اسلام آباد کے اس مصطفیٰ ولاز کو بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا۔۔۔ رات کی تاریخی میں خوبصورت لان کو گولڈن لائٹس اور بھی حسین اور دلکش بنا رہی تھی۔پورا مصطفیٰ ولاز چکا چوند سے جگمگا رہا تھا۔۔۔ افنان اور نائل نے تیاری میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔۔
ویلکوم پارٹی کے گیسٹ آنا شروﻉ ہو چکے تھے۔۔ مین دروازے سے آگے نائل اور مھین گیسٹ کے ویلکوم کے لئے کھڑےنظر آئے۔۔۔
اسلام آباد میں نومبر کے مہینے میں بھی کہی سے ایسا معلوم نہیں ہو رہا تھا کے یہاں سرد موسم ہو۔۔ جن جن کو دعوت دی گی تھی سب ہی آ چکے تھے۔۔۔۔ پر جس کا بےصبری سے انتظار تھا اس گھر میں سے ،اب تک کوئی نہ آیا تھا۔۔۔
ماہم، ریڈ ڈریس میں جبکہ میره وائٹ ڈریس میں خوبصورتی سے کیے گے مکیپ میں اچھی لگ رہی تھی۔۔ افنان ڈنر سوٹ میں مبلوس ہیڈسیم لگا رہا تھا۔۔
نائل اور مھین گیسٹ سے مل رہے تھے کہ آغا جان کے قدم مصطفیٰ ولاز کو چھو گے۔ نائل اور مھین کی نظر پڑی تو ان کی جانب آئے۔آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا۔
السلام عليكم۔۔۔!!! کافی دیر سے ہم آپ کا انتظار کر رہے تھے آغا جان نائل نے آگے بڑھ کے سلام دعا کے بات دیر سے آنے کی وجہ سے اعتراض کیا۔۔۔
۔
۔
یہ ہمارا شیطان بچہ گھر ہی دیر سے آیا پھر اس کو تیار ہونے میں لڑکیوں سے بھی زیادہ وقت چاہے ہوتا ہے۔۔ آغا جان کی بات پر جہاں معاذ کا منہ بنا تھا وہاں ہی باقی سب کا قہقہ گونجا۔۔۔
آغا جان اب یہ زیادہ ہو رہا ہے ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ بندہ پہلی بار مل رہا ہے تھوڑی عزت ہی کر دے۔۔ پر نہیں آپ تو نہ سب شروﻉ ہو جاتے ہے۔۔
بچے کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے۔۔ اتنی لڑکیاں ہو گی یہاں سب کے سامنے اب مت کہے گا۔۔ کیا پتا کسی کے گھر والے مجھے پسند کر لے پر آپ کی باتوں سے پھر میرا رشتہ ٹوٹ دے۔ کتنی انسلٹ ہو گی میری۔۔
بعد میں مجھ معصوم کو کون رشتہ دے گا۔۔۔ میں بدنام ہو جاؤں گا۔۔۔
معاذ کے چہرے پھر اس وقت بات کرتے ھوے اتنی معصومیت تھی کے کوئی باہر والا دیکھ کہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ شیطان پھر سے اپنا کام کر چکا ہے۔۔۔ مطلب شرارت۔۔ معصومیت ظاہر کر رہا تھا وہ اللہ کے فضل سے معاذ کے پاس دور دور تک نہ تھی۔۔۔
ہاہاہا یہ بچہ تو بہت تیز ہے۔۔۔ مھین اس شرارتی معاذ کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
یہ معاذ ہے میرا نواسا۔۔۔ آغا جان نے اندر کی جانب بڑھتے ھوے سب کا تعارف کروایا۔۔
تو آپ کا پوتا نہیں آیا۔۔۔
ہاں وه اوٹ اف سٹی ہے کل واپسی ہے۔۔
انشاءلله۔۔۔۔
ماشاءالله آپ کی فیملی ہمیں بہت پسند آئی ہے۔۔
شکریہ آپ کا بہت بہت اتنی عزت دینے کے لئے۔۔عالمگیر شاہ بھی کافی متاثر نظر آ رہے تھے ان لوگوں سے۔۔۔
ہم سے تو مل لیا ہے اب اپنی فیملی سے بھی ملا دے۔۔۔
جی۔۔۔ کیوں نہیں۔۔ ابھی ملوا دیتے ہے۔۔۔
مھین ماہم اور میره کو ملوانے کو پاس لے کے آئی۔ یہ ہماری دونوں بیٹیاں۔۔ میره بڑی ہے اور سٹڈی کمپلیٹ کر چکی ہے جبکہ ماہم اور نور ابھی یہاں ہی بی یس میں ایڈمشن لیا ہیں۔۔
آغا جان دونوں کے سر پر پیار دیا۔۔۔ جبکہ عالمگیر شاہ اور اکفہ سے بھی ملا گیا۔۔
اور یہاں بھی معاذ باز نہ آیا۔۔۔
۔
۔
ہم بھی ہے راہوں میں۔۔
۔
واٹ؟؟؟
ماہم بے یقینی سے آنکھیں نکلے بولی۔
معاذ۔۔۔ معا۔۔۔ز۔۔۔۔ آغا جان کی آواز آئی۔۔۔
نہیں میرا مطلب تھا کہ میں بھی ساتھ آیا ہوں مجھے بھی پوچھ لے ملوا دے کسی سے۔۔
"اب مجھے یہاں لا کے بھول گی گے ہے جیسے پاکستان کی ماہیں بچوں کو شادی پر لا کے بھول جاتی ہے سیم ویسے ہی۔۔۔"
ہاہاہا۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ اففف۔۔۔ اب ہنسے کی باری ماہم۔ اور میره کی تھی جو ہنسی کنٹرول کرنے کے چکر میں دھوری ہو رہی تھی۔۔ اتنا سیریس کو کہ بھی ایسی بات کیسے کر جاتا تھا یہ دیکھ کے بندہ پریشان ہو جاتا۔۔۔
انہی باتوں میں افنان اور نور اک ساتھ باہر لان میں آئے۔۔۔۔۔
کالےاور گولڈن رنگ کے لونگ فراک میں گولڈن ہی حجاب لئے وه پری سنج سنج کے قدم رکھی ان کے جانب آ رہی تھی۔۔ لائٹ مکیپ۔۔۔ ہاتھوں میں رنگز اور چوڑیاں پہنے ہوئی یہ گڑیا اس وقت بہت سی نظروں میں تھی۔۔۔ خوبصورتی پر چار چند اس کا حجاب لگا رہا تھا۔۔۔ حجاب اس پوش علاقے میں شاید ہی کوئی لیتا ہو۔۔۔ پر اس گھر کی تینوں بچیوں نے اپنی کلاس پیسے کے باوجود کے پردہ نہیں چوڑا تھا۔۔۔
بہت سی آنکھیں اس فیملی پر اٹھی تھی اتنا پیسہ نام مقام ہونے کے باوجود غرور ذرا بھی نہیں تھا جھلک رہا۔۔
ماشاءالله ایک ساتھ سب کے منہ سے نکلا۔۔۔ جس پر نور شرما گی۔۔۔
افنان نے آغا جان کی فیملی سے پیار لیا پر ابھی بھی افنان کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔۔۔
نور ملوں آغا جان اور ان کی فیملی سے یہاں پاس ہی رهتے ہیں یہ سب۔۔۔ نائل نے نور کو اپنے حصار میں لیتے ہے بتایا۔۔
آغا جان نے نور کے جھکے سر پر ہاتھ رکھ تھا کے ہاتھ ایک دم کانپ گیا۔۔ ایک احساس۔۔۔ انسیت محسوس ہوئی اور یہی حال باقی سب کا بھی تھا۔۔۔
ملے کے نور میره ماہم الگ کھڑی باتیں کر رہی تھی جبکہ باکی سب بھی باتوں میں مصروف ہو چکے تھے۔۔۔۔
پر یہی لمحہ نور پلیس میں سوئے وجود میں پھر سے ہل چل مچا گیا تھا۔۔۔ ہاتھ پاؤں میں حرکت محسوس ہوئی۔۔۔ پاس بیٹھی نرس نے اپنا وہم سمجھا پر ایسا نہیں تھا۔۔ ایک بار پھر سے ہاتھ کو ہلایا گیااب صاف نظر آ رہا تھا آہینور شاہ کا ہلتا ہاتھ۔۔۔
عالمگیر شاہ کھانا کھا رہے تھے جب موبائل پر کال آئی۔۔۔۔۔
افنان ان کے چہرے پر آئے تصورات دیکھ رہا تھا جہاں پریشانی جھلک رہی تھی دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا جا رہا تھا کہ پریشانی چہرے پر مزید در آئی۔۔۔
موبائل بند ہوا تو افنان فورا سے بولا۔انکل سب ٹھیک ہے آپ پریشان لگ رہے ہے۔۔ کوئی بات ہے؟؟
ہاں بس۔۔۔ گھر چلے سب۔۔۔۔
عالمگیر شاہ کے بولنے کی دیر تھی کھانا کھاتے سب افراد اٹھ کھڑے ھوے۔۔۔
سب خیریت ہے نہ۔۔۔ نائل سے رہا نہ گیا تو پوچھ لیا۔۔۔
میری بہن کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں آپ کو بتایا ہے نہ ابھی تو گھر سے کال آئی ہے۔۔۔ پھر ملاقات ہو گی انشاءلله ابھی جانا ہو گا۔۔۔
جی جی ضرور۔۔۔۔ اللہ آسانی پیدا کرے۔۔
امین۔۔۔
نائل اور افنان باہر تک چھوڑنے آئے تھے نور پلیس کی فیملی کو۔۔۔
ڈیڈی کیا ہوا ان کی بہن کو.۔۔۔
ابھی نہیں افی بیٹا بعد میں۔۔۔ سب بتاؤں گا پر ابھی گیسٹ یہاں ہے ان کو دکھوں ملوں ان سب۔۔۔۔
افنان نے محض سر کو ہلایا۔۔۔۔
پارٹی اپنی چکا چوند سے جاری تھی۔۔۔ ایک نور تھی جو بور ہو چکی تھی اور تھکن محسوس کر رہی۔۔۔چہرے پر صاف بیزاری وظیع تھی۔بلی آنکھیں اداس پریشان معلوم ہو رہی تھی ،ماہم کب سے نور کو نوٹ کر رہی تھی۔۔۔۔
لڑکی۔۔۔۔ کیا ہوا ہے اتنی بیزار کیوں ہو؟؟
ماہم اچھا نہیں لگتا ایسا بولنا۔۔۔ نام لیا کرو۔۔۔لڑکی کیا ہوتا ہے۔ نور کو ایسے الفاظوں سے سخت چڑ تھی۔۔
سو۔۔۔ سوری میں بھول ہی گی آپ تو میڈم مغل دور کی ہے۔۔ اس لئے آپ سے ہم کہ کے بات کرنی ہے۔۔۔ تو۔۔۔ تا۔۔۔ آپ کو نہیں پسند۔۔۔
ماہم اب خوب چڑا رہی تھی۔۔۔
ویسے اتنا چڑ کیوں رہی ہو طبعیت ٹھیک ہے نہ نوری۔۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ ٹھیک ہوں میں، بور ہو رہی ہو یہاں تھک بھی گی ہوں۔۔۔ پر یہاں تو پارٹی ہی نہیں ختم ہونے کو آ رہی۔۔۔
تو۔۔۔ ایسا کرتے ہے ہم چلتے ہے روم میں تم ریسٹ کرو۔۔۔ٹھیک ہے میں بھی چلتی ہو ساتھ۔۔
ہاں مجھے روم میں جانا ہے۔۔ نور تو تیار تھی اپنے روم میں جانے کو۔۔ یہاں اس ماحول میں عجیب گھبراہٹ ہو رہی تھی بہت سی نظریں نور خود پر محسوس کر چکی تھی جو کہ اس کو کوفت میں ڈال رہی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آنے تک ڈاکٹر بھی آ چکے تھے۔۔۔ چیک اپ چل رہا تھا۔جبکہ باہر کھڑے نور پلیس کا ایک ایک فرد اس وقت سولی پر گزارا رہا تھا۔۔۔
کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر چیک اپ کر کے روم سے باہر آئے۔ چہرے پر اطمینان تھا۔۔۔
مبارک ہو آغا جان آپ کی بیٹی واپس آ رہی ہے۔۔۔ آہینور نے یہ جنگ جیت لی۔۔۔ اتنے سالوں بعد کوئی معجزہ ہی ہے جو یہ بہتری کی طرف آ رہی ہے۔ نہیں تو ایسا ہوتا ہی نہیں کہ قوما میں گیا ہوا مریض ایسے واپسی کی راہ لے۔۔۔ آپ سب کی دعائیں سن لی گئ ہیں۔۔
مطلب۔۔۔ میری بچی۔۔۔ نوری۔۔۔ ٹھیک۔۔۔
سہی۔۔۔ ہو گی۔۔۔ ہوش آ گیا؟؟
نہیں ابھی مکمل ہوش نہیں آیا۔۔ پر وہ موومنٹ دے رہی ہے اپنی باڈی کو۔۔۔ اپنی اس دنیا میں لوٹ رہی ہے۔۔۔ بس بہت جلد مکمل ہوش میں بھی آ جائے گی۔۔۔ڈاکٹر نے تسلی بھرا ہاتھ آغا جان کے کندھے پر رکھا۔۔۔
اب اس روم میں گھر کے ہی سب لوگ تھے۔۔ آغا جان نے اپنی بیٹی آہینور کے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔۔
۔
۔
۔
تو آپ کو اب خیال آ ہی گیا ہم سب کا۔۔۔ سزا ختم کرنے والی ہو۔۔۔ ایک موقع تک نہیں دیا کہ ہم آپ کے بابا جانی آپ سے کچھ بول پاتے۔۔۔ معافی مانگ سکتے۔۔۔ آپ نے اتنی بھی موحلت نہ دی اور سزا سنا دی۔۔۔
اتنی لمبی۔۔۔
عمر بیت گی ہماری آپ کی آواز سننے کو۔۔۔
سب بدل گیا میری جان۔۔۔ خوشیاں آپ سے تھی اس گھر کی ہم سب کی۔۔۔ ذرا سی تیز ہوا چلی تھی اور سب اس ہوا کی زد میں آ گیا۔۔۔ میرا گھر۔۔۔ میرا سکون۔۔۔ میرا آرام چِھن گیا۔۔۔ میرے بچوں کی خوشیاں چِھن گی۔۔۔ سب بکھر گیا۔۔۔
آغا جان کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔۔پروا نہیں تھی۔۔۔ پروا تھی تو اپنی بیٹی کی۔۔ آنکھوں میں آئے آنسوؤں پلکوں کی باڑ توڑ کے بہہ نکلے۔۔۔ باپ اپنی جان سے پیاری بیٹی کے لئے رو رہا تھا۔ سویا وجود آغا جان کی بیٹی تھی اس گھر کی خوشی۔۔۔ اس گھر کا نور۔۔۔
اس گھر کا مان۔۔۔ اس گھر کا غرور۔۔۔اس گھر کی عزت۔۔۔ نور پیلس کی ملکہ۔۔۔ شہزادی۔۔۔
پر اس کی قسمت نے ساتھ نا دیا۔۔ خوشیاں کچھ پل کی تھی۔۔ تب ہی جوانی میں ہی اتنا غم برداشت کر لیا۔۔ پر جب غم حد سے بڑھا۔۔۔ برداشت سے باہر ہوا تو خاموشی کی نیند سو گی۔۔ کسی سے بھی گلا شکوہ کیے۔۔۔ وہ دن تھا اور آج کا دن یہ وجود ایسے ہی سویا ہوا تھا۔۔۔
سزا مل رہی تھی۔۔۔ پر کس کو؟؟
خود کو یا اس پیلس کے رہنے والوں کو؟؟
آزمائش واجب تھی۔۔۔ اور اس سے بڑھ کے اس آزمائش پر صبر بھی واجب کیا گیا۔۔ اللہ نے جیسے لکھا تھا وہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔ اس گھر کی رونق کو واپس کرنے کا وقت آ رہا تھا۔۔۔ صبر پر اتنے سالوں بعد پھل ملنا تھا۔۔۔۔ بس اس مقدس گھڑی ' اس پل کا انتظار تھا جب حکم ہو جانا تھا۔۔۔
آنکھیں کھلنے کا انتظار تھا۔۔۔ سوئی ہوئی ان بلی آنکھوں کے جاگنے کا انتظار ہو رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔