جو ملک آج عراق کہلاتا ہے یونانی اسے اپنے عہد عروج میں میسوپوٹیمیا کہتے تھے اس سے پہلے اسکا شمالی حصہ اسیریا کہلاتا تھا اور جنوبی بابل
اس سے بھی پہلے زمانے میں بابل کا خطہ دو حصوں میں تقسیم تھا شمالی حصہ اکد اور جنوبی حصہ سومر کہلاتا تھا
یہ حضرت عیسی' سے پانچ چھ ہزار سال قبل کی بات ہے
اکد اور سومر دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیانی دو آبے کا نام تھا یہ دونوں دریا آرمینیا کی پہاڑیوں سے نکلتے ہیں جہاں یہ پہاڑی علاقے سے نکل کر میدانی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں یوں سمجھ لیجیے کہ یہیں سے اکد کی سرزمین شروع ہو جاتی تھی
اکد اور سومر کی سرحدوں کی درست نشاندہی اسلیے ممکن نہیں کہ یہ کبھی بھی متعین نہیں رہیں
سومر کا علاقہ جنوب میں خلیج فارس تک پھیلا ہوا تھا اس زمانے میں خلیج فارس کا شمالی حصہ بہت اوپر کی طرف تھا کیونکہ شہر اریدو موجودہ ابوشہرین اسکے ساحل پر واقع تھا اسکے علاوہ دجلہ اور فرات دونوں الگ اکر خلیج فارس میں گرتے ہیں اسکا مطلب یہ ہوا کہ انکے موجودہ سنگم القرنہ سے جنوب کا سارا علاقہ جہاں اجکل شط العرب بہتا ہے سمندر تھا اور یہ خشکی بعد کو پیدا ہوئی
یہ دونوں باتیں اس ملک کی تاریخ کی قدامت کی صریح دلیل ہیں تجربے کے مطابق ان دو دریاوں کی لائی ہوئی مٹی سے ہر سال اوسطا" نو فٹ نئی زمین بن جاتی ہے یوں ابو شہرین سے خلیج فارس کے موجودہ ساحل تک ایک سو تیس میل کا علاقہ بننے میں تقریبا" سات ہزار برس لگے ہوں گے
گویا اس ملک کی تاریخ حضرت مسیح سے پانچ ہزار برس پہلے تک چلی جاتی ہے
گزشتہ صدی میں جو آثار قدیمہ یہاں سے دریافت ہوئے اور عہد نامہ قدیم کی کتاب پیدائش میں جو واقعات ملتے ہیں انھیں یکجا کرنے کے بعد کئی مورخ تو اس بات کے دعویدار ہیں کہ تہذیب تمدن انسانی کا ابتدائی گہوارہ یہی خطہ زمین تھا
زمانہ قدیم سے متعلق ہماری معلومات انھی آثار پر مبنی ہیں جو یہاں سے کھدائی پہ نکلے اگر چہ بہت کچھ برامد ہوا لیکن ایسی کوئی چیز دستیاب نہیں ہوئی جس سے قدیم عہد کی سیاسی تاریخ پر روشنی پڑتی ہو البتہ حضرت مسیح سے چار ہزار سال قبل کے عہد میں پہنچتے ہیں تو ہمیں ایسی دستاویزات تحریری صورت میں حاصل ہوتی ہیں جن سے ہم اپنی اثری معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں
بعض پرانے شہروں کے کھنڈروں کی کھدائی کے دوران وہاں سے مختصر تحریروں کے ٹکڑے ملے جو اس زمانے کی تاریخ کی طرف اشارہ ہیں اسکے علاوہ سکندر اعظم کے ہم عصر مصنف بیروسوس کی لکھی ہو کتاب کے کچھ حصے بھی ملتے ہیں کو حضرت مسیح سے تقریبا" دوہزار سال قبل کی پرانی بابلی اور سومری تحریروں پر مبنی تھی یہ اصل تحریریں جن میں غالبا" یہاں کے بادشاہوں کے حالات اور انکے زمانہ حکومت کے واقعات ہوں گے ضائع ہو گئی ہیں بیروسوس کی تحریر میں انکے صرف مختصر اقتباس ہیں