئی بھی پچھلی بات یاد نہیں کی۔۔۔
جی میری جان سچ میں۔۔ آپ انتظار کر رہی تھی تو اب انجونے کرنا سب کے ساتھ۔۔
جی ماما بہت۔۔۔۔ غازی بھائی نے کہا تھا وہ آئے گے۔۔۔ ہم ناراض تھے نا ان سے وه یہاں ایک بار بھی نہیں آئے۔ پر اب آئے گے تو ہمیں اچھا لگ رہا ہے۔۔۔
مھین ابھی کچھ اور بتانا چاہتی تھی پر نور اور ماہم یونیورسٹی کے لئے نکل پڑے۔۔۔۔
۔
۔
۔
رات تک سب آ چکے تھے۔ مصطفیٰ ولاز میں خوب رونق لگی ہوئی تھی۔۔سب باتوں میں مصروف تھے پر ایک چہرہ تھا جو سب سے چپ بیٹھا اندر ہی اندر نور پر غصہ ہو رہا تھا۔۔ کوئی اور نہیں ثانیہ تھی جس کی کبھی بھی نور سے نا بن پائی۔۔۔
جبکہ نور افنان اور غازی کے درمیان بیٹھی اپنی باتوں میں مصروف تھی۔۔۔ کبھی بات کرتی تو کبھی ہنستی مسکراتی۔۔۔ ہر ایک کا پیار اس کے نصیب میں لکھا تھا جو قسمت سے خوب اچھے طریقے سے وصول بھی کر رہی تھی۔۔۔
پھر کیا خیال ہے شادی کے بارے میں۔۔۔ کون سی تاریخ رکھی جائے۔۔۔ رضا صاحب نے بات کا آغاز کیا۔۔۔
بھائی صاحب جو آپ کو مناسب لگے وہی رکھ لے۔۔۔ اگلے ماہ کی رکھ لے پانچ کے بعد کی۔۔ مھین, افنان, نائل کی پوری رضامندی شامل تھی۔۔
شادی۔۔۔ مطلب کس کی۔۔۔
نور حیران پریشان سب کے چہرے دیکھ رہی تھی۔ مھین صبح یہی بتانا چاہتی تھی پر نور یونیورسٹی چلی گی پھر پورا دن ایسے ہی گزر گیا اور بتانے کا موقع ہی نہیں ملا۔۔۔پر نور کا اترا ہوا چہرہ ثانیہ کے دل کو ٹھنڈک بخش رہا تھا۔۔۔
نورالعین آپ کو نہیں بتایا کسی نے ، کے کس کس کی شادی ہو رہی ہے؟ ثانیہ کا انداز طنز سے بھرپور تھا۔۔
ہممم۔۔۔۔۔ یاد نہیں رہا ہو گا کسی۔۔۔ کو بھی۔۔نور نے بات کو لمبآ کھنچا پر سب باتوں میں مصروف ہو چکے تھے کوئی نور کا اداس چہرہ نا دیکھ سکا۔۔۔
جنوری کے مہینے کی چھ ' سات ' آٹھ تاریخ پھر تہہ کر دی گی۔۔۔
کچھ بھی ہو یہی تاریخ میں شادی ہو گی انشاءلله۔۔ اگر کسی کو اعترض ہے تو ابھی کہ سکتا ہے۔۔۔ میں بار بار تاریخ ردوبدل کرنے کے حق میں نہیں ہو۔۔ رضا نے سب کو کہا۔۔۔ پر سب اس ان کے فیصلے پر راضی تھے۔۔نور ان سب میں خاموش بیٹھی رہی۔۔۔ کہی دل میں دکھ ہوا تھا جو بات اس کو پتا ہونی چاہے تھی وہ نہیں بتائی گی۔۔
نازک دل کی یہ لڑکی یہ بات بھی دل پر لے گی اب رونے کو کوئی جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔۔ نور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
کہاں۔۔۔!!!
روم میں۔۔۔ سادہ سا جواب
کیوں ابھی سےکیوں؟؟ ہم سب تو رات دیر تک جاگنے والے تھے نا عین۔۔۔افنان کو نور کا انداز کچھ عجیب لگا۔۔۔
ہممم۔۔۔ پر اب ہم تھک گے ہے سونا چاہتے ہے۔ نور کہ کر روکی نہیں اپنے روم کی جانب چل دی۔۔
کافی دیر گزر گی پر نور کے روم میں یا نور کو بولآنے، یا دیکھنے کوئی بھی نا آیا ایسا پہلی بار ہوا تھا۔۔
بلی آنکھیں اس وقت رو رہی تھی۔ بیڈ پر لٹے نور کو ثانیہ کی کہی ہوئی باتیں یاد آ رہی تھی۔
دیکھ لیا تم نے نور، کوئی بھی یہاں تمہیں نہیں پوچھتا۔۔ سب کو اپنی پڑی ہوئی ہے کسی نے اتنی اہم بات بتانا تمہیں ضروری نہیں سمجھا۔۔ خود ہی اپنی اوقات دیکھ لو۔ میں تو پہلے بھی کہہ چکی ہوں کوئی پیار نہیں کرتا بلکے مجبور ہے سب تمہیں پیار دینے کو۔
نور کو ایک ایک بات بار بار یاد آ رہی تھی۔
ایسا بہت بار ہوتا ہے یا ہوتا ہی ایسا ہے ہم خوش ہوتے ہیں تو سب اچھا لگتا ہے چاہے کچھ اتنا خاص ہو ہی نہ ، پر اگر ہم نہیں خوش ،دل اداس ہے تو ہم خوش ہو ہی نہیں سکتے۔۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوتی کہ ہم جس معاشرے میں زندگی گزر رہے ہیں وہاں ہم خود کے لئے خود ہی فیصلے نہیں لیتے بلکے ہم نے اپنی زندگی کے فیصلے دوسروں پر چھوڑے ہوتے ہیں۔۔۔ یا پھر جو جیسا کہتا ہے ویسا مان لیتے ہیں۔۔ اور یہی غلطیاں ہماری زندگی کی بہت سی خوشیاں کھا جاتی ہے۔
نور کے ساتھ بھی یہی سب ہو رہا تھا اس وقت نور کا دل دماغ ثانیہ کی باتوں کو مان رہا تھا۔۔ہارٹ پٹینٹ ہونے کی وجہ سے نور کو پریشانی والی بتاؤں چیزوں سے دور رکھا جاتا تھا۔ پر دوا روز کھانا پڑتی تھی جو نور آج خود یا پھر سب کی لاپروائی کی وجہ سے کھانا بھول گی تھی۔رونے کی وجہ اور سوچ سوچ کر نور کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ رات کے بارہ بجے تک نور نیند کے انتظار میں تھی پر ابھی بھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔
ایک دم سے نور کو گھبراہٹ محسوس ہوئی۔۔ فورا بستر سے اٹھ کر بیٹھ گی پر دل کی دھڑکن نارمل نہیں تھی۔۔ نور اپنی دوا ڈھونڈ رہی تھی جو مل ہی نہیں رہی تھی۔۔ ٹھنڈے پسینے سے نور کا چہرہ بھیگ رہا تھا۔۔ سست قدموں سے نور روم سے باہر آئی تب بھی نیچے سے باتوں کی کچھ آوازیں آ رہی تھی۔بدن میں جان نا ہونے کے برابر تھی پھر بھی ہمت کر کے نیچے آئی۔۔
بڑے سب سو چکے تھے باقی بچے ابھی بھی بیٹھے باتوں میں مصروف نظر آئے۔نور کے دل میں کچھ تھا جو اک پل میں ٹوٹ گیا۔۔۔
مان۔۔۔
بھروسہ۔۔۔
پیار۔۔۔۔
اعتبار۔۔۔
سب کا خون ہوتا ہوا نظر آیا۔۔ اتنی دیر سے نور یہ سوچ رہی تھی کے سب سوچکے ہو گے اس لئے کوئی اس کے پاس نہیں آیا پر یہاں تو سب جاگ رہیں تھے مزے کر رہے تھے۔۔۔
نور کے قدم ساتھ چھوڑ رہیں تھے آنکھوں کے سامنے بار بار اندھیرا چھاہ رہا تھا۔۔
کچھ قدم نور آگے بڑھی، حال تک آئی۔ غازی کی نذر نور پر پڑی۔
گڑیا ابھی تک سوئی نہیں آپ۔۔۔؟؟
ہاہاہاہا۔۔۔ نور کو ہمارے بغیر نیند کہاں آنی تھی بھلا۔۔ میره تنگ کرتے ھوے بولی تھی یہ جانےبغیر کے نور کی حالت کیا ہو رہی ہے۔۔
ماہم کو نور کا جھکا ہوا سر۔۔۔پسینے سے بھرا چہرہ۔۔۔ اور کانپتا لرزتا بدن نظر آیا۔۔
نوررر۔۔۔ ابھی آدھے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ افنان بھاگ کر نور کے پاس آیا اور اس کے گرتے ہوئے وجود کو باہوں میں بھرا۔۔
عین۔۔۔ بچے۔۔۔ کیا ہوا؟؟
بھائی۔۔۔ د۔۔۔ دوائی۔۔۔۔بند ہوتی آنکھوں کو مشکل سے کھول رکھا تھا۔
میره لے کر آؤ جلدی اس کی میڈیسن۔۔۔ جبکہ ماہم نور کے لئے پانی لینے کو بھاگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر کی نماز کے بعد روز کی طرح آج بھی محمش نماز کے بعد اپنی آنی کے روم میں تھا۔۔ صبح کا اجالا۔۔۔ روشنی۔۔۔ سکون۔۔ ہر جانب پھیل چکا تھا۔۔۔
محمش روز کی طرح آج بھی قرآن پاک کی تلاوت آہینور کو سنا رہا تھا۔۔
اس کی آواز۔۔ لفظ کی ادائیگی۔۔۔ تجوید۔۔۔ لہجہ۔۔۔ آہینور کو بہت سی سوچوں میں ڈال رہا تھا۔۔۔ جبکہ بلی آنکھیں برس رہی تھی۔۔ تلاوت مکمل کرنے کے بعد محمش نے قرآن پاک چوم کے سائیڈ پر رکھا اور ایک بوسہ آہینور کی پیشانی پر کیا۔۔ آنسوؤں کو اپنی ہاتھوں کی انگلیوں سے چونا۔۔۔
۔
۔
۔
ایش۔۔۔
محمش کا دل تیزی سے دھڑکا۔۔ نیلی آنکھوں میں حیرانگی تھی۔۔
جانی۔۔۔ کی۔۔۔۔کیا ہوا؟؟
کچھ پوچھو گی تو بتاؤں گے آپ ہمیں؟ سوال میں سوال سے زیادہ ایک مان تھا۔ اور محمش کو مان رکھنااچھے سے آتا تھا۔۔
آپ پوچھے نہیں حکم کیا کریں بس۔۔ محمش نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنی آنکھوں پر لگایا۔۔۔
"مائیں پوچھتی یا بتاتی ہوئی اچھی نہیں لگتی۔ماں بس حکم دیتے یا حکم چلاتے اچھی لگتی ہے۔خدا کے بعد بس سب کچھ ماؤں کو ہی پتا ہوتا ہیں تو پھر ان کی مان لینی چاہیں۔۔۔" آپ بھی حکم کرے پوچھے نہیں۔۔۔
اتنی پیاری باتیں کہاں سے سیکھی آپ نے۔۔ آپ کا بات کرنے کا انداز۔۔ لہجہ۔۔۔ اور اس میں ٹھہراؤ۔۔۔
محمش آپ نے۔۔۔ قر۔۔۔
آنی آپ کیا پوچھنا چاہتی ہے پوچھ لے نا۔۔
آپ نے قرآن حفظ کیا ہے نا۔۔۔ قرآن حفظ۔۔۔ آپ حافظِ قرآن ہو نہ؟؟
محمش کچھ پل کے لئے حیران ضرور ہوا تھا۔۔
آپ نے پھر پہچان ہی لیا نا جانی۔۔۔ آپ سے کچھ نہیں چھپ سکتا۔۔۔
جی الحمدوللہ۔۔ میں حافظِ قرآن ہوں۔۔۔
میں حافظ محمّد محمش شاہ ہوں۔۔۔
میری جان۔۔۔ میرے بچے محمش۔۔۔ آہینور نے اپنے شہزادے کو گلے لگایا۔۔۔
ساری اس کی باتیں اب تک مانتے رہے ہو؟؟ اتنی محبّت اتنی قدر کرتے ہو اس کی ابھی تک۔۔۔۔
محبّت نہیں کی جانی۔۔۔ محبّت کے لئے وه بنائی گی ہے۔۔۔ کیسے نا مانتا میں اس کی۔۔۔ کیسے نا قدر کرتا اس کی۔۔۔ اس کی باتوں کو کیسے نا اہمیت دیتا۔۔۔ کیسے نا کرتا اُس سے محبّت پھر؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ماضی۔۔۔۔۔۔۔
ماما آواز اور ترے(کریں) ۔۔۔ پانچ سال کی یہ گڑیا حال میں ٹی وی دیکھ رہی تھی۔۔
نور اور نہیں آواز۔۔۔ اونچی آواز میں نہیں سنتے ٹی وی۔۔۔ بُری بات ہوتی ہے۔
پر ماما یہ سونگ نہیں ہے یہ تو اللہ جی کی تعریف ہو رہی ہے نا اونچی سنی ہے۔ لمبے بالوں کی پونیاں کی ہوئی یہ ڈول سی بچی پوری معصومیت لئے ہوئے بہت اہم بات بتا رہی تھی۔۔۔
آہینور اس کے اس انداز پر واری صدقے جا رہی تھی پھر مسکراتی ہوئی آواز کچھ اور اونچی کر دی۔۔
کچھ دیر کے بعد تلاوت مکمل ہوئی تو نور کچھ سوچ کر بولی۔۔۔
۔
۔
۔
ایش۔۔۔۔
جی میری پری۔۔۔
ایش اس انکل کی آواز اتنی پاری ( پیاری ) کیوں ہے۔
سوال تو کیا تھا پر اپنی عمر سے کافی بڑا۔
کیوں کہ وه حافظِ قرآن ہے اس لئے ان کی آواز بہت پیاری ہے۔۔ محمش نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
حافظ قرآن تن ہوتا ہے۔۔۔( کون)
جو اللہ کی کتاب کو زبانی یاد کرتا ہے۔
تو پھر جو یاد کرتا ہے اس کی اوج (آواز ) پیاری ہو جاتی ہے؟
جی پھر بہت پیاری ہوجاتی ہے۔ محمش کو پتا تھا اس کی پری آگے کیا بولے گی۔۔۔
تو آپ بھی کرو گے نا اللہ جی کی کتاب یاد۔ ہمیں آپ کی آواز پیاری سنی ہے۔۔ حال میں بیٹھے سب اس بچی کی بات پر چونک گے تھے ۔
آپ کو میری آواز بھی اتنی پیاری سنی ہے؟
نہیں۔۔۔۔
پھر۔۔۔!!!
ایش کی آواز سب سے پیاری سنی ہے۔۔۔ اس انکل سے بھی زیادہ پیاری۔۔۔
آہاں۔۔۔ پھر تو ہم ضرور کرے گے حفظ انشاءلله۔۔۔ ہماری پری کا حکم سر آنکھوں پر۔
پکا۔۔۔ پرومیس۔۔۔
جی پکا۔۔۔ محمش اس کی ہر ادا پر خوش ہوا تھا۔۔۔
مصترا نور اس کے پاس آئی، محمش کی آنکھوں پر بوسہ لیا۔۔۔ پھر باری باری دونوں گالوں پر لیا۔۔ یہ حق بھی اگر کسی کو تھا تو صرف اس کی پری کو ہی تھا۔۔
محمش اس کے اس انداز پر جی بھر کر مسکرایا۔۔۔ جبکہ باقی سب منہ جھکائے اُدھر ادھر دیکھنے لگ گے۔۔۔ محمش ذرا بھی شرمندہ نظر نا آیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔