قانون حموربی ڈیڑھ سے دو ہزار برس تک نہ صرف بابل (سومر ، اکد) ہی میں بلکہ ایشیائے کوچک اور وسط ایشیا کے بہت بڑے خطے میں نافذ رہا اسلیے یہ خیال حق بجانب ہو گا کہ اس زمانے میں ہر طرح کے سماجی کاروبار اور معاملات انہی اصولوں کے مطابق طے پاتے ہوں گے
اسکی تائید ان آثار سے بھی ہوتی ہے جو نینوا شہر کی کھدائی سے دستیاب ہوئے ہیں
ساتویں صدی قبل مسیح میں اسیریا کے تخت پر اشور بنی۔پال نامی بادشاہ کی حکومت تھی عہد نامہ قدیم میں اسکا ذکر اسناپر کے نام سے آیا ہے جبکہ یونانی مورخوں نے اسے سرنو پالس لکھا ہے یہ بہت بڑا علم دوست بادشاہ تھا اس نے اپنے دارلحکومت نینوا میں بہت عظیم الشان کتاب خانہ جمع کیا جس میں تمام قدیم مذہبی ، علمی و ادبی کتابوں اور دستاویزات کی نقلیں یکجا کر دی گئیں تھی اس کتابخانے کا جتنا حصہ زمانہ دست برد سے بچا رہا وہ خوش قسمتی سے انیسویں صدی کے وسط ( 1852 سے 1876) میں کھدائی کرتے ہوئے ماہر اشوریات کے ہاتھ لگا
اس طرح ہمیں قانون حموربی سے ماقبل اور مابعد کے زمانے میں بابل کے تہذیب و تمدن کے متعلق اتناوافر مواد میسر آ گیا ہیکہ ممکن ہے سیاسی تاریخ ، شاہی خاندانوں اور بادشاہوں کے زمانہ حکومت کے بارے میں کوئی گوشہ ابھی تک تاریکی میں رہ گیا ہو لیکن جہاں تک لوگوں کے رہنے سہنے ، رسم و رواج ، شادی و غمی کے مواقع ، مذہب وعقائد ، صنعت و حرفت ، ادبی سرگرمیوں اور زندگی کے اور بیسوں مسائل کا تعلق ہے کوئی چیز اب ہماری نظروں سے اوجھل نہیں رہی
نظام حکومت
شاہی اختیارات
ہئیت اجتماعی کا محور بادشاہ تھا معاشرے کے ہر ایک شعبے کی سرگرمیاں اسکی ذات سے وابستہ اور اسی کے دم قدم سے زندہ تھیں
بادشاہ دین و دنیا کے تمام اختیارات کا جامع تھا وہ بیک وقت امام دین بھی تھا اور سلطان دنیا بھی مندر میں پوجا کے وقت وہ مہا پوجاری تھا اور عدالت کی کرسی پر قاضی القضاة وہی واضع قانون تھا اور وہی اسکا نافذ کرنے والا بزم امن کی شمع اسی سے کسب نور کرتی تھی اور میدان جنگ میں فوجوں کی کمان اسی کے ہاتھ میں تھی
جہاں حکمرانوں کو اتنے وسیع اختیارات حاصل ہوں ظاہر ہے ایسی صورت میں مکمل اور مطلق العنان شخصی حکومت کے سوا اور کسی طرح کا نظام حکومت خیال میں نہیں آسکتا عام انتظام سلطنت میں عوام کے جذبات اور آرام و آسائش بادشاہ کی مرضی پر منحصر تھا اگر بادشاہ خدا ترس اور عادل ہو تو رعایا خوشحال اور آزاد ہو گی اور اگر بادشاہ ظالم و جابر ہو تو رعایا بھی تباہ حال اور غلامانہ زندگی بسر کریگی