12 بجنے میں ابھی کچھ وقت ہی باقی تھا۔۔ افنان میره ماہم پاگلوں کی طرح کبھی کچھ سیٹ کرتے تو کبھی کچھ۔۔۔ مھین اور نائل بیٹھے ان کو دیکھ کے خوش بھی ہو رہے تھے ان کے بچوں میں اتنا پیار ہے۔۔۔ جو رات کے وقت نور کو خوش کرنے کے لئے یہ سب کر رہے ہیں۔۔۔
پورا کمرہ پھولوں، لائٹس، غباروں سے بےانتہا خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا۔۔ یہ سب کچھ ان تینوں کی محنت کی وجہ سے ہوا تھا۔۔۔ ایک بھرپور نظر کمرے پر ڈال کے افنان اب خوش اور مطمین نظر آ رہا تھا۔دس منٹ باقی تھے بارہ بجنے میں۔۔
میره آپ کیک لا کر رکھو میں نور کو اٹھا کے لاتا ہوں۔۔۔ اوکے۔۔۔
جی بھائی آپ جائے۔۔۔
افنان اپنے روم میں گیا جہاں یہ چھوٹی سی پری نیند میں گہم تھی۔۔۔ اس کو دیکھ کے افنان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔۔۔
نور کو ایک دم اٹھنے سے سر میں درد شروع ہو جاتا تھا اس لئے افنان نور کے بالوں میں اپنی انگلیاں چلا رہا تھا۔۔۔
عین۔۔۔۔ گڑیا۔۔۔ اٹھ جاؤ۔۔۔ عین۔۔۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ بلی آنکھیں نیند کی وجہ سے کھل بند ہو رہی تھی۔۔۔افنان کی ہنسی نکلی نور کو اس طرح نیند میں جھولتے دیکھ کر۔۔۔
آؤ میرے ساتھ کچھ دکھانا ہے۔۔۔ ساتھ چلوں میرے، سب آپ کا ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔ افنان نے کندھے سے پکڑ کے عین کو جگایا۔۔۔
ابھی نہیں افی بھائی۔۔۔ سونا ہے ابھی پلززز۔۔
سو لینا بعد میں۔۔ ابھی میری بات مان لو۔۔۔ اور چلوں۔۔۔
افنان ہاتھ پکڑے عین کو ساتھ لئے اس کے ہی کمرے کی جانب آیا۔۔۔ نور کی آنکھیں ابھی بھی سہی سے کھل نہیں پا رہی تھی۔۔۔ نائٹ سوٹ پہنے بکھرے بالوں میں بلکل چھوٹی سی معصوم سی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔۔
افنان نے ہاتھ بڑھا کے روم کا دروازہ جیسے ہی کھولا۔۔۔ پھولوں کی بارش نور کے اوپر ہوئی ساتھ ہی برتھڈے ساؤنڈ پلے ہوا۔۔۔ آنکھیں تو اب کھلی تھی پوری کی پوری۔۔۔
خوشی سے پاگل ہوتی یہ لڑکی منہ پر ہاتھ رکھے گول گول گھوم رہی تھی۔۔ سب نے مل کر برتھڈے وش کیا۔۔ کیک کھیلایا اور گفٹس دئیں۔۔۔
ابھی باتیں ہو رہی تھی کے افنان کے موبائل پر معاذ کی ویڈیو کال آیی۔۔ جس کو اٹینڈ بھی کیا گیا۔۔۔ جیسے نور کے روم کا حال تھا ویسا ہی کچھ معاذ کے روم کا بھی تھا۔۔
معاذ نے سب سے پہلے نور کو وش کیا پھر نور نے معاذ کو وش کیا۔۔۔ کافی دیر باتوں کے بعد آخر میں معاذ نے پھر سے وعدہ کیا۔۔۔
نور سیس کل پکا آؤ گی آپ۔۔۔ پلززز ہم دونوں اس بار مل کر برتھڈے کیک کاٹ کرے گے۔۔ مجھے بہت خوشی ہو گی۔۔۔ معاذ ترلے لے رہا تھا۔۔۔
معاذ بھائی ہم سب آئے گے۔۔ آغا جان اتنے پیار سے انوائٹ کرنے آئے تھے اگر ہم نہیں آئے گے تو ان کا دل ٹوٹ جائے گا نا، ایسے اللہ ناراض ہو جائے گے.۔۔۔ اس لئے ہم آئے گے انشاءلله کل۔۔۔معصومیت پوری طرح برقرار تھی۔۔ اس کی آواز وہاں بیٹھے سب کے دلوں کو سکون بخش رہی تھی۔۔۔ جبکہ آہینور کا دل بےچین تھا کل ملنےکو۔۔۔ اور دوسری طرف محمش اپنے آپ کو قابو کرنے کی کوشش میں تھا۔۔
کل کے دن کیا ہونے والا تھا۔۔۔ نور پیلس میں اس گھر کی شہزادی کے قدم پڑنے تھے۔۔ ایک ماں کا برسوں کا انتظار ختم ہونا تھا۔۔۔ آنکھوں کو کل اس کا چہرہ دیکھنے سے ٹھنڈک ملنی تھی۔۔ محمش کا امتحان ختم ہونا تھا۔۔۔ برسوں کا کھویا ہوا قرار واپس ملنا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پندرہ دسمبر کی شام ایسا لگ رہا تھا کہ ہر چیز رنگورونور میں نہانی ہوئی ہو۔۔۔ اسلام آباد کا یہ پوش علاقہ۔۔۔ اور یہاں کے لوگ۔۔۔
اس وقت نور پیلس پورا کا پورا گولڈن نظر آ رہا تھا.. ہر طرف لائٹس ،پھول ، غبارے نظر آ رہے تھے۔۔ ایک لوگ اس پیلس کے لان کے دیوانے تھے اس پر اس پیلس کو اس خوبصورتی سے سجایا گیا تھا کے آنکھیں دھاغ رہ جاتی۔۔۔
اس وقت سارا لان لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔۔ اگر انتظار ہو رہا تھا تو صرف ایک گھر کا۔۔۔ وه گھر جو اس پیلس کے دل میں بس چکا تھا۔۔مصطفیٰ ولاز کی فیملی کا انتظار ہو رہا تھا۔۔ نور پیلس کی ساری فیملی ان کے انتظار میں ہی تھے۔۔۔
معاذ بلیک ڈریس سوٹ میں جبکہ محمش بلکہ شلوار قمیض میں بےصبری سے کھڑا یہاں وہاں ٹہل رہا تھا۔۔ نیلی آنکھیں دروازیں پر ہی لگی ہوئی تھی۔۔۔ یہ آنکھیں کسی کے انتظار میں تھی۔۔۔ کسی کے دیدار کو ترس رہی تھی۔۔۔۔
۔
۔
۔
ہنستی مسکراتی فیملی پھر نور پیلس میں اینٹر ہوئی۔۔ مصطفیٰ ولاز کی فیملی اس وقت خوبصورت فیملی لگ رہی تھی۔۔۔ ماہم اور میره کا سیم ڈریس وائٹ، جبکہ معاذ مھین نائل بھی وائٹ ڈریس میں تھے۔۔۔
پر۔۔۔۔
۔
۔
سب کی جان۔۔۔۔ شہزادی۔۔۔۔نوری۔۔۔ اس وقت فل بلیک میکسی گولڈن حجاب میں تھی۔۔۔ سرخ سفید رنگ پر بلیک رنگ کچھ زیادہ ہی جچ رہا تھا۔۔۔ لائٹ سا مکیپ اور جیولری میں یہ پری بہت سی آنکھوں میں بسی ہوئی تھی پر کچھ چہرے کچھ لوگ تھے جو اس کے اٹھاتے قدموں پر بھی جان دینے کو تیار تھے۔
نور کا اٹھتا ہر قدم نور پیلس کے فرد کے دل پر بھاری پڑ رہا تھا۔۔۔
ادا کمال۔۔۔ چال کمال۔۔۔
اس کے نین کمال۔۔۔
وه سادگی میں کمال۔۔۔
حجابی لڑکی وه ہر شے میں کمال۔۔۔
(میری حسین)
محمش نے اب تک آنکھیں نہیں جھپکی تھی۔ یقین کرنا چاہتا تھا۔۔۔ یہ لمحہ جینا چاہتا تھا۔
خود کو بھروسہ دلانا چاہتا تھا کہ اس کی نور۔۔۔ پری اس کے سامنے ہے۔۔۔ اتنا انتظار۔۔۔ اتنی تکلیفوں کے باوجود آج وه اپنی خوشی سے اس پیلس میں دوبارہ اس رب کے حکم سے آئی تھی۔۔
ایسا ہی کچھ حال آہینور کا تھا۔۔۔ ان کی بیٹی جوان ہو چکی تھی۔۔۔ آہینور کو اس میں اپنی جوانی کی جھلک نظر آ رہی تھی۔۔۔ پر قسمت دونوں کی ایک جیسی تھی۔۔۔ دونوں اپنے خاص خوشیاں والے دن کہی اور ،تکلیف میں گزر رہی تھی۔۔ آہینور کو بیٹی کی جھلک نظر آئی تھی، ضبط کے باوجود بھی آنکھوں سے آنسوؤں بہے تھے۔۔ معاذ پاس کھڑا سب دیکھ محسوس کر رہا تھا پر خوش تھا اتنے سالوں بعد سب ساتھ تھے ایک چھت کے نیچے۔۔۔
آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی
خشک موسم تھا مگر ٹوٹ کے برسات ہوئی
(#copied)
نور سب سے مل کر آخر میں آہینور کے پاس آئی تھی۔۔۔ جھک کے آہینور کی ویلچیئر کے پاس بیٹھی اور اپنا سر آگے کیا۔۔۔
"تربیت جھلک جاتی ہے۔ خاندان کی پہچان ہو جاتی ہے۔خاندان کے رسموراوج نظر آ جاتے ہے"
آہینور نور کے اس انداز پر واری ہو رہی تھی۔۔ خوشی چہرے سے جھلک رہی تھی۔۔ پیار دیا گیا۔۔ گلے لگایا گیا۔۔۔ ایک ٹھنڈک تھی جو ماں بیٹی کے اندر تک اتر گی۔۔ دونوں کے وجود سکون میں تھے۔۔۔بےچینی کا کہی نام و نشاں باقی نا رہا۔۔۔۔۔
۔
۔
۔
سب سے ملنے کے بعد پارٹی کا آغاز ہوا۔ ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا۔پر دو لوگ تھے جو ان سب میں بھی ہو کے الگ تھے۔جن کے اندر سب سے الگ جنگ چل رہی تھی۔ وه کوئی اور نہیں بلکے محمش اور آہینور تھی جو ہر پل نور کو اپنی آنکھوں میں بسا رہے تھے۔۔۔ جن کی آنکھیں کچھ اور دیکھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔۔
۔
۔
۔
محمش میری بچی کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ کتنی بڑی ہو گی میں نے کتنا کچھ کھو دیا جو وقت اپنوں کے ساتھ گزرنا تھا وہ وقت۔۔۔وه وقت میں۔۔۔
آنی۔۔۔۔ مت اداس ہو وه یہاں ہی تو ہے، انشاءلله بہت جلد آپ کی گڑیا کو واپس لے آؤ گا۔۔ بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائے۔۔۔
محمش کیا آپ اب بھی۔۔۔ مطلب۔۔۔ جو بچپن میں بات ہوئی۔۔۔ مطلب۔۔۔۔ آہینور کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وه کیسے پوچھے۔۔۔
جانی۔۔۔۔ میں سمجھ گیا آپ کیا کہنا چاہتی ہے۔ اب کیا؟؟؟
یہ سب بہت پہلے کا لکھا جا چکا ہے۔ایسا تو ہونا ہی تھا۔میں کیسے پھر بھول جاتا کیسے؟
"پاکیزہ روحوں کا ملنا واجب ہوتا ہیں ان کے لئے راستے نہیں بنانے پڑتے بلکے قسمت خود ان کے ملن کے انتظار میں ہوتی ہے۔۔۔"
اللہ تعالیٰ نے جوڑے سب کےپہلے سے ہی بنا دئے ہیں ہر چیز لکھی جا چکی ہے۔۔۔ یہ سب میرے یا آپ کے اختیار میں نہیں ہوتا یہ فیصلے رب کے ہیں وه بےشک ہم سے بہتر جانتا ہے۔۔ اگر ایسا ہونا ہی نا ہوتا تو بہت پہلے ہی اللہ اسے میرے دل دماغ سے نکال دیتا۔۔ پر ایسا نہیں ہوا' بلکے ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اس کی یاد پہلے سے زیادہ آتی رہی۔۔ مجھے کبھی لگا ہی نہیں کہ وه نہیں ہے، نہیں ہو گی۔۔ یا کبھی میری ہو گی ہی نہیں۔۔ پھر میں کیسے یقین کر لو، یا کر لیتا کہ میں اسے بھول گیا۔۔۔ وه میری نہیں۔۔۔
۔
۔
۔
وہ میری ہی ہے۔۔۔
میرے لئے ہی بنائی گی ہے۔۔۔
میرے ہی رہے گی۔۔۔
محمش کے الفاظ آہینور کی روح میں جان ڈال رہیں تھے۔۔۔ جسم کو تاروتازگی بخش رہیں تھے۔۔۔
محمش اتنی اچھی باتیں کہا سے سکھ لی آپ نے۔۔۔ میرے بچے کی آواز اس کی تحسیر مجھے سکون دے رہی ہے۔۔۔ دل کر رہا ہے آپ بولتے رہوں ،میں ایسے ہی بیٹھی سنتی رہوں۔۔۔
جانی۔۔۔۔ میری جان۔۔۔ ابھی ایک راز ہے میرا جو آپ کو نہیں پتا۔۔۔ بلکے کسی کو بھی نہیں پتا۔۔۔ پر سب کو ایک ساتھ بتاؤں گا۔۔۔ محمش کے چہرے سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تو بہت خوبصورت، اور بڑے بڑے لوگ آئے ھوے ہیں۔۔۔ خیر ہے نا۔۔۔ معاذ ان سب کے پاس کھڑا اپنے موڈ میں آ چکا تھا۔۔۔
جبکہ ماہم کا پرا ہائی ہونے کو تھا۔۔۔ نور تو سدا کی سادہ معصوم۔۔۔ البتہ میره کافی مزہ لے رہی تھی۔۔
معاذ بہت پیارے لگ رہے ہو آپ تو آج۔۔۔ میره کو یہ چھوٹا شیطان بہت اچھا لگا رہا تھا۔۔ خوش اخلاق۔۔۔ خوش مزاج۔۔۔
اللہ اللہ۔۔۔۔ مطلب بس آج پیار لگا ہو۔۔۔ تو جو پیچھے انیس سال سے اس دنیا کو ہلانے آیا تھا وه کس کھاتے میں جاتا ہے۔۔ معاذ اس وقت معصومیت کی حد کو چھو رہا تھا۔۔۔
اوہ۔۔۔ نہیں معاذ آپ ہو ہی پیارے۔۔۔۔ میره نے بہت مشکل سے مسکراہٹ کو کنٹرول کیا۔۔۔
جی۔۔۔ بس اللہ نے بہت پیارا بنا دیا۔۔۔ سارا حسن مجھے بچے میں ہی ڈال دیا۔۔۔
استغفار۔۔۔۔ خوش فہمیاں۔۔۔ ماہم کا منٹ سے پہلے جواب آیا تھا۔۔۔
وہ تھک جائے اور میرے سینے سے آ لگے
کچھ ایسی خواہشوں نے اب تک زندہ رکھا ہے بات صرف اُسے چاہنے کی نہ تھی
ہم تو قربان بھی ہو جاتے بات ساری اُس کے نظرِ کرم کی تھی
(میری حسین)
معاذ کے یہ الفاظ ماہم اچھے سے سمجھ رہی تھی جبکہ میره موبائل پر مصروف ہونے کی وجہ سے سن نہیں پائی۔۔۔ نور آنکھیں باہر نکلے کبھی معاذ کو کبھی ماہم کو دیکھتی۔۔۔
معاذ اب سچ میں یہ بہت زیادہ ہو رہا ہے۔۔ اگر یہی سب کرنا ہے تو آغا جان سے آپ کی شکایت کر دو گی۔۔ ماہم کو معاذ کے شعر سے اچھی خاصی تپ چڑ گی۔۔۔
نا۔۔۔ نہ ایسا ظلم تو نا کرنا اب تم۔۔۔ کیوں مروانا چاہتی ہو ابھی تو میں بچہ سا ہو۔۔۔ اتنے خواب پورے کرنے ابھی میں نے ، ترس کھاؤ میرے پر۔۔۔
واہ۔۔۔ معاذ بھائی کیا خواب ہیں آپ کہ۔۔۔۔
ابھی میں بچہ ہوں۔۔ چھوٹا ہوں۔۔۔ پڑھ کے شادی کرنی ہے۔۔ بچے ہو گے۔۔۔ زندگی گزارنی ہے ابھی تو۔۔۔۔ یہی تو خواب ہے خوبصورت۔۔۔
نور معاذ کی باتوں پر قہقہ لگا کے خوب لوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔۔۔ معاذ اس کو ایسے دیکھتے ھوے خوش ہو رہا تھا۔۔۔ وه بہن تھی اس کی۔۔۔ اس کی ٹوئن بہن۔۔۔۔ اس گھر کی جان۔۔۔ پھر کیسے نا خوش ہوتا۔۔۔ اتنے سالوں کا صبر ختم جو ہوا تھا۔۔۔
بارہ بج چکے تھے پارٹی بھی اپنے احتتام کو کی۔۔ پر معاذ محمش ابھی بھی چاھتے تھے کہ مصطفیٰ ولاز کی فیملی روک جائے۔۔۔
نور آپ نے تو گفٹس بھی نہیں دیکھے اندر چال کے دیکھتے ہے۔۔۔ کون کیا دے کر گیا ہے۔۔ جتنا پیسہ ہم نے کھانے پر لگایا ہے وه پورا بھی ہوا ہے کہ نہیں۔۔۔ معاذ اونچی اونچی آواز میں بول رہا تھا۔۔ آغا جان کے کان میں معاذ کی آواز جا چکی تھی۔۔
معاذ ساری شرم بیچ کھائی ہے کیا؟؟
نہ۔۔۔ نہیں میں تو بس۔۔۔
بس کیا۔۔۔ باز آ جائے ابھی بھی نہیں تو دوسرا طریقہ ہے میرے پاس۔۔۔
سوری۔۔۔
ہمم چلو سب اندر۔۔۔ آغا جان اور باقی بڑے اندر چال دیں جبکہ معاذ چھوٹا سا منہ لے کر کھڑا تھا۔۔۔
پتا تھا مجھے عزت ایک دن ہی مشکل سے دے سکتے ہے آغا جان۔۔۔ اب بارہ بج گے بتا چکے ہے بیٹا اصل حالت میں واپس آ جو، سالگرہ ختم ہو چکی۔۔۔
سب کا ایک ساتھ قہقہ گونجا تھا۔۔۔آج اتنے برسوں کہ بعد اس پیلس میں خوشیاں تھی۔۔ قہقے گونج رہیں تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔