ماضی۔۔۔۔۔۔
آہینور نے جب سے یونیورسٹی جانا شروﻉ کیا تب سے کافی مصروف ہو چکی تھی لیکن چاہیے اپنے کھانا پینے کی پروا نہ کریں پر محمش کے ساتھ ضرور وقت گزرتی تھی۔۔۔
ان دونوں کی دنیا ایک دوسرے میں تھی گھر کے باقی لوگ تو یہاں تک کہتے تھے۔۔۔
یہ ہمارا بھی کچھ لگتا ہے ہمیں بھی پیار کرنے دیا کرو۔۔۔ عالمگیر شاہ تو شام میں گھر آتے تھے ،پر آہینور مجال تھا کہ پکڑنے بھی دیتی۔۔
۔
جب کوئی لینے کی کوشش کرتا ایک ہی جواب۔۔۔۔
میں نے ابھی تو اس کو اٹھایا ہے ابھی نہیں بعد میں آپ کی باری۔۔۔ اس بات پر گھر کے سب لوگ چپ چاپ بیٹھے ان دونوں کی شکلیں دیکھتے۔۔۔۔
دن ہفتوں ۔۔۔ ہفتوں سے مہینوں۔۔۔ اور پھر سال میں بدل گیا۔۔۔ آخری سال میں ارحم علی نے اپنے قدم اس یونیورسٹی میں رکھے۔۔۔
۔
۔
بلی آنکھیں۔۔۔ سرخ سفید چہرہ۔۔۔آنکھوں پر کاجل کا پہرہ۔۔۔ رنگ روپ میں یہ لڑکی کوئی پٹھان لگتی۔۔۔ ناک میں پہنی بلیک ڈیمنڈ کی نوزپیں اس سفید چہرے پر دور سے دیکھنے والے کو اپنی جانب کھنچتی تھی۔۔۔ پر یہ حسن کی مورتی اپنی خوبصورت سے لاپروا تھی۔۔۔ حجاب اس لڑکی کی خوبصورتی سادگی کو چار چاند لگتا تھا۔۔۔
ارحم کو پہلے دن ہی یہ لڑکی بہت اچھی لگی۔۔۔آہینور کو اس کی دوست سے ہی پتا چلا تھا کے ان کی کلاس میں ایک نیا لڑکا آیا ہے جو بہت خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی ہے۔۔۔ آہینور تھی ہی بے پروا اپنی ہی دنیا میں گہم رهنے والی۔۔۔۔۔تب ہی اس نے کوئی بات نہیں کی۔۔۔
اچھا.... کہہ کے اپنے کام میں مگن ہو گی۔۔۔۔
ارحم کا معمول بن چکا تھا جہاں جہاں آہینور ہوتی وہاں آس پاس ہی ارحم ہوتا۔۔ یہ بات بہت سے اور سٹوڈنٹس نے بھی نوٹ کی۔۔۔
آہینور کی پریشانی اب بڑھتی جا رہی تھی۔۔
مجھے بات کر لینی چاہیے۔۔۔ میں یہاں پڑھنے آتی ہوں، یہ سب برداشت کرنے نہیں۔۔ اس سے پہلے کے کوئی ایسی بات ہو جائے جس سے میں یا بابا جانی، لالا پریشان ہو میں خود ہی بات کر کے پوچھ لو مسئلہ کیا ہے ان کے ساتھ۔۔۔۔آہینور کو آس پاس سب سٹوڈنٹس کی باتیں پریشان کر رہی تھی جو ارحم اور اس کی ذات کو لے کر کی جا رہی تھی۔۔۔
۔
۔
۔
ہم کہی بیٹھ کے بات کر سکتے ہے۔ بہت ضروری بات ہے۔۔۔ پلزز۔۔۔ سامنے کھڑا لڑکا مِنت پر اتر گیا۔۔۔
پر ہمیں آپ سے تو کوئی بات نہیں کرنی۔۔ نوٹس بناتی آہینور نےگھبراہٹ سے کہا۔۔۔
میں آپ کو پریشان نہ کرتا پر، ضروری بات ہے۔۔۔ارحم سامنے کھڑا جواب کا منتظر تھا۔۔
۔
۔
اوکے۔۔۔
جی بولے کیا کہنا چاھتے ہے آپ۔۔ معصوم چہرے پر ابھی بھی پریشانی کے آثار صاف نظر آ رہیں تھے۔
آپ مجھے۔۔۔ غلط بلکل نا سمھجنا۔۔۔ مجھے خود بھی معلوم نہیں کے یہ سب کب۔۔ کیسے ہوا۔۔۔
پر میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔۔ اب سے نہیں۔۔۔ بلکے جب سے آپ کو دیکھا ہے فرسٹ ڈے سے ہی۔۔۔
جو سوچا بھی نا تھا وہ ہو گیا۔۔۔ جو سمجھا نا تھا وه سمجھایا گیا۔۔۔
اندیشہ۔۔۔
اندازہ۔۔۔
کچھ بھی تو نہیں لگتی تھی یہ لڑکی۔۔۔
پر۔۔۔ مطلب۔۔۔ ایسا۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ آپ کیا بول رہے ہے۔۔۔ ہم ایسی لڑکی نہیں ہے۔۔۔ بلی آنکھوں میں خوف تھا۔۔۔۔ نمی تھی۔۔۔ پسینہ ماتھے سے ٹپک پڑھا تھا۔۔۔
دیکھے آپ غلط سمجھ رہی ہے۔۔۔ آپ سے اجازت لینا چاہتا ہوں۔۔ ہماری یونیورسٹی ختم ہو رہی ہے اور میں چاہتا ہوں اپنے پیرنٹس کو آپ کے گھر رشتے کے لئے بھجو۔۔
آپ منا بھی کرے گی تو میں قسمت ضرور آزماؤں گا۔۔۔ آپ کے دل پر دستک ضرور دوں گا۔۔۔
ارحم اپنی بول کے جا چکا تھا۔۔۔ اور یہاں روک کے اس لڑکی کے لئے پریشانی کی وجہ نہیں بنا چاہتا تھا۔۔۔
آہینور کی حالت تو مانو ایسے تھی کے اب بیہوش ہوئی کے اب۔۔۔ اتنی بڑی بات کوئی کیسے ایسے بول سکتا ہے۔۔۔ آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کے اس معصوم کا سرخ سفید چہرہ بھگو گے۔۔۔ آنکھیں پر ستم ہو رہا تھا۔۔۔ پریشانی خوف صاف چہرے پر جھلک رہا تھا۔۔۔
۔
۔
یونیورسٹی ختم ہوئی۔۔آہینور گھر پر ہی ہوتی سارا وقت محمش کو اپنے پاس لئے رکھتی۔۔۔ اس کی ہنسی نور پلیس میں گونجتی تو وہاں کے بسنے والوں کی عید ہوتی۔۔۔ بہاروں کا سماء ہوتا۔۔۔ جو جو اس لڑکی کو دیکھتا دل سے دعا دیتا۔۔۔
انہی دنوں میں ایک پانچ دسمبر کا بھی دن تھا۔۔ اسلام آباد میں سردی اپنے عروج پر تھی صبح سے موسم کچھ زیادہ ہی خراب تھا۔۔ ویکنڈ ہونے کی وجہ سے سب مل بیٹھے باتوں میں مصرورف تھے کے ایک ملازم نے خبر دی کے کچھ گیسٹ آئے ہے اور آپ سب سے ملے کا کہہ رہے ہیں۔۔۔
مہمانوں کو بیٹھایا گیا۔۔۔ نئے چہرے تھے جن میں ایک لڑکا۔۔۔ ساتھ شاید اس کے ماں باپ تھے۔۔۔
جی کہے کیسے آنا ہوا آپ سب کا۔۔۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ہم کبھی ملے نہیں نا جانتے ہے ایک دوسرے کو۔۔۔آغا جان نے بات کا آغاز کیا۔۔۔
۔
بلکل درست فرمایا آپ نے۔۔۔
دراصل ہم یہاں خاص مقصد سے آئے ہیں۔۔
آہاں۔۔۔
تو پھر بتائے کیا مقصد ہے آپ کا یہاں آنا۔۔۔
ہم آپ کی بیٹی کے لئے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کے آئے ہیں۔۔ یہ ہمارا بیٹا ہے آپ کی بیٹی کی یونیورسٹی میں ہی ساتھ پڑھا ہے۔۔۔
یونیورسٹی کا ٹاپ سٹوڈنٹ رہا ہے ماشاءالله۔۔۔ آپ کی بیٹی اس کو اچھی لگی ہے اس لئے ہم عزت کے ساتھ رشتہ لے کے آئے ہے جو کے سہی طریقہ ہے۔۔۔
ارحم نے ایک بار بس اپنی پسند کا ذکر کیا تھا آہینور سے پر بچی نے کچھ بھی نہیں کہا۔۔ بس بچہ تب ہی گھر آنے کی اجازت چاہتا تھا۔۔ پر بچی شاہد گھبرا گی۔۔۔
آغا جان کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ اور عالمگیر شاہ پر بھی ایک لمحے کو سکتا طاری ہوا۔۔۔ تینوں پریشان تھے کبھی آج تک یہ بات سوچی بھی نہیں تھی کے نور کو رخصت بھی کرنا ہے۔۔ ایسے گھر میں نور کے لئے رشتہ بھی آئے گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔حال۔۔۔۔۔
محمش شاہ آج پھر وہاں اسی در پر بیٹھا تھا جہاں پتا نہیں اب تک کتنے چکر لگا چکا تھا پر ہر بار مایوس لوٹ جاتا۔۔۔
۔
۔
محبّت کے مسافر کیا جانے عشق کی منزلوں کو
کہ تیرے در پر جھومنا اور پھر تیرے نام کا ذکر کرنا
یوں بھی ہماری راہیں نہیں آسان
کہ گلی گلی بھٹکنا اور پھر تیری چوکھٹ پر سر رکھ کے سو جانا
(میری حسین)
محبّت انسان کو زندہ رکھتی ہے۔۔۔ چاہے آپ زندہ لاش ہی کیوں نہ بن جاؤ ۔۔۔
پر۔۔۔۔۔۔۔
عشق۔۔۔ عشق تو اتنا بھی احسان نہیں کرتا آپ پر۔۔ بلکے عشق تو پڑھنے ڈال دیتا ہے۔۔ آپ زندہ ہوتے ہو بس۔۔۔ کیا ہو۔۔۔ کہاں ہو۔۔ کیوں ہو۔۔۔ کس کے لئے ہو۔۔۔ یہ کہاں یاد رہتا ہے۔۔۔ آپ خود کیا ہو عشق یہی بھلا دیتا ہے۔۔۔ اور جب آپ میں آپ ہی ختم ہو جاؤ تو پھر کہاں یاد رہتا ہے کچھ۔۔
ایک چہرہ ہی ہوتا ہے جو ہر سو نظر آتا ہے۔ وہی چہرہ آپ کے لئے سب کچھ ہوتا ہے۔۔۔
یہاں بھی یہی حال تھا۔۔۔ محبّت بچپن کی تھی۔۔۔ جو روٹھنے کے بعد کہی کھو گی۔۔۔ کھونے کے بعد قدر اتنی بڑھ گی کہ محبّت کہی بہت دور چپ گی پر محبّت سے آگے کی منزل تہ ہو رہی تھی۔۔۔
مصترا نور شاہ کی یاد میں آج پھر محمش ایک امید ایک ساتھ اس ارحم نور بنگلو میں آیا تھا جو کہی سالوں سے بعد تھا۔۔ آخری بار ہی اس کی پری کو نور پیلس کے بعد یہاں رکھا گیا تھا پر اس دن ک بعد سے اب تک اس کی کوئی خیر خبر نہ تھی۔۔۔
اتنے سالوں میں شاید کوئی اس کی جگا ہوتا تو یاد کرتا پر یہاں کوئی عام شخص نہ تھا۔۔ یہاں بات نور پیلس کے شہزادے محمّد محمش شاہ کی ہو رہی تھی۔۔۔ جس نے کبھی اپنے رشتوں کو بھلایا نہ تھا۔۔۔ پھر کیسے اپنی نور پری کو بھلا دیتا۔۔۔
کیسے۔۔۔؟؟؟
بکھرے حال میں آج پھر محمش اس کی یاد میں یہاں آ نکلا تھا۔۔۔ آج بھی یہ بنگلو ویسے ہی بند تھا۔۔ جیسے مصترا نور تک جانے والے اب تک کے سارے راستے بند نظر آتے تھے۔۔۔۔
قسمت میں دوری۔۔۔ صبر ۔۔۔۔ آزمائش۔۔۔۔لکھ دی گئی تھی۔۔۔کسی کا صبر آزمایا جا رہا تھا۔۔ کسی کے لئے آزمائش تھی۔۔۔ تو کوئی رب کے فیصلے پر خاموش آنسوؤں ہی بہا سکتا تھا۔۔۔
ایک بار مل جاؤ نہ۔۔۔ بس۔۔۔ ایک بار۔۔۔ میں سچ میں ترس گیا ہوں۔۔۔ تنہا ہو گیا ہوں۔۔۔ ایک بار آ جاؤ نہ۔۔۔ مجھے سکون چاہے اب۔۔۔ پر یہ بے چینی میری سانس بند کر رہی ہے۔۔۔ میرے اندر سب خالی ہو چکا ہے کب کا۔۔ میں خود خالی ہو گیا ہوں۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔ رحم کر دو مجھ پر۔۔۔
نیلی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔ ایک عام انسان ہی تھا یہ بھی صبر ختم ہو رہا تھا.۔۔۔
۔
۔
یا اللہ جی۔۔۔میں آپ پر یقین رکھتا ہوں۔۔۔ اپنے آخری نبی حضرت محمّد ؓ پر۔۔۔یا اللہ میرے ملک مجھے گناہ گار پر رحم کر دے۔۔۔ میرے میں اتنی ہمت نہیں ہے کے آپ کی کسی آزمائش پر پورا اتر سکوں۔۔۔ میرے لئے آسانی پیدا کر دے۔۔۔ کوئی راستہ ہی دیکھا دے۔۔۔ مجھے پر رحم کر دے میرے مولا۔۔۔ رحم۔۔۔۔ مجھے ملوا دے رب۔۔۔ جس دن وه مل گئ ہم سب کو سکون آ جائے گا۔۔
ایک ماں زندہ ہو جائے گی۔۔۔ ایک نانا اپنے دوہرے غم سے نکل جائے گا۔۔۔ میرے میں مولا اب ساکت نہیں کہ میں آپ کے بغیر کچھ کر بھی سکو۔۔۔میں جانتا ہوں وه محفوظ ہے۔۔۔ پر اللہ جی اب ملوا دے۔۔۔۔ اب اور نہ آزما۔۔۔۔ اب بس اسے میرے جانب موڑ دے۔۔۔ملاقات کروا دے۔۔۔ اجازت واجب کر دے۔۔۔ اپنے نبی کے صدقے مکے پر رحم کر دے مولا۔۔۔۔
بنگلوں کے لان میں بیٹھا محمش سجدہ ریز تھا۔۔۔ رو رو کر آج پھر رب سے اپنے لئے سکون مانگ رہا تھا۔۔۔ اپنے دل کا حال رب کو سنایا جا رہا تھا۔۔۔
دعائیں تو ساری جائز ہے
سجدہ تقدیر بدل دیتا ہے
یہ دل بھی, حال سب سنا دیتا ہے
تاثیر کچھ یوں کہ زندگی پھیر دیتا ہے
(میری حسین )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ماضی۔۔۔۔۔
ہم اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے یہاں آئے ہے۔۔ یہ ہمارا اکلوتا ہی بیٹا ہے۔۔۔۔ اکلوتی اولاد۔۔۔ اس کی خوشی ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے پہلی بار کوئی فرمائش کی ہے اور ہم آپ کے در پر ہے۔۔۔ ارحم کے والدین سب کچھ بتا رہے تھے۔۔۔
آپ کی بات ٹھیک ہے۔۔۔ آپ جو اصول ہے سہی طریقے سے رشتہ لے کے آئے ہے۔۔۔ پر ہم نے ابھی اس بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا۔۔۔
آغا جان کے بولنے سے پہلے ہی عالمگیر شاہ نے بات کو اچھے طریقے سے نبٹھایا۔۔۔۔
۔
۔
کچھ دیر ایسی ہی باتوں کے بعد کچھ معلومات دی گی۔۔۔
ہم آپ کو اسرار نہیں کر رہے۔۔۔ مانتے ہے کے آپ لوگ بہت امیر ہے اور ہمارا آپ کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہیں پر پھر بھی اپنے بچے کی خوشی کے لئے آپ کر در پر سوالی بن کے آئے ہیں۔۔ آپ ایک بار سوچے گا ضرور۔۔
۔
بات ختم ہوئی اور یہ قافلہ نور پلیس سے چلا گیا۔۔ امید کوئی نہیں دی گی تھی۔۔۔ پر یہاں تو امید تھی ارحم کو ۔۔۔ ارحم کو وہاں بیٹھے ان سب کا باتیں کرنا بلکل پسند نا آیا پر مجبور بھی تھا۔۔۔ شریف بن کے جو دیکھنا تھا۔۔۔۔
۔
۔
۔
کچھ تو تھا جس کی پردہ داری تھی۔۔۔
ان سب کے جانے کے بعد سب کافی اداس تھے۔ آج اس گھر کی بیٹی اتنی بڑی ہو چکی تھی کہ اس کے لئے رشتے آ رہے تھے۔۔۔
آغا جان آپ ابھی سے اداس ہورہے ہے ہم اتنی جلدی نوری کو رخصت نہیں کرے گے۔
پر کرنا تو ہے نہ، اپنی تعلم مکمل کر چکی ہے تو فرض پورا کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔۔۔
جی۔۔۔بجا فرمایا آپ نے۔۔۔
لڑکے کے بارے میں پتا کروائے آپ۔۔۔ وه پڑھا لکھا ہے لوگ بھی اچھے لگے ہے مجھے۔۔۔ آگے جہاں میری بچی کے نصیب۔۔۔ جہازیب شاہ کا لہجہ نم سا تھا۔۔۔
سب ہی آہینور کی شادی کا سوچ کر ابھی سے اداس تھے ایک ہی تو بیٹی تھی اس گھر کی وه بھی رخصت ہو کے چلی جاتی ہو اس گھر میں پھر سے اداسیوں نے ڈرے جما لینے تھے.۔۔۔
۔
۔
وقت کا کام تھا گزرنا، اور گزار بھی گیا یہ نا کسی امیر کے لئے روکتا ہے نا کسی غریب کے لئے۔۔۔۔ اس گزرے وقت میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی تھی وہ تھی آہینور کا ارحم کے ساتھ رشتہ پکا ہو چکا تھا۔۔۔
۔
۔
عالمگیر شاہ کی مخالفت کے باوجود آغا جان نے اس رشتے کے لئے ہاں کر دی تھی۔۔۔
بابا جان۔۔۔ پلزز۔۔۔
آپ بابا جان کہہ کر ہمیں کمزور نہیں کر سکتے عالمگیر۔۔ نا ہم اپنی بات سے پیچھے ہٹے گے۔۔ آپ کے آغا جان زبان دے چکے ہے۔
پر ہمیں نوری کے رشتوں کی کمی بھی تو نہیں ہے۔ اس سے بہت اچھے رشتے موجود ہیں ہم ان سب پر غور کر سکتے ہے۔۔۔۔
میرا دل نہیں راضی۔۔۔ میرا دل ارحم کے لئے نہیں راضی ہو پا رہا۔۔۔ کچھ ایسا ہے جو دیکھ نہیں رہا پر غلط ضرور ہے۔۔۔۔عالمگیر شاہ اب تھک چکے تھے آغا جان کو سمجھتے پر وه سمجھ بھی نہیں رہے تھے۔۔۔
آپ نور کو لے کر یہ سب کہہ رہے ہے۔ ارحم پسند کرتا ہے میری بیٹی کو وه بہت خوش رکھے گا۔۔۔ آپ بہن سے بہت پیار کرتے ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کو ہر بات کی اجازت دو۔۔۔ ہم بابا جانی ہے اس کہ انشاءلله یہ فیصلہ بھی اچھا ثابت ہو گا۔۔۔
آغا جان نے بات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔۔
جی۔۔۔ بہتر۔۔۔۔
پر عالمگیر شاہ کسی بھی طور اس رشتے کے حق میں نا تھے، ارحم کا کوئی خاندان کوئی رشتےدار نہ تھا۔۔۔ بہت سی باتیں تھی جو عالمگیر شاہ کو آہینور کے لحاظ سے پسند نہیں آ رہی تھی...
۔
۔
بہت مشکلوں کے بعد پھر ارحم کر رشتے کے لئے ہاں کر دی گی جس کی پوری مخالفت ان کے خود کے بیٹے بہو نے کی۔۔ پر آغا جان کے آگے کس کی چلی تھی جو اب چلتی۔۔۔
جہازیب شاہ کوئی بہت سخت طبعیت کے نہ تھے پر اپنے اصولوں، اپنے قول کے بہت پکے تھے پر اس گھر کی شہزادی کے سامنے سب کچھ بےکار تھا۔ کوئی دیکھ کے یقین ہی نا کر پاتا کے یہی آغا جان ہے جن کا اپنا الگ ہی روبہ تھا۔۔۔ پھولوں جیسی بیٹی کے لئے، اس کی خوشی کے لئے کچھ بھی کرنےکو تیار رهتے۔۔
۔
۔
اگر عالَم نہیں مان رہا تو آپ کیوں یہاں ہاں کر رہے ہے۔۔ بچہ آپ کی بات پر دکھے چند ہی دنوں میں کملا کہ رہ گیا ہے۔۔
نا ٹھیک سے بات کر رہا ہے نا کچھ کھا پی رہا ہے۔۔ وه بھائی ہے نوری کا جان میں بستی ہے۔۔کچھ سوچ سمجھ کے ہی یہ سب کر رہا ہے۔۔ آپ کیوں نہیں مان لیتے اس کی۔۔۔ نسرین شاہ ان سب میں بری طرح پریشان تھی۔۔ دونوں باپ بیٹے کی ضد سے اچھے سے واقف تھی۔دونوں ہی اپنی مرضی چلا رہے تھیں۔۔
یہی بات آپ اپنے بیٹے سے بھی کہہ سکتی ہےنسرین۔۔۔ جہازیب شاہ روز روز ایک ہی بات سے اب تنگ آ چکے تھے۔
بہت اچھے۔۔۔ زیب۔۔۔ بہت اچھے۔۔۔
اب ایک بات عالَم نہیں مان رہا تو میرا بیٹا ہو گیا ہے جب آپ کی ہر بات مانی تب آپ نے کیوں نہیں اعتراف کیا کہ وہ میرا بیٹا ہے۔۔۔
میں نے نسرین شاہ نے اس کی تربیت کی ہے۔۔۔ بولے تب کبھی کیوں نہیں کہا۔۔۔ کیوں تب کبھی آپ کو میری یاد نا آئی۔۔۔
کبھی آپ نے شکریہ ادا کیا میرا۔۔۔۔ کہ آپ جس کو اپنافخر کہتے ہے وہ فخر بنا جس کی وجہ سے ہے۔۔ آپ اگر اس پر مان کرتے ہے تو اس کو یہاں تک لایا کون ہے۔۔۔
۔
۔
نہیں آپ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہے۔۔۔ جب ایک عورت آپ کی اولاد اس دنیا میں لا رہی ہوتی ہے تب اس کا شوھر اپنی جان لگا دیتا ہے اس کی خدمت کرنے میں اس کو خوش رکھنے کو۔۔ اور جب وہ دنیا میں آ جاتی ہے تو خوش ہوتا ہے۔۔ پھر جہاں جہاں وه بچہ خوشحالی، اچھا مقام حاصل کرتا ہے تو وه سب خوشی اس کا صلہ خود کو سمجھتا ہے۔۔
کبھی بھی اپنی بیوی کے پاس نہیں آئے گا ۔۔ کبھی بھی اس کے پاس آ کر شکریہ ادا نہیں کرے گا۔۔ کبھی نہیں کہے گا کہ اس کی وجہ سے ہماری اولاد یہاں اس مقام پر ہے۔۔
بتاۓ کبھی کہا آپ نے یا کسی اور مرد نے۔۔۔
ہاں پر جہاں وہی اولاد غلطی کرتی ہے تو وه اولاد اس عورت کی ہو جاتی ہے۔۔ غلطیاں سب کو نظر آتی ہے اچھی بات پر تو کبھی نہیں کہا آ کے یہ آپ کی اولاد ہے بہت اچھی تربیت کی ہے۔۔۔
ہر اچھی چیز چاہیے وہ عورت سے ہی کیوں نا ملی ہو وه مرد کو نظر نہیں آتی پر وہی اگر غلط ہو تو عورت غلط ہے۔۔۔ نسرین شاہ بھی آج اس بات سے غصے سے بھر گی۔۔
نسرین شاہ کے آنسوؤں جہازیب کے دل پر گر رہے تھے بہت پیار کرتے تھے اپنی بیوی سے پر آج ایک بات نے سب خراب کر دیا۔۔۔۔ نسرین نے کچھ غلط بھی نہ کہا تھا۔۔ حقیقت بیان کی تھی سچائی بتائی تھی اور یہی حقیقت نا ہم سنا چاہتے ہے نا اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہے۔۔۔
۔..............................
۔۔۔۔۔حال۔۔۔۔۔۔
بات نہیں کرو میرے سے۔۔۔۔ ماہم کا غصہ آسمانوں سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔ ایسا کہنا بھی میره کا تھا۔۔۔ حال میں اس وقت سب ہی بیٹھے تھے سواے افنان کے ۔۔۔
جبکہ نور منتوں پر اتر آئی تھی۔۔۔
ماہم سچ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ ہم نے پہلے کبھی ایسا کچھ کیا ہے جو اب کرے گے۔۔۔
ایسا ہی ہے اس ایک کی وجہ سے آج نور بھی میرے پر ہنسی۔۔۔ ہم اتنے سالوں سے ساتھ ہے پر نور نے مجھے آج بہت ہرٹ کیا۔۔۔ ماہم کی کالی آنکھوں میں ابھی بھی نمی تھی۔۔۔
ہم نے تو سچ میں کچھ بھی نہیں تھا کیا۔۔۔ معاذ بھائی بھی بس مذاق کر رہے تھے۔۔ آپ سب کو پتا ہے کہ وہ شرارتی ہے۔۔۔ اس لئے لگے رهتے ہے۔۔۔ ویسے تو وه بہت اچھے ہے۔۔نور نے سمجھنے کی اپنی سی ایک کوشش کی۔۔۔
دیکھ لے آپ سب نور کو۔۔۔ ابھی چند دن ھوے ہے اور ان کو معاذ بھائی پسند آ گے۔۔ ہر وقت نور کے منہ پر بس اس شیطان کا نام ہوتا ہے۔۔۔ کوئی غلطی نظر نہیں آتی اس کو اس ڈیش معاذ کی۔۔۔۔ ماہم کو نور کا معاذ کی سائیڈ لینا بلکل پسند نہ تھا اور آج تو بلکل بھی برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔
ہوا کچھ یوں تھا۔۔۔۔
ایک کلاس فری تھی۔ سب کلاس میں بیٹھے کھانے پینے میں مصروف تھے جب معاذ نور ماہم اور اپنے لئے برگر ،کوکک لایا۔۔۔
اوو۔۔۔معاذ بھائی آپ بہت اچھے ہے خود ہی لے آئے۔۔۔۔ہم نے تو آپ کو کہا بھی نہیں تھا۔۔۔
بس دیکھ لو مجھے پتا تھا میری اس گڑیا سی بہن کو بھوک لگی ہے۔۔ تو لے آیا۔۔ معاذ نے کھانے کی چیزیں نور کو پکڑائی۔۔۔۔
ماہم جو کب سے بھوک برداشت کے بیٹھی تھی فورا ہی چیزیں لے کر کھانے لگی۔۔۔
پر۔۔۔۔۔
معاذ کہا اتنا اچھا تھا جو چپ چاپ اپنے پیسوں کی چیزیں ماہم کو سکون سے کھانے دیتا۔۔۔
آوو میڈم۔۔۔ غصے والی میڈم ماہم۔۔۔ ہم آپ کو ہی کہہ رہے ہے۔۔۔
جی بولے۔۔۔ آپ کو اب کیا تکلیف ہوئی ہے جو شروع ہو گے ہے پھر سے۔۔۔ ماہم نے کافی بتمزی سے جواب دیا۔۔ نور تو آنکھیں پھاڑے ماہم کو دیکھ رہی تھی جس کا لہجہ تلخ تھا۔۔۔۔۔
آپ سے کس نے کہا یہ آپ کے لئے ہے۔۔۔ نہ پیسے دئے ہے نہ کچھ اور۔۔۔۔ آرام سے فری میں کھانے بیٹھ گی۔۔۔ لنگر تو ہے نہیں یہ۔۔۔ جو آپ چپ چاپ پکڑ کر کھانے لگ گی۔۔۔
معاذ کہا اچھا تھا جو اتنی بتمزی پر چپ رہ جاتا۔۔ ترک با ترک جواب حاضر تھا وہ بھی مرچ مصالوں سے سیلس شدہ۔۔۔
معاذ کے جواب پر پوری کلاس میں قہقے لگے۔۔۔ جس پر ماہم کو شرمندگی ہوئی پر نور کو ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہوتے ھوے دیکھ کر آنکھوں میں آنسوؤں آ گے۔۔۔۔
نور کو کوئی فرق نہیں پڑا میری اتنی انسلٹ ہوئی۔۔ ماہم کو یہی سوچے آ رہی تھی ان ہی سوچوں کی وجہ سے ماہم اٹھی اور تھوڑا سا کھایا ہوا برگر ویسے ہی رکھا۔۔۔ اور کلاس لے باہر نکل گی۔۔۔۔
پوری کلاس نے ماہم کو روتے ھوے دیکھا تھا سب کو چپ لگ گی۔۔۔ پر معاذ اور نور ماہم کے پیچھے بھاگے۔۔۔
ماہم۔۔۔ سوری۔۔۔ مذاق کیا تھا بس آپ سے۔۔۔ معاذ پیچھے سے آوازیں دے رہا تھا۔۔۔
۔
۔
کوئی ایسا مذاق کرتا ہے اس کو انسلٹ کرنا کہتے ہے۔۔۔آپ کو تمیز ہے ہی نہیں ہر وقت یہی حرکتیں کرتے رهتے ہیں۔۔۔ دوسروں کے ساتھ ہنسی مذاق یہی لائف ہے آپ کی۔۔۔۔ ہر ایک کی زندگی کا مذاق بنا دیتے ہے۔۔۔ پر آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ بےحس ہے آپ۔۔۔۔
ماہم کیا بول رہی تھی کچھ نہیں جانتی تھی پر یہی الفاظ معاذ اور نور کو تکلیف دے گے۔۔۔ اتنی تلخی ماہم کے لہجے میں تھی کے نور شرمندہ ہو رہی تھی۔۔۔۔
اگین سوری۔۔۔۔ پر بتمزی آپ نے سٹارٹ کی تھی میں بات کر رہا تھا عام سی، اتنا مذاق تو سب میں چلتا ہے۔۔۔ پر میں غلط تھا۔۔۔ آج کے بعد آپ کو میری طرف سے کوئی پریشانی نہیں ہو گی نہ میں کوئی ایسی حرکت کرو گا۔۔۔ آپ خوش رہے بس۔۔۔ اور خوشفہمی میں بھی۔۔۔۔
معاذ بول کے چلا گیا۔۔ ماہم کو اب اندازہ ہوا تھا کے غلطی اس کی بھی تھی۔۔۔ پر آخری الفاظ نور ، ماہم کے ذہن میں گونج رہے تھے۔۔
ان سب کے بعد گھر آ کر بھی ماہم اپنی غلطی ماننے کو تیار نہ تھی۔۔۔نور نے سب کو بتایا تھا پر ماہم کو یہی لگ رہا تھا نور معاذ کی سائیڈ لے رہی ہے اس کو غلط سمجھ رہی ہے۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ ماہم بھی ٹھیک ہے معاذ بھی ٹھیک ہے۔۔ ہم غلط ہے۔۔ پاگل ہے۔۔ ماہم کو سمجھ نہیں آ رہی غلطی ان کی بھی تھی۔۔۔ پر نہیں ان کو مانا ہی نہیں تو ان کی مرضی۔۔۔نور اب نم لہجے میں بول کر اپنے روم میں چلی گی۔۔۔پیچھے سب چپ چاپ ان دونوں کا جگڑا دیکھ سن رہے تھے۔۔۔
مھین، نائل خاموشی سے اٹھ کر باہر چلے گے ماہم کو ٹائم دینا چاہتے تھے سب، وہ سوچے غلطی اس کی بھی ہے۔۔ معاذ نے اگر غلط بولا تو معافی بھی مانگ لی پر ماہم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ماضی۔۔۔۔۔۔
سب کچھ کر کے دیکھ لیا۔۔۔ بات پھر بھی وہاں کی وہاں تھی۔۔۔ آہینور کو ان سب کی کچھ خبر بھی نہ پڑنے دی گی۔ اتنا ضرور جانتی تھی کہ اس کا رشتہ ارحم سے پکا ہو چکا ہے۔۔۔ اور پھر جلد شادی کا فیصلہ کر دیا گیا۔۔۔
عالمگیر شاہ اس سارے وقت میں صبر کی انتہا کو چھو رہا تھا۔۔ جو وه دیکھ رہا تھا آغا جان وه دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔۔ پر ان سب میں نقصان اس گھر کی شہزادی کا ہو سکتا تھا۔۔ آغا جان کی بھی اپنی ایک رٹ تھی کہ بس ارحم اچھا ہے پیار کرتا ہے میری بیٹی کو خوش رکھے گا۔۔ اور پھر میری بیٹی کو میں اتنا تو دو گا کے سکون سے دونوں کا گزارا ہو جائے گا۔۔ یہ پراپرٹی تم دونوں کی ہی تو ہے۔۔۔
پر کون جانتا تھا بات ہی اس ساری پراپرٹی کی تھی۔۔۔۔
۔
۔
پھر دن ہفتے اور ہفتے مہینوں میں بدل گے۔۔ بارہ ستمبر کو آہینور نور پیلس سے رخصت ہو کے ارحم کے گھر آ گی۔۔۔ نور پیلس کی لاڈلی سب کی آنکھوں کو نم کر گی۔۔ آغا جان کو یہ تسلی تھی کے ان کی بیٹی اس ہی شہر میں ان کی آنکھوں کے پاس ہو گی۔۔ جب دل کیا کرے گا مل لے گے نوری ان کے پاس نور پیلس آ جایا کرے گی۔۔۔
پر کیا ایسا تھا؟؟
کیا جو دیکھ رہا تھا ویسا ہی تھا؟؟
جو عالمگیر شاہ نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کیا وه سچ ہو جائے گا؟؟
۔
۔
شادی کی رونق ختم ہو چکی تھی۔۔ ایک شور تھا جو تھم چکا تھا۔۔۔ شادی کے ہنگاموں کے بعد دوسرا دن تھا۔۔ صبح کے دس بجے بھی اس گھر میں عجیب سی خاموشی تھی۔۔
آہینور اٹھ کر باہر آئی پر گھر میں ارحم اور اس کے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں۔۔۔۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہےرات میں تو سب یہاں ہی تھے اب کیسے؟؟
ایک دم سے ارحم نے پیچھے سے آ کے آہینور کو باہوں میں بھرا۔۔ارحم یہ آپ کیا کر رہے ہے۔۔ پلزز چھوڑے کوئی دیکھ لے گا۔۔ چہرے کا رنگ ایک دم سے سرخ اناری ہوا۔۔ گولڈن لمبے گھنے بال کمر تک جھول رہے تھے۔۔خوبصورتی کچھ اور نکھری تھی۔۔۔
ہاں جی۔۔۔ تو بتاۓ صبح صبح کیا سوچا جا رہا ہے۔۔۔ اور آپ مجھے بتاۓ بغیر روم سے بھی آ گی۔۔۔
نہیں وه ہم جاگ گے تھے اور گھر میں اتنی خاموشی تھی۔ اس لئے اٹھ کر دیکھنے آئے تھے۔۔مدہم آواز میں بولا گیا۔۔
اوو۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔۔
جی بلکل۔۔۔
ہم دونوں کو ٹائم دیا جا رہا ہےتاکہ سکون سے رہے اس لئے میں ہی فلحال سب کو نکال باہر کر دیا ہے۔۔امی ابو کو گھومنے بھیج دیا ہے۔
ارحم نے بہت آسانی سے بات کو ختم کیا اور ایک بوسہ آہینور کے گال پر لیا۔۔۔
آہینور کی بلی آنکھیں باہر کو آنے کو تھی۔ حیران یا پریشان ہو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔ ملازم نکال دئے۔۔ انٹی انکل گھومنے چلے گے صرف شادی کو دو ہی دن ھوے۔
۔
پر ابھی تو شادی ہوئی ہے آپ نے ملازم کیوں نکال دئیے ابھی تو ضرورت ہو گی ان کی۔۔ جھکی آنکھوں سے اپنی پریشانی بتائی۔۔
نہیں تھی ضرورت۔۔۔ ارحم کو اب سوال کرنا سخت ناپسند آیا۔۔
گھر کے کام کون کرے گا۔۔۔ اتنے کام ہوتے ہے گھر کے۔۔۔ آپ نے سب کو نکال دیا۔۔ معصوم لڑکی اپنے آنے والے دن ' پل ' لمحوں سے نا واقف تھی۔۔ ناسمجھ مشرقی لڑکیوں کی طرح ارحم سے محبّت کر بیٹھی تھی۔۔ محبّت محرم کے رشتے میں تو جائز بھی تھی پر یہاں تو بہت کچھ ایسا تھا جس سے اس لڑکی کو انجان رکھا جا رہا تھا۔۔۔
۔
۔
میری جان ہے نہ آپ کرے گی سارے کام۔۔ مجھے نہیں پسند آپ کے اور میرے درمیان کوئی آئے۔۔ عجیب آرام سکون سے جواب دیا گیا. جبکہ دوسری طرف چہرے سے ہوائیاں اُٹھ چکی تھی۔
ہر سہولت ہونے کے باوجود آہینور کو گھر کا ہر کام آتا تھا پر ابھی سے سارے کام خود کرنا۔۔۔ یہاں تو اس بات پر کوئی عام لڑکی بھی گھبرا جاتی پھر آہینور کے لئے یہ حیرانکن کیسے نہ ہوتا۔۔۔
میرے سارے کام بھی آپ خود کرے گی۔۔ گھر کے کام بھی آپ خود اپنے ان پیارے ہاتھوں سے کریں گی۔۔ نرم و ملائم سفید ہاتھوں پر بوسہ لیا گیا۔۔اور ہاں مجھے بار بار آپ اپنے گھر جانے کا نہیں کہے گی۔۔ نہ میرے سے پوچھے بغیر گھر والوں سے رابطہ کریں گی نہ ہی میری اجازت کے بغیر گھر سے قدم باہر نکلے گی۔۔
آئی بات سمجھ میں میری جان کو۔۔ ارحم کے چہرے پر اس وقت آہینور کو کوئی بھی تاثر نظر نہیں آیا۔
۔
۔
پر کیوں ایسا تو نہیں ہوتا۔۔ آپ سب یہ کیوں کہہ رہے ہے پھر۔۔ ہم اپنے گھر کیوں نہیں جا سکتے؟ کیوں بات نہیں کر سکتے؟ بلی آنکھیں اتنے سخت لہجے پر بھر آئی تھی۔۔
میرے سے زیادہ سوال جواب نہیں۔۔۔
کیوں؟؟ کیوں نا کرو ارحم۔۔۔ آپ ایسے۔۔ کیوں کر رہے ہے۔۔۔ آپ ابھی سے اتنی پابندیاں لگا رہے ہیں۔۔۔آنسوؤں چہرہ بھگو گے۔
چٹاخ۔۔۔۔ چٹاخ۔۔۔۔ ایک کے بعد ایک۔۔۔
چپ ایک دم چپ۔۔۔ آواز نا آئے مجھے۔۔۔جتنا کہا جا رہا ہے اتنا ہی کرو۔۔۔ زبان نہیں چلنا میرے ساتھ نہیں تو جلا دو گا۔۔ معصوم پری کی کمزوری ارحم کے ہاتھ لگ چکی تھی۔۔ اپنا اصل رنگ آج ابھی سے شادی کے دو دن کے بعد ہی دیکھا چکا تھا۔۔۔
جس نازک پری سے کسی نے اونچی آواز میں بات ہی نہ کی تھی آج وہ پری اپنے شوہر سے مار کھا رہی تھی۔۔ بےوجہ سزا دی جا رہی تھی۔۔۔
۔
۔
ارحم ایک لالچی انسان تھا جس نے صرف دولت اور جائیداد کے لئے آہینور سے پیار کا ڈرامہ کیا اور پھر شادی تک کر لی۔ عالَم کو بہت پہلے ہی ارحم ناپسند آیا تھا وجہ اس کا عجیب انداز جو جہازیب شاہ ماننے کو راضی نا تھے پر اس کی سزا اب آہینور کو سود سمیت چکانی تھی۔
ارحم نے بالوں سے پکڑ کے آہینور کو اپنی جانب کھنچا۔۔۔۔اور پھر سٹور روم میں لا کے بند کر دیا۔۔روشنی سے باتیں کرنے والی پری کو اندھیرے میں بند کر دیا۔۔۔ گلابی ہونٹ بری طرح پھٹ کے سوج چکا تھا جبکہ دونوں گال اپنی نا قدری پر رو رہے تھے جہاں کچھ دیر پہلے پیار بھرا بوسہ لیا گیا تھا وہاں اب ارحم کے انگلیوں کے نشان تھے۔۔ گولڈن بال بری طرح بکھرے ھوے تھے۔۔کچھ دیر پہلے خوبصورت آنے والی آہینور پر اب ظلم کیا گیا تھا۔۔ ظلم کے پہاڑ تو ابھی ٹوٹنا باقی تھے۔۔۔
۔
۔
اور پھر یہ سب پانچ چھ روز چلتا رہا ان سب میں ارحم نے جو جائیداد آہینور کے نام تھی تھی سب اپنے نام کروائی۔۔ مارنا، پیٹنا۔۔ ہر طرح کا تشدد اس پر کیا جا رہا تھا۔۔ خوبصورت نظر آنے والا چہرہ اب ہر وقت زخم سے بھرا رہتا۔۔ چھ کی دن کی اس دلہن پر ہر ظلم کیا گیا۔ وہ لڑکی جو گھر بھر کی لاڈلی تھی جس کو ہر سردگرم سے بچاکے رکھ گیا تھا ایک غلطی کی نظر کر دیا۔۔۔ ساری عمر کا روگ اس چھوٹی سی معصوم جان کو اب اٹھنا تھا۔۔۔
دکھ دے کے سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتے ہو
دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا
چلو کچھ تو خیال کرتے ہو
شہر دل میں یہ اداسیاں کیسی؟؟
یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو
مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے
تو بھی جینا محال کرتے ہو
اب کس کس کی مثال دوں تم کو
ہر ستم بےمثال کرتے ہو..
(#copied)
ان سب میں نور پیلس یہ بتایا گیا کہ وہ آہینور کو گھومنے لے کر گیا ہے اچانک پلان بنا جس کی وجہ سے ملوا نہ سکا۔۔ پر عالَم کو کسی طور چین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ کچھ تو غلط تھا جو دکھایا جا رہا تھا ویسا کچھ لگ ہی نہ رہا تھا۔۔۔ اپنا کوئی تکلیف میں دل کو خبر ہو ہی جاتی ہے۔۔ نور پیلس کے سب افراد شادی کے ایک ہفتے بعد ہی عجیب بے چینی کا شکار تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔.....حال۔۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!!!!۔۔۔۔
۔
کون ہے کوئی بولے گا بھی کہ نہیں۔۔۔
آپ بولے ہم صرف سنے گے۔۔۔ آواز میں التجا تھی۔۔۔
آپ کو کس سے بات کرنی ہے۔۔ میره جو جواب نہ ملے پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔
آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔ پر آپ تو غصہ کر رہی ہے۔۔۔
اگر نہیں بتانا تو میں کال اف بھی کر سکتی ہوں۔۔۔
نہ۔۔۔۔ نا۔۔۔ ایسا ظلم مت کرنا مجھ غریب پر۔۔۔ ساتھ ایک قہقہ لگایا۔۔۔۔
باتمیز۔۔۔۔
ہائے۔۔۔۔ پھر آپ سیکھا دے گی آ کے تمیز؟؟
نام بتاۓ اپنا۔۔۔ نہیں توابھی۔۔۔۔
۔
۔
کیا یار۔۔۔۔میں ہوں۔۔۔ غازی۔۔۔۔۔ آپ کا غازی۔۔
چپ۔۔۔ خاموشی۔۔۔ میره نے ایک بار موبائل کو دیکھا جو ہاتھ سے چھوٹنے کے قریب تھا۔۔۔
کیا ہوا اب کیوں بولتی بند ھو گی۔۔۔۔ غازی اچھا خاصا ان لمحوں کے مزے لے رہا تھا۔۔۔
سوری۔۔۔ ہمیں پتا نہیں چلا۔۔ کہ آپ ہو گے کال پر۔۔۔۔ میره کا دل کیا اپنا سر دیوار میں ہی مار دے۔۔۔ کیسے اتنا نون اسٹاپ بول رہی تھی اور اب واز بھی نہیں نکل رہی تھی۔۔۔
اٹس اوکے۔۔۔ مجھے لگتا ہے نمبر سیو نہیں ہو گا اس لئے ایسا۔۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ ایسا ہی ہے۔۔ کبھی ضرورت نہیں پڑی تو سیو ہی نہیں کیا۔۔۔ تو مجھے کیسے پتا چلاتا کے آپ ہے۔۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔
۔
۔
اچھا اچھا۔۔۔ سہی۔۔۔ اب کر لو اب تو ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔۔ اب تم اتنی دور ہو بات تو کر ہی سکتا ہوں نا۔۔۔۔
میره کا رشتہ غازی کے ساتھ جو میره کے ماموں کا بیٹا تھا اس سے تہہ تھا۔۔۔ جبکہ افنان کا سارہ کے ساتھ تہہ تھا۔۔۔۔
پر ان سب رشتوں میں اب کچھ دوریاں آ چکی تھی جس کی وجہ ثانیہ تھی۔۔۔ فیملی میں سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے سب کی لاڈلی تھی پر نور کے آنے پر وه توجہ ثانیہ سے ہٹ گی جس کی وجہ سے ثانیہ ہمیشہ نور کو طنز کرتی برا بھلا کہتی۔۔۔
۔
۔
بتایا نہیں تم نے پھر۔؟؟
کیا۔۔۔ کیا نہیں بتایا۔۔۔۔ میره نے ہلکالا کے پوچھا۔۔۔
یہی کہ جب میرا دل کیا کرے گا تو کیا میں بات کر سکتا ہوں۔۔۔ اجازت مل سکتی ہے کیا؟؟ غازی کا انداز مِنت بھرا تھا۔۔۔ پھر میره کیسے منا کرتی۔۔۔
جی۔۔۔ جیسے آپ کو ٹھیک لگے۔۔۔ میره نے ہلکی سے سرگوشی کی۔۔۔۔
آہاں۔۔۔۔چلو پھر میں روز بات کیا کرو گا۔۔۔ ٹھیک ہے روز۔۔۔۔
میره ابھی جواب دیتی، پیچھے سے نور نے آ کے فون پکڑ لیا۔۔۔۔
ہم آپ سے سخت ناراض ہے ۔۔۔۔ نور خود ہی شروع ہو گی ۔۔
او ہماری گڑیا۔۔۔۔کیوں بھی اپنے بھائی سے کیوں ناراض ہے۔۔۔
آپ بلکل بھی اچھے نہیں۔۔۔ اور نا ہی ہم سے ملنے آئے۔۔۔ اور نہ بات کی۔۔۔ نور کی شکوائے بھری کتاب کھل چکی تھی۔۔۔
اسلام آباد آؤ گا جلد ہی۔۔۔ پر ابھی نہیں۔۔۔ پر جب آؤ گا تب اپنی گڑیا کے لئے بہت سارے گفٹس بھی لاؤ گا۔۔۔ غازی چھوٹی سی گڑیا کو منا رہا تھا۔۔۔۔
تو کیا ہم پھر آپ کا انتظار کرے۔۔۔
جی بلکل کرے انتظار۔۔۔۔ میں جلدی آؤ گا۔۔۔ انشاءلله۔۔۔۔
اور پھر نور اور اس کی باتیں۔۔۔۔ پھر ساری باتیں بتائی گی۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔کیا کیا۔۔۔ پرسب باتیں آ کر اگر ختم ہوتی تھی تو افنان یا اسلام آباد پر۔۔۔ جان میں بسے ھوے کو یہ لڑکی بھولے نا بھولتی تھی۔۔۔۔
۔
۔
تنہائیاں ہیں خاموشیاں ہیں اس شہر میں
محسوس کرو تو اِک نشہ سا ہے اسلام آباد میں۔۔۔
(میری حسین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔