کون جانتا تھا۔۔۔ یہ وقت کسی اور کو بھی بےچین کیے ہوا ہے۔۔۔ کون جانتا تھا یہ تکلیف کوئی اور بھی محسوس کر رہاہے۔۔۔۔ کوئی اور بھی ایسے ہی پل پل درد میں ہے۔۔۔۔ پر کون جانتا تھا۔۔۔۔۔۔
بھائی آپ کہا ہے۔۔ کب سے کال کر رہا ہوں میں آپ کو۔۔۔ پلزز گھر آ جائے ماما کی طبعیت پھر سے خراب ہو رہی ہے۔۔ پلززز۔۔۔ گھر۔۔۔۔
کار ڈرائیو کرتے محمش کی گھبراہٹ میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔کار کی سپیڈ بھی کچھ اور بڑھا دی ۔۔۔۔
معاذ میں آ رہا ہوں۔ پریشان نہ ہو، آ رہا ہو بس۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ ڈاکٹر کو کال کرو فاسٹ۔۔۔۔
محمش سے ٹھیک سے الفاظ ادا نہیں ہو پا رہیں تھے۔۔۔ بےبسی، گھبراہٹ عروج پر تھی۔۔۔
کچھ دیر بعد کار نور پیلس کے خوبصورت احاطے میں آ کے رُکی۔۔ لان دنیا بھر کے خوبصورت پھولوں سے سجا ہوا تھا۔۔۔
۔
محمش بھاگتے ہوئے داخلی دروازے سے ہوتا ہوا ایک بڑے سے کمرے میں رُکا تھا۔۔۔ دروازہ کھلتے ہی سب کی نظر محمش پر پڑی تھی۔۔۔ ہوش سب سے پہلے معاذ کو آیا تھا۔۔۔ بلی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھری پڑی تھی۔۔
بھا۔۔۔بھائی ماما۔۔۔ نفی میں سر ہلایا گیا۔
محمش کو لگا کے پورا نور پیلس اس کے سر پر آ گرا ہے۔۔۔سب کی آنکھوں میں آنسوؤں صاف نظر آ رہیں تھے۔۔۔۔جہانزیب شاہ کا سر جھکا ہوا تھا۔۔۔ بدن اب بھی کانپ رہا تھا۔۔۔
ڈاکٹر آنی کو کیا ہوا ہے۔۔۔ کچھ قدم آگے بڑھ کے پوچھا گیا۔۔۔
ایم سوری۔۔۔ بہت کوشش کر رہیں ہے بٹ یہ خود ہی جینا نہیں چاہتی۔۔۔ ان کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا کے ان ک پاس کتنا ٹائم ہے۔۔۔ ڈاکٹر محمش کے کندھے پر تسلی سے ہاتھ رکھ کے باہر نکل گے تھے۔۔۔
سکت کھڑا وجود بیڈ پر بیٹھا تھا۔۔۔ وہاں موجود ہر فرد ابھی تک ڈاکٹر کے کہے الفاظ کے اثر میں تھا۔۔ کمرے میں پوری طرح خاموشی تھی۔۔۔ سانس لینے تک کی آواز محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔۔
جا۔۔جانی۔۔۔۔ آپ ایسے کیسے کر سکتی ہے۔۔ آ۔۔ آپ کو کیوں اتنی جلدی ہے جانے کی۔۔۔ آپ روک جائے نہ۔۔۔۔ پلزز۔۔۔ آپ مانتی ہے نہ میری۔۔ آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھی۔۔۔ نیلی آنکھوں پر پھر سے ستم ہو رہا تھا۔۔۔ دکھنے والا یہ بادشاہ پھر سے تڑپ رہا تھا۔۔۔ کرب، تکلیف حد سے زیادہ تھی۔۔۔
جھک کے سوئے وجود کے کان کے پاس کچھ بولا جا رہا تھا۔۔۔
آپ کو نہیں لگتا وہ ابھی بھی زندہ ہے۔۔۔ پاس ہے۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوتا ہے۔۔ ہر پل، ہر وقت۔۔۔ وہ بہت پاس ہے ہمارے۔۔۔ بس ناراض ہے۔۔۔۔ اس لیے چھپ گی ہے۔۔۔ آپ ٹھیک ہو جائے نہ۔۔ میں اسے منا لو گا۔۔۔ آپ اب تک سانس لے رہی ہے۔۔ میں لے رہا ہوں تو اس کا مطلب یہی ہوا نہ کے وہ بھی زندہ ہے۔۔۔ وہ بھی سانس لے رہی ہے۔۔۔ پھر کیوں اسے دکھے بنا جانا چاہتی ہے۔۔۔ کیوں ہمت ہار رہی ہے۔۔۔
پلزز۔۔ پلززز۔ ایسا نہ کریں۔۔ میرے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔۔۔ میرے لیے بہت تکلیف دے ہے یہ سب آپ جانتی ہے نہ۔۔۔ پھر کیوں مجھے اور اذیت دینا چاہتی ہے۔۔۔
سوئی ہوئی زندہ لاش کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔آپ کہتی تھی نہ میں آپ کا شہزاد ہوں ۔۔۔ آپ دعا دیتی تھی نہ کے میں بہت خوش رہوں۔۔کیا آپ کو لگتا ہے میں آپ کو ایسے دیکھ کے خوش ہوں۔۔۔ میں کسی کو دُکھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ مان جائے نہ۔۔۔ مت جائے چھوڑ کے۔۔۔ میرے لیے۔۔۔ معاذکے لیے۔۔۔ نور کے لیے۔۔۔ سکت پرے وجود کی سانس تیز ہوئی تھی۔۔۔
نور۔۔۔ ہاں نور۔۔۔ ہماری نور۔۔۔
محمش نے ایک نظر سامنے چلتے کمپیوٹر پر دیکھا تھا۔۔۔ لائنز میں اُترا چڑھو صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔محمش کے ہاتھ کانپے تھے۔۔۔ دل کسی انہونی سے ڈر رہا تھا۔۔۔ سوئے ہوئے وجود کے کمزور ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا گیا تھا۔۔
میں نے وعدہ کیا تھا آپ سے نور، جہاں بھی ہوئی اُسے آپ کے پاس لے کے آؤ گا۔۔۔ وہ زندہ ہے۔۔۔ آپ سن رہی ہے نہ۔۔۔ وہ زندہ ہے۔۔۔ اور میں اسے انشاءلله ضرور آپ کے پاس لے کر آؤ گا۔۔۔وہاں موجود لوگوں سے زیادہ امید خود کو دلائی گئی تھی۔۔۔
" میرے چاروں جانب اندھیرا ہے دیکھ نہیں پا رہا کچھ
خاموشی ہے پر چیخناچلنا بھی بہت ہے
لڑ کے بیٹھا ہوں کچھ یوں کے یاد کرتا ہو وہ سب
کہ بند کمرہ، وعدے اور تیرا مسکرا کے چھوڑ جانا"۔۔۔
از :: میری حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ منظر تھا اسلام آباد کے مشہور پیلس کا۔۔۔ جو کبھی خوشی سے آوازوں سے گونجا کرتا تھا۔۔۔ اس پیلس کے بڑے جہانزیب شاہ(آغاجان) اور ان کی بیگم نسرین شاہ تھے۔۔ اللہ نے ان کو دو اولادوں سے نوازا تھا۔۔۔
بڑا بیٹا جس کا نام عالمگیر شاہ تھا۔اور چھوٹی بیٹی۔۔ اس گھر کی جان۔۔۔ گھر والوں کی زندگی۔۔۔ آئینور شاہ تھی۔۔۔ عالمگیر سے چھ سال چھوٹی۔۔۔
اس پیلس کی شہزادی اصل میں ایک پری تھی۔۔۔ دلوں کو مول لینے والی یہ پری نور پیلس کی جان اس آئینور میں تھی۔ بچے بڑے ہوئے اور عالمگیر کی شادی جہانزیب شاہ نے اپنے دوست کی بیٹی اکفہ سے کی۔۔۔
دو سال کا عرصہ گزرا اور اس پیلس میں ایک خوبصورت شہزادہ آیا۔۔۔ عالمگیر شاہ اور اکفہ شاہ کا بیٹا محمّد محمش شاہ۔۔۔نیلی آنکھیں اس نے اپنی ماں سے چرائی تھی۔۔۔ سرخ سفید رنگ۔۔ لائٹ براؤن بال۔۔۔ خوبصورت مسکان۔۔ ہر ایک کو اپنے جانب کھنچتی تھی۔۔۔ وہ واقعی میں ایک شہزادہ تھا۔۔۔ آئینور کی جان تھی اس بچے میں۔۔۔ محمش سے پہلے اس گھر کا چھوٹا بچہ آئینور تھی۔۔۔ اور اب سارا دن محمش کو اپنے پاس لے کے بیٹھے رہنا آئینور کا کام تھا۔۔۔ گھر کے باقی افراد اس بچے کو گود میں لینے کے لیے ترستے تھے۔۔۔
وقت گزر رہا تھا اور آئینور نے یونیورسٹی جانا شروﻉ کر دیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور کی آنکھ شور سے کُھلی تھی۔ نیچے سے بہت سی آوازیں آ رہی تھی۔۔۔آنکھیں کھولنے پر نور کو محسوس ہوا تھا کے وہ اپنے کمرے میں نہیں تھی۔۔۔ سب سے پہلا خیال جو نور کو آیا تھا وہ صبح کا واقع تھا۔۔۔
ایک سیسكی نور کے منہ سے نکلی تھی۔۔۔ کمرہ افنان کا تھا۔۔۔ کمرے میں کافی اندھیرا تھا۔۔۔ نور کو گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ نور فورا اٹھ کے بیٹھی تھی۔۔۔ روم میں نائٹ لائٹ کی وجہ سے تھوڑی بہت روشنی تھی۔۔۔ اٹھتے ساتھ ہی نور کو محسوس ہوا کے گلے میں کافی درد ہے۔۔ گلہ خشک تھا۔۔۔ سر الگ بھاری ہو رہا تھا۔۔۔وہ سر ہاتھوں میں پکڑے بیٹھی تھی، تبھی واشروم کا دروازہ کھول کے افنان کمرے میں آیا اور نور کو سر ہاتھوں میں گرایں پایا۔۔۔۔
عین کیا ہوا ہے؟؟؟ افنان پرشان سا نور کے پاس آ کے بیٹھا تھا۔۔۔
سی۔۔۔سر میں بہت۔۔۔ در۔۔۔ درد۔۔۔ سر میں درد۔۔۔ عین کی عجیب سی بھاری آواز آئی۔۔۔
عین۔۔۔ طبعیت زیادہ خراب ہے؟؟
عین نے جھکی آنکھیں اٹھائی تھی۔۔۔ افنان کے سامنے بلی آنکھیں سرخی سے بھری پڑی تھی۔۔ سوجی آنکھیں عین کی طبعیت کا بتا رہی تھی۔۔۔ کہ یہ معصوم لڑکی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ دل پر کافی گہری چوٹ آئی تھی۔۔ایک ہفتے تلخ الفاظوں کی جنگ میں یہ گڑیا آج اپنے ڈیڈی اور بھائی کے سامنے ہار گئی تھی۔
۔
افنان کی پریشانی زیادہ اس لیے بڑھ رہی تھی کیوں کے اتنی لمبی نیند کے بعد عین کو پر سکون ہونا چاہیے تھا۔۔۔پر ایسا نہیں تھا نور کی طبعیت کچھ زیادہ کی خراب لگ رہی تھی۔۔۔ نور تھی بھی نازک جان۔۔۔ افنان نہیں چاہتا تھا عین کی حالت اور بگڑے۔۔۔
اُفی بھائی پا۔۔۔ پانی۔۔۔ نور کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔۔۔ایسے لگ رہا تھا مانو جیسے اب آواز نہیں نکل سکے گی۔۔۔ بولتے ہوئے جو درد ہوا تھا وہ آنکھوں میں آنسوؤں کی صورت بہہ رہا تھا۔۔۔
یہ لو پانی پیو۔۔۔۔گلاس منہ کو لگایا گیا۔۔ آرام آرام سے آدھا گلاس پیا۔۔
اب کچھ بہتر لگا۔۔
سر کو محض ہاں میں ہلایا گیا۔۔۔
اوکے۔۔۔ ہم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں۔۔۔ آپ کی طبعیت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی اس لیے بس ایک بار چیک کروا لے گے۔۔۔
ڈاکٹر کا نام سن کے نور کی جان نکل رہی تھی۔۔۔ نہ۔۔۔ نہیں۔۔ بھائی۔۔۔ نہیں۔۔ ڈاکٹر پاس نہیں۔۔۔ نور نفی میں سر ہلا رہی تھی۔۔ یا ڈر رہی تھی ڈاکٹر کے نام سے۔۔۔
عین بس چیک اپ کے لیے جا رہے ہے۔۔۔ سر درد اور گلے کے درد کے لیے۔ پرومیس اور کچھ نہیں۔۔۔
پکا۔۔۔ پرومیس۔۔۔ عین نے ہاتھ آگے کیا تھا پرومیس یاد کروانے کے لیے۔۔۔
جی پکا والا۔۔۔
افنان نے اٹھ کے روم کی لائٹ اون کی تھی۔۔۔ اور روم سے باہر نکل کے عین کے روم سے اس کا پہننے کے لیے ڈریس لایا تھا۔۔۔۔
عین جاؤ چینج کرو جلدی سے۔۔۔ افنان سے بلیک شلوار قمیض عین کی جانب بڑھایا تھا۔۔
دس منٹ کے بعد ریڈی ہو کے افنان اور نور نیچے آئے تھے۔۔۔
سب لیونگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔۔
افنان اور نور کو دیکھ کر سب خاموش ہوئے تھے۔۔۔۔ افنان کے ماموں مامی کزن سب تھے۔۔۔
اور یہاں وہ لڑکی بیٹھی تھی جس کی وجہ سے آج عین کی اتنی طبعیت خراب ہوئی تھی۔۔۔ اس لڑکی کی وجہ سے عین روئی تھی۔۔۔۔ ایک ہفتے اذیت میں رہی تھی۔۔ افنان کو اس لڑکی کو دیکھ دیکھ کے غصہ آرہا تھا۔۔۔
کہاں جا رہیں ہو۔۔۔نور اور افنان کو دیکھ کے مھین نے پوچھا تھا۔۔ سب کی نظر بھی ان دونوں پر تھی۔۔۔
ڈاکٹر کے پاس۔۔
عین کی طبعیت نہیں ٹھیک۔۔۔
افنان کے بتانے کی دیر تھی۔نائل اٹھ کے نور کے پاس آئے تھے۔۔ افنان کو ایک نظر دیکھا تھا۔۔ افنان سمجھ گیا تھا۔۔
مجھے زیادہ نہیں پتا پر عین کے گلے میں کافی درد ہے۔ جس کی وجہ سے بولا نہیں جا رہا۔۔ اس لیے چیک اپ کے لیے لے کر جا رہا ہوں۔۔۔
افنان نے وہاں موجود کسی کی جانب نہ دیکھا نہ ہی سلام لینا ضروری سمجھا۔۔۔البتہ عین کا ہاتھ ابھی بھی افنان کے ہاتھ میں تھا۔۔۔
ہم چلتے ہیں۔۔۔ ڈنر پر ویٹ نہ کرنا ماما ہمیں ٹائم لگ جائے گا۔۔۔۔
صاف نظر آ رہا تھا کہ افنان سب کو اگنور کر رہا ہے۔۔۔ افنان نے ایسے ہی عین کو اپنے ساتھ لیے باہر کی جانب بڑا۔۔
افنان روکو میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔۔۔ آواز غازی کی تھی۔۔۔
افنان پیچھے موڑا تھا۔۔ لمحے بھر کو غازی کو دیکھا گیا۔۔۔
" عین کے کندھے پر بازو حائل کیے۔۔ یہ میری بہن ہے۔۔۔ میری جان۔۔۔ میری گڑیا۔۔۔ میری عین۔۔۔ میں اس کے ساتھ ہمیشہ رہوں گا۔۔۔ میں اس کی حفاظت کرو گا۔۔ یہ میری ذمیداری ہے۔۔۔ تم سب نے جو کیا ہیں نہ، بھول ہے کے اب میں عین کو اکیلا بھی چھوڑو۔۔سن لیا سب نے۔۔۔"
افنان نے سختی سے کہا تھا۔۔۔ ایک ایک لفظ کو زور دے کے بولا گیا تھا۔۔۔
پر۔۔ افنان ہوا کیا؟؟؟
غازی کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کے افنان عین کو لے کے باہر جا چکا تھا۔۔۔
مھین خاموش بیٹھی آنے والے طوفان کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ یہ طوفان بہت سے رشتوں کو لے ڈوبے گا۔۔۔ بہت سی زندگیاں ان دو گھروں سے جڑی ہوئی تھی۔۔۔
مجھے سب سمبھلنا ہے۔۔۔ اپنے بچوں کے لیے۔۔۔ اُن کی خوشیوں کے لیے۔۔۔۔ مجھے اپنے بچے خوش چاہیے۔۔۔ مھین بیٹھی یہی سوچے جا رہی تھی۔۔۔ بات کو کیسے سمبھلا جائے کہ رشتوں میں اختلاف بھی نہ آئے۔۔
۔
یہ سب کیا تھا جو افنان ابھی کہہ کے گیا ہے۔ اسے نہیں پتا بڑوں سے بات کیسے کرتے ہیں۔ ہمارا اس گھر سے کیا رشتہ ہے۔ سلام تک لینا گوارا نہیں کیا اس نے۔ باتیں سنا کے چلا گیا۔
ایسی بھی کیا بات ہو گی کے بڑوں کا لحاظ ہی بھول جائے بندہ۔۔۔الیمہ کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔۔۔وہاں بیٹھا ہر فرد چھپ چاپ تھا۔۔۔ الیمہ مسلسل باتیں سُننا رہی تھی۔۔۔
بس کر دے بھابھی بہت ہو گیا آپ کا۔۔۔ مھین اٹھ کے الیمہ کے سامنے آ کے کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ ایک لفظ اور نہیں۔۔ میں برداشت نہیں کرو گی میرے بچوں کے بارے میں کوئی کچھ بھی نہ کہے۔۔۔ جب کہ آپ کو پوری بات کا پتا بھی نہ ہو۔۔۔۔مھین نے اک نظر ثانیہ پر ڈالی تھی۔۔۔ ثانیہ مھین کو دیکھ کے گھبرائی ضرور تھی۔۔۔
پر پھپھو ہوا کیا ہے ہم یہی تو جاننا چاہ رہیں ہے۔۔۔ غازی اٹھ کے مھین کے پاس آیا تھا۔۔۔
کچھ نہیں غازی۔۔ کچھ خاص نہیں۔۔ نور کی طبعیت نہیں ٹھیک اس وجہ سے بس افنان ایسا بول گیا۔۔۔نائل صاحب نے بات کو سمبھلا تھا۔۔۔
لو بھلا ایسی بھی کوئی طبعیت خراب نہیں لگ رہی تھی کے اتنی بتمیزی کر کے جاتا۔۔۔ المیہ کہا چپ رہنے والوں میں سے تھی۔۔۔
بھابھی بہت ہو گیا اب۔۔۔ ایک لفظ اور نہیں سنو گی اپنے بچوں کے بارے میں۔۔۔ اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو میرے بچوں کے لئے بھی رشتے ختم نہیں ہو گے۔۔۔۔ اوپر جو اللہ ہے نا وہ بہتر کرتا ہے۔۔۔ مجھے سب سے زیادہ اس پر یقین ہے۔۔۔ مھین بولتے ہوئے رو رہی تھی۔۔۔ جتنی تکلیف اس وقت وہ برداشت کر رہی تھی جانتی تھی اِس سے کہی زیادہ بچے برداشت کر رہیں تھے۔۔۔ پر ان سب میں کہی زیادہ پیار ان کو نورالعین سے تھا۔ پھر کیسے وہ یہ سب برداشت کرتی۔۔
۔
کوئی مجھے بھی بتاۓ گا یہ ہو کیا رہا ہے۔۔ پہلیوں میں کیوں باتیں بول رہیں ہو تم سب۔۔۔اونچی روبہ دار آواز میں احتشام رضا بولے نہیں بلکے برسے تھے۔
میره ڈر کے نائل کے ساتھ لگی تھی۔بات کافی حد تک بڑھ چکی تھی۔۔
بھائی صاحب میں نے کبھی بھی اپنے یا آپ کے بچوں میں فرق نہیں کیا۔ بھابھی کوئی نا کوئی بات کر بھی دے پر میں نے پروا نہیں کی۔ سب بچے ہماری آنکھوں کے سامنے پلے بڑھے ہیں۔ پھر بھی بھابی ایسی باتیں کر جاتی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہیں۔ پر نور کی طبعیت ثانیہ کی وجہ سے خراب ہوئی۔ لاسٹ ویکنڈ پر جب ہم آپ کی طرف ہے تھے۔۔۔
نور یہاں کیوں اکیلی بیٹھی ہو۔ سب تو اندر ہے۔ ثانیہ نے گاس پر بیٹھی نور سے پوچھا۔
وہ ثانی آپی ایسے ہی بس۔۔ہم۔۔
ویٹ۔۔ ویٹ۔۔۔ ثانی۔۔۔ اور ساتھ آپی بھی۔۔ افف۔۔ نور بکواس نا کرو۔ کتنی بار کہا ہےمت بولا کرو آپی۔۔ اور ثانی بس مجھے میرے خاص لوگ کہتے ہیں۔۔۔ سمجھ آئی۔۔۔ثانیہ انگلی اٹھا کے نور کو وون کر رہی تھی۔۔۔
نور ڈر کے چپ۔۔۔ جی۔۔جی۔۔۔ سمجھ گئی۔۔۔نور کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوؤں تھے۔۔۔
یہ ہی معصومیت دکھاتی ہو نا سب کو۔۔۔ یہی سب کر کے سب کو اپنے جانب متوجہ کرتی ہو نا۔۔ بولو۔۔۔ سب کو اپنے آگے لگایا ہوا ہے۔۔۔ ہے نا۔۔۔ نور کے کندھوں کو زور سے جھنجھوڑ کے پوچھا تھا۔۔۔
نہیں پلزز میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ آ۔۔ آپ۔۔۔۔غلط سمجھ رہی ہے۔۔۔ نور رو رو کے یقین دلا رہی تھی۔۔۔۔۔
یہ سب آپ کی بیٹی کی وجہ سے ہوا۔۔۔ یہ چاہتی کیا ہے۔بتا دے۔۔۔ میری بچی سے اس کو کیا تکلیف ہے۔۔۔۔ اتنا تنگ کر کے رکھا ہوا ہے۔۔۔ میری بچی کو اور تکلیف ہوئی تو میں اسے یہاں سے لے کے دور چلی جاؤ گی۔۔۔ سب سن لے۔۔۔ مھین چیخ چیخ کے بول رہی تھی۔۔۔