معاذ کب سے اٹھ چکا تھا سوئے ہوئے دل میں ایک دم بےچینی ہوئی بہت بار کڑوٹ بدلنے پر بھی دل کی حالت نا بدلی آخرکار تنگ آ کر بستر سے اٹھ گیا۔۔۔
قدم اب اپنی ماں کے کمرے کے جانب تھے۔ جیسے ہی معاذ نے کمرے میں قدم رکھا عجیب ہی منظر تھا۔
۔
۔
آغا جان کبھی ماتھے پر بوسہ لیتے کبھی ہاتھ چومتے۔۔۔ جبکہ محمش رو رو کے گلے لگا رہا تھا۔۔۔ آہینور کی نگاہ دروازے میں کھڑے معاذ پر گی۔۔۔ آنکھوں میں خوشی یا حیرانگی تھی۔۔ پر معاذ کی شکل بہت حد تک عالمگیر شاہ سے ملتی تھی۔۔ اور پھر وه ایک ماں تھی کیسے نا اپنے بیٹے کو پہچانتی۔۔۔پانچ سال کے معاذ میں اور اب کے معاذ میں بہت فرق تھا۔۔ لمبا قد'چوڑا صحت سے بھرپور جسم۔۔۔ ہاں وه لڑکا آہینور کا بیٹا تھا۔۔۔ معاذ شاہ۔۔۔ آہینور کی جان کا ٹکڑا۔۔۔
۔
۔
۔
کہاں جوڑ پائیں گے ہم ڈھڑکنوں کو
کہ دل کی طرح ہم بھی ٹوٹے ہوے ہیں
یہ مانا کہ تم سے خفا ہیں ذرا ہم
مگر زندگی سے بھی روٹھے ہوے ہیں
(#copied)
آہ۔۔۔ آآ۔۔۔
آواز میں رکاوٹ تھی۔۔ الفاظ ادا نہیں ہو رہے تھے آج بولنا چاہتی تھی پر آواز نہیں تھی۔۔۔
محمش نے نوٹ کیا اس کی آنی جان بولنا چاہتی ہے پر بول نہیں پا رہی اور پھر کچھ ایسا ہی تھا۔۔ نگاہوں کی سمت دیکھا گیا۔۔
دروازے پر معاذ کھڑا نظر آیا۔۔۔ بلی آنکھیں اپنی نا قدری پر برس رہی تھی۔۔۔ نیند پوری نا ہونے سے آنکھوں میں سرخ ڈورے دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔۔
معاذ یہاں آؤں۔۔۔ دیکھو آنی جان کو ہوش آ گیا۔۔۔ یہاں آؤں۔۔۔
معاذ نے نفی میں سر ہلایا۔۔ دونوں ہاتھوں کو سختی سے آپس میں بندھا ہوا تھا۔۔۔ معاذ چیخ چیخ کے رونا چاہتا تھا پر مرد تھا رو تو رہا تھا پر اپنے پر قابو کیا ہوا تھا۔۔ جبکہ رونے سے جسم لرز رہا تھا۔۔۔
محمش جیسے ہی اٹھا۔۔ معاذ دیوار کے ساتھ لگ کے بیٹھا اور یہاں تک ہی بس ضبط کر سکتا تھا۔۔۔
اس گھر کا شرارتی شیطان پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔۔۔ آنسوؤں نہیں تھے ایک سمندر کی تیز لہر تھی جو ان بلی آنکھوں سے برس رہی تھی۔۔۔کوئی دیکھ کے کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ وه معاذ ہے جو ہر وقت خوش نظر آتا ہے۔
آج معاذ پھر سے ٹوٹا تھا اور بہت بری طرح۔۔۔
۔
۔
۔
کتنی صبح انتظار کیا تھا وه اٹھے اور سامنے اس کی ماں کی کھلی آنکھیں ملے۔۔۔اس کی ماں معاذ کو دیکھ کے مسکرائے۔۔۔ اپنی باہوں میں پیار سے معاذ کو سما لے۔۔۔ پر اتنے سالوں کا انتظار آج ختم ہوا.۔۔۔
آج کیسے پھر آنکھیں نا برستی۔۔۔ آج کیسے ایک بیٹا اپنی ماں کو ٹھیک دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر نا روتا۔۔۔ کیسے نا آج وه سجدہ ریز ہوتا۔۔۔ جس کو بار بار سجدے میں رو رو کے مانگا گیا تھا آج ملنے پر کیسے نا وہ بیٹا کانپتا لرزتا۔۔۔۔
آج کے دن ہی ٹھیک دس دسمبر کو اس گھر کی ایک بیٹی یہاں سے گی تھی۔۔۔ آج کے ہی دن اس گھر کی۔۔۔ عالَم کی شہزادی۔۔۔ آغا جان کی نوری۔۔۔ اکفہ کی جان سے پیاری چھوٹی۔۔۔ محمش کی جانی۔۔۔ آہینور شاہ۔۔۔صدمے سے قومے میں چلی گئی تھی۔۔اپنی لاڈوں اپنی بیٹی کے کھونے کا درد۔۔۔ تکلیف نا سہہ سکی اور لمبی نیند سو گی۔۔۔
آج بھی دس دسمبر تھی۔۔۔ ویسا ہی دن۔۔۔ سردی۔۔۔ تیز ہوائیں۔۔۔ بارش۔۔۔ طوفاں جیسا موسم تھا۔۔۔ اتنے سال پہلے بھی ایک طوفاں آیا تھا پر تب نور پیلس کا۔۔۔ سکون۔۔ آرام۔۔۔ خوشیاں۔۔۔ مسکراہٹ۔۔۔ سب اپنے ساتھ بہہ کے لے گیا تھا۔۔ آج بھی ایک طوفان آیا تھا۔۔۔ اس گھر کی ایک بیٹی نے اس نور پیلس میں قدم رکھا تھا جبکہ آہینور نے اتنے سالوں بعد آنکھوں کو کھولا تھا۔۔۔
بیٹی کی قدموں نے جیسے ہی قریب آنے کی منزلیں تہہ کی تھی اس ماں کو ہوش آرہا تھا پھر آج وہ مبارک قدم اس گھر میں رکھے گے ابھی کچھ دیر پہلے ہی یہاں رکھا گیا نورالعین کا ایک قدم اس پیلس کے بہت سے افراد کے دلوں کو قرار دے گیا تھا۔۔۔ آہینور تو ماں تھی کیسے نا پھر آنکھیں کھولتی۔۔۔ کیسے نا اپنی بیٹی کی خوشبو کو محسوس کرتی۔۔۔
معاذ یہاں دیکھ یار۔۔۔ آنی سے نہیں ملے گا کیا؟؟ وه ابھی ٹھیک نہیں نا تم ایسے رو گے تو ان کی طبعیت خراب بھی ہو سکتی ہے۔۔
محمش زمین پر معاذ کے ساتھ بیٹھ بول رہا تھا۔۔
اتنے میں عالمگیر شاہ اور اکفہ نے کمرے میں قدم رکھا ہی تھا۔۔ رونے کی آواز پر دونوں آئے تھے پر اندر کا منظر دونوں کو ہی هالا گیا۔۔۔
اکفہ نے حیرانگی سے بیڈ پر لیٹی،پر آنکھیں کھولے آہینور کو دیکھا۔۔۔
عالمگیر بھاگ کر اپنی شہزادی کے پاس آئے۔۔چہرے کو بار بار چھو کے دیکھا جا رہا تھا۔۔ اس وقت سب کی آنکھیں برس رہی تھی۔۔۔ اتنے سالوں کے آج کی صبح اتنی خوبصورت اور خوشیوں بھری تھی ۔۔
زبان سب کی چپ تھی یہ لمحے محسوس ہو رہے تھے۔۔ اگر یہاں اس کمرے میں آواز تھی تو وہ معاذ کے رونے کی۔۔۔ سسکیوں۔۔۔ہچکیوں کی تھی۔۔۔ جیسے کوئی بہت چھوٹا بچہ کب سے رو رہا ہو۔۔۔
آغا جان معاذ کے پاس آئے۔۔۔ معاذکو نیچے فرش سے اٹھ کے اپنے گلے لگایا۔۔۔
جاؤ گے نہیں اس کے پاس؟؟۔۔ اب کیا گلے نہیں لاگو گے اپنی ماں کے؟؟ وه کب سے انتظار میں ہے آپ کے۔۔۔ اس کا انتظار ختم کر دو۔۔۔ گلے لگا لو میری بیٹی کو۔۔۔ اس کی تکلیف۔۔۔ ازیت۔۔۔ ختم کر دو۔۔۔ اس کو ٹھنڈک بخش دو۔۔۔ ایک باپ آج اپنی بیٹی کی خوشی اس کے ہی بیٹے سے مانگ رہا ہے۔۔۔
جہازیب شاہ معاذ کے گلے لگے اس کے کانوں میں اپنی آواز۔۔۔ اپنے الفاظ کا جادو جگا رہے تھے۔۔۔ بات ختم کر کے ایک سائیڈ پر ہو گے۔۔۔۔
۔
۔
۔
معاذ نے بہت ہمت کر کے آگے قدم رکھا۔۔۔ ایک۔۔۔ دوسرا۔۔۔ اور پھر بیڈ پر بیٹھا ہی تھا۔۔۔
اپنی ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔ صرف یہی دو آنکھیں نہیں یہی دو دل نہیں۔۔۔ بلکے یہاں کھڑا اس گھر کا ایک ایک فرد رو رہا تھا۔۔ برسوں کا انتظار آج ختم ہوا تھا۔۔۔ اپنی ماں کے کمزور ہاتھوں کو اس بیٹے نے اپنے مظبوط ہاتھوں میں جیسے ہی لیا۔۔۔ آہینور شاہ نے آنکھیں زور سے بند کی۔۔۔۔ ہچکی بندی۔۔۔
بند آنکھوں سے آنسوؤں بہہ کر گال اور پھر گردن کو بھی گلا کر گے۔۔۔
۔
۔
می۔۔۔ میرا۔۔۔ شا۔۔۔ ا۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔
معاذ کے ہاتھ کانپے۔۔۔
ما۔۔۔ مز۔۔۔ معاذ۔۔۔ مر۔۔۔ میرا۔۔۔ سوہ۔۔۔ ہہ۔۔۔ سوہنا۔۔۔۔ اٹک اٹک کے بولا گیا۔۔۔ پراس کا کچھ ماہ پہلے بولا گیا آج سچ ہو گیا اتنے سالوں بعد بھی اس کی ماں نے اگر کچھ بولا تھا تو اپنے بیٹے کے لئے۔۔۔ اتنی تکلیف سے صرف اپنے بیٹےاپنے شہزادے اپنے سوہنے کے لئے بولا تھا۔۔۔
ما۔۔ماما۔۔۔ میری ماما۔۔۔۔ میری جان۔۔۔ م۔۔۔
معاذ نے روتے ہوے اپنی ماں کو گلے گیا۔۔۔۔ ایک دم زور سے اپنا حصار بندھا۔۔۔ آج سکون اترا تھا اس کی روح میں اس کے وجود میں۔۔۔ آج اس کے دل کو چین آیا تھا۔۔۔
آپ اٹھ گی۔۔۔ آپ۔۔۔ اچھی نہیں۔۔۔ میں نہیں آپ کا سوہنا۔۔۔۔ نہیں ہوں شہزادہ۔۔۔ آپ نے بہت رولایا۔۔۔ تڑپایا۔۔۔ ترسایا۔۔۔۔ آپ نہیں اٹھی۔۔۔ مجھے بھی۔۔۔۔ سزا دی۔۔۔ آپ کو ترس نہیں آیا میرے پر۔۔۔ آپ کا معاذ آپ کے بغیر خوش نا تھا.۔۔۔
ماما۔۔۔۔
ماما۔۔۔۔
معاذ سب کو رولا رہا تھا۔۔ خود ابھی تک اپنی ماں کے گلے لگا گلے کر رہا تھا۔۔۔ آج اتنے سالوں کا شکوہ ایک ساتھ کیا جا رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور نے اندر قدم رکھ ہی تھا پر وہاں کی خوبصورتی اس پیلس کا لان دیکھ کے کھوہ ہی گی۔۔ یہ تک بھول گی کہ یہاں کرنے کیا آئی تھی۔۔۔۔کیا کوئی گھر اس کا لان اتنا خوبصورت ہو سکتا ہے۔۔۔
۔
۔
روگ کب ختم ہوتے ہیں
وہ تو عمر بھر ساتھ رہتے ہیں
کبھی روشنی میں اندھیرا کر جاتے ہیں
کبھی محبّت میں تنہا کر جاتے ہیں
(میری حسین)
۔
۔
ایک لڑکا بچی کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔۔ جب کہ وہ بچی بڑے سے لان میں فراک پہنے آگے آگے بھاگ رہی تھی اور پھر لڑکے نے بچی کو پکڑا اور گول گول گھومایا۔۔۔ جس پر وه بچی کھلکھل کے ہنس رہی تھی۔۔۔۔
منظر ایک دم جیسے آنکھوں کے سامنے آیا ویسے ہی غائب ہو گیا۔۔۔ نور کی آنکھوں میں حیرانگی تھی نظروں میں آیا لان یہی تو تھا جہاں وه اس وقت کھڑی تھی۔۔۔ عجیب کشمش۔۔۔
۔
۔
۔
بیٹا یہ رہی آپ کی بلی۔۔۔ بہت مشکل سے پکڑ پایا ہوں۔۔۔ آپ اب گھر جائے بارش بہت تیز ہو رہی ہے آپ کو سردی لگ جائے گی پوری تو بھیگ گی ہو۔۔۔ گارڈ نے پیچھے سے آ کے نور کو بلی واپس کی۔۔۔
نور عجیب اُلجن میں تھی۔۔۔ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ہو کیا رہا ہے۔۔۔ طبعیت میں ایک دم بھاری پن سما گیا تھا۔۔۔ پھر اس ہی عجیب کشمش میں واپسی کی طرف موڑ گی۔۔۔۔پر ایک موڑتے ہوے بھرپور نظر اس پیلس پر ضرور ڈالی جیسے کچھ جاننے کی کوشش کی گی ہو۔۔۔ کچھ یاد آنے کی۔۔۔ کچھ سمجھنے کی۔۔۔۔ پر پھر سر جھٹک کے اس پیلس سے باہر نکل پڑی۔۔۔
سردی سے کانپتا ' بارش میں بھیگا نازک بدن اس پر لگی اس بری چوٹ کا عذاب۔۔ نور کو ہوش سے بیگانہ کر رہا تھا۔۔۔ قدم کہی اور رکھ رہی تھی پر پڑ کہی اور رہیں تھے۔۔۔
افنان بادل کے زور سے گرجنے سے اٹھا۔۔ باہر دن میں اچھا خاص اندھیرا نظر آیا۔۔ پہلا خیال عین کا آیا۔۔۔ پر نور نا روم میں تھی نا ہی پورے گھر میں نظر آئی۔۔۔ ہوتی تو نظر آتی۔۔۔۔
لان کا بھی کونہ کونہ دیکھ لیا پر نور کہی نا تھی. گارڈ سے پوچھنے پر پتا چلا کے نور بلی کو لے کر باہر نکلی ہوئی ہے۔۔۔
بازپرس میں افنان کی آواز کافی اونچی تھی۔۔ کچھ موسم خراب تھا جس سے سب اٹھ چکے تھے پر لان میں بارش میں بھیگتے اور گارڈ پر غصہ کرتے نائل نے دیکھا تو باہر چلے آئے۔۔۔
کیا ہوا بیٹا؟؟؟
عین باہر گی ہے کٹ ساتھ۔۔ مانا کیا تھا کے اکیلے کوئی بھی اسے کہی نا جائے دے۔۔ پر نہیں۔۔ افنان کہتا ہوا باہر کو لپکا۔۔۔
روڈ پر کوئی بھی نا تھا۔۔ افنان ہر طرف نظر گھما کر دیکھ رہا تھا.۔۔ سردی کی تیز طوفانی بارش۔۔۔۔ اس کو بھی کپکپانے پر مجبور کر گی۔۔۔
کچھ دور کوئی لڑکی اس کی طرف آتی نظر آئی۔۔ چال میں وضع لڑکھڑاہٹ تھی۔۔
افنان بھاگ کر پاس گیا۔۔ وہ کوئی اور نہیں بلکے اس کی عین ہی تھی۔۔۔
عین نے اپنی بند ہوتی آنکھوں سے افنان کا چہرہ دیکھا اور اس کے باہوں میں ہی جھول گی۔۔۔
سردی اس نازک پری پر اپنا کام کر گی تھی اور پھر چوٹ کی وجہ سے جسم بھی الگ دکھ رہا تھا۔۔۔ پھر ہوش سے بیگانہ ہوتے ھوے افنان کو دیکھ کر کچھ اطمینان ضرور ہوا تھا۔۔۔۔
عین۔۔۔ بچے۔۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔
افنان نے گال تھپتھپے پر کوئی جنبش ہلچل نہیں ہوئی۔۔۔۔باہوں میں اٹھے عین کو افنان مصطفیٰ ولاز کی طرف بھہگا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔