ماہم اور نور کا آج پہلا دن تھا یونیورسٹی کا' اور نور میڈم کا رونا دو دن پہلے سے ہی شروﻉ ہوا تھا۔۔
پر آج تیار ہو کے ناشتے کے ٹیبل پر آنے کے باوجود بھی نور کے آنسوؤں کم نہیں ہو رہے تھے۔۔۔
ماہم کو بیھج دے پلزز۔۔۔ ہم سے نہیں پڑھا جائے گا' وہاں اتنے بچے ہو گے۔۔ ہم کیسے رہے گے وہا اتنا وقت۔۔۔ کیسے پڑھے گے۔۔۔
نور کا بچوں سے بڑھ کے بھی اپنا ہی دکھ رونا ایک بار پھر سے شروﻉ ہو چکا تھا۔۔۔
عین آپ وہاں اکیلی نہیں ہو وہاں ماہم بھی ساتھ ہے۔ پریشانی کس بات کی ہے آپ کو بچے۔۔ وه بھی تو ہر ٹائم آپ کے ساتھ ہو گی نا آپ کا خیال رکھے گی۔۔۔
پر ہمیں ڈر لگ رہا ہے نہ۔۔ سرخ ہوئی ناک کو بچوں کی طرح رگڑا گیا۔۔۔
ڈر کیوں لگے گا نوری یار ہم دونوں ہمیشہ کی طرح ساتھ ہو گے نہ ہر جگہ۔۔ پہلے کبھی چھوڑا ہے تمہیں اکیلا جو ایسے ریکٹ کر رہی ہو بچوں کی طرح۔۔ آج فرسٹ دے ہے خوش ہونے کی بجائے رونا پیٹنا ڈالا ہوا ہے تم نے۔۔۔ماہم نے اچھی خاصی کلاس لے لی تھی نور کی اب۔۔۔
عین آپ چاہتی ہو کہ کوئی آپ کو کہے کے آپ نالائق ہو اس لئے نہیں پڑھ رہی نیکسٹ۔۔ اپنی اسٹڈی کمپلیٹ نہیں کر رہی۔۔۔کیا آپ چاہتی ہو ایسا کوئی بولیں۔۔۔۔
نور نے جلدی ہی سر نفی میں ہلایا۔۔۔
تو چندہ اس لئے ہم سب چاھتے ہیں آپ اسٹڈی کمپلیٹ کرو اچھے سے اور ڈرنا بلکل نہیں' ہم سب ہیں نہ آپ کے پاس۔۔۔
رونا بند ہو چکا تھا۔ بلی آنکھیں اپنی نا قدری پر نہاد تھی۔۔
کچھ اثر ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا نور اب چپ چاپ سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔
ہم پڑھے گے۔۔۔ اچھے مارکس بھی لے کہ آئے گے۔۔۔پر۔۔۔۔
پر کیا نور۔۔۔ مھین نے ادھورے سوال کو مکمل پوچھنا چاہا۔۔۔
پر ماہم ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی آپ اس سے کہے مجھے اکیلا کہی بھی نہیں چھوڑے گی۔۔۔ میرا خیال رکھے گی۔۔۔ معصومیت ہمیشہ کی طرح برقرار تھی۔۔۔
توبہ توبہ۔۔۔ میں پاگلوں کی طرح سارا دن اس کے ساتھ رہتی ہوں اور یہ اب بھی وہی سب بول رہی جیسے میں کوئی نئی ہوں۔۔ مجھے کچھ پتا نہ ہوں۔۔۔
بےپروا۔۔۔
نا شکرے لوگ۔۔۔۔
۔
۔
۔...........................
یونیورسٹی کا آج پہلا دن تھا نور پلیس کی سب آنکھیں ہی نم تھی پر امید اب پہلے سے زیادہ ہی پختہ ہو چکی تھی۔۔۔
"کوئی زندگی ہرا ہوا، پھر سے لوٹ رہا تھا۔۔ آزماشیوں میں کمی آ رہی تھی۔ صبر کیا ہوا وقت اب رنگ لانا تھا۔۔۔ محبّت کی منزل کو اپنی الگ پہچان مل جانی تھی۔۔۔ عشق کا سفر ہونا باقی تھی۔ لاحاصل خوشیاں اب زندگی بن کےخون میں دوڑنی تھی۔۔ قسمت آزمائی جا چکی تھی اپنا پورا زور اپنی پوری جان لگا کے اس آزمائش پر صبر کیا تھا۔ ہر وہ بندہ توڑا تھا جس پر ۔۔۔یہ پل۔۔ گھڑیاں۔۔۔ وقت۔۔۔ ماہ۔۔ سال۔۔۔ لاحاصل زندہ لاش کی طرح گزارا تھا۔۔"
جیسے آزمائش واجب تھی ٹھیک اسی طرح صبر بھی انہی پر واجب کروایا گیا۔۔۔ نہیں تو صبر بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہیں۔۔ پر یہاں تو بات ہی ختم نہیں ہوئی تھی یہاں کا معملہ ہی الگ تھا۔۔۔ یہاں ان کی قسمت کی ڈور رب کے ہاتھ میں تھی۔۔۔ اور عمل یہاں ' اس گھر کے مکینوں نے کیا تھا۔ عمل بھی تو مانگنے والوں کو عطا ہو ہیں۔۔ بس پھر عطا کیا تھا ایک صبر۔۔۔ ایسا صبر کے دیکھنے والا حیران رہ جاتا۔۔۔ سننے والا گم سم رہ جاتا۔۔ جس کی آنکھوں کے سامنے ہوا وہ پل پل یاد کر کے رو دیتا۔۔۔ تکلیف دا سال کسی اذیت سے کم نا تھے۔۔
۔
۔
میرا یہ شیطان اپنی ماں کا نام روشن کرے گا نہ؟؟
بلی آنکھیں پوری رات جاگنے اور رونے کی داستان سنا، دیکھا رہی تھی۔۔۔ یہ نم آنکھیں کبھی کسی کی دل کو ہلا جاتی تھی کسی کے دل پر چوریاں چلا جاتی تھی۔۔
اور اب۔۔۔۔
آغا جان میں پوری کوشش کرتا ہوں کے جب ماما کی آنکھیں کُھلےتو وه۔۔۔ وه مجھے دکھ۔۔۔ دیکھ کے۔۔ ماشاءالله بولے۔۔اور۔۔۔
ظلم۔۔ ظلم ہوا۔۔۔ آنکھوں میں دبایا ہوا آنسوؤں کا سمندر گھنی پلکوں کی باڑ توڑ کے سفید چہرے پر بہہ گیا۔۔۔
اور جب ان کو پتا چلے کے میں۔۔۔ اب۔۔ اچھا۔۔ بچ۔۔۔ بچہ ہوں۔۔ سیسكی لی گئی تو وہ بول
دے میرا۔۔۔ سو۔۔۔سوہنا معاذ۔۔۔ میرا شہزادہ۔۔۔۔
۔
۔
آج پھر اس شیطان نے سب کو رولانا تھا۔۔۔ آج پھر وہی باتیں یاد کی جا رہی تھی جو اس گھر میں پہلے کسی کو بھی نہیں بھولی تھی۔۔۔ جو کوئی چاہ کے بھی نہیں بھلا پایا تھا۔۔۔
وہ بولے گی نہ مجھے آ۔۔۔۔آغا جان۔۔۔۔
ہاں۔۔ ہاں۔۔ میرے بچے۔۔۔ آغا جان نے بن ماں باپ کے' دونوں کے پیار کے بغیر ۔۔۔ اس بچے کو گلے گیا تھا۔۔۔ کچھ دیر یوہی پیار۔۔۔ تسلی۔۔۔ دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بھی تو دونوں کا آج پہلا دن ہے۔۔ بولو۔۔
جی۔۔ جی۔۔ پہلا۔۔۔
ہمممم۔۔۔ ڈیپارٹمنٹ بولو کون سا ہے۔۔۔
بزنس ڈیپارٹمنٹ۔۔۔
اہاں۔۔۔ کیا بات ہے تم لوگوں تو لگتی بھی کسی اچھی فیملی کی ہو۔۔۔
الحمداللہ ۔۔۔۔۔۔ہے بھی۔۔۔۔
او۔۔ تو یہ بات ہے بہت جواب دینا آتا ہے تمہیں۔۔۔ دائیں جانب کھڑی لڑکی کی جانب اشارہ کیا گیا۔۔
آپ نے جو پوچھا وہی بولا ہے۔۔۔ ان سب میں ایک وجود ڈرا سہما سا کھڑا تھا۔۔ نور جو پہلے ہی یونیورسٹی کے نام سے ڈرا رہی تھی یہاں کھڑے ان لوگوں کی عجیب نظروں اور سوالوں سے اب کانپ بھی رہی تھی۔۔ سفید لباس میں پنک حجاب اڈھا گیا تھا۔۔۔سادہ لباس میں ہی وہ پرنور چہرہ دیکھنے والوں کو عجیب طلسم میں جکڑ رہا تھا۔۔۔
۔
۔
کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔ بلند بھاری آواز میں پوچھا گیا۔۔۔
وہ۔۔۔
او تیری یہ بھی یہاں آیا ہوا ہے۔۔۔مر گے۔۔
باقی تو معاذ کو دیکھتے ہی بھاگ گے پر مین لڑکا جو سوال جواب پوچھ رہا تھا بری طرح پھنسا تھا۔۔۔
کچھ۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ میں تو بس ان کو ان کے ڈیپارٹمنٹ کا بتا رہا تھا۔۔
ایسے بتاتے ہے ڈیپارٹمنٹ کا۔۔۔ ایسے کرتے ہے ہیلپ۔۔۔ معاذ نے آگے بڑھ کے گریبان سے پکڑا تھا۔۔
معاف کر دو اگلی بار ایسا نہیں ہو گا۔۔۔
سوری۔۔۔
جھٹکا دے کے چھوڑا گیا۔۔ مانگ معافی ہاتھ جوڑ کے۔۔۔معاذ کا غصہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔
سو۔۔۔ سوری۔۔ غلطی ہو گی دونوں ہاتھ جوڑ کے معافی مانگی گی۔۔ اب وہ عجیب بےباک نظریں جھکی ہوئی تھی۔۔۔
دفع ہو جاؤں۔۔۔ اب دوبارہ یہاں ان کے آس پاس نظر آیا یا کچھ غلط کرنے کا سوچا بھی تو۔۔۔۔ سوچ بھی نہیں سکتا معاذ شاہ کیا کر سکتا ہے۔۔۔۔یہ آنکھیں اپنی۔۔۔۔آنکھوں کی جانب اشارہ کر کے سامنے کھڑے لڑکے کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا گیا۔۔ یہ آنکھیں تم پر نظر رکھے گی۔۔۔۔ یاد رکھ لینا۔۔۔۔
لڑکا جان بخشی پر منٹ سے پہلے بھاگ نکلا۔۔
۔
۔
نور کی بلی آنکھوں میں پانی تھا۔۔ ڈر خوف اب بھی تھا۔۔۔ نور وه چلا گیا ہے۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔
ہممم۔۔۔۔
معاذ نے موڑ کے دیکھا۔۔۔ او ہیلو بیوٹی سیس۔۔۔کیسی ہو۔۔۔ بےمروت لوگ بتا ہی دیتے میں بھی اس ہی یونیورسٹی کا ہی ہوں۔۔۔
آپ کو اس سے کیا مطلب۔۔۔ ماہم نے سخت چڑ والے انداز سے بولا۔۔۔
ہم نے کون سا آپ کو مخاطب کیا ہے۔۔ ہم تو اپنی پیاری ہی اس بہن سے کہ رہے ہے۔۔۔
۔
اس بات پر ماہم کا پورا کا پورا منہ کھلا تھا جبکہ نور مسکرا گئی تھی۔۔۔
مطلب یہ بہن ہے اور میں کیا ہوں۔۔۔ بتمیز۔۔۔ ڈش انسان۔۔۔۔
لو اب میں سب کو بہن تو نہیں نا بنا سکتا۔۔۔ سب کو بہن بنا لیا تو شادی کس سے کرو گا۔۔ اور شادی نہیں کرو گا تو ایسے بغیر شادی کے۔۔۔ بچوں کے مارتا اچھا لگو گا کیا۔۔۔
توبہ توبہ۔۔۔ ایسا سوچا بھی نا۔۔۔
ماہم اب بھی اس فضول باتوں پر منہ کھولے معاذ کو کوس رہی تھی۔۔ تو دوسری طرف نور قہقہ لگا کے لوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔۔۔۔
معاذ بھائی آپ بھی نا۔۔۔
میں بھی نا کیا گڑیا؟؟ وہی مان ۔۔۔ وہی پیار۔۔۔ بھائیوں والا احساس۔۔۔
آپ بہت اچھے ہے۔۔۔ شرارتی سے۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔
چلو شکر ہے آپ کو پسند آ گیا نہیں تو یہاں لوگ مجھے دیکھ ہی ایسے رہے ہے، کے کچا چبا جائے گے۔۔۔
معا۔۔۔۔ذ۔۔۔۔ معاذ روک جو۔۔۔۔
ان کی ملاقات مصطفیٰ ولاز میں ہو چکی تھی۔۔ نور پلیس کے سامنے جب نور آئی تھی تب سے ہی عجیب کشمکش میں تھے سب۔۔۔
نور کی شکل نور پلیس کی بیٹی سے بہت ملتی جلتی تھی۔۔۔
"ماضی یاد نہیں کیا جاتا۔۔۔ ماضی سے جڑی باتیں ، یادیں ، چہرے آپ کی زندگی میں دوبارہ آ کے آپ کو ماضی بھولنے نہیں دیتے"
معاذ بھی اس لئے پہلی ملاقات میں ہی عجیب اپنایت میں نور سے ملا تھا۔۔۔ اپنا سا احساس تھا۔۔۔۔ اسلئے بغیر کچھ سوچے سمجھےگڑیاسیس منہ سے نکل گیا۔۔۔
۔
۔
۔
کچھ تو تھا جس کی پردہ داری تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔