طوفان نوح
ان سب تحریروں کو دیکھنے کے بعد ایک بات واضع ہوتی ہیکہ بہت قدیم زمانے میں اس سر زمین پر ایک بہت بڑا طوفان آیا مثلا" شاہی خاندانوں کی تاریخ بیان کرنے کا عام انداز یہ ہیکہ یہ بادشاہ طوفان سے پہلے ہوا یا فلاں واقعہ طوفان کے اتنے عرصے بعد ہوا آج بھی عراق میں طوفان اور سیلاب وغیرہ عام طور پر آتے رہتے ہیں بالخصوص موسم گرما میں جب شمالی پہاڑیوں کی برف پگھلتی ہے تو اس ملک کے جنوبی حصے کے لوگوں کو دن رات سیلاب کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور یہ خیال کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ پانچ سات ہزار برس پہلے بھی یہاں ایسے طوفان کیوں نہ آتے رہے ہوں گے
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہیکہ طوفان جسکا ذکر ان تحریروں میں ہے کوئی ایسا وسیع اور تباہی خیز اور نتائج کے لحاظ سء دوررس طوفان تھا کہ مورخوں نے اسے گویا ایک دور کے خاتمے اور دوسرے دور کی ابتدا کا نقطہ اتصال قرار دیا
عہد نامہ قدیم کی کتاب پیدائش اور قران پاک دونوں میں ایسے ہی طوفان کا ذکر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہیکہ وہ اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے
شہری ریاستیں
ان ماخذوں اور دستاویزات سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ پورے ملک میں شہری ریاستیں قائم تھیں ہر ایک شہر میں کسی مستقل اور آزاد خاندان کی حکومت قائم تھی ان شہری ریاستوں کا آپس میں کسی قسم کا تعلق نہیں تھا سوائے اس کے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی غرض سے اور ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے باہم لڑتے رہتے تھے
ان میں سب سے اہم اور طاقتور ریاستیں یہ تھیں
1 لاغائتی یہ اس جگہ آباد تھی جہاں آجکل تل نوح ہے
2 کش یہ موجودہ بغداد سے چالیس میل جنوب اور بابل سے پندرہ میل مشرق میں واقع تھی اب اس جگہ اءیمر کے ٹیلے ہیں
3 اریخ یہ جنوب میں اس جگہ واقع تھی جہاں اجکل ڈرکا ہے
4 لارسہ یہ بھی جنوب میں واقع تھی اس جگہ اجکل سنکرہ کاگانو ہے
5 اور. یہ مقیر کی جگہ پر واقع تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یہیں کے تھے
اسکے علاوہ اریدو ، شروبک ، ادب ، نی سن ، نفر ، کشترہ اور بابل اہم رہاستیں تھیں
ہمارا موضوع بابل کی ریاست ہے
بابل
تورات میں لکھا ہیکہ" ساری زمین پر پہلے ایک ہی زبان بولی جاتی تھی پھر ایسا ہوا کہ مشرق کی طرف سفر کرتے ہوئے اولاد نوح کو ایک میدان ملا اور وہ وہیں بس گئے انھوں نے مشورہ کیا کہ آو اینٹیں بنائیں انھیں اگ میں خوب پکائیں سو انھوں نے پتھر کی جگہ اینٹ سے اور چونے کی جگہ گارے سے کام لیا پھر انھوں نے اپنے لیے ایک شہر اور برج تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ایسا برج جسکی چوٹی آسمان تک پہنچ جائے
یہ برج جسے بنی آدم بنانے لگا خداوند اترا اور کہا دیکھو یہ سب لوگ ایک ہیں اور سبھی کی ایک ہی زبان ہے وہ جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اسے ان سے باز رکھنے کے لیے آو جاکر انکی زبان میں اختلاف ڈالیں سو خداوند نے وہاں سے ان کو تمام روئے زمین میں پراگندہ کیا سو وہ اس شہر کے بنانے سے باز ائے اس لیے اس کا نام بابل ہوا کیونکہ خداوند نے وہاں ساری زمین کی زبان میں اختلاف ڈالا"
اس جگہ بابل اور برج بابل کی تعمیر کا ذکر کیا گیا اور بابل کی وجہ تسمیہ بیان کیا گیا اسکی معقولیت یا نامعقولیت پر بحث ہمارے موضوع سے بے تعلق ہے البتہ بابل کے تسمیہ کے بارے میں جو کچھ کتاب پیدائش میں لکھا ہے وہ درست نہیں ہے